انسان کی پہچان حلیے سے نہیں کردار سے کریں

تحریر: عنبر جمشید، بہاولنگر
’’اف اتنی گرمی اور ٹیکسی بھی نہیں مل رہی۔ یااﷲ آج تو دم نکل جائے گا۔ ‘‘ حسن صاحب نے جون کی شدید گرمی میں ادھرادھر نظریں دوڑاتے ہوئے سوچا۔ عین اسی وقت ایک لوکل بس ان کے قریب آکر رکی۔ حسن صاحب نے اسی کو غنیمت جانا اور بس میں سوار ہو گئے۔ یہ تو بعد میں پتا لگا کہ کوئی سیٹ خالی نہ تھی، حسن صاحب بھی اوروں کی طرح بس کی چھت سے لگے پائپ کو پکڑکر کھڑے ہوگئے۔

’’ارے صاحب آپ یہاں بیٹھ جاؤ ‘‘۔ کنڈکٹر شاید ان کے حلیے سے متاثر ہو ا تھا۔ حسن صاحب خاصے شریف آدمی تھے اور اس وقت ان کا حلیہ سوٹڈ بوٹڈ افسروں والا تھا۔ ’’چل چھوٹے اٹھ جا ‘‘۔ اس نے ایک میلے کپڑوں والے لڑکے کا کندھا ہلایا۔ لڑکا تیر کی طرح کھڑا ہوا اور ان کے لیے جگہ خالی کردی۔ وہ لڑکا اب حسن صاحب سے تھوڑے فاصلے پر چھت کا پائپ پکڑے کھڑا تھا۔ حسن صاحب اس کا جائزہ لینے لگے۔ 23،24 سالہ وہ لڑکا مٹی سے اٹے بال، میلے کپڑے جو پسینے کی وجہ سے جسم سے چپکے ہوئے تھے۔ اس میں سے بدبو کے بھبکے اٹھ رہے تھے جو اردگرد لوگو کو بھی ’’فیض یاب ‘‘ کر رہے تھے۔

حسن صاحب کو دیکھ کر بھی ابکائی محسوس ہورہی تھی ۔ابھی میں اس کا جائزہ لے ہی رہا تھے کہ ساتھ بیٹھے ’’خوش لباس‘‘ نوجوان نے انہیں سلام کیا۔ حسن صاحب نے اشارے سے جواب دیا۔ نوجوان پنیٹ شرٹ، نفاست سے بال بنائے، Branded جوتے اور پرفیوم لگا ئے بہت اچھا اور سلجھا ہوا لگا۔ ’’اور سنائیں انکل کیسے ہیں‘‘۔ اس نے بات کا آغاز کیا۔ ’’شکر ہے اﷲ کا بیٹے آپ کیا کرتے ہو ‘‘۔حسن صاحب نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ ’’میں سافٹ ویئرانجینئر ہوں اور آج کل جاب کر رہا ہوں۔ہ جاب کی تفصیل بتانے لگا۔

نوجوان فہد کے بات کا انداز اتنا مسحور کن تھا کہ حسن صاحب باتوں میں ایسے کھوئے کہ اپنا ہوش بھی نہیں رہا۔ کنڈکٹر کرایہ لینے آیا۔ اس میلے سے لڑکے نے بھی کرایہ دیا حسن صاحب نے پٹوا نکال کر پیسے دینے لگے تو نوجوان نے ان کا کرایہ بھی دے دیا۔ حسن صاحب روکتے رہے گئے مگروہ نہ مانا۔ اب تو حسن صاحب کو یقین ہو گیا کہ بچہ بہت اچھی تربیت کا مالک ہے۔ اچانک بس رکی اور حسن صاحب کا بٹوا ہاتھ سے پھسل کر نیچے گرگیا۔ انہوں نے جلدی سے اٹھایا اور جیب میں رکھ لیا اور پھر سے فہد کی باتیں شروع ہوگئیں۔

’’انکل جی یہ آپ کے پیسے گر گئے تھے‘‘۔ میلے کپڑوں والے سا لڑکے نے ہاتھ میں 1000 کا نوٹ پکڑے حسن صاحب کو مخاطب کیا تھا۔ حسن صاحب نے ایک نظر شکریہ کی اس پر ڈالی اور نوٹ لے لیے۔ حسن صاحب کا اسٹاپ آگیا تھا اور وہ اتر گئے ساتھ ہی فہد کا نمبر اور گھر کا پتہ بھی لے لیا۔ گھر پہنچ کر پانی کا گلاس پیا اور پھر فہد کا نمبر دیکھنے کے لیے موبائل جیب سے نکالا تو موبائل جیب میں تھا ہی نہیں۔ بٹوا بھی نہیں تھا اور ان کی قیمتی گھڑی بھی غائب تھی۔ جیب میں صرف 1000روپے کا اکلوتا نوٹ پڑا تھا جو اسے میلے کپڑوں والے لڑکے نے اٹھا کر دیے تھے۔

حسن صاحب کو ایک لمحے کے لیے حیرت کا زور دار جھٹکا لگا ۔ تو کیا فہدنے۔۔ ۔ ۔۔۔ اب پتا چلا کہ فہد بار بار ہاتھ کیوں پکڑ رہا تھااور اترتے ہوئے گلے بھی ملا تھا۔ حسن صاحب اسے کیا سمجھ رہے تھے اور وہ کیا نکلا تھا۔ انہیں خود پر ہنسی بھی آرہی تھی اور غصہ بھی۔۔۔ کہ جس کو حقیر جانا اس نے ان کے 1000 روپے بھی واپس کر دیے حالانکہ وہ رکھ بھی سکتا تھا اور جسے میں نے عظیم جانا اس نے ہی لوٹ لیا تھا۔ خیر اب کا ہو سکتا تھا صبر کر نا پڑا۔ لیکن آئندہ کے لیے نصیحت ہو گئی کہ کیا پتا جو نظر آرہا ہو وہ نہ ہو۔

اصل میں ہم دوسرے لوگوں کے بارے میں وہ سوچتے ہیں جو ہم سوچنا چاہتے ہیں ۔چاہے اچھا چاہے برا۔ ہر انسان کو اس کے کردار سے پہچاننا چاہیے نہ کہ ظاہری وضع قطع سے۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہے تھے اور یہیں حقیقت بھی ہے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025323 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.