عقیدہ عدل الہی اور اس کے خلاف سازشیں

عقلي حکم کي بنياد پرعدل ايک فعل حسن اور پسنديدہ اور ظلم فعل قبيح شمار کيا جاتا ہے- خدا چونکہ حکيم ہے اور ہر اچھے فعل کو انجام ديتا ہے اورہر برے فعل سے اجتناب کرتا ہے لہٰذا وہ عادل ہے اور وہ کبھی ظلم نہيں کرتا-

عقیدہ عدل الہی اور اس کے خلاف سازشیں

خداوند عالم عادل ہے اور ہرگز ظلم نہيں کرتا ہے -لہٰذا عدل اس کي صفات ثبوتي اور ظلم اس کي صفات سلبي ميں سے ہے-
عدل سے مراد، ہر شئي کو اس کے مقام پر قرار دينا ہے: وضع کل شي في موضعہ ، جيسا کہ اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ہيں:
”العدل يضع الامور مواضعھا“
عدالت، امور کو ان کے مقام پر قرار ديتي ہے- (نہج البلاغہ:کلمات قصار-437 )
البتہ کبھي کبھي يہ بھي کہا جاتا ہے کہ عدل يعني ہر صاحب حق کواس کا حق دے ديا جائے”‌ اعطاء کل ذي حق حقاً“ يہ معني مذکورہ پہلے والے معني سے اخص او رمحدود تر اور اس کا مصداق ہے يعني صاحب حق کو اس کا حق دينا ،کسي شئے کو اس کے صحيح مقام پر قرار دئے جانے والے موارد ميں سے ايک مورد ہے-
عقلي حکم کي بنياد پرعدل ايک فعل حسن اور پسنديدہ اور ظلم فعل قبيح شمار کيا جاتا ہے- خدا چونکہ حکيم ہے اور ہر اچھے فعل کو انجام ديتا ہے اورہر برے فعل سے اجتناب کرتا ہے لہٰذا وہ عادل ہے اور وہ کبھی ظلم نہيں کرتا-
مذکورہ بيان سے واضح ہوجاتا ہے کہ عدل الٰہي ، جنبہ حکمت الٰہي سے مربوط ہے-
قرآني مثاليں
قرآن مجيد کي مختلف آيتوں ميں خدا پر اسم حکيم کا اطلاق ہوا ہے:
(فاعلموا ان الله عزيز حکيم)
ياد رکہو کہ خدا سب پر غالب ہے اور صاحب حکمت ہے-( بقرہ:209؛نيز بقرہ:228 ،آل عمران :18، انعام:18 (
قرآن فرماتاہے:
خداوند عالم ہر شئي کو اس کے بہترين مرتبے پر خلق فرماتاہے:
(الذي احسن کل شي خلقہ)
اس نے ہر چيز کو حسن کے ساتھ بنايا ہے-( سجدہ:7 (
اس کي خلقت ميں بے ترتيبي ، فرق يا شگاف نہيں پايا جاتا:
(ماتريٰ في خلق الرحمٰن من تفاوت فارجع البصر ھل تري من فطور (
تم رحمن کي خلقت ميں کسي طرح کا فرق نہ ديکھو گے- پھر دوبارہ نگاہ اٹھا کر ديکھو کہيں کوئي شگاف نظر آتا ہے-( ملک:3 (
خلقت خدا، ہرگز عبث ،بيکار اور باطل نہيں ہے:
)افحسبتم انما خلقناکم عبثاً(
کيا تمھارا خيال يہ تھا کہ ہم نے تمہيں بيکار پيدا کيا ہے؟( مومنون:115 (
)وما خلقنا السماء والارض وما بينھما باطلاً(
اورہم نے آسمان وزمين اوراس کے درميان کي مخلوقات کوبيکار پيدانہيں کياہے-( ص:27 (
خدا کسي پر ظلم نہيں کرتا ہے بلکہ يہ خوداحسان فراموش انسان ہے جو اپنے آپ پر ظلم کرتاہے:
)وما ظلمنا ھم ولکن کانوا انفسھم يظلمون(
اور يہ ہم نے ظلم نہيں کيا ہے بلکہ وہ خود اپنے نفس پر ظلم کرنے والے تھے-( نحل:118، نيزھود:101، زخرف::76 (
خدا کي شان يہ نہيں ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم کو روا رکھے-:
)وان الله ليس بظلام للعبيد)
اور خدا اپنے بندوں پر ظلم نہيں کرتا-( آل عمران:182، نيز انفال:51، حج:10، فصلت:46، ق:29 (
خدا نہ فقط انسان بلکہ اس کائنات کے کسي بھي موجود پر ظلم نہيں کرتا:
(وما الله يريدظلماً للعالمين)
اورالله عالمين کے بارے ميں ہرگز ظلم نہيں چاہتا- (آل عمران:108)

پس یہ عقیدہ رکھنا بہت ضروری ہے کہ خداوند متعال عادل ہے اور عدل کو پسند کرتا ہے ۔ کیونکہ اگر ہم اس بات سے انکار کریں تو نعوذ باللہ خدا کا ظالم ہونا لازم آئے گا اور خداوند نعوذ باللہ ظالم نہیں ہے کیونکہ عدل اور ظلم آپس میں ضدین ہیں جیسے دن اور رات آپس میں ضدین ہیں یعنی یا دن ہے یا رات ۔ یہاں یہ نہیں ہو سکتا کہ نہ دن ہو اور نہ رات اور نہ ہی دونوں ہو سکتے ہیں اسی طرح عدل اور ظلم دونوں آپس میں ضد ہیں دونوں میں سے ایک ہی ہو گا یا عادل یا ظالم اگر کوئی شخص یہ عقیدہ نہیں رکھتا تو وہ شرک کر رہا ہے ۔
آج کل ممبر حسینی سے جو بیان ہو رہا ہے وہ سب کو معلوم ہے اگر کوئی بندہ ، ان تاجران خون حسین کی مخالفت کرے تو کہا جاتا ہے کہ یہ نہ دیکھو که پڑھنے والا کون هے یہ دیکھو کہ کیا پڑھ رہا هے یہ بات بھی کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن جب ایک آدمی ممبر پر آنے کا اهل ہی نہیں ہے تو وه مقصد حسین کیا بتائے گا ؟؟
اگر آنے والی نسل کو گمراہی سے بچانا ہے تو جعفر جتوئی ، حافظ تصدق اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کو ممبر حسینی سے روکنا ہوگا اور علمائےحق کو ممبر پر لانا هوگا.

تمام اہل علم اور بابصیرت افراد سے گزارش ہے کہ ممبر حسینی کے تقدس کو پامال ہونے سے بچانے کے لئے قدم اٹھائیں اور عوام الناس کو حقیقی دین سے روشناس کرائیں۔

محمد اعظم
About the Author: محمد اعظم Read More Articles by محمد اعظم: 41 Articles with 75540 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.