علم ( جسے جہالت کی ضد کہا جاتا ہے) انسانی زندگی کا
وہ انمول زیور اور وہ بیش قیمت دولت ہے کہ جس کی بدولت انسان حق و باطل ،
حلال و حرام ، جائز و ناجائز اور صحیح اور غلط میں واضح فرق کرسکتا ہے ۔انسان
کے پاس اگر علم ہے اور وہ اس عظیم الشان دولت سے مالا مال ہے تو پھر
گویااپنی زندگی کے سفر میں اُس نے اپنے ہاتھ میں مشعل راہ تھام رکھی ہے اور
وہ اس راستہ کے تمام نشیب و فراز ، اُتار چڑھاؤ اور جملہ سفری صعوبتوں سے
گزر کر بڑی آسانی اور اطمینان کے ساتھ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جائے گا۔
لیکن اگر اس کے پاس علم نہیں ہے ور وہ اس دولت سے کلیتاً محروم ہے تو پھر
اس کی مثال اُس اندھے شخص کی سی ہے جو رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بغیر
کسی رہبر کے اپنے نشانِ منزل کی جانب ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے سفر کرنا شروع
تو کردے لیکن راستہ کے ہر خار ، ہر روڑے ، ہر موڑ اور ہر کھڈے سے اُس کی
ضرور ٹکر ہوگی اور اُسے ضرور ان سے اُلجھنا پڑے گا ۔
علم ٗقرآن و حدیث کی مبارک اور رُوشن تعلیمات کے اُس مجموعہ کا نام ہے کہ
جس کی بدولت انسان اپنے حقیقی خالق و مالک اور اپنے پالنے والے کو پہچانتا
ہے اور اس کی ذات کی معرفت حاصل کرتا ہے ، تاکہ وہ اپنی حیاتِ مستعار اس کے
احکامات اور حضور نبی کریم ؐ کے مبارک طریقوں کے مطابق گزارکر دُنیا و آخرت
کی بھلائیوں سے مالا مال ہوکر اﷲ کریم کے حضور کامیاب بندہ بن کر پیش ہو
اور اﷲ تعالیٰ کی رضاء و خوش نودی کا پروانہ اُسے نصیب ہوجائے۔
قرآن مجید میں مختلف جگہ اﷲ تعالیٰ نے علم والوں کا مقام و مرتبہ بیان
فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہے: ’’ترجمہ: اﷲ تعالیٰ تم میں سے اُن
لوگوں کے درجے بلند کرتا ہے جو ایمان لائے اور جنہیں علم عطاء کیا گیا ۔‘‘
[المجادلۃ]
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’ترجمہ: (اے محمدؐ! ) آپ فرمادیجئے! کیا جو لوگ
علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں؟ ۔(یعنی ہرگز برابر نہیں
ہوسکتے، پس ثابت ہوا کہ علم والوں کا مقام و مرتبہ غیر اہل علم سے کہیں
زیادہ بلند و بالا ہے۔(رفیعؔ)[الزمر]
اسی طرح حدیث شریف میں آتا ہے رسول اﷲؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’اﷲ تعالیٰ
جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو دین کی سمجھ عطاء
فرماتے ہیں، میں علم بانٹنے والا ہوں اور اﷲ تعالیٰ عطاء فرمانے والے
ہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم)
ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ : ’’علم کا طلب کرنا ہر مسلمان (خواہ مرد ہو
یا عورت دونوں) پر فرض ہے ۔‘‘ (جامع الصغیر)
ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب آدمی مرجاتا ہے تو اُس سے اُس کا عمل منقطع
ہوجاتا ہے ، مگر تین اعمال ( کا ثواب) اُس سے منقطع نہیں ہوتا : اوّل صدقۂ
جاریہ ۔ دوسرے علم کہ جس سے لوگ منتفع ہوتے رہیں ۔ تیسرے فرزند صالح کہ جو
میت کے لئے دُعائے خیر کرتا رہے ۔‘‘ (صحیح مسلم)
حضرت کثیر بن قیسؒ سے روایت ہے کہ میں دمشق کی مسجد میں حضرت ابو درداء ؓ
کے پاس بیٹھا تھا کہ ُان کے پاس ایک شخص آیا اورآکر عرض کی: ’’ اے ابو
درداء ؓ! میں مدینۃ الرسولؐ سے ایک صرف ایک حدیث سننے کے لئے تمہارے پاس
آیا ہوں جس کی بابت مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے وہ حدیث نبی اکرمؐ سے روایت
کی ہے اور کسی ضرورت سے تمہارے پاس نہیں آیا۔ ‘‘حضرت ابو درداءؓ نے فرمایا
کہ : ’’بے شک میں نے رسول اﷲ ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : ’’جو شخص دین
کا علم حاصل کرنے کے لئے کسی راستہ پر چلتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو جنت کے
راستوں میں سے کسی راستہ پر اس کو چلائیں گے ، اور فرشتے طالب علم کی خوش
نودی کے خاطر اپنے پر ان کے لئے بچھا تے ہیں اور عالم کے لئے زمین و آسمان
کی مخلوقات حتیٰ کہ پانی کے اندر مچھلیاں تک استغفار کرتی ہیں اور عالم کی
فضیلت عابد پر ایسی ہے جیساکہ چودہویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر
ہوتی ہے اور علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء اپنے ترکہ میں درہم و
دینار نہیں چھوڑتے بلکہ وہ تو اپنے پیچھے علم چھوڑ کر جاتے ہیں ، پس جس شخص
نے علم حاصل کیااُس نے بہت بڑی دولت حاصل کرلی۔‘‘(ترمذی ، ابوداؤد ، ابن
ماجہ ، دارمی ، مسند احمد)
حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رات کا ایک گھڑی علم پڑھنا پڑھانا
رات بھر عبادت کرنے سے افضل ہے۔ ‘‘ (مسند دارمی)
ایک حدیث میں صحیح سند سے حضورِ اقدس ؐ کا ارشاد مروی ہے کہ : ’’اﷲ تعالیٰ
اپنے محبوب بندے (عالم باعمل) کو جہنم میں داخل نہیں فرمائیں گے ۔ (جامع
الصغیر)
ایک حدیث میں آتا ہے : ’’تم اﷲ تعالیٰ کو لوگوں کا محبوب بنادو ، اﷲ تعالیٰ
تم کو اپنا محبوب بنالیں گے۔‘‘ (کنز العمال)
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ: ’’ جو عالم اپنے علم پر عمل کرے اﷲ تعالیٰ اس
کو ایسے علم کا وارث بنادیں گے جس کو وہ نہیں جانتا۔‘‘ (یعنی اس کو علم کے
اسرار و رموز سلجھادیں گے جس سے اُس کے علم میں مزید ترقی ہوجائے گی)(حلیۃ
الاولیاء)
دیلمیؒ نے حضرت انس سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ عالم کے چہرے کی طرف دیکھنا
بھی عبادت ہے۔(مسند دیلمی)
ایک حدیث میں آتا ہے کہ: ’’ آخرت میں اگر فقہاء (علمائے دین)اولیاء اﷲ نہیں
ہیں تو پھر کوئی بھی اﷲ کا ولی نہیں ہے (یعنی علماء ضرور اﷲ کے ولی ہیں۔)
(سخاوی)
ایک حدیث میں آتا ہے رسولِ مقبول ؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’اﷲ تعالیٰ ترو
تازہ (خوش و خرم) رکھے اُس شخص کو کہ جس نے مجھ سے کچھ سنا پھر اُس کے آگے
ویسا ہی پہنچادیا جیساکہ اس کو سنا تھا ، اس لئے کہ بہت سے وہ لوگ جن کو
کلام پہنچایا جائے اُس کلام کے سننے والے سے اس کو زیادہ یاد رکھنے والے
ہوتے ہیں۔‘‘ (ترمذی ، ابن ماجہ)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ : ’’قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب اُس عالم کو
ہوگا کہ جس نے (دُنیا میں) اپنے علم سے نفع نہیں اٹھایا۔‘‘ (جامع الصغیر)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ : ’’ جہنم میں ایک وادی (جنگل) ہے جس سے خود جہنم
ہر روز چار سو بار پناہ مانگتی ہے ، اُس میں ریاکار علماء داخل ہوں گے۔‘‘
(مشکوٰۃ)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ علم (حاصل کرنے کی ابتداء) پیر کے دن سے کیا کرو کہ
اس سے علم حاصل کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔‘‘(کنز العمال)
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ جس نے کسی کو ایک آیت بھی کلام اﷲ کی سکھادی تو
وہ سکھانے والا طالب علم کا آقا بن گیا۔‘‘ ( معجم طبرانی)
ایک حدیث میں آتا ہے کہ جس عالم سے مسئلہ دریافت کیا جائے اور وہ بغیر کسی
شرعی عذر کے اس کو چھپالے اور بیان نہ کرے تو کل قیامت کے دن اُس کے منہ
میں آگ کی لگام ڈالے جائے گی۔‘‘ (مشکوٰۃ)
|