پا ناما لیکس سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ نے ملکی
سیاست میں ہلچل مچا دی ہے ،تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر آ چکی ہیں اور
وزیر اعظم نوازشریف سے استعفے کا مطا لبہ کر رہی ہیں ،پی ٹی آئی ،جماعت
اسلامی کے ساتھ متحدہ قومی مومنٹ ،ق لیگ ،پاک سر زمین پارٹی ،جمعیت علمائے
پاکستان ،جے یوآئی( س)سمیت تمام جماعتوں کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے کہ وزیر
اعظم استعفیٰ دیں ،اسی کے ساتھ ہی سیاسی رہنما بھانت بھانت کی بولیاں بول
رہے ہیں ،رانا ثنا اﷲ نے کہتے ہیں کہ وزیراعظم سپریم کورٹ جو کہے گی وہ
مانیں گے،جاوید ہاشمی نے کہا کہ ملک میں کو ئی صادق و امین نہیں ہے،عمران
خان اور سراج الحق اور خورشید شاہ بضد ہیں کہ ویزاعظم استعفیٰ دیں ،جے آئی
ٹی کی رپورٹ قوم کے سامنے آچکی ہے جس میں وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے
افراد ان کے ملک وبیرون ملک کاروبار ،جا ئیدادوں اور منی لانڈرنگ سے متعلق
تمام تفصیلات سامنے آچکی ہیں،جس میں حقائق چھپانے ،غلط بیانیوں ،غلط
معلومات کی فراہمی کا بھی ذکر کیا گیا ،پانا مالیکس کی تحقیقات شروع ہونے
سے قبل ایسا لگتا تھا کہ شاید صرف ان ہی کمپنیوں سے متعلق تحقیقات ہوں گی
جو شریف خاندان کی بیرون ممالک قائم ہیں اور شریف خاندان کو ان ہی کمپنیوں
سے متعلق حساب کتاب دینا ہوگا ،لیکن اس کیس کی تحقیقات پر سب کھل کا سامنے
آئے گا یہ علم نہیں تھا ۔
حکومت نے جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کر کے اسے اندازوں اور مفرو ضوں پر مبنی
قرار دیا ہے جبکہ اس کے وزرا وضاحتیں بھی پیش کر رہے ہیں ،جبکہ قطری شہزادے
کا بیان نہ لینے کو بھی جواز بنا یا گیا ہے ،جے آئی ٹی رپورٹ سے پتا چلتا
ہے کہ شریف خاندان کے تمام افراد کے بیانات میں تضادات ہیں جس سے ظاہر ہوتا
ہے کہ تمام افرادنے جے آئی ٹی میں سوالات کے جوابات دینے کیلئے تیاری نہیں
کی تھی یا اگر کی تھی تو ان سے کیے گئے سوالات ان کی سوچ سے ہٹ تھے جو ان
کیلئے پریشانی کا سبب بنے اور اسی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف ،وزیر اعلیٰ
پنجاب شہباز شریف ،حسن نواز ،حسین نواز ،کیپٹن (ر)صفدر ،اسحاق ڈاعراور مریم
نواز کے بیانات میں تضادت نکلے ،یہ تضادات اس لیے بھی بھی نظر آئے کہ جے
آئی ٹی میں پیشیوں کے بعد شریف خاندان کے افراد نے میڈیا کے سامنے جو باتیں
کیں وہ اورجے آئی ٹی کی رپورٹ میں ریکارڈ کر ائے گئے بیانات سے مختلف ہیں ۔
شریف خاندان سے احتساب کا معاملہ تاریخ رقم کر رہا ہے کہ ایک منتخب وزیر
اعظم اور ان کے خاندان کا احتساب ہو رہا ہے ،اس احتساب کے پیچھے تحریک
انصاف کے سربراہ عمران خان کی جدوجہد تھی جبکہ جماعت اسلامی بھی اس کیس کی
فریق رہی ۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق تو یہاں تک بار ہا کہہ چکے تھے
کہ احتساب کا عمل قیام پاکستان کے بعد سے شروع کیا جائے اور احتساب کا عمل
ان سے شروع کیا جائے ،بد قسمتی سے ملک کے کسی حکمران یا سیاستدان نے کبھی
یہ پیشکش نہیں کی کہ وہ خود کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ایک
پولیس اہلکار سے لیکر اعلیٰ پولس افسرتک ،ایک کلرک سے لیکر بڑے سرکاری افسر
تک اورایک کونسلر سے لیکر اعلی ٰسیاسی رہنما تک اورایک رکن اسمبلی سے لیکر
وزیر اعظم تک سب میں کرپشن سرائیت کرتی رہی ہے، جب نظام کی بنیاد ہی بدنیتی
اورکرپشن پر ہو تو عمارت لازمی کمزور ہوتی ہے، ملک ترقی نہیں کرپاتے،ملک کے
مختلف ملکوں میں ایسی مثالیں بھی رقم ہوئی ہیں کی کسی حکمرانوں پر الزام
لگا اور انہوں نے اقتدار کو خیرباد کہہ کر اپنے آپ کو تفتیش کیلئے پیش
کردیا۔ شریف خاندان کے احتساب کا عمل بھی بڑے دباؤ کے بعد عمل میں آیا ہے ،حکومتی
وزرا اور مریم نواز شریف نے وزیر اعظم کے استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کیا ہے
،ابھی صرف رپورٹ آئی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے نتیجے میں وزیر اعظم کو
مسند اقتدار بھی چھوڑنا پڑ سکتا ہے ،نااہل بھی ہوسکتے ہیں ،بیرون ملک
کمپنیاں ختم کر کے پیسہ وطن لانے لانے کے احکامات بھی مل سکتے ہیں ،فیصلہ
سپریم کورٹ نے کرنا ہے اسی کا انتظار کیا جا رہاہے۔
احتساب کے تاریخی عمل سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں،کیا احتساب کا یہ عمل
مستقبل میں بھی جاری رہے گا ،کیا دیگر سیاستدانوں کا بھی احتساب ہو سکے
گا،احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہوا ہے کیانیچے تک تک جائے گا،کیا تحریک
انصاف ن لیگ کی طرح دوسرے حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف تحریک چلائے گی ،کیا
کرپشن کے احتساب کا طریقہ کار آئندہ بھی کو ئی دھرنا ہوگا یا اسمبلی کا میں
کو ئی بل منظور ہو گا،اگر کو ئی بل منظور ہو گا تو کیا اس کے مطابق کو ئی
وزیر اعظم خود کو احتساب کیلئے پیش کرے گا ،یہ وہ سوالا ت ہیں جن کے جوابات
آنے نہایت ضروری ہیں، اب احتساب کا عمل شروع ہوا ہے تو پھر آئندہ کا لائحہ
عمل طے ہو نا چاہیے ،ایسا لائحہ عمل جو ملک کے عظیم ترین مفاد میں ہو۔
پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے ،اقتدار اوراختیار اﷲ کی جانب سے قوم کی
امانت ہوتا ہے ،ایک مسلم حکمران کا یہ فرض بنتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے
جواقتدار اور اختیار دیا ہے اس میں خیانت نہ کرے ،مگر بدقسمتی سے ماضی میں
بھی ملک پر جو حکمران مسلط رہے، انہوں نے اپنے مفادات کو ترجیح دی ،ہم
سمجھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کو بہت قوت بخشی ہے ،جو اسے دنیا کے
ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑاسکتی تھی ،اس کے وسائل جیبوں میں جانے کے
بجائے ا سی پر خرچ ہوتے تو یہ ملک سونے جیسا تھا لیکن اسے مٹی میں تبدیل
کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ،آج جے آئی ٹی کی رپورٹ پر تحریک انصاف
اورپیپلزپارٹی خوش ہیں اور وزیر اعظم سے استعفے کا مطا لبہ کررہی ہیں ،زرداری
صاحب پر بھی سوئس بینکوں میں پیسہ رکھنے کے الزامات ہیں ،عمران خان پر بھی
بنی گالااراضی کیس چل رہا ہے،اب احتساب کے عمل کے اس آغاز کے بعد انہیں بھی
تیار رہنا چاہیے، جے آئی ٹی کی رپورٹ پربغلیں بجانے اور مٹھائیاں کھا نے
اور کھلانے والے سیاستدان اگر سچے ہیں اوروطن اور عوام سے سچی محبت رکھتے
ہیں تو آگے آئیں اور خود کو احتساب کیلئے پیش کرکے صادق وامین ثابت کریں ۔
70 سا ل میں پاکستان دنیا کے نقشے پر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل
ہوسکتا تھا ،ملک میں پانی بجلی وصحت وصفا ئی کا نظام دنیا کے کئی ممالک سے
مثالی ہو سکتے تھے ،عاقبت نا اندیش سیاستدانوں نے اسے اس قابل ہی نہیں
سمجھا،اسی لیے پاکستان پیچھے رہ گیا ،الیکشن کمیشن میں گوشورارے جمع کرانے
والے تمام سیاستدانوں کا احتساب ہونا چاہیے جو خود کو غریب ظاہرکرتے ہیں ،یاکم
ترین آمدن والا ظاہر کر تے ہیں ،ان کی تمام جائیدادوں کا ریکادڈ منظر عام
پر آنا چاہیے ،جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد اگلی باری کس سیاستدان کی یہ کہنا
قبل از وقت ہو گا ،لیکن یہ عمل اس بات پر منحصر ہوگا کہ اس کیلئے کوئی
احتساب کا شفاف نظام وضع ہو ،ورنہ ایسا نہ ہو کہ سیاسی رہنما ایک دوسرے کو
انتقام کا نشانہ بنا تے رہیں اورایجی ٹیشن کی سیاست چلتی رہے اور ملک پھر
پیچھے کی طرف چلاجائے ۔ |