اچھے حکمراں چاہئیں تو اچھا بننا ہوگا

تحریر :مدیحہ مدثر(کراچی )
پاکستان کی سیاست، حکمران اور قوم ایک عجیب کشمکش سے دوچار ہے۔ 4سال حکمرانوں کو گالیاں دینا اور پھر یہ کہنا کہ ’’سب ایک جیسے ہوتے ہیں، کوئی مخلص نہیں، سب لٹیرے ہیں‘‘ بہت کچھ لیکن کبھی یہ سوچا کہ حکمران خراب ہیں تو ہم کیسے ہیں؟ ہمارے کیا کام ہیں؟ کیا ہم ٹھیک ہیں یا نہیں؟

ملک میں اوپر سے لے کر نیچے تک ہر شخص ہی کرپشن کرتا نظر آتا ہے ایسا کیوں ہے؟ حکمرانوں کی کرپشن کی باتیں عوام بھی بڑے زور شور سے کرتی ہے تاہم جب ہم کاروبار کرتے ہیں تو کیا وہاں کرپشن نہیں ہوتی؟ ایک دودھ بیچنے والے سے لے کر پھل فروش تک سب ہی دو نمبری پر لگے ہوئے ہیں۔ ایک شخص کسی دفتر میں ملازم ہے تو وہاں ڈنڈی مارتا ہے، کوشش ہوتی ہے کہ کام ادھورسے سے ادھورا اور رپورٹ اچھی سے اچھی پیش کی جائے۔استاد ہیں تو تعلیم صحیح طرح نئی نسل تک نہیں پہنچا رہے۔ امتحان دیتے ہیں تو وہاں نقل کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اچھی سے اچھی ڈگری بنوانے کے لیے پیسے لینے والا مل جائے تو دینے والوں میں سب سے پہلے آپ ہی لائن میں نظر آئیں گے۔نوکری کی سفارش کی بات ہو یا رشوت کی تو یہیں عوام ہوتے ہیں جو جیبیں بھر رہی ہوتی ہے۔

گویا اس معاشرے میں کرپشن اور کرپٹ ہر آدمی ہے۔ یہ معاشرہ کرپشن اور نا انصافیوں سے پستیوں میں گرتا جارہا ہے اور اس کرپٹ زدہ معاشرے کو تشکیل دیتی ہیں یہیں چھوٹی چھوٹی چیزیں۔ ہم اپنے طور پر چھوٹے چھوٹے کام جو کررہے ہوتے ہیں یہی مل کرمعاشرے کو ترتیب دیتیں ہیں اور ہماری نئی نسل بھی ہم سے یہی سب کچھ سیکھتی ہے۔ پھر اسی طرح ایک قوم ترتیب پاتی ہے۔ وہ قوم جو ہر موقع پر جہاں اس کا بس چلے گا لوٹ مارکرپشن کرے گی تو اس کے ساتھ بھی دھوکا ہی ہوگا۔ہمیں کوئی دھوکا دے جائے تو بہت غصہ آتا ہے اور ظاہر ہے جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو تو کیا کہا جاسکتا ہے۔

عوام کے بعد پھر باری حکومت اور حکمرانوں کی آجاتی ہے۔ حکمران کوئی آسمان سے تو نازل ہوتے نہیں۔ ہم ہی لوگوں میں سے کچھ اپنا ہاتھ صاف کرنے کے لیے یہ راستہ چنتے ہیں۔ اسی لیے دوسروں کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے آپ کو سیدھے راستے پر لائیں۔ آپ اپنے کام درست کرنا شروع کردیجئے آپ کومنزل سامنے نظر آئے گی ۔ آپ اچھے ہوں گے تو اﷲ تعالیٰ آپ کو اچھے لوگوں سے ضرور ملوائے گا اور اچھے حکمران بھی ضرور ہمارا مقدرہوں گے۔ بس اچھائی کا آغاز اپنے گھر سے کرنا ہوگا اور پھر لوگوں تک حق کی آواز پہچانے کے لیے گھر سے نکلنا ہوگا۔ آخر ہم ہی وہ قوم ہیں جس کے قائد قائداعظم اور علامہ اقبال جیسے تھے لیکن فرق اتنا ہے کہ اس وقت کے لوگوں نے ان کو اپنا قائد چنا تھا اور ہم نے ان ظالم حکمرانوں کو چنا ہے ۔ اب مقدر کا فیصلہ آپ کی عقل اور آپ کے اپنے ذاتی کردار پر پر منحصر ہے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1021430 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.