امام صادق کی عظمت اور بلند مقام کے بارے میں نہ فقط شیعہ
علماء نے بہت کچھ بیان کیا ہے بلکہ اس بارے میں اہل سنت کے علماء اور
بزرگان نے بھی بہت کچھ بیان کیا ہے۔ مذاہب اہل سنت کے آئمہ، علماء اسلامی
اور صاحب نظر و فکر افراد نے امام صادق (ع) کی علمی، عملی، اخلاقی صفات اور
کرامات کو بیان کیا ہے۔
اس تحریر میں ہم امام ابوحنیفہ کے اقوال اور اعترافات کو ذکر کریں گے
ابوحنيفہ اور امام صادق (ع):
نعمان بن ثابت بن زوطی (80 - 150ه. ق.) کہ جو ابو حنيفہ کے نام سے بھی
معروف ہے، وہ مذہب حنفی کا امام ہے، وہ امام صادق کا ہم عصر بھی تھا۔ اس نے
امام صادق کی عظمت اور بلند مقام کے بارے میں بہت ہی اچھے اعترافات کیے
ہیں، کہ ان میں سے یہ ہے کہ:
ما رأيت افقه من جعفر بن محمد و انه اعلم الامۃ۔
میں نے جعفر ابن محمد سے فقیہ تر اور عالم تر کسی کو نہیں دیکھا۔ وہ اس امت
کے اعلم ترین بندے تھے۔
شمس الدين ذهبی، سير اعلام النبلاء، ج 6، ص 257
تاريخ الكبير، ج 2، ص 199 و 198، ح 2183.
امام صادق (ع) کے زمانے میں عباسی خلیفہ منصور دوانقی کی حکومت تھی۔ وہ
اولاد علی (ع) اور اولاد فاطمہ (ع) اور خاص طور پر امام صادق (ع) کی عزت،
عظمت اور شہرت سے ہمیشہ پریشان اور غصے کی حالت میں رہتا تھا۔اور اس
پریشانی کے حل کے لیے وہ امام ابو حنیفہ کو امام صادق ع کے مقابلے پر کھڑا
ہونے کا کہا کرتا تھا۔ منصور دوانقی امام صادق کے علمی مقام اور عزت و عظمت
کو دوسروں کی نظروں میں کم کرنے کے لیے، ابو حنیفہ کی اس زمانے کے سب سے
بڑے عالم کے عنوان سے حکومتی سطح پر عزت اور احترام کرتا تھا، تا کہ اس سے
سرکاری سطح پر امام صادق (ع) کے احترام کو کم کیا جا سکے۔
اس بارے میں خود ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ:
ایک دن منصور دوانقی نے کسی کو میرے پاس بھیجا اور کہا کہ: اے ابو حنیفہ
لوگ جعفر ابن محمد سے بہت محبت اور اسکا بہت احترام کرتے ہیں، معاشرے میں
اسکا ادب و احترام روز بروز زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ تم جعفر ابن محمد کی عزت
اور احترام کو لوگوں کی نظروں میں کم کرنے کے لیے، اسطرح کرو کہ چند مشکل
اور پیچیدہ علمی مسئلوں کو تیار کرو اور ایک مناسب وقت پر اس سے یہ سوالات
پوچھو تا کہ وہ ان سوالات کا جواب نہ دے سکے اور اس طرح سے لوگوں کے دلوں
میں اسکی محبت کم ہو جائے گی اور لوگ اس سے دور ہو جائیں گے۔
ابو حنیفہ کہتا ہے کہ میں نے یہ سن کر چالیس مشکل علمی مسئلوں کو تیار کیا
اور جس دن منصور حیرہ کے مقام پر تھا، اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور میں
اسکے پاس پہنچ گیا۔ جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ جعفر ابن محمد
منصور کے دائیں طرف بیٹھے ہیں۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو انکی جلالت اور
رعب کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میں اسے بیان نہیں کر سکتا۔ اتنا رعب تو
خلیفہ منصور کو دیکھ کر بھی مجھ پر طاری نہیں ہوا تھا، حالانکہ خلیفہ کو
سیاسی قدرت رکھنے کی وجہ سے با رعب ہونا چاہیے تھا۔ میں نے داخل ہو کر سلام
کیا اور انکے ساتھ بیٹھنے کی اجازت طلب کی، خلیفہ نے اشارے سے مجھے کہا کہ
میرے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ میں بھی چپ کر کے بیٹھ گیا۔ اس پر منصور عباسی نے جعفر
بن محمد کی طرف دیکھا اور ان سے کہا کہ: اے ابو عبد اللہ، یہ ابو حنیفہ
ہیں۔ انھوں نے جواب دیا، ہاں میں اسکو جانتا ہوں۔ پھر منصور نے مجھ سے کہا
کہ اے ابو حنیفہ اگر تم نے کوئی سوال پوچھنا ہے تو ابو عبد اللہ جعفر ابن
محمد سے پوچھ لو۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے۔ میں نے بھی اسے بہت اچھی فرصت
جانا اور وہ چالیس سوال جو میں نے پہلے سے تیار کیے ہوئے تھے، ایک ایک کر
کے سب کو جعفر ابن محمد سے پوچھا۔ امام صادق ہر مسئلے کو بیان کرنے کے بعد،
اسکے جواب میں فرماتے تھے کہ:
اس مسئلے میں تمہارا عقیدہ اس طرح ہے، مدینہ کے علماء کا عقیدہ اس طرح ہے
اور ہم اھل بیت کا عقیدہ اس طرح ہے۔ بعض مسائل میں امام کی نظر ہماری نظر
کے مطابق تھی اور بعض مسائل میں مدینہ کے علماء کی نظر کے ساتھ موافق تھی
اور کبھی امام کی نظر ہر دو نظروں کے مخالف تھی، اس صورت میں امام تیسری
نظر کو انتخاب کر کے بیان کیا کرتے تھے۔
میں نے تمام چالیس مشکل سوال کہ جو انتخاب کیے ہوئے تھے، ایک ایک کر کے سب
کو جعفر ابن محمد سے پوچھا تو انھوں نے بھی بڑے آرام اور تحمل سے ان سوالات
کے مجھے جوابات دئیے۔
پھر ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ:
ان اعلم الناس اعلمہم باختلاف الناس۔
بے شک اعلم ترین وہ بندہ ہے کہ جسکو علمی مسائل میں مختلف علماء کے نظریات
کا علم ہو، اور کیونکہ جعفر ابن محمد بالکل ایسے ہی تھے، پس وہ اپنے زمانے
کے سب سے بڑے عالم تھے۔
سير اعلام النبلاء، ج 6، ص 258
بحارالانوار، ج 47، ص 217.
وہی ہمیشہ امام صادق کی علمی عظمت کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ:
لولا جعفر بن محمد ما علم الناس مناسك حجهم۔
اگر جعفر ابن محمد نہ ہوتے تو لوگوں کو حج کے احکام اور اعمال کا علم نہ
ہوتا۔
شيخ صدوق، من لايحضره الفقيه، ج 2، ص 519، طبع قم، |