محدثین کے نزدیک سنۃ کا تعلق اعتقاد سے ہے. اور اسی لیے
امام احمد نے اپنی کتاب کا نام شرح السنۃ رکھا. انکا یہ مطلب نہیں تھا کہ
کھانے کے سنۃ، نماز پڑھنے کی سنۃ،لباس پہننے کی سنۃ، بلکہ انکا مطلب تھا کہ
ایک مسلمان کا عقیدہ. عبداللہ ابن مبارک نے کہا:
بہتر فرقوں کی بنیاد بدعات کی ان چار اقسام پر ہے جو خواہشات واہوا پر
ہیں.وہ چاروں یہ ہیں. قدریہ، مرجیہ، شیعہ اور خوارج. یہ ان تمام بدعات و
خواہشات کی بنیاد میں سے ہیں
سو جو سمجھتا ہے کہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی بہترین صحابہ میں سے ہیں. اور
وہ صحابہ کے بارے میں نہیں بولتا مگر بہترین بات، تو وہ شیعیت (رافضیت) سے
محفوظ رہا. اس پر توجہ کرو اور اسکو یاد رکھ لو: اور جو کوئ کہتا ہے کہ
ایمان عمل اور قول کا نام ہے ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے تو وہ ارجاء (مرجی)
ہونے سے محفوظ رہا.
اور جو مانتا ہے کہ نماز کسی بھی مسلمان کے پیچھے پڑھی جاتی ہے، چاہے وہ
مستقل گناہگار ہو یا نیکو کار، اور کسی بھی حاکم کے ساتھ مل کر جہاد جائز
ہے (جب شرعی جہاد اور اسکی شرائط ہوں تو) اور حکام کے خلاف خروج نہ کرے
بلکہ حکام (کی اصلاح) کے لیے دعا کرے تو ایسا شخص خوارج کی صفات سے محفوظ
رہے گا.
اور جو کہتا ہے کہ تقدیریں سب اللہ ہی کی جانب سے ہیں اچھی یا بری، اور
اللہ جس کو ہدایت دے یا گمراہ کر دے، اسکی (اللہ کی) مرضی. اور ایسا شخص
قدریہ فرقہ سے محفوظ ہے، اور وہ صاحب سنۃ ہے. تو یہ وہ چند علامات ہیں جنکی
وجہ سے ہم سنی اور بدعی کو پہچان سکتے ہیں. اگر تم دیکھو کہ ایک شخص سیدنا
عثمان کے خلاف بات کر رہا ہے اور انکی خلافت کو نہیں مانتا تو ایسا شخص سنی
نہیں بلکہ رافضی ہے.
اگر تم دیکھو کہ ایک شخص عمل کو ایمان کا جز قرار نہیں دیتا اور کہتا کہ
ایمان نہ تو بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے تو جان لو کہ وہ مرجی ہے اور وہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج پر نہیں ہے نہ ہی سلف کے منہج پر ہے. اگر
تم دیکھو کہ ایک شخص امراء و سلاطین کے پیچھے نماز پڑھنے کا انکار کرتا ہے.
یا وہ حکام کے خلاف خروج کرنے کو (بغیر شروط کے) جائز کہتا ہے نہ ہی وہ
حکام کی اچھائ کے لیے دعا کرتا ہے تو جان لو کہ وہ خارجی ہے ( یا اسمیں
خوارج کے جراثیم ہیں.)
جس نے اللہ کے لیے وہ ثابت کیا جو اس نے اپنے لیے اپنی کتاب میں ثابت کیا
یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ثابت ہوا. اور اسکا انکار
کیا جس کا اللہ نے اپنی کتاب یا پھر رسول اللہ، صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان
سے انکار کیا گیا بغیر تعتیل کے،بغیر تاویل کے۔ اور بغیر تشبیح اور بغیر
تمثیل کے اور اس کو مان لیا جو صحیح روایات میں آیا ہے تو اس نے حق کو پا
لیا۔
اور وہ اس کے مراد پر ایمان بھی لایا جو اسکے ظاہر معنی ہیں جو اللہ نے
نازل کیے، تو وہ اہل کلام کے فتنہ سے بریء رہا۔
(یہاں پر یاد رہے تعتیل کا مطلب ہے انکار کرنا، تاویل کا مطلب ہے قرآن
والسنتہ کے خلاف موڑنا، تشبیح کا مطلب ہے بغیر قرآن و السنتہ کی دلیل کے
کیفیت بیان کرنا. تمثیل کا مطلب ہے بغیر قرآن و السنتہ کے دلیل کے مثال
بیان کرنا۔ تو ہر مسلمان جو کچھ اللہ نے اپنے بارے میں قرآن و السنتہ میں
بتایا اس پر ایمان لاتا ہے بغیر تعتیل، تاویل، تشبیح اور تمثیل کے)
جو اللہ کی عبادت کرتا ہے اس شرع پر جو اللہ نے نازل فرمائ، اور جو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے: نہ کمی و بیشی کرتے ہوئے اس میں سے۔ اور
منہج النبوت کے طریقہ سے جڑا رہتا ہے اور سلف سے: اعتقاد میں، عمل میں، اور
قول میں تو وہ بدعت سے بچا رہے گا۔ تو یہ وہ قاعدہ ہے جس کی بنا پر اہل
السنتہ، اہل اہواء(مبتدعین، خواہشات پرست، گمراہوں) سے مخالفت رکھتے ہیں۔ |