کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہو کہ آپ قدرے ڈرپوک واقع ہوئے
ہوں اور راستے میں کتے کے بھونکنے پر راستہ ہی بدل لیا ہو،کیا آپ خود کو
کمزور سمجھتے ہیں،کیا آپ کے خیال میں جانور انسان سے زیادہ بہادر ہیں،اگر
ایسا نہیں ہے تو آپ کو بہادری دیکھنی چاہیے اور اپنے زندگی مٰیں پیش آنے
حالات کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اگر آپ درست ہیں تو آپ ایک دن
کامیابی حاصل کرلیں گے آپ دوسروں کی باتوں کو نظر انداز کر کے اپنی منزل کی
طرف جائیں،آپ منزل پا لیں گے مگر کم حوصلہ لوگوں سے دور رہیں کہ وہ آپ کے
راستے مٰیں رکاوٹ ڈال کر آپ کو ناکام کرنے کی کوشش کریں گے۔
ہم دوسروں کے ساتھ تو خوب نیکیاں کرتے ہیںمگر اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم
اپنوں خاص طور بہن بھائیوں کے ساتھ نا انصافی کر جاتے ہیں، ہم اُنکے حقوق
تو پامال کرتے ہیں اورحق پر اکثر سانپ بن کر بیٹھ جاتےہیں اس حوالے سے ہم
سب کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ کیونکہ اگرغیروں کے ساتھ
اچھائی کر سکتے ہیں تو پھر خون کے رشتوں کے ساتھ لا تعلقی کیوں رکھی جاتی
ہے؟
جن خواتین کو جنسی اور جسمانی تشدد کے ساتھ نفسیاتی تنائو سہنے پڑتی ہے
،انکے مطابق اس کی براہ راست ذمہ داری ہمارے تعلیمی اداروں میں اس طرح کے
سدباب کے حوالے سے معلومات کی فراہمی اور والدین کی درست تعلیم و تربیت کا
نہ ہونا ہے جوکہ کسی بھی فرد کو اسکے خلاف کچھ کرنے سے روکتی ہے اور اپنے
اندر ہمت و حوصلہ کھو دینے کے بعد سب اس کے آگے جھکائو کو ترجیح دیتے ہیں۔
سچی اور کڑوی باتیں آپ کو وہی بتا سکتے ہیں جو کہ دل کی گہرائی سے آپ کے
لئے مخلص ہوتے ہیں اور آپ میں بہتری دیکھنا چاہتے ہیں۔
بدعنوان عناصر اپنے آپ کو پاک دامن صاف ظاہر کرنے کے لئے ہزار طرح کی دلیل
دیتے ہیں،جب کوئی ایسا کر رہا تو اسکے چہرے کے تاثرات اس کے بدطنیت ہونے کی
نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں کہ الفاظ اور چہرے کا رنگ و لہجہ بدلہ ہوا سا
دکھائی دیتا ہے۔
ہماری ساری زندگی انکے لئے درد سہنے میں گذر جاتی ہے جو کہ ہمیں تکلیف دے
کر چلے جاتے ہیں،یا جو لا حاصل بن جاتے ہیں،ہم انکی پروا نہیں کرتے ہیں کہ
ہماری خوشی کے لئے اپنا سب وار کر خود کو ہمارا محسن ظاہر کرتے ہیں ہم
تکلیف دینے والوں کو ہی اپنا محبوب سمجھتے ہیں حالانکہ وہ ہی ہم سے دھوکے
بازی کرتے ہیں جو ہمیں تکلیف اکثر دے جانے والے ہوتے ہیں۔
دنیا میں سب سے تلخ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ آپ کی پسند جان کر بھی آپ کو کوئی
بلاوجہ ٹھکرا دے، اس کے باوجود کہ آپ کتنی ہی خوبیاں کیوں نہ رکھتے ہوں،کسی
کی محض اپنی پسند اور انا آپ کو خالی ہاتھ رکھتی ہے۔
آج ہم سب اپنے مفادات کی خاطر ایسی باتوں اورسوالات کو نظر انداز کرتے ہیں
جن سے ہمارے ضمیر کے جاگنے کی ذرا سی بھی کوئی امید ہوتی ہے۔ہم اپنے مرضی
کے فیصلے صادر کرکے اپنی زندگی خود برباد کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ
ہمارے رب نے ایسی قسمت ہماری کیوں لکھی ہے؟؟؟
اگر آپ نے اپنی ماں ،بہن، بھائی یا کسی کی وجہ سے کوئی بھی رشتہ توڑنا ہے
تو پھر آپ کو ایسے رشتے کو قائم ہی نہیں کرنا چاہیے کہ جب نبھا نہیں سکتے
ہیں تو کسی کے ساتھ یوں جذباتی کھیل رچانے کر کسی کی زندگی کو برباد مت
کریں۔
پاکیزہ رشتے جوڑنے کے لئے شرمساری کیسی!جب آپ سچے ہیں تو پھر آپ جھوٹے
رشتوں کی طرف نیہں جاتے ہیں۔جہاں دل آ جائے وہیں رشتہ بنا کر اپنی زندگی
میں شامل کرلیتے ہیں۔
جب آپ حد سے زیادہ خوف کو سر پر سوار کر لیتے ہیں تو پھر بے سکونی آپ کی
زندگی کا لازمی جز بن جاتی ہے۔
کبھی کبھی اپنے خوابوں کی تعبیرسے زیادہ کسی کو خوشی دینا زیادہ اہمیت کا
حامل ہو جاتا ہے۔
جب آپ خود غلط کریں،جھوٹ بولیں گے تو ایک دن آپ کے کردار پر انگلی اُٹھے
گی،جب ایسا ہوگا تو پھر آپ کسی دوسرے کو یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اُس نے سچ
بول کر آپ کی توہین کی ہے اور آپ کے کردارکو داغ دارکیا ہے۔جب آپ خود ہی
غلط راہ پر تھے تو کسی دوسرے کو قصوروارکہنا درست طرزعمل نہیں ہے۔ہمیں اپنے
اعمال کی ذمہ داری خود قبول کرنی چاہیے مگر جہاں نیک عمل کی کوشش کر رہے
ہوں تو اپنی بات پر قائم رہنا چاہیے کہ نیک اعمال کی کوشش کے اجر پر ہمارا
رب ہمارا ساتھ دے گا۔
ہماری سوچ یہ بن چکی ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ رب کی مرضی نہیں ہے۔ہم
یہ نہیں سوچتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے اگر ہم اپنے رب کو راضی کرلیں اور
اپنی بات کو منوا لیں۔
کسی کو من چاہی خوشی دینے سے بڑھ کر بھی کچھ اور احساس قیمتی ہو سکتا ہے؟؟؟
سیاست دان اپنے اوپر الزامات پر پہلے چیختے ہیں،پھر ڈراتے ہیں،پھر آسمان کی
طرف منہ کرکے تھوکتے ہیں اور پھرآلودہ چہروں سے غلیظ الزامات سے خود کے داغ
دھونے کی کوشش ہوتی ہے پھر عوام کے سامنے مظلوم بن کر اُن کو الو بنا کر
ووٹ لینے کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام مفادات کی خاطر پھر سے الو بننے کو تیار
ہو جاتی ہے۔۔ملک تباہی کے دھانے پر پہنچ جاتا ہے۔جب فوجی آمر آتے ہیں تو
یہی عوام کا درد لے کر سامنے آتے ہیں اور پھر سے وہی داستان شروع ہو جاتی
ہے۔
ہار آپ کو جیت کے کئی نئے راستے دکھاتی ہے اس لئے اس سے مایوس مت ہوں۔
عوام سے ووٹ لے کر اقتدار میں آنے والے جب انکی بھلائی کی بجائے ملک کی
سلامتی و معیشت کے لئے خطرہ بنا کراپنے مفادات کے حصول میں لگ جائیں تو
ایسے افراد کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ ملک و عوام سےکھیلنے والوں
کو نشانہ عبرت بنایا جا سکے اور روز روز کے تماشے ختم ہو سکیں۔جس کی بدولت
ملک و عوام کو خوشحالی امن وسکون نصیب ہوسکے۔
سمجھانے والے سمجھا سکتے ہیں،بتانے والے بتا دیتے ہیں،سیکھنے والے سیکھ ہی
جاتے ہیں،مگر جو ضد پر اڑ جائیں وہ خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں کہ وہ کچھ بھی
کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں،آپ اُن کے سامنے دلیل بھی مضبوظ رکھ دیں وہ
اپنی من مانی پھر بھی کریں گے۔
فلاں نے یہ کر دیا،فلاں نے وہ کر دیا؟ ہم سب الزامات دوسروں پر لگاتے ہیں
کہ ہم خود دودھ کے دھلے ہوئے ہوتے ہیں؟
بہت سے نوجوان آجکل نام نہادمحبت کی خاطر اپنی زندگی کو برباد کر لیتے ہیں
اور سارا الزام دوسرے فریق پر ڈال دیتے ہیں وہ خود کو ہر خطا سے مبرا
سمجھتے ہیں جبکہ قصور وار وہ بھی ہوتے ہیں جو کہ اپنی محبت کو غلط شخص کو
سونپ دیتے ہیں پھر سارا بدلہ خود سے لیتے ہیں۔
ہم اپنی زندگی کو ازخود جہنم بناتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ سب ہمارے ساتھ
ہی کیوں ہو رہا ہے۔ہم اپنی سوچ کو بدلنا نہیں چاہتےہیں اور خواہش رکھتے ہیں
کہ ہمیں دلی سکون بھی مل جائے۔ہم خود ہی سب اللہ پر چھوڑنےکا دعوی کرتے ہیں
مگر ساتھ ساتھ پریشانی بھی سرپر سوار رکھتے ہیں بتائیں کہ کیا ایسے ہم
پرسکون ہو سکتے ہیں جب ہم ایسا طرزعمل اختیار کئے رکھیں گے؟؟؟
جب آپ کا ضمیر جاگ جائے تو اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کر دیں اور جب گناہوں
کا بوجھ آپ کو بے سکون کر دے تو نیکی کرنا شروع کر دیں تو آپ بہترین انداز
میں زندگی گذار سکتے ہیں اور پرسکون رہ سکتے ہیں۔
جب آپ غیر فطری انداز میں زندگی کو گذارنا شروع کر دیتے ہیں تو ایک دن آپ
بے سکونی کا شکار ہو جاتے ہیں اور خاص کر منفی طرز عمل آپ کو لے ڈوبتا ہے
تو لہذا بہتر ہوگا کہ مثبت سوچ کے ساتھ زندگی گذاریں اور رب کے ساتھ تعلق
جوڑیں تو بہتر زندگی آسان سی ہو جائے گی
آج ہم سب دین کے اُن احکامات پر زیادہ چلتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے مفادات
پورے آسانی سے ہو سکتے ہیں۔
جن بندوں سے اللہ کو پیار ہوتا ہے وہ جتنے بھی برائی کی طرف جاتے ہیں اُن
کو اپنی جانب واپس لے ہی آتا ہے
جب آپ اپنی استطاعت سے بڑھ کر کچھ غلط کرتے ہیں اور پھر ضمیر کے بوجھ پر
بھی اسکی تلافی نہیں کرتے ہیں تو آپ بےسکونی کا شکار ہو جاتے ہیں تو بہتر
ہوگا کہ اپنی زندگی میں سدھار کے لئے خود کو بدل لیں سب آسان ہو جائے
گا۔اپنے سر پر اتنا بوجھ لیں جتنا سہہ سکیں ورنہ کسی کے ساتھ بیان کرلیں
اور جی ہکا کر لیں ایسا کرنا بھی بے شمار مسائل سے چھٹکارہ دیتا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ گناہ کے رشتے کے لئے ہم جی جان سے کوشش کرتے ہیںمگر
پاکیزہ رشتہ کی بات جہاں ہو وہاں سے کنی کراتے ہیں۔
پاکستان میں بہت کچھ اچھا بھی ہو رہا ہے مگر ایسے معاملات کو اُجاگر کرنا
زیادہ ضروری ہے جو کہ ہم غیر ضروری سمجھتے ہیں یا نظر انداز کر دیتےہیں مگر
وہ ناپختہ ذہنوں کو متاثر کرتے ہیں تب ہی معاشرے میں برائی کا رواج عام سا
ہوگیا ہے۔ ہم برائی کو بھی اچھائی سمجھتے ہیں۔مجھے بہت سے تجربات سے جو
حاصل ہوا ہے وہ پیش کرتا رہتا ہوں۔ابھی یہ دیکھیں کہ شادی بیاہ پر ہم نچانے
والی لڑکیوں کو بہت شوق سے بلواتے ہیں اور اپنا پیسہ لوٹاتےہیں،وہاں کم عمر
بچے بھی ان کو دیکھتے ہیں۔ہم انکی کیا اور کیسی تربیت کر رہے ہیں یہ بتانے
کی ضرورت نہیں ہے۔
ہم جتنے بھی نیک ہیں ہم اُن پر تو روپے خرچ کرتے ہیں مگر مستحق لوگوں کی
مدد کرتے ہوئے معذرت سے کہوں گا کہ جان جاتی ہے۔ایک خاص موقعہ پر تو مجھے
ایک دین کی تعلیم دینے والے کی شادی پر بھی یہی بے حیائی دیکھنے کو ملی
ہے۔اگرچہ میں خود بھی گناہگار شخص ہوں،بہت کوتاہیاں کر چکا ہونگا مگر یہاں
سمجھ نہیں آتی ہے کہ ہم سب کیسے کھلی آنکھوں سے مکھی کو نگلنے کی کوشش کرتے
ہیں جانتے ہیں کہ غلط ہے پھر بھی بدترین عمل کرتے جا رہے ہیں۔
|