ڈیرہ غازی خان کی سیاست کا دار ومدار اور اہم موضوع آجکل
حکمران جماعت کے ممبر قومی اسمبلی کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی ادارے
انڈس انسٹی ٹیوٹ کا معمہ چل رہا ہے اور یہ واقعی کوئی عام سا موضوع اور
ایشو نہیں کہ اسے ایسے ہی نظر انداز کر دیا جائے واقعتاً یہ معاملہ انتہائی
سنجیدہ اور حساس قسم کا ہے جس سے ڈیرہ ڈویژن سے جڑے پندرہ سو نوجوانوں کا
مستقبل ہے جن کو ڈگریاں تو مل چکی ہیں مگر وہ جعلی ڈگر ی کے برابر بھی نہیں
سمجھی جا رہیں جس سے طلبہ کے حال اور مستقبل میں ضرور خلل پڑ گیا ہے۔
خاکسار بوجہ روزگار اپنے شہر سے باہر رہتا ہے لیکن اپنے وسیب کی محرومیوں ،
پسماندگی اور حالات سے باخبر رہنا اور کڑھتے رہنا تو جیسے نصیب بن چکا ہے۔
اس لیے سوشل میڈیا سے جڑے مقامی صحافی ، اخبارات اور دیگر ذرائع سے جانکاری
حاصل کرتا رہتا ہوں۔ سال رواں کے ابتداء سے انڈس انسٹی ٹیوٹ کے مسئلے کو
سوشل میڈیا پر دیکھا تو پریشانی ہوئی کہ اتنا بڑا ادارہ جعلی دگریاں دیتا
رہا اور حکومت کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگی جن دوستوں نے اس معاملے کو
سوشل میڈیا پہ بڑے زور و شور سے کمپین چلائی تو ان سے بارہا جاننے کی کوشش
کی مگر کہیں سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا ۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ وہ
بھی چلتے ٹرک کی بتی پیچھے چل پڑے ہیں چونکہ علم "ککھ" نہیں۔ پھر یہ مسئلہ
زور پکڑتا رہا مگر حل ابھی تک نہ نکلا ۔ رمضان المبارک کا اختتام ہوا تو
مسئلہ دوبارہ انگڑاٗئی لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس بار نوبت یہاں تک پہنچی کہ
طلبہ احتجاج پر نکلے پرامن احتجاج ہوا پھر گذشتہ ہفتے احتجاج کرنے والے
طلبہ پر فائرنگ کی گئی اور پولیس کی طرف سے دھمکیاں بھی دی گئیں جس کی
ویڈیو سوشل میڈیا وائرل ہوئی ۔ سب کی طرح مجھے تو بہت ہی افسوس ہوا کہ ایک
دینی حیثیت رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی اور ان کے ملازمین کا طلبہ کے ساتھ
ایسا رویہ اور ردعمل تو انتہائی افسوسناک ہے۔ جس پر خود احتجاج بھی کیا اور
سوشل میڈیا کے ذریعے مذمت بھی کی۔
اس حالیہ ہونے والی فائرنگ کے بعد ڈی جی خان کی سیاست میں مزید شدت آئی
اور پہلی مرتبہ منتخب ہونے والے ایم این اے حافظ عبدالکریم صاحب جن کے چار
سال تو بڑے امن سے گزرے پھر آخری سال ان کی سیاست میں نیا بھونچال ہی آنے
کو لگنے لگا ہے۔ گذشتہ جمعہ کو طلبہ پر ہونے والی فائرنگ کے حوالے سے متعدد
طلبہ جو انڈس انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں ان سے جاننے کی کوشش کی کہ اصل
ماجرہ کیا ہے ۔ ان طلبہ میں سے کچھ انتطامیہ پر بہت ہی غصے میں تھے، اور
دوسری جانب کئی طلباٗ و طالبات غیر جانبداری اور اچھے فیصلے کی امید میں لگ
رہے تھے۔
اب چلتے ہیں کہ اصل ماجرے کی طرف جو اس وقت زیر لب عام ہے وہ یہ کہ انڈس
انسٹی ٹیوٹ نے طلبہ کے ساتھ جی سی یو ایف کے وائس چانسلر کے ساتھ ملکر فراڈ
کیا ہے اور غریب اور پسماندہ علاقوں کے بچوں کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ جو
ڈگریاں اس ادارے کی جانب سے دی گئی تھیں ان کی ہائیر ایجوکیشن کمشن تصدیق
نہیں کر رہا اور یہ بات واقعی قابل افسوس ہے۔ خاکسار کی ذاتی رائے بھی یہی
ہے کہ لیکن ادارے کے مالکان نے اپنی حکمرانی اور اربوں کا کاروبار ہوتے
ہوئے ڈی جی خان کے غریب بچوں کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کیوں کیا حالانکہ
مذکورہ ایم این اے کے اس سے پہلے بھی دینی اوعصری تعلیم ی ادارے موجود ہیں۔
آئیے اس ادارے کے معاملے کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انڈس انٹرنیشنل
انسٹی ٹیوٹ چھ سال پہلے قائم کیا گیا تھا، ابتدائی ایام میں اس ادارے کا
الحاق فیڈرل اردو یونیورسٹی سے کیا گیا مگر طلبہ کی عدم دلچسپی اور کم
داخلے ہونے کی صورت میں صرف دو ماہ بعد انڈس انسٹی ٹیوٹ نے اپنا الحاق ایک
نجی ادارے نیشنل کالج آف بزنس ایدمنسٹریشن NCBA & E سے کردیا دا سال تک
تعلیمی سلسلہ جاری رہا جس کے بعد ایچ ای سی نے تمام پرائیویٹ ٹعلیمی اداروں
کےو حکم دیا کہ کوئی بھی تعلیمی ادارہ اپنا سب کیمپس اور کسی تعلیمی ادارے
سے الھاق نہیں کر سکتا جس کے بعد انڈس سے الھاق بھی توڑ دیا گیا۔۔ اس کے
بعد انڈس کے پرنسپل ڈاکٹر نجیب حیدر اور انتظامیہ نے طلبہ کے تعلیمی
دورانیے کو بچانے کے لیے متعدد یونیورسٹیوں سے رجوع کیا تو گورنمنٹ کالج
یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی اور اس وقت کے جی سی
یو کے کنٹرولر ڈاکٹر زبیر نے انڈس انسٹی ٹیوٹ کا ٹیم کے ہمراہ وزت کیا اور
الحاق دینے کی حامی بھر لی جس سے ادارے کا تدریسی سلسلہ جاری رہا۔ گزشتہ
سال ایک تعلیمی دورانیہ مکمل ہونے پر انڈس انسٹی ٹیوٹ میں گورنر پنجاب جناب
رفیق رجوانہ، وزیر تعلیم رانا مشہود اور جی سی فیصل آباد کے وائس چانلرر
نے خود کانووکیشن میں شرکت کی اور طلباء و طالبات میں رزلٹ کارڈ اور
ٹرانسکرپٹ تقسیم کیے لیکن جب ڈگریاں دینے کا وقت آیا تو جی سی فیصل آباد
نے ہاتھ پیچھے کر لیے اور یہ عذر پیش کیا کہ کہ گزشتہ سمسٹر ڈگری کے نصف
یعنی پچاس فیصد مکمل نہیں تھے تو اس لیے ایچ ای سی رولز کے مطابق وہ ڈگریاں
جاری نہیں کر سکتا جس سے طلبہ اور انتطامیہ کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا ہوا
گیا۔ اب اس سارے معاملے میں قصور تو این سی بی اے اور جی سی یو فیصل آباد
کا ہے اور اس معاملے میں طلبہ کے ساتھ انڈس انتطامیہ بھی مدعا علیہان بن
گئے ۔ گذشتہ ہفتے ایم این اے ڈاکٹر حافظ عبدالکریم اور انڈس کے پرنسپل
ڈاکٹر نجیب حیدرنے وزیراعظم میاں نواز شریف کو اس معاملے بارے آگاہ کیا
اور تینوں تعلیمی اداروں اور ایچ ای سی حکام میں مذاکرات بھی ہوئے جس میں
یہ طے پایا گیا کہ تقریبا دو سو طلباء و طالبات کو این سی بی اے ڈگریاں
جاری کرے گا اور تقریباً چھ سو طلباہ کو جی سی یونیورسٹی ڈگریاں جاری کرے
گی۔ باقی دو بیچز جو دگریاں مکمل نہیں کر پائے ان کا باقی تعلیمی دورانیہ
این سی بی اے ملتان میں مکمل کرایا جائے گا۔ مذاکرات اب بھی جاری ہیں ہو
سکتا ہے کہ ایچ ای سی اس سے مزید بہتر فیصلہ کر پائے گا۔ انتطامیہ نے طلباء
و طالبات کے والدین سے اس بابت مذاکرات کیے جن میں سے اکثریت نے حامی بھر
لی لیکن چند ناعاقبت اندیش اور سیاسی مخالفین نے موقع کی نزاکت کا فائدہ
اٹھاتے ہوئے چند مشتبہ افراد کے ذریعے طلبہ کو تشدد کے راستے پر لانا چاہا۔
ابتداء میں طلبہ کا احتجاج پر امن رہا جس میں انتطامیہ نے انہیں یہ سمجھانے
کی کوشش کی کہ معاملات چل رہے ہیں جو جلد ہی حل ہو جائیں گے لیکن کچھ تشدد
پسند عناصر اور نادان طلبا ء نے جب انڈس انسٹی ٹیوٹ کے مالک حافظ عبدالکریم
کے گھر سے ملحقہ طالبات کے تعلیمی ادارے کے باہر احتجاج کرنے کی کوشش کی کہ
اس دوران ایم این اے حافظ عبدالکریم بھی گھر پر موجود نہیں تھے تو گارڈ نے
طلباء کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فاائرنگ کر دی۔ اب اس ہوائی فائرنگ کو
جواز بنا کر مخالفین کو سیاسی اور ذاتی مخالفت کرنے کا موقع مل گیا اور
نادان طلبہ کو مزید انتشار دلا نے کی کوشش کی گئی۔
اس معاملے میں مسلم لیگی ایم این اے حافظ عبدالکریم کی مخالفت میں سیاسی
جماعتوں کے مخالفین قدرے خاموش نظر آرہے ہیں جبکہ اپنے ہم جماعت سیاسی
مخالفین کچھ زیادہ سرگرم نظر آرہے ہیں۔ حافظ صاحب سے اپنے علاقے کے وہ لوگ
بھی ناراض ہیں جن سے انتخابات میں کیے گیے وعدے پورے نہیں کیے جا سکے۔
ان حالات میں میری طلباء و طالبات سے ایک ہی گذارش ہے کہ وہ صبر کا مظاہرہ
کریں اور انتطامیہ سے ہمہ قسم تعاون جاری رکھیں اور کسی سیاسی اختلاف کی
بھینٹ چڑھ کر اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں اور نہ ہی تعلیم سے کنارہ کشی
اختیار کر کے غلط راستوں پر چل پڑیں۔ ڈگریاں حاصل کرتے ہوئے بعض اوقات
تاخیر بھی ہوجاتی ہے ، پیپرز، تھیسز کرتے ہوئے بھی دیر ہوجاتی ہے اس وقت
صرف اور صرف انتطامیہ سے تعاون کریں ۔ خاکسار اس حوالے سے انڈس انتطامیہ
اور دوسرے متعلقین سے بہت کچھ جاننے کی کوشش کر چکا ہے اور مجھے امید ہے کہ
یہ مسئلہ چند دنوں میں حل ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ |