اسلام کیا ہے؟انسانیت کی بھلائی‘ خیر خواہی اور بہتری
کا دوسرا نام اسلام ہے۔ مثال کے طور پر اسلام کا صرف یہ مطالبہ ہی نہیں کہ
صاف ستھرے رہو بلکہ اس کے نزدیک صفائی نصف ایمان ہے۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ
یہ صفائی کیا انسانیت کی ضرورت نہیں ؟ کیا انسان کو غلیظ رہنا چاہیے؟ اسلام
کا کہنا یہ ہے کہ حلال کمائی کرو‘ ناجائز ذرائع سے یا کسی کو دھوکا فریب دے
کر یا کسی دوسرے کے نقصان پرخودفائدہ حاصل نہ کرو ۔ ذخیرہ اندوزی مت
کرویعنی مال کو اس لیے نہ روکو کہ مہنگا ہوگا تو دوگنے کمائیں گے۔ ملاوٹ ‘
سمگلنگ ‘ رشوت ‘ بدعنوانی ‘ کام چوری وغیرہ یعنی ہر وہ روش جس سے دوسرے کو
نقصان پہنچنے کا احتمال ہو اسلام اسے ناجائز اور گناہ قرار دیتا ہے ۔ کیا
رزقِ حلال کے متعلق یہ تعلیمات انسانیت کے حق میں سراپا رحمت نہیں؟ اسلام
سچائی کے ساتھ معاملہ کرنے والے تاجر کو قیامت کے دن نبیوں ‘ صدیقوں اور
شہیدوں کا ساتھی قرار دیتا ہے تو کیا یہ امانت دار انہ تجارت انسانیت ہی کی
بھلائی کے لیے نہیں؟ اسلام کا مطالبہ ہے کہ کوئی شخص ‘ کسی دوسرے پر ظلم نہ
کرے۔ یہاں تک فرمایا کہ ’’ جو شخص کسی کی بالشت بھر زمین ظلماً لے گا تو اﷲ
تعالیٰ قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالے گا‘‘۔ ظلم کا
قلع قمع کرناکیا انسانیت کے حق میں مفید نہیں؟اسلام کی ہدایت یہ بھی ہے کہ
مزدورکواس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو ۔ یقین جانیں
اگر پوری انسانیت اس ایک اصول کی پابندی کرتی تو سرمائے اور محنت کے درمیان
آج جو گمبھیر مسائل پیدا ہوچکے ہیں کبھی پیدا نہ ہوتے۔ اسلام کی یہ بھی
تعلیم ہے کہ ضرورت سے زائد پانی نہ روکو یعنی اپنا حصہ تو ضرور لو لیکن
دوسروں کا حصہ ان کو دو ۔ اسلام کا یہ بھی سنہری اصول ہے کہ جو کچھ تم اپنے
لیے پسند کرو ‘ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرو۔ جنت نشاں بن جائے یہ
دنیا اگر اس بے مثل اصول پر پوری انسانیت عمل پیرا ہو۔ اسلام کا یہ قانون
ہے کہ مرنے والے کی جائیداد ‘ اس کے وارثوں میں ‘ مرد ہو ں یا عورتیں
‘تقسیم کرو۔پھر اسلام اس تقسیم کو یوں متناسب و متوازن بناتاہے کہ معاشرے
میں جتنا کسی پر زیادہ بوجھ ہے اتنا ہی وراثت میں اسے زیادہ حصہ دیا گیا
ہے۔ ورثاء کو یوں اپنا اپنا مقرر حصہ و حق کا حصول کیا انسانی فلاح کا ضامن
نہیں ؟ اسلام سود کو حرام قرار دیتا ہے۔ دیکھیے اسلام کی اس ایک تعلیم سے
انحراف نے آج پوری دنیا کو عالمی سودی نظام کی شکل میں جسقدر تباہی کے
دہانے لاکھڑا کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اسلام رشوت لینے والے اور دینے
والے دونوں پر لعنت بھیجتاہے تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ رشوت کا دھندہ
انسانیت کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہے ؟
اسلام نکاح کی ترغیب و تاکید اور زنا کی قطعاًممانعت کرتاہے۔ مغربی دنیا اس
کے برعکس اگر آج عمل پیرا ہے تو خود محسوس کررہی ہے کہ یہ ایک گمراہی شاید
اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دے۔ انسانی رشتوں کا تقدس ماضی کی داستاں بن چکا ہے۔
گھر ویران ہوگئے۔ خاندانی یونٹ کا شیرازہ بکھر گیا۔ بظاہر انسان لیکن گرے
تواس حد تک کہ بلیوں اور کتوں سے دل بہلانے لگے۔ پھر یہ بھی اسلامی ہدایت
ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ اس ہدایت سے بھی مغرب والوں نے
روگردانی کی تو آج بڑی عمر والے ’’ معمر خانوں (Old age house) ‘‘ میں مقید
اپنی اپنی اولاد کا منہ دیکھنے کو ترس گئے۔ اسلام کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ
ہر زیردست و ماتحت یعنی نوکر ‘ خادم وغیرہ سے شفقت سے پیش آؤ تو کیا ایسا
کرنا انسانیت کے حق میں نہیں؟ اسلامی حکومت کا ایک فرضِ منصبی یہ ہے کہ وہ
اپنے ہاں کفالتِ عامہ کا نظام رائج کرے یعنی ہر معذور ‘ بے روزگار ‘ بے
سہارا وغیرہ کا وظیفہ مقرر کرے تو کیا ایسا پروگرام انسانیت کی فلاح و
بہبود کا ضامن نہیں؟ اسلام کا یہ دستور ہے کہ ہر اس فرد کی طرف جو گردشِ
دوراں کا شکار ہوگیا ہو مثلاًبیوہ ہو یا بے سہارا بیٹی ‘ مسکین ہو یا یتیم
‘ مسافر ہو یا قیدی دستِ تعاون بڑھاؤ ۔ سائل و محروم کو توکھاتے پیتے لوگوں
کا شریکِ دولت بنادیا۔ دنیا بھر کے اقتصادیات کے ماہرین اگر صرف اسلام کے
نظامِ زکوٰۃ کا تجزیہ کریں تو مانے بغیر نہ رہیں کہ کتنا برکتوں اور
سعادتوں بھرا ہے یہ نظا مِ بے بدل ۔ والدین ‘ اولاد ‘ رشتے داروں ‘ استاد ‘
شاگرد‘ آجر ‘ مزدور ‘میاں بیوی کے حقوق کی فہرست دی تو لمبی چوڑی ۔ کیا
ایسا نظام انسانیت ہی کے حق میں سراپا رحمت نہیں ؟
اسلام ہی کہ یہ تعلیمات ہیں کہ وقت کی پابندی کرو‘ عہد کا پاس کرو‘ سچ
بولو‘جھوٹ مت بولو‘جھوٹی گواہی نہ دو ‘ فریب و دھوکا دہی کے قریب نہ جاؤ‘
عجز و انکساری کا دامن تھامو‘تکبر و غرور کو قریب نہ پھٹکنے دو‘ حق سے
زیادہ کی حرص نہ کرو‘ عہدوں کو للچائی ہوئی نگاہوں سے نہ دیکھو‘ بے جا
حمایت اور طرفداری نہ کرو‘ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے کرو‘ چغل
خوری اور غیبت سے پرہیز کرو‘ کسی کو گالی نہ بکو‘نہ کسی کو برے القاب سے
یاد کرو‘ کسی کی تحقیر نہ کرو ‘ کم درجے والوں کا احترام کرو‘بے جا تعریف
نہ کرو‘ حسد سے بچو‘ بدنگاہی سے بچو‘ جذبات کا شکار نہ ہو‘وقار اور سنجیدگی
کا دامن تھامو‘ زبان کی حفاظت کرو‘ ایذارسانی کا رویہ ممنوع ‘ آشنا ہو یا
نا آشنا جو سامنے آئے اسے سلام کرو ‘ خیر خواہی و بھلائی کا وطیرہ اختیار
کرو‘ علم حاصل کرو ‘ جہالت سے بچو‘ جماعتی زندگی گزارو‘ ایک دوسرے کے ہمددر
و ساتھی بنو‘ ضبط و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے‘ نظم و ضبط کی
پابندی کرو ‘ امیر کی اطاعت لازم ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرضِ
عین ۔ بتائیے ان احکامات میں سے کوئی ایک بھی ہے جو انسانیت کے حق میں
سراپا خیر نہ ہو ؟ اسلام کا تو یہ بھی طرۂ امتیاز ہے کہ وہ اِن اَحسن اوصاف
وعادات کو ایک یا چند افراد تک محدود نہیں کرتا‘ لازمی قرار دیتاہے کہ دنیا
کے ہر فرد تک خواہ وہ کہیں ہمالہ پر ہی کیوں نہ ہو پہنچایا جائے تاکہ یہ
پوری دنیا حسن و خوبی کا مرقع ہو۔
پھر دینِ حق ……اسلام شکرِ نعمت کی تعلیم دیتاہے‘ صبرو استقامت کا درس
دیتاہے۔ شرم و حیا کی تلقین کرتاہے‘ عریانی و فحاشی کو انسانیت کے لیے
تباہی و بربادی ٹھہراتاہے۔پردے کے مفصل قوانین دیتاہے۔ انسانیت کو بے راہ
روی سے روکنے کے لیے عبادات کا ایک جامع اور مستقل پروگرام دیتاہے۔ اﷲ پر
بھروسے کی تلقین کرتاہے۔ خدمت خلق ‘ امن و سلامتی ‘ حلم و بردباری کی تاکید
کرتاہے۔ شراب ‘ جوئے‘سٹے وغیرہ کو حرام قرار دیتاہے۔ جزا و سزا ‘ جنت و
دوزخ کا نظام وضع کرکے بندو بست کرتاہے کہ ہر انسان اپنی خیر خواہی و فلاح
کی خاطر مذکورہ احکامات کو اپنی زندگی میں نافذ کرے۔ شتر بے مہار اور مادر
پدر آزاد ہو کر من مانیاں‘نہ کرے۔
ایک طرف تو اس سے انکار ناممکن ہے کہ اسلام ہے ہی سچائیوں ‘ بھلائیوں اور
خیر خواہیوں کا دوسرا نام لیکن دوسری طرف اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا
کی ایک عظیم آبادی اسلام کے فیوض و برکات سے محروم ہی نہیں ‘ بلکہ اس کی
مخالف ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیوں ؟ تجزیہ کریں تو بات دو اور دو چارکی طرح
واضح ہے کہ سچائیوں کا حصول اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ انسان کچھ پابندیاں
قبول کرے‘ کچھ قربانیاں دے اور کچھ مشقتیں جھیلے۔سڑک پر نصب کردہ ٹریفک کے
اشارات یوں تو پابندیاں لگاتے ہیں لیکن ظاہر ہے منزلِ مقصود پر بہ حفاظت
پہنچنے کے لیے ان کی پابندی کرنا از بس ضروری ہے ۔ اس طرح پابندیاں قبول
کرنا‘ قربانیاں دینا اور مشقتیں جھیلنا ہے تو انسانی فلاح و بہبود کا ضامن
لیکن سہل پسند انسان ان سے حیلے بہانے فرار کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ ٹریفک
کے اشارات کی پابندی نہ کرنے کے نتائج تو خیر فوراً سامنے آجاتے ہیں لیکن
اخلاقی اقدار کو ملیامیٹ کرنے کے نتائج آخرت میں تو یقینابر آمد ہوں گے ہی‘
اس دنیا میں بھی بر آمد ہوکر رہتے ہیں خواہ کچھ دیر کے بعد ہی کیوں نہ ہوں
۔ آج کی دنیا اگر ظلم و ستم ‘ انتشار و خلفشار ‘ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘
دوہرے معیار ‘ نفسا نفسی اور افراط و تفریط کا شکار ہے تو اس کی بنیادی وجہ
انسانوں کی ایک عظیم اکثریت کا سچائیوں سے فرار ہے۔ ایسے دانشور بھی آدھمکے
ہیں جنہوں نے اسلام ہی کو متنازع اور حرفِ تنقید بنا دیا تاکہ فرار ‘ فرار
ہی نظر نہ آئے بالکل اسی طرح جس طرح کہ کوئی غاصب اپنے دل کو مطمئن کرنے کے
لیے کئی جواز ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ جیسے کوئی شرابی شراب پی کر جب
احساسِ گناہ سے مغلوب ہونے لگتا ہے تو خود کو یہ کہہ کر اس احساس سے بچانے
کی کوشش کرتاہے کہ ’’ چلو شراب ہی پی ہے کسی کا خون تو نہیں پیا ‘‘۔
اسلام کے چند ایسے پہلو کہ جنہیں ان دانشوروں نے ہدفِ تنقید ہی نہیں ہدفِ
تحقیر و استہزاء بھی بنایا ہے‘ درج ذیل ہیں :
٭ تعداد ِ ازواج یعنی ایک سے زیادہ بیویوں کا ہونا ۔
٭ مرد و عورت کے حقوق میں عدم مساوات
٭ جہاد فی سبیل اﷲ یعنی اﷲ کے راستے میں مسلح جدوجہد
ذیل میں ان پہلوؤں میں سے ہر ایک کا ہم جائزہ لیتے ہیں یہ جاننے کے لیے کہ
آیا زیرِ بحث و تنقید پہلو انسانیت کے حق میں ہیں یا کہ مخالف ۔ تاہم پیشتر
اس کے کہ ہم ان موضوعات کی طرف آئیں دو بنیادی باتوں کا ذکر ضروری ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام کا مرکزی تصور یہ ہے کہ انسان اس دنیا سے رخصت
ہو جاتاہے تو ملیامیٹ نہیں ہوجاتا بلکہ ایک ایسی زندگی میں داخل ہوجاتا ہے
جس کا کوئی کنارا نہیں ۔ اس دنیا میں کیے گئے اس کے ہر فعل کو ریکارڈکیا
جارہا ہے اور قیامت کے دن یہ ریکارڈ نکال لایا جائے گا یہ طے کرنے کے لیے
کہ اس انسان کی نیکیاں زیادہ ہیں یا برائیاں ؟ نیکیوں کا پلڑا جھک گیا تو
اسے جنت نصیب ہوگی اور برائیوں کا پلڑا جھکا تو دوزخ اس کا مقدر ٹھہرے گا۔
دوسری بات جو نوٹ کرنے کے قابل ہے یہ ہے کہ اسلام کا یہ منفرد اعزاز ہے کہ
وہ ہر فرد ‘ مرد ہو یا عورت کو وراثت میں حصہ دار بناتا ہے اور وراثت کا یہ
نظام ظاہر ہے تبھی چل سکتاہے جب ہر فرد کی نسلی شناخت ہو یعنی یقینی پتہ ہو
کہ اس کی ماں کون ہے اور باپ کون ؟
تعدّدِازواج
تعدّدِ ازواج (POLY GAMY)کے بارے میں یہ ذہن میں رہے کہ اسلام نے اسے دنیا
میں متعارف نہیں کرایا بلکہ اَن گنت معاشروں میں یہ پہلے سے موجود تھی۔
اسلام نے صرف اسے محدود و باقاعدہ کیا ۔ اس میں سب سے بڑی جو بے قاعدگی
موجود تھی وہ بیک وقت بیویوں کی تعداد میں کسی حد (Ceiling)کا نہ ہونا تھا۔
کھاتے پیتے حضرات سینکڑوں بلکہ ہزاروں بیویوں کی فوج ظفر موج اکٹھی کرلیتے
تھے اور اس ہجومِ بے کنار کے لیے ایک خاص اصطلاح یعنی ’’ حرم ‘‘ کا چرچا
تھا۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں عورت کی حیثیت ایک محترم و معزز انسان سے کم ہو
کر صرف ایک قابلِ استعمال چیز (COMMODITY)کی رہ جاتی تھی ۔ اسلام نے تعدادِ
ازواج پر پابندی لگائی اور اب کوئی ارب پتی مسلمان بھی کہ جس کی جائیداد
دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہو بیک وقت چار بیویوں سے زیادہ نہیں رکھ
سکتا ۔ تاہم ہمارا آج کا موضوع ‘ صرف یہ ہے کہ یہ چار بیویاں بھی مشروع
کیوں ہیں ایک ہی کیوں نہیں ؟
ابتداء ہی میں یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ دنیا میں کوئی معاشرہ خالص یک
زوجگی (MONO GAMOUS)نہیں رہا اور نہ ہے ۔ جس طرح اس دنیا کے کئی معاشروں نے
رہبانیت اور بے زوجگی کا تجربہ کیا لیکن انجام کا ر فطرت سے اس انحراف کو
نباہ نہ سکے بلکہ اکثرو بیشتر نے ازدواجی تعلقات کو عبادت ہی کا حصہ بنا
دیا اسی طرح دعوے تو آج بھی کئی معاشرے یک زوجگی کے کرتے ہیں لیکن واقعات
کی دنیا میں متعدد بیویوں کا کسی نہ کسی طور پر رستہ نکال لیا ہے۔ یہ عصمت
فروشی(PROSTITUTION)‘ زنا (ADULTRY)‘ اغوا(ABDUCTION)‘ورغلانا (SEDUCTION)‘
عارضی شادی (TEMPORARY MARRIAGE)‘ آزمائشی شادی (TRIAL MARRIAGE)‘ محبت کی
شادی (LOVE MARRIAGE)‘مخلوط رہائش (MIXED LIVING)‘مشترکہ رہائش
(COHABITATION)‘ہمدردانہ شادی (COMPASSIONATE MARRIAGE)‘آخرہفتہ آوارہ
گردیاں (WEEK-END WANDERINGS)‘ساحلی عیاشیاں (PICNICS BEACH)‘ہم جنس شادیاں
(ONE-SEX MARRIAGE)‘بعد از طلاق شادیاں (RE-MARRIAGE)‘ آخر کس شرارت اور کس
رجحان کا شاخسانہ ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب انسانی فطرت پر مصنوعی
پابندیاں لگائی گئیں تو اس ایک سر اور دوہاتھوں والے انسان نے کئی راستے
خود نکال لیے۔
اسلام جو دینِ فطرت ہے کیسے برداشت کرسکتاتھا کہ وہ انسانوں کو بے قاعدگیوں
‘ بے ہودگیوں اور بے راہ رویوں کے حوالے کردیتا ؟ اس نے اس بے ہنگم و بے
قاعدہ ڈرامے کو باقاعدہ(SYSTEMATIZE)کیا ہے۔ آپ اس بارے میں جتنا بھی سوچیں
بالآخر اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکیں گے کہ اسلام نے تعدّدِ ازواج
کی اجازت دے کر اور اس اجازت کو ایک حد یعنی چار بیویوں تک محدود کرکے
انسانیت کی بے مثل خدمت کی ہے۔
مذکورہ بالا بحث تو ہم نے محض انسانی سرشت کے حوالہ سے کی ہے لیکن واقعات
کی دنیا میں اَن گنت ایسے عملی حقائق ہیں جن سے بہر حال اس دنیا کے مکینوں
کو واسطہ پڑتا ہے۔ چند ایسے حقائق جن سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں‘ کا
ذکر ہم ذیل میں کرتے ہیں ۔
پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ گو پیدائش پر اس دنیا میں مردوں اور عورتوں کی
تعداد پچاس فیصد ہوتی ہے لیکن چونکہ مرد حضرت اپنے فرائض کی نوعیت کے
اعتبار سے سماوی بلاؤں اور حادثات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لہٰذا وقت کے
کسی بھی موڑ پر دنیا میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ دور جانے
کی ضرورت نہیں ہمارے ہاں پاکستان میں مثال کے طور پر عورتوں کی تعداد
52فیصد ہے تو مردوں کی 48فیصد ۔ اس طرح دنیا بھر میں تو عورتوں کی تعداد
مردوں کی تعداد سے کروڑوں زیادہ ہے لیکن اگر ایک کروڑ زائد بھی فرض کرلی
جائے تو اس کا مطلب ہے کہ یک زوجگی کی صورت میں ایک کروڑ عورت کا یہ حق چھن
جائے گا کہ وہ شوہر والی ہو ۔ بتائیے اس سے بڑا ظلم کسی عورت پر اور کیا
ہوسکتا ہے کہ اسے تاحیات حقِ زوجیت سے محروم کردیا جائے۔ وہ بے شوہر ‘ بے
اولاد اور بے گھر رہے۔ اگر تعدّدِ ازواج کو ایک برائی فرض کرلیا جائے تو یہ
بے زوجگی تو اس سے کئی گنا بڑی برائی ہے۔ جنگِ عظیم اول و دوم میں جب
عورتوں اور مردوں کا باہمی تناسب غیر معمولی طور پر درہم برہم ہوگیا یعنی
مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلہ میں معتد بہ کم ہوگئی تو اس مسئلے کو جس
طرح کئی غیر مسلم معاشروں نے حل کیا یا بے حل ہی رہنے دیا ‘ انسانیت کے
ماتھے پر وہ کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں ۔
کہا جاسکتا ہے کہ جنگ تو کبھی کسی ایک ملک میں ہوگئی یا نہ ہی ہوئی لیکن
تعدّدِ ازواج کو ہمیشہ کے لیے ایک ضابطے کی حیثیت دے دینا کیا حماقت نہیں ؟
یاد رہے اول تو کوئی جنگ کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہتی اور اگر رہے بھی
تو بین الاقوامی شادیوں کی اس دنیا میں ایک عام ریت ہے۔ پھر اس میں بھی
کوئی شک نہیں کہ آج کی دنیا کا کوئی نہ کوئی حصہ ضرور جنگ و جدل کی زد میں
رہتا ہے۔ پھر مرد تو پائلٹ بھی ہوتے ہیں ‘ ڈرائیور بھی ‘ ملابھی ‘ مزدور
بھی ‘ مکینک بھی اور فوجی جوان بھی ‘ بتائیے حادثات کا شکار مرد زیادہ ہوتے
ہیں یا عورتیں؟
ایک اعتراض یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہر آدمی چار چار شادیاں کرے تو کیا
اس صورت میں عورتوں کی کمی واقع نہیں ہوجائے گی ؟ ایسا نہ ہونے کا ویسے تو
یہی ثبوت کافی ہے کہ دنیا کی شماریات کا جائزہ لیں‘ غیر مسلم دنیا کی تو
بات درکنار ‘ مسلم ممالک میں بھی باوجود چاربیویوں کی اجازت کے عورتوں کی
تعداد اکثر و بیشتر مردوں سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ در اصل یہ ہے کہ دنیا میں
99.9فیصد مسلمان ایسے ہیں کہ جو یک زوج ہیں ۔ اصل میں دو ‘ تین یا زیادہ سے
زیادہ چار بیویوں کی اجازت ہے‘ حکم نہیں اور یہ اجازت بھی غیر معمولی حالات
کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہے ورنہ اس میں کیا شک ہے کہ یک زوج ہونا
ایک بہت بڑی نعمت ہے(Nothing Like One Wife)۔ عمل کی دنیا میں جتنا گھریلو
سکون و راحت ایک بیوی سے ہوتاہے ‘ دو یا دو سے زیادہ سے نہیں ہوتا۔ کسی کو
شک ہو تو تجربہ کر کے دیکھ لے۔ تعدّدِ ازواج کی صورت میں ویسے تو بے
اعتمادی کی فضا کا ہونا ایک لازمی امر ہے‘ پھر اکثر و بیشتر اولاد کی باہمی
چپقلش اور جائیداد وں کے جھگڑے بسا اوقات بڑے ہولناک نتائج کو جنم دیتے ہیں
۔
ایک اعتراض یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب ( چار تک ) متعدد بیویاں ہوں گی تو
امکان اغلب ہے کہ شوہر کسی ایک بیوی کو دوسری پر ترجیح دے اور اس طرح دوسری
بیوی /بیویوں کی حق تلفی بلکہ دل شکنی ہوگی۔اجازت دینے والا اﷲ اس جھول کو
خوب جانتا تھا لہٰذا اس نے متعدد بیویوں کی اجازت غیر مشروط نہیں مشروط دی
ہے اور اس بارے میں شرط ہے ہی یہ کہ ہر بیوی سے مساوی سلوک کیا جائے۔ قرآن
میں آیا :
’’ اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہوتو جو عورتیں تم کو
پسند آئیں ان میں سے دو دو ‘ تین تین ‘ چار چار سے نکاح کر لو۔ لیکن اگر
تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی
کرو.....‘‘(النسا:3)
بالفاظِ دیگر دو سے زیادہ بیویاں اور چار تک رکھنے کی اجازت عدل کی شرط کے
ساتھ ہے۔ اگر کوئی عدل کی شرط پوری نہ کرسکے تو اس کے لیے تعدّدِ ازواج کی
اجازت ہے ہی نہیں ۔ کوئی معترض یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ چلو اجازت مشروط سہی
لیکن کوئی مرد اس اجازت سے ناجائز فائدہ بھی تو اٹھا سکتا ہے یعنی وہ دوسری
شادی تو شرط قبول کرتے ہوئے کرتاہے لیکن بعد میں شرط پر قائم نہیں رہتا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی شوہر ایسا بھی کرسکتا ہے لیکن اگر وہ ایسا کرے
تو اسلام کی نگاہ میں اسی طرح گناہگار اور مجرم ہے جیسے کہ وہ کوئی اور
گناہ کرے۔ گناہ کے مرتکب کو تو بہر حال روزِ محشر احتساب کی چھلنی سے گزرنا
ہے وہ کسی طور پر اپنے کیے کی سزا سے بچ نہیں سکتا۔ تاہم اسلام ایسے شخص کی
گرفت کو صرف آخرت میں ہی یقینی نہیں بتاتا اس دنیا میں اسلامی حکومت کو حق
حاصل ہے کہ جس بیوی یا جن بیویوں کے ساتھ وہ انصاف کرنے سے قاصر رہا ہو‘ ان
کی داد رسی کرے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو شخص تعدّدِ ازواج کی سہولت
کو غلط استعمال کرسکتاہے‘ وہ تو یک زوجگی کو بھی غلط استعمال کرسکتاہے۔ کیا
دنیا میں ایسے انسانوں کا وجود نہیں کہ جو طلاق پر طلاق دے کر نت نئی
شادیاں کرتے ہیں ؟ تاریخ میں ایسے ایسے یک زوج بھی پائے گئے ہیں کہ جنہوں
نے سوسو تک شادیاں کیں ۔
انسانوں کی دوسری ضرورت جس کے لیے تعدّدِازواج کی سہولت ایک نعمتِ غیر
مترقبہ ثابت ہوسکتی ہے وہ صورت ہے کہ جب بیوی بانجھ ہو ‘ بیمار ہو یا مجذوب
وغیرہ ہو ۔ ایسے میں ایک شخص کو مجبور و محدود رکھنا کہ وہ دوسری شادی نہ
کرے ظاہر ہے اسے ایک بڑے انسانی حق سے محروم رکھنا ہے۔ فطرت کے خلاف لڑنے
کے عادی معاشرے تو شاید اس حق کو غصب ہونے دیں لیکن اﷲ کی دی ہوئی شریعت یہ
برداشت کرے تو کیسے ؟
آخر میں ہم ایک اور اعتراض کا جائزہ لینا بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔ کوئی شریر
اعتراض بھی تو کرسکتا ہے کہ جب شوہر کو چار تک متعدد بیویاں رکھنے کی جازت
ہے تو بیوی کو ایسی اجازت کیوں نہیں کہ وہ متعدد شوہر (POLYANDRY)رکھے؟
بظاہر یہ اعتراض ذہن کو بڑا اپیل کرتا ہے۔ لیکن ذرا گہرائی میں جائیں تو اس
حماقت کا بھید کھل جاتاہے ۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ‘ اسلام کا یہ منفرد پہلو
کہ وہ مرد ہو یا عورت کسی کو وراثت سے محروم نہیں کرتا۔ قرآن میں آیا :
’’ مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو
اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے
چھوڑا ہو ۔ تھوڑا ہو یا بہت حصہ(ہر دوکا ) بہر حال ہے ‘‘ ( النساء :7)۔
لاریب ‘ وراثت کا یہ نظام تبھی روبہ عمل ہوسکتا ہے جب کہ ہر فرد ‘ مرد و
عورت کا نسلی تشخص ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہو یعنی روزِ روشن کی طرح
واضح اور مسلمہ ہو کہ اس کا باپ فلاں ہے اور ماں فلاں ۔ اس میں بھی کیا شک
کہ متعدد شوہروں کی صورت میں یہ نسلی تشخص مشکوک و مبہم ہی نہیں کلیۃً درہم
برہم ہوکر رہ جاتاہے۔ متعدد شوہروں میں سے ہر ایک کی یہ حتمی کوشش ہوتی ہے
کہ جہاں تک ہوسکے اولاد کا بوجھ اس کی بجائے ‘ کسی دوسرے شوہر پر پڑے۔ یہی
نہیں بلکہ ہر شوہر کی کوشش و خواہش ہوگی کہ گھریلو اخراجات اسے کم سے کم
برداشت کرنے پڑیں ۔ شاید یہاں تک نوبت آجائے کہ بیوی کو ان شوہروں کے نرغے
سے نکل کر اور خود کما کر اولاد کا پیٹ پالنا پڑے۔ اسلام تو بیوی اور اولاد
کے نان و نفقہ کا ذمے دار مرد کو قرار دیتاہے لیکن متعدد شوہروں والے گھر
میں صورتِ حال بالکل اس کے برعکس ہوجائے گی۔ زیرِ آسماں شاید ظلم کی اس سے
بڑی انتہاکوئی نہ ہو۔ فطری نظم میں انسانی مداخلت ہوئی تو بد نظمی‘ بے
چینی‘ بے سکونی ‘ بربادی و تباہی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو ا۔
اصل میں کئی معاشروں میں شروع سے متعدد شوہروں کا رواج رہا ہے لیکن بتدریج
گھٹتا گیا اور آج نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ خود اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ
روش اور طریقِ تہذیب و تمدن ہے ہی ناقابلِ عمل۔ بھلا ہو اسلام کا دنیا والے
تو تجربات کرکے اس نتیجے پر پہنچے لیکن اسلام نے اول روز ہی سے اس کی
نشاندہی کردی ۔ کیوں نہ انسانیت ممنونِ احسان ہو اسلا م کی؟
مردو عورت کے حقوق میں عدم مساوات
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا اسلام نے راعی و رعیت ‘ آجرو مزدور ‘ سرمایہ و محنت ‘
یتیم و بیوہ‘ معذور ومحروم ‘ مسافر و قیدی وغیرہ میں سے ہر ایک کے حقوق کی
پاسداری کی ہے ۔ ایسے میں یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ عوت اور مرد میں سے ہر
ایک کے حقوق کا منصفانہ تعین نہ کرتا۔ ان کے مابین انصاف ہی کے تقاضوں کو
پورا کرنے کے لیے تو اسلام کا یہ منفرد کردار ہے کہ اس نے مرد و عورت دونوں
کو وراثت میں حصہ دار بنا دیا ۔ اصل میں سطح بیں لوگوں کو ان کے حقوق کے
بارے میں جو غلط فہمی پیدا ہوئی یا کی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد کی
شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں اور عورت کی شخصیت کے بھی ۔جس طرح مردکی ایک
حیثیت انسان کی ہے اور دوسری باپ ‘ شوہر ‘ بیٹے وغیرہ کی اسی طرح عورت کی
بھی ایک حیثیت انسان کی ہے اور دوسری ماں ‘ بیوی ‘ اور بیٹی وغیرہ کی ۔ اس
میں کوئی شک نہیں کہ بطور انسان باپ اور بیٹے کے حقوق یکساں ہیں لیکن کوئی
بالکل پاگل نہ ہو گیا ہو ورنہ سوچے گا بھی نہیں کہ بطور باپ اور بیٹے کے
حقوق ایک جیسے کردیں ‘ گھر تباہ ہو جائے گا ۔ اسی طرح اس میں کوئی شک نہیں
کہ بطورِ انسان میاں بیوی کی حیثیت میں رتی بھر فرق نہیں ۔ ایسا نہیں کہ
کوئی شوہر نیکی کرے تو اسے دوہرا اجر ملے اور اگر وہی نیکی بیوی کرے تواسے
اکہرا اجر۔ البتہ گھریلو نظام میں جیسے باپ اور بیٹے کے حقوق یکساں نہیں
ہوسکتے‘ میاں بیوی کے حقوق بھی یکساں نہیں ہوسکتے۔ جیسے وہ دفتر ‘ وہ ادارہ
عمل کی دنیا میں چند دن نہیں چل سکتا جس کے یکساں اختیارات کے دو انچارج
ہوں بالکل اسی طرح ایسے گھر کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا جس میں شوہر
اور بیوی یکساں حقوق کے دعوے دار ہوں۔ مغربی دنیا نے ایسا تجربہ کرنے کی
کوشش کی لیکن نتائج جو اس تجربے سے برآمد ہوئے تو یہ کہ وہاں گھر کا وجود
برائے نام ہو کر رہ گیا۔ یاد رہے گھر معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ بالفاظِ
دیگر متعد د گھر مل کر معاشرے کو جنم دیتے ہیں اور متعدد معاشرے ملیں تو
قوم بنتی ہے اور متعدد اقوام باہم ملیں تو انسانیت معرضِ وجود میں آتی ہے ۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اگر گھر یا بنیادی اکائی کا ادارہ درہم برہم
ہوجائے تو انجام کا ر پوری انسانیت کا نظام درہم برہم ہوجاتاہے۔ گھر کی بے
سکونی بالآخر پوری انسانیت کو بے سکون کر دیتی ہے جیسے کہ آج پوری انسانیت
بے سکون ہے۔ وقت کے اس موڑ پر مغربی دنیا کی بالادستی نے اس بے سکونی کے
عمل کو یقینی ہی نہیں تیز تر کردیا ہے ۔
اسلام اسی لیے تو دینِ فطرت ہے کہ وہ ہر چیز کو اپنی فطری جگہ پر رکھتا ہے۔
اسے یہ قطعاً گوارا نہیں کہ کوئی چیز اپنی فطرت سے تجاوز کرے۔ گھریلو نظام
میں شوہر ‘ بیوی ‘ بیٹے اور بیٹیوں وغیرہ کا اپنا اپنا ایک مقام تو بطورِ
انسان ہے۔ اس حیثیت میں اسلام مرد اور عورت ہر دو کو مساوی حقوق دیتاہے۔
گھر میں شوہر ‘ بیوی ‘ بیٹے اور بیٹیوں کی دوسری حیثیت بطور ِ شوہر ‘ بیوی
بیٹیوں اور بیٹوں کی ہے ۔ ان حیثیتوں میں اسلام انہیں مختلف حقوق دیتاہے ‘
ایک جیسے ہرگز نہیں ۔ اصل میں ایسا کرنا گھر کے ادارے کی پیش رفت کے لیے
اَز بس ضروری ہے ۔ ثبوت اس کا یہی ہے کہ اسلامی ممالک میں گھر کا ادارہ آج
بھی کامیابی سے رواں دواں ہے جب کہ گھر یلونظام کی تباہی نے مغربی دنیا کو
کتوں اور بلیوں کی قوم بنا دیا ہے۔
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ غیر اسلامی معاشرے مرد و زن کے حقوق کے بارے میں
ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہے ہیں یعنی کچھ معاشرے تو ایسے ہیں کہ جنہوں
نے مردو عورت کو بطورِ انسان بھی مساوی حقوق نہیں دئیے اور کچھ دوسرے غیر
اسلامی معاشرے اس حد تک آگے چلے گئے کہ ‘ جیسا او پر ذکر ہوا ‘ انہوں نے
مرد وزن کو بطور میاں بیوی بھی مساوی حقوق دئیے ۔ جن معاشروں نے مردو عورت
کو گھریلو نظام میں مساوی حقوق دئیے ان کی گھریلو زندگی کیسے اجیرن ہوئی ‘
اسکا تو اوپر ذکر ہوچکا یعنی گھریلو نظام کا جنازہ ہی نکل گیا۔ گھر سے میاں
بیوی ‘ بچے ویسے ہی راہِ فرار اختیار کرگئے ‘ اور اپنے گھر حوالے کرگئے ‘
کتوں اور بلیوں کے ۔ کسی گھر میں چلے جائیں اس میں انسان تو کم ملیں گے ہاں
حیوان بہت۔ ذیل میں ایک جھلک ان معاشروں کی بھی پیش کی جاتی ہے جنہوں نے
مرد و عورت بطورِ انسان بھی مساوی قرار نہ دیا۔
دل خون کے آنسو روتاہے یہ سپرد قلم کرتے ہوئے کہ دنیا میں ایسے غیر اسلامی
اور غیر فطری معاشرے رہے ہیں ( بلکہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہیں )
کہ جن میں لڑکی کو پیدا ہوتے ہی بوجوہ زندہ درگور کر دیا جاتاہے ۔ ’’ ستی‘‘
کی رسم کہ جس میں زندہ بیوی کو مرنے والے خاوند کے ساتھ شعلوں کی نذر کردیا
جاتاہے‘ کم ہی سہی لیکن کئی معاشروں میں آج تک موجود ہے۔ زیرِ آسماں عورت
کو پر معصیت وحشی گردانا گیا ہے۔ دنیا میں آج بھی جتنی طلاق شدہ عورتیں ہیں
‘ طلاق سے جدا ہونے والوں مردوں کی تعداد اس کا عشر عشیر بھی نہیں ۔ گم
گشتہ معاشروں نے تعدّدِ ازواج کا انکار تو کیا لیکن طلاق کونت نئی شادیاں
کرنے کے لیے بطورِ ہتھیار استعمال کیا۔ امریکہ جیسا ملک تو اس سے بھی ایک
قدم آگے چلاگیا ۔ طلاق لی اور دی ہی اس لیے جاتی ہے کہ پھر شادی کی نوبت ہی
نہ آئے کیونکہ تمام ضروریات جب بغیر شادی کے پوری ہوجاتی ہیں تو پھر شادی
کی بندشیں گوارا کی جائیں تو کیوں؟ کئی ممالک میں تو عورت کو ایک ایسی نقد
آور فصل کی شکل دے دی گئی ہے جس کی بر آمد در آمد ہوتی ہے۔ ڈھونڈ کر اور
تلاش کرکے ایسے نام رکھے جاتے ہیں جیسے کتیوں اور بلیوں کے۔(Marriage East
& West) کا مصنف ایسے معاشروں کی بھی نشاندہی کرتاہے کہ جن میں عورت اور مر
د کے کپڑے اکٹھے پانی میں نہیں ڈالے جاتے ۔ ایک ہی بالٹی میں لے جائے نہیں
جاتے بلکہ ایک ہی تار پر سکھائے نہیں جاتے‘ عورت کے کپڑوں والی تار کو مرد
کے کپڑوں والی تار سے نیچے رکھا جاتاہے۔ آج کی دنیا کے کئی مذاہب عورت کو
گناہ کی دیوی تصور کرتے ہیں ۔ ممنوع ہے کہ کئی مذہبی رسومات شادی شدہ مرد
ادا کریں اس لیے کہ وہ تو عورت سے ملوث ہو کر ناپاک ہوگئے۔ ایسی رسومات کے
لیے غیر شادی شدہ مردوں کو موزوں گردانا ہے۔ پنڈتوں اور راہبوں کی فوج ظفر
موج جو کئی معاشروں میں گھر کر آئی ہے تو آخر اس کی کوئی وجہ تو ہے؟ کئی
معاشروں میں بیوی کو خاوند کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی اجازت نہیں ۔
ظلم کی انتہاہے کہ کئی معاشروں میں بیوہ عورت کو دوبارہ شادی کرنے کی اجازت
نہیں۔ ایسے بھی معاشروں کی کمی نہیں جن میں عورت کو دوبارہ شادی کرنے کی
اجازت نہیں ۔ ایسے بھی معاشرووں کی کمی نہیں جن میں عورت کے لیے پیٹ پالنے
کے لیے کوئی آبرومندانہ راستہ نہیں۔ راستہ کھلا ہے تو ایک اور وہ راستہ ہے
عصمت فروشی کا۔ پھر ایک طرح کی ڈیوٹی کے لیے بھی اسے مرد سے آدھا معاوضہ
دیا جاتاہے ۔ اس بیچاری کو بچوں میں سے ایک بچہ سمجھا جاتاہے ۔ کئی شوہر یہ
کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ میں بچوں کو چھوڑ کر آیا ہوں حالانکہ ان بچوں
میں بیوی بھی شامل ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات تو بیوی ہی بیوی ہوتی ہے بچوں کا
کوئی وجود نہیں ہوتا۔ امریکہ میں چھپی ایک کتاب بعنوان "The Underside of
History"عورت کے مقام و حیثیت کو یوں بیان کرتی ہے۔
Left
Right
Death
Life
Female
Male
Bad
Good
Weak
Strong
Low
High
Night
Day
Profan
Sacred
” الغرض کس قدر بھیانک حیثیت ہے جو مختلف ادوار میں مختلف معاشروں نے عورت
کو دی لیکن شو مئی قسمت ابھی شاید اس بیچاری کے دن مزید گردش میں ہیں ۔ کہ
رہی سہی کسر مغربی دنیا نے آج کے جدید دور میں پوری کردی ہے۔ قدرت نے مرد و
زن کی جسمانی ساخت اور جذباتی پر داخت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے مابین ایک
موزوں تر قدرتی تقسیم کار کررکھی ہے۔ مرد کا دائرہ کار اگر گھر سے باہر ہے
تو عورت کا گھر کے اندر ۔ ایسی تقسیمِ کار کسی مخصوص اعزاز کی وجہ سے نہیں
پیدائشی صلاحیتوں کی وجہ سے ہے۔ مغرب والوں نے اس فطری تقسیم کار کو بالائے
طاق رکھتے ہوئے عورت کو گھر کی سلطنت سے اٹھا کر بیرونِ خانہ مردوں کی طرح
مشقت میں لگا دیا اورستم بالائے ستم یہ کہ اسے ’’ مساوات ‘‘ کا نام دے دیا
۔ عورت بیچاری فیکٹری یا کھیت میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ بچے بھی جنے اور
پالے بھی لیکن مرد کی موج ہی موج ‘ اپنے فرائض کا بوجھ بھی صنف نازک پر ڈال
دیا ۔ یہ کیسی مساوات ہے؟ مساوات کا نام ہی دینا تھا تو پھر چاہیے تو یہ
تھا کہ مرد بھی اپنی ازلی تقسیمِ کار یعنی کمانے کے ساتھ ساتھ بچے جنتا بھی
اور پالتا بھی ۔ عورت کی تقسیمِ کار کو بدلا تو وہ پھر بھی ‘ کسی طور ہی
سہی‘ نباہ کر رہی ہے‘ مرد کے فرائض کو بدل کر دیکھیں‘ منہ کی کھائے گا‘
ناکام و نامراد ہوگا۔
دنیا کی آدھی آبادی سے زیادہ پر مشتمل اور افراط و تفریط کی شکار عورت کو
اسلام قعرِ مذلت سے اٹھا کر بطورِ انسان مرد کے برابر لاتا ہے۔ قرآن مجید
میں ارشاد ہے کہ:
’’ جواب میں ان کے رب نے فرمایا ! میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا
نہیں ہوں ‘ خواہ مردہو یا عورت تم سب ایک دوسرے سے ہو ( ایک سطح پر ہو)‘‘ (
آل عمران :195)‘‘
مرد ہو یا عورت ہر دو کو وراثت میں حصہ دار بنا دیا ۔ فرمایا :
’’ مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو
اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے
چھوڑا ہو۔ تھوڑا ہو یا بہت حصہ ( ہر دو) کا مقرر ہے‘‘ (النساء :7)۔
مردوعورت کو مساوی قرار دیا تو اس حد تک جیسے کہ ایک گاڑی کے دو پہیے ‘
لازم و ملزوم۔ فرمایا :
’’وہ ( عورتیں ) تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے‘‘ (البقرہ:87)۔
یہ تو ہے مرد وعورت کی وہ حیثیت جو اسلام ان دونوں کو بطورِ انسان دیتاہے
لیکن گھر کے ادارے کو چلانے کے لیے چونکہ ضروری تھا کہ دونوں میں سے ایک کو
گھر کا سربراہ و نگران بنا دیا جاتالہٰذا دو متبادل راستے تھے ایک یہ کہ
گھر کی سربراہی و نگرانی کا یہ منصب عورت کو دے دیا جاتا اور دوسرا راستہ
یہ تھا کہ منصب مرد کو دیا جاتا۔ اسلام نے یہ منصب مرد کو تفویض فرمایا تو
اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ یہ ہے کہ مرد جسمانی طور
پر عورت سے قوی ہے ۔ اگر جسمانی طور پر کمزور کو قوی کا نگران بنا دیا جائے
توآج بھی کوئی یہ تجربہ کرکے دیکھ لے‘ بیل کبھی منڈھے ہی نہ چڑھے۔ یہ منصب
دیا تو بوجوہ مرد کو لیکن مرد کو یہ اعزاز مفت میں نہ دیا گیا بلکہ دینِ
فطرت نے شوہر و بیوی کے درمیان توازن اس طرح کیا کہ مرد کو عورت اور بچوں
کے نان و نفقہ کا ذمے دار ٹھہرایا ۔ صورتِ حال متوازن کی تو اس حد تک کہ
شوہر اگر کسی وجہ سے عورت کو طلاق بھی دے دے تو مطلقہ بیوی کے جملہ اخراجات
ایک وقت تک سابقہ شوہر نے برداشت کرنے ہوتے ہیں ۔
پھر یہی نہیں بلکہ گھریلو نظام میں توماں کا درجہ باپ سے بڑھا ہوا قرار دیا
۔ گھریلو نظام میں تین فریق ہوتے ہیں‘ ماں ‘ باپ اور بچے۔ اس انتظامی یونٹ
میں بغرض انتظامی امور مرد کو جیسے قوام یعنی نگران و مددگار ٹھہرایا گیا ‘
اولاد کو بھی پابند کیاگیا کہ وہ والدین کا احترام بھی کریں اور خدمت بھی ۔
خدمت کے لحاظ سے ماں کو باپ پر ترجیح دی گئی ۔ چنانچہ سورۂ لقمان میں اﷲ
تعالیٰ نے جہاں والدین کی شکر گزاری کا تاکیدی حکم دیا وہاں فوراً بعد یہ
فرمایا ’’ اس کی ماں نے اس کو تکلیف پر تکلیف جھیل کر نو مہینے تک اپنے شکم
میں اٹھایا‘ پھر دو سال تک اپنے خون سے اس کو پالا ‘‘ ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک
حدیث میں یوں آیا :
’’ ایک آدمی نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ اے اﷲ کے رسولﷺ میرے حسنِ سلوک کا سب
زیادہ مستحق کون ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا ’’ تیری ماں‘‘۔ اس نے کہا پھر کون؟
فرمایا ’’ تیری ماں ‘‘ ۔ اس نے کہا پھر کون؟ فرمایا ’’تیری ماں‘‘۔ اس نے
کہاپھر کون ؟ تو آپﷺ نے فرمایا ’’پھر تیرا باپ ‘‘ پھر درجہ بدرجہ جو تیرے
قریبی لوگ ہیں ‘‘ (بخاری ‘مسلم)۔
ایک مسلمان کے لیے دنیا و آخرت میں جنت ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کے حصول کو
ربِّ کائنات ’’ بڑی کامیابی ‘‘ قرار دیتاہے۔ایک طرف یہ بہت بڑی نعمت اور
بہت بڑی کامیابی ہے اور دوسری طرف رسول ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ یہ ’’ جنت
تمہاری ماؤں کے پاؤں تلے ہے‘‘ ۔
یہ ایک مختصر سا خاکہ ہے اس حیثیت و مقام کا جو اسلام عورت کو بطورِ انسان
‘ بطور بیوی اور بطورِ ماں دیتاہے۔ مردو عورت کی ان مختلف حیثیتوں اور ذمہ
داریوں کو الٹ کر دیکھیں‘ منفی نتائج فوراً سامنے آئیں گے۔ کئی نادان
معاشرے ایسے تجربات کربھی چکے ۔ پچھتاوا ہی ان کا مقدر ٹھہرا ‘ تو پھر کیوں
نہ انسانیت ممنون ہو اسلام کی۔
اسلامی سزاؤں کا سخت ہونا
جرائم پر دی جانے والی سزاؤں کو بھی اسلام کے مخالفین نے اکثر و بیشتر اپنے
دلائل کا موضوع بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی سزائیں:
٭ ایک تو بڑی ظالمانہ بلکہ وحشیانہ ہیں اور
٭ دوسرے یہ کہ یہ ساتویں صدی کے وحشی ‘ بدوی اور غیر مہذب قبائل کے لیے وضع
کی گئی تھیں لہٰذا آج کی مہذب دنیا میں ان کی کوئی جگہ نہیں ۔
بیشتر اس کے کہ ہم ان سزاؤں کے محاسن و قبائح کی طرف آئیں یہ جان لینا اَز
بس ضروری ہے کہ اسلامی سزائیں واقعی بہت کڑی ہیں۔ مثال کے طور پر زنا کی
سزا یہ ہے کہ :
’’ زانیہ عورت اور زانی مرد‘ دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان
پر ترس کھانے کا جذبہ اﷲ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم
اﷲ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزادیتے وقت اہلِ
ایمان کا ایک گروہ موجود رہے‘‘ (النور :2)۔
پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے کی سزایہ ہے:
’’ اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں ‘ پھر چار گواہ لے کر نہ
آئیں ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی
فاسق ہیں ‘ سوائے ان لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہوجائیں اور اصلاح
کرلیں ۔ اﷲ غفور ورحیم ہے‘‘ ( النور : 5)۔
چور کی سزا یہ ہے:
’’ اور چور ‘ خواہ عورت ہو یا مرد ‘ دونوں کے ہاتھ کاٹ دو‘ یہ ان کی کمائی
کا بدلہ ہے اور اﷲ کی طرف سے عبرت ناک سزا ۔ اﷲ کی قدرت سب پر غالب ہے اور
وہ دانا و بیناہے‘‘ ( المائدہ:38)۔
انسانی اعضاء ضائع کرنے کی سزا :
’’ توراۃ میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان ‘
آنکھ کے بدلے آنکھ‘ ناک کے بدلے ناک‘ کان کے بدلے کان ‘دانت کے بدلے دانت
اور تمام زخمیوں کے لیے برابر کا بدلہ ۔ پھر جو قصاص کا بدلہ صدقہ کردے تو
وہ اس کے لیے کفارہ ہے ۔ اور جو لوگ اﷲ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ
نہ کریں وہ ظالم ہیں ‘‘ (المائدہ :45)۔
قتل کی سزا یہ ہے:
’’ اور کسی مومن کے لیے روا نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے مگر یہ کہ غلطی
سے ایسا ہوجائے۔ اور جو کوئی کسی مومن کو غلطی سے قتل کردے تو اس کے ذمہ
ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا اور خون بہا ہے جو اس کے وارثوں کو دیا جائے
اِلا یہ کہ وہ معاف کردیں۔ پس اگرمقتول تمہاری دشمن قوم کا فرد ہو لیکن وہ
بذاتِ خود مسلمان ہو تو ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہے۔ اور اگر وہ کسی
ایسی قوم کا فرد ہے جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے تو خوں بہا بھی ہے جو اس
کے وارثوں کو دیا جائے گا اورایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی ۔ جس کو یہ
استطاعت نہ ہو تووہ لگاتار دو مہینے کے روزے رکھے۔ یہ اﷲ کی طرف سے اس گناہ
پر توبہ کرنے کا طریقہ ہے۔ اﷲ علیم و حلیم ہے۔ اور جوکوئی کسی مسلمان کو
عمداً قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر خدا
کا غضب اوراس کی لعنت ہے اور اﷲ نے اسکے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے‘‘ (
النساء : 93-92)۔
اسلامی نظامِ حکومت کو درہم برہم کرنے کی سزا :
’’ جو لوگ اﷲ اور رسول کے ساتھ لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ ودو کرتے
پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں یا سولی پر
چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں میں کاٹے جائیں یا وہ جلا
وطن کردئیے جائیں۔ یہ ذلت و رسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں
ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے۔ مگر جو لوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر
قابو پاؤ ۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے
والا ہے‘‘ ( المائدہ :34-34)۔
روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ سزائیں جن کا اوپر ذکر ہوا سخت بھی ہیں اور
شدید بھی لیکن سخت و کڑی ہونے کے علاوہ ان کے درج ذیل تین اوصاف بھی ہیں جن
کو اگر نظر انداز کردیا جائے تواسلامی سزاؤں کی نوعیت کو سمجھا نہیں
جاسکتا۔
۱۔یہ سزائیں آخری چارۂ کار ہیں۔
۲۔یہ سزائیں جرائم کے راستے میں بھاری پتھر ہیں (DETERRENT) ہیں ۔
۳۔یہ سزائیں اصلاحی (REFORMATIVE) ہیں ۔
ضرورت ہے کہ اسلامی سزاؤں کے ان تین پہلوؤں کو ذرا تفصیل سے زیر بحث لایا
جائے۔
سزائیں بطورِ آخری چارۂ کار :
ایسا نہیں ہے کہ اسلام متلاشی رہتاہو کہ کوئی مجرم ہاتھ لگے تاکہ اسے سزا
دی جائے ۔ اس کے برعکس اسلام کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتا اس کوشش میں
کہ کوئی جرم کرنے ہی نہ پائے۔ رسول اﷲﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ جس کھیت میں
تم چاہتے ہو کہ کوئی چرنے والا مویشی منہ نہ مارے اسے اس کھیت کے نزدیک
چرنے ہی نہ دو تاکہ اسے منہ مارنے کا موقع ہی نہ ملے۔ مثال کے طور پر فعل
زنا کو روکنے کے لیے اسلام جو اَن گنت رکاوٹیں اور مشکلات اس رجحان کے
راستے میں حائل کرتاہے کہ جو بالآخر اس فعل پر منتج ہوتی ہیں ان پر ایک
طائرانہ نظر دوڑائیں :
٭ بدکاری کے راستے میں سب سے بڑی چٹان جو اسلام رکھتا ہے وہ آخرت میں جواب
دہی کا تصور ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ‘ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ‘ ہر
فرد کا ہر فعل ‘ چھوٹا یا بڑا ریکارڈ کیا جارہا ہے ۔ جب کوئی شخص فوت
ہوتاہے تو اسکا یہ ریکارڈ محفوظ کرلیا جاتاہے ۔ قیامت کو ہر فرد کا ریکارڈ
اس کے سامنے رکھا جائے گا اور اسے کہا جائے گا کہ آج تو اپنا محتسب خود ہی
ہو۔ نتیجہ کے طور پر کسی بھی فرد کا کوئی بھی عمل اچھا ہو یا برا دنیا کی
کسی عدالت کے نوٹس میں نہ آئے تو نہ آئے‘ قیامت کے دن جزا و سزا کی چھلنی
سے ضرور گزرے گا۔ جزا کی صورت میں صاحبِ عمل کو جنت میں داخلہ ملے گا اور
سزا کی صورت میں دوزخ میں ۔
٭ خوفِ خدا اور آخرت کی اس ’ ’ بڑی روک ‘‘ کے علاوہ جو بطور پولیس چوکی ہر
مسلمان کے دل میں ہر وقت جاگزیں رہتی ہے اسلام بیرونی رکاوٹیں بھی کھڑی
کرتاہے۔ یہ رکاوٹیں مزید دو طرح کی ہیں ۔ ایک پہلو تو مثبت رکاوٹوں کا ہے
یعنی اسلام ہر فرد کو شادی کی ترغیب دیتاہے اور مجرد رہنے کو پسند نہیں
کرتا اور دوسری رکاوٹیں اپنے اندر منفی پہلو رکھتی ہیں یعنی وہ گناہ کے
راستے کا پتھر بنتی ہیں ۔ جہاں تک شادی کرنے کی ترغیبات کا تعلق ہے ان میں
چند درج ذیل ہیں۔
غیر شادی شدہ رہنا اسلامی تعلیمات کے مطابق احسن نہیں گردانا گیا ۔ قرآن و
سنت میں شادی کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ رسول اﷲﷺکا ارشادِ مبارک تو یہاں تک
ہے کہ جو کوئی شادی کرتاہے ‘ آدھا دین مکمل کرلیتاہے۔
رہبانیت اور تجرد کی کوئی گنجائش نہیں ۔
بیوہ کو دوبارہ شادی کی کھلی اجازت دی گئی ہے۔
اگر کوئی جو ڑا ایک دوسرے سے نالاں ہوجائے تو طلاق کی اجازت دی گئی ہے۔
طلاق کا حق شوہر اور بیوی میں سے کوئی بھی استعمال کرسکتاہے۔
جلد شادی کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ان باپوں کو آخرت میں انعامات سے
نوازاجائے گا جو اپنی بیٹیوں کی شادی بلوغت ہوتے ہی کردیں ۔
جائز ازدواجی تعلقات کو عبادت گردانا گیا ہے۔
بیرونی رکاوٹوں کی دوسری قسم وہ ہے جس میں مردو ں اور عورتوں کے عمومی
اختلاط کی ممانعت کی گئی ہے۔ ایسی چند بندشیں درج ذیل ہیں :
بدکار ی اور زنا کے لیے سخت ترین سزا مقرر کی گئی ہے ۔
عورت کے دائرہ کار کو زیادہ تر گھر کی چاردیواری کے اندر محدود کردیا گیا
ہے۔ کبھی کبھار اگر اسے گھر سے باہر جانے کی ضرورت ہو تو اسے شائستگی کا
دامن تھامنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ لازم قرار دیا ہے کہ وہ ہاتھ پاؤں اور
منہ کے کچھ حصوں کے علاوہ پورے جسم کو ڈھیلی ڈھالی چادرسے ڈھانپ کر رکھے۔
کسی قسم کی زینت کی نمائش نہ کرے۔ زیورات پہنے تو ایسے کہ جن کی کوئی
جھنکار وغیرہ نہ ہو۔ کسی سے بات کرے تو مضبوط طورپر نہ کہ لچکدارلہجے میں
کرے۔
محرم اور غیر محرم رشتوں کی باقاعدہ تقسیم و تخصیص کی گئی ہے۔ محرم رشتے وہ
ہیں کہ جن کے ساتھ کسی عورت کی شادی ممنوع ہے جیسے باپ‘ بھائی ‘ بیٹا وغیرہ
۔ تمام وہ رشتے جن کے ساتھ شادی کی اجازت دی گئی ہے نامحرم کی فہرست میں
آتے ہیں ۔
ایسی محفلوں ‘ مجلسوں اور نشستوں میں عورت شامل نہیں ہوسکتی جو نامحرموں پر
یا نا محرموں اور محرموں دونوں پر مشتمل ہوں ۔
ہدایات دی گئی ہیں کہ عورتیں اور مرد جب آمنے سامنے گزریں تو نظریں نیچی
رکھیں ۔ شہوت بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنا گناہ ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کا
فرمانا تو یہاں تک ہے کہ غیر محرم مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے کو دیکھنا
آنکھوں کا زنا ہے( پہلی سرسری نظر پڑ جائے تو البتہ معاف ہے) پھر گفتگو
زبان کا زنا ہے۔ بے ہودہ اور شہوت بھری سماعت کانوں کا زناہے۔ غیر محرم کو
چھونا اور اس کی طرف عیاشانہ پیش رفت ہاتھوں اور پاؤں کا زناہے۔
اسلام گھریلو خلوت اور رازی داری (PRIVACY) پر بہت زور دیتاہے ۔ بغیر اجازت
کسی دوسرے کے گھر داخل ہونے کی اور گھر کے اندر جھانکنے کی قطعاً ممانعت
ہے۔ کسی دوسرے کے گھر میں داخلے کے لیے تین دفعہ اجازت مانگنے کے باجود اگر
جواب نہ ملے اور اگر ملے تو معذرت کا تو پھر واپس جانا ہوتاہے۔ اجازت لیتے
وقت کسی دروازے کے سامنے کھڑے ہونے کی ممانعت ہے۔ اپنے ہی گھر کے نابالغوں
کو منع کیا گیا ہے کہ وہ تین اوقات یعنی صبح کی نماز سے پہلے ‘ گرمیوں میں
دوپہر کے وقت جب زیادہ تر کپڑے اتارے ہوتے ہیں اور عشاء کی نماز کے بعد
بالغوں کے کمروں میں نہ جائیں ۔ دوسروں کے خطوط ان کی اجازت کے بغیر پڑھنا
ممنوع ہے۔ صرف دوسروں کے ہی نہیں بغیر اجازت کے ماں اور بہن کے گھر میں
داخل ہونے کی اجازت نہیں ۔
اسلام جب نامحرموں کو مخلوط مجلسوں اور روبرو گفتگو کرنے کی ممانعت کرتاہے
تو ظاہر ہے مخلوط تعلیم ‘ مخلوط کاروبار ‘ مخلوط اور مشترکہ رہائش وغیرہ کا
قطعاً کوئی سوال نہیں ۔ ان تمام بندشوں کے علاوہ اسلام لازم قرار دیتاہے کہ
مسلم معاشروں کا عمومی اور مجموعی ماحول خدا ترسی ‘ بھائی چارے اور خیر
خواہی کا مظہر ہو۔ جنسی افواہوں ‘ فحش گانوں ‘ لچر تصویروں ‘ ناچ وغیرہ کی
کوئی گنجائش نہیں ۔ تہمتیں داغنا تو اس قدر گناہ گردانا گیا کہ تقریباً
تقریباً جیسے بدکاری و زنا ۔ اندازہ لگائیں اس ماحول کا کہ جس میں بعض
حالتوں میں آنکھوں دیکھے زنا کاروں کا بھی اس وقت تک انکشاف نہیں کیا جائے
گا جب تک کہ چار گواہ نہ ہوں ۔
رکاوٹوں ‘ مزاحمتوں اور بندشوں کا یہ بھرپور بندوبست صرف ایک جرم یعنی زنا‘
کو روکنے کے لیے کیا گیا ۔ دوسرے بڑے بڑے جرائم کی راہ میں بھی اسی طرح کی
بندشوں کا ایک لمبا چوڑا سلسلہ قرآن و سنت نے حائل کررکھا ہے۔ ظاہر ہے ان
بھرپور رکاوٹوں اور بچاؤ کی ترغیبوں کے علی الرغم اگر پھر بھی کوئی جرم کا
ارتکاب کرتاہے تو وہ تو ایسا گلا سڑا پھل ہے کہ جس کا درخت پر رہنا تندرست
پھلوں کے ساتھ انتہائی ظلم و زیادتی ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے گلے سڑے پھل کو
صرف درخت سے علیحدہ ہی نہ کیا جائے بلکہ اسے اس طور مروڑا ‘ کچلا اور زیرِ
زمین دفن کردیا جائے کہ اس کی ہوا تک تندرست پھلوں کو نہ لگے۔ اسی طرح ایک
ایسا فرد جو ان تمام رکاوٹوں اور ترغیبات کے باوجود گناہ کا ارتکاب کرتاہے
بظاہر تو چلتا پھرتا انسان ہوتاہے حقیقتاً ایک ایسی لاش ہوتاہے جس کی
انسانیت طبعی موت سے بہت پہلے مرچکی ہوتی ہے ۔ ایسی لاش کو زندہ انسانوں کے
درمیان رہنے دینا معاشرے اور انسانیت پر ظلم ہے ۔دینِ فطرت ایسے ظلم کی
کیسے اجازت دیتا؟
اسلامی سزاؤں کا مزاحمتی پہلو :
اس میں کسی کو کوئی کلام نہ ہوگا کہ ایٹم بم ایک انتہائی بھیانک ‘ مہلک اور
تباہ کن ہتھیار ہے لیکن اس میں کیا شک ہے کہ اس دنیا میں اس کا موجودہونا
عالمی جنگ کے راستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ (DETERRENT) ہے۔ اسی طرح اسلامی
سزاؤں کا بظاہر سخت اور کڑا ہونا تو ایک مسلمہ امر ہے لیکن اس میں بھی کوئی
شک نہیں کہ ان کا یہی بظاہر سخت اور بھیانک ہونا جرائم کے راستے کا بھاری
پتھر ہونا ہے۔ جرم کرنے والے کو سوبار سوچنا پڑتا ہے کہ کیا وہ ان سزاؤں کا
متحمل ہوسکتاہے؟ ان سزاؤں کے کڑا ہونے کی افادیت تو اب تجربے سے بھی عیاں
ہے۔ ایسے ممالک میں خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں ‘ جہاں اسلامی سزائیں
نافذ نہیں جرائم کا تناسب سعودی عرب سے کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ اس ملک میں
اسلامی سزائیں عملاً نافذ ہیں ۔ کسی بھی نظام کی خوبی تو یہی ہوسکتی ہے کہ
جرائم کی وجہ سے وہاں انسانی جانوں کا ضیاع کم سے کم ہو۔ سعودی عرب میں ان
جانوں کا ضیاع جو جرائم کی وجہ سے ہوتی ہیں یا جرائم کی سزا کے طور پر وارد
کی جاتی ہیں کی تعداد امریکہ میں انہی مدات میں ضائع ہونے والی جانوں کا
عشرِ عشیر بھی نہیں ۔ بتائیے ظالمانہ و وحشیانہ سزاؤں کا نظام امریکہ میں
ہوا یا سعودی عرب میں ؟ کس قدر ضرورت ہے انسانیت کو اسلام اور اسلامی سزاؤں
کے نفاذ کی؟
اسلامی سزاؤں کا اصلاحی اور تطہیری پہلو :
گلے سڑے انسان کو ٹھکانے تو لگانا ہی ہوتاہے لیکن اسلام کی یہ عظمت و اعزاز
دیکھئے کہ وہ اس ضائع کی جانے والی انسانی جان سے بھی فائدہ اٹھانا لازمی
سمجھتا ہے۔ اسلام اس مقصد کو کئی پہلو ؤں سے حاصل کرتاہے جن میں سے کم از
کم تین کا ذکر ہم ذیل میں کرتے ہیں :
۱۔ اسلام ایسا نہیں کرتا کہ مجرم کو رات کے اندھیرے اور کسی کال کوٹھہری
میں سزادے دے ۔ بلکہ اکثر و بیشتر وہ لازم قرار دیتاہے کہ مجرم کو کھلے عام
سزادی جائے اور سزا دیتے وقت عوام کا ایک جمِ غفیر موجود ہوتاکہ دنیا کے
انسان بہ چشمِ سر دیکھ لیں کہ جرم کرنا کتنا مہنگا پڑتا ہے۔ اسلام کا یہ
کہنا کہ سزا دیتے وقت سزا دینے والوں کے دل میں مجرم کے لیے کوئی نرم گوشہ
پیدا نہیں ہونا چاہیے اسی لیے ہے کہ درسِ عبرت حاصل ہو تو مکمل اور حتمی ۔
ہاتھ پاؤں کا کاٹنا بھی اسی لیے ہے کہ ہاتھ پاؤں کٹا جدھر سے بھی گزرے تو
ساتھ ساتھ یہ اشتہار بھی لیے پھرے کہ چوری کرنے کا انجام کیا ہوتاہے ؟
۲۔ ہاتھ کٹوائے جانے والے شخص کے لیے ہاتھ کے کٹنے سے لازم نہیں آتا کہ اس
کے نفس کی اصلاح بھی ہوگئی ہو۔ لہٰذا اسلام کی رو سے ہاتھ پاؤں کا کفارہ دے
دینے والوں سے بھی آخرت میں جرم کے بارے میں مزید باز پرس ہوگی ۔ ایسی باز
پرس سے چھٹکارا ممکن ہے بشرطیکہ جرم اس دنیا کی سزا پانے کے ساتھ ساتھ تو
بہ بھی کرے اور سچی توبہ کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کی اس قدر اصلاح ہوچکی
ہو کہ باقی عمر میں پھر کبھی اس سے وہ جرم صادر نہ ہو۔ یہی مطلب ہے یہ کہنے
کا کہ ’’ مجرموں کی شہادت قبول نہ کرو سوائے ان لوگوں کے کہ جو (مجرمانہ )
حرکت کے بعد تائب ہوجائیں اور اپنی اصلاح کرلیں‘‘۔
اسلام مجرموں کو مایوس نہیں کرتا کہ وہ اپنے اندر یہ احساس کیے ہوئے رہیں
کہ اب وہ سوسائٹی میں ہمیشہ کے لیے عضو ِ فاسدہیں ۔ وہ سزا پانے والوں اور
تائب ہوجانے والوں کو معافی کی بشارت دیتاہے۔ یہ ایسی ہی بشارت کے حصول کا
مظہر تھا کہ زیرِ آسمان کئی مجرم جو انسانی نگاہ سے بچ گئے ‘ سزا پانے کے
لیے خود حاضر ہوتے ہیں ۔ بہت سی آیات جن میں اسلامی قوانین کی سزا بیان
ہوئی ہے اسی وجہ سے ایسے الفاظ سے ختم کی گئی ہیں ۔جیسے ’’ اﷲ غفور و رحیم
ہے‘‘ ’’ اﷲ دانا و بینا ہے‘‘ وغیرہ ہے ۔ ایک جگہ پر تو ایسے الفاظ آئے کہ
’’جو لوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ……تمہیں معلوم ہونا
چاہیے کہ اﷲ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔‘‘
مذکورہ بالا ہدایات سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام مجرموں کو محض
سزا دینے کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ اسے سزا دینے سے بھی زیادہ معاشرے سے
مجرمانہ ذہنیت ختم کرنے کی فکر دامن گیر ہے۔ بالفاظِ دیگر اسلامی سزاؤں کا
اصل ہدف معاشرے کی اصلاح و تطہیر ہے۔ کیا انسانیت کو اصلاح و تطہیر کی
ضرورت نہیں؟
اسلامی جہاد ( مسلح جدو جہد ) کیوں ؟
جیسا کہ ذکر ہوچکا اسلام ہے ہی ایسے احکام اور اوامر و نواہی پر مشتمل کہ
جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے ضامن ہیں ۔ اس بارے میں اگر کسی کے ذہن میں
کوئی الجھن ہو تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ اسلام میں کوئی نقص ہے بلکہ اس لیے
ہی ہوگی کہ وہ خود بھولے پن اور نادانی میں اسلام کی حقانیت کو سمجھنے میں
قاصر رہا ہے ۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ اسلام ایک ایسا ضابطۂ حیات ہے کہ جو پوری
انسانیت کے لیے بھلائی اور خیر خواہی کا ضامن ہے۔اسلام کا ایسے ہونا اس لیے
لازمی امر ہے کہ دین انسانوں کا بنایا ہواہے نہیں بلکہ انسانوں کے خالق کا
بنایا ہواہے ۔ بندے اگر ضابطۂ حیات بناتے تو وہ ضرور طبقاتی ‘ گروہی ‘ نسلی
اور علاقائی مصلحتوں کو مدِ نظر رکھ کر بناتے جیسا کہ پوری انسانی تاریخ
میں بنائے جاتے رہے ہیں اور آج بھی بنائے جارہے ہیں ۔ ظاہر ہے جو ضابطۂ
حیات علاقائی یا طبقاتی ہوگا ‘ انسانیت کے لیے کس طرح قابلِ عمل ہوسکتا ہے؟
اسلامی ضابطۂ حیات کا اعزاز ہی یہ ہے کہ وہ اس خالق و مالک و حاکم کا بنا
ہوا ہے جو ربِ کائنات ہے‘ جو غیر جانبدار ہے‘ جو کسی جرمن کا رب ہے تو کسی
مصری کا رب بھی ‘ جو کالے کا رب ہے تو گورے کا بھی ‘ جو مرد کا رب ہے تو
عورت کارب بھی ‘ جو اس وقت بھی موجود تھا جبکہ انسان نے اس دنیا میں قدم
رکھا‘ آج بھی موجود ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موجود رہے گا ۔ یہی نہیں
بلکہ ایک فیکٹری والے کو جیسے حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی فیکٹری کے پروڈکٹ کو
استعمال میں لانے کی ہدایات دے ‘ اسی طرح اﷲ تعالیٰ کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ
وہ انسان کے لیے ضابطہ ٔ حیات وضع کرے اس لیے کہ انسان فطرت کی فیکٹری کا
ہی تو پروڈکٹ ہے۔
ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام پوری انسانیت کے لیے ضابطۂ حیات ہے تو
اسے اس انسان کا بھی ضابطۂ حیات ہونا چاہیے جو اس دنیا میں پہلے پہل ہوا
تھا ‘ ان انسانوں کے لیے بھی جو آج اس دھرتی پر موجود ہیں اور ان انسانوں
کے لیے بھی جو تا قیامت اس دنیا میں پیدا ہوتے رہیں گے۔ کیا ہی مطابقت ہے
کہ واقعات کی دنیا میں ایسا ہی ہے! اس دنیا میں پیدا ہونے والا پہلا شخص
……حضرت آدمؑ خود نبی تھا۔ بذریعہ وحی اس کا براہ ِ راست رابطہ اﷲ تعالیٰ کے
ساتھ تھا۔ جتنے انبیاء ؑو رسل ؑاس دنیا میں وقتاً فوقتاً آتے رہے ‘ وہ ایک
ہی سرچشمے سے منسلک تھے ‘ ایک ہی ضابطۂ حیات یعنی اسلام کے علمبردار تھے
اور بالآخر انہیں ایک ہی خدا یعنی اﷲ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہونا ہے۔ مختلف
ادوار میں کچھ امتیں اپنی نسبت اور تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے اس ’’ ایک
ضابطۂ حیات ‘‘ کو یہودیت ‘ عیسائیت وغیرہ کے سے نام دیتی رہیں ورنہ ازل سے
ابد تک اس ضابطہ ٔ حیات کا نام اسلام ہی ہے اور جو اس ضابطۂ حیات کو اختیار
کرے اسے ہمیشہ مسلمان یعنی اﷲ تعالیٰ کے مطیع فرمان کا نام دیا گیا ہے۔
قرآن میں آیا :
’’ اﷲ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان
لوگوں نے اختیار کیے جنہیں کتاب دی گئی تھی‘ ان کے اس طرزِ عمل کی وجہ ا س
کے سوا کچھ نہ تھی کہ انہوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر
زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اﷲ کے احکام و ہدایات سے انکار
کردے ‘ اﷲ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی‘‘ ( آلِ عمران:19)۔
پھر چونکہ یہ تمام انبیاء ؑ ایک ہی ہستی کے نمائندے اور ایک ہی سرچشمے کے
ترجمان تھے لہٰذا فرمایا گیا کہ وہ ایک ہی برادری کے لوگ تھے لہٰذا ان میں
اور ان کتابوں میں جو وہ لائے کوئی فرق نہ کیا جائے بلکہ ان تمام پر ایمان
لانا اسی طرح ضروری ہے جیسے کہ اس نبی ؑ پر جو وقت کا نبی ؑہو‘ قرآن میں
آیا :
’’ مسلمانو! کہو کہ ہم ایمان لائے اﷲ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل
ہوئی ہے اور جو ابراہیم ؑ، اسماعیلؑ،اسحاق،ؑ یعقوبؑ کی طرف نازل ہوئی تھی
اور جو موسیٰؑ اور عیسیٰ ؑ اور دوسرے تمام پیغمبروںؑ کو ان کے رب کی طرف سے
دی گئی تھی۔ ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اﷲ کے مسلم ہیں
‘‘ ( البقرہ:136)۔
نامِ مسلم کے متعلق بھی فرمایا :
’’ اﷲ تعالیٰ نے پہلے بھی تمہارا نام ’’ مسلم ‘‘ رکھا تھا اور اس ( قرآن )
میں بھی ‘‘ (الحج:78)۔
جب اسلام پوری انسانیت کا ازل سے ابد تک دین ہے تو ایک اور سوال کا ذہن میں
آنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ پھر اس کی تعلیمات و ہدایات وقت کے کسی بھی موڑ
پر ان تمام انسانوں تک پہنچنی چاہئیں جو کہ اس وقت موجود ہوں تاکہ وہ ان
تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی اس دنیا کی فلاح اورآخرت میں نجات کا
بندوبست کرسکیں ۔ واقعات کی دنیا میں ایسا ہی ہے اور پوری انسانی تاریخ میں
یہ جو انبیاء ؑ و رسلؑ آ تے رہے تو اسی وجہ سے کہ وہ اﷲ کے دین کو اس دھرتی
کے مکینو ں تک پہنچاتے رہے۔ پھر چونکہ یہ پہنچانے کا کام اتنا اہم تھا کہ
لوگوں کی نجات کا دارومدار اسی پر تھا کہ وہ ان تعلیمات پر عمل کریں لہٰذا
اس پہنچانے یا رسالت کے کام کو انبیاء ؑ و رسل ؑ کو بطورِ چیلنج دیا گیا ۔
یہ رسالت کا کام آج تک بلکہ تاقیامت جاری رہے گا کیونکہ ہر موجودہ اور آنے
والے انسان کی یہ اسی طرح ضرورت ہے جیسے کہ اس انسان کی تھی کہ جو اس دنیا
سے رخصت ہوگیا ۔ البتہ اس پہنچانے کے کام میں اس قدر فرق ضرور پڑگیا کہ
سلسلہ ٔ نبوت ختم کرکے یہ کام اﷲ تعالیٰ نے آخری امت یعنی امت ِ مسلمہ کے
سپرد کردیا ۔ بالفاظ دیگر امتِ مسلمہ اب نہ صرف یہ کہ قرآن و سنت کی
تعلیمات کی حامل و محافظ (CUSTODIAN) بلکہ یہ رسالت کا کام کرنے کی ذمہ دار
بھی ہے۔ اصل میں وہ آسمانی ہدایات جو پہلے جزوی طور پر (PIECEMEAL) آتی
تھیں‘ قرآن کی شکل میں حتمی اور مکمل کردی گئیں لہٰذا ایسا ہونے کا لازمی
نتیجہ تھا کہ انبیاء ؑ و رسلؑ کی بعثت کا سلسلہ بھی ختم کردیا جاتا۔
اب مسلمانوں کو یہ پہنچانے کا کام اس لیے کرنا ہے کہ یہ ان کا فرض منصبی ہے
اور ظاہر ہے کہ ان کی نجات تبھی ممکن ہے کہ وہ اس اہم ترین فرض کو بطریقۂ
احسن ادا کریں ۔ دوسروں تک ان تعلیمات کا پہنچنا اس لیے ضروری ہے کہ ان کی
نجات کا دارومدار انہی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہے۔ ایک پتے کی بات‘ یہ
پہنچانے کا کام تبھی ہوسکتاہے کہ اسلام اور اسلام والے دنیا میں بطور غالب
قوت موجودہوں ۔ بصورتِ دیگر ان پہنچانے والوں سے بڑھ کر اگر کوئی اور طاقت
موجود ہوگی تو وہ یہ کام کرنے ہی نہ دے گی ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ فرض
کریں ایک طرف کسی آدمی کے پاس کنواں اور کنوئیں سے پانی نکالنے کا پورا
انتظام ہے اور دوسری طرف کچھ فاصلے پر بہت سے پیاسے ہیں ۔ کنویں والا
چاہتابھی ہے کہ وہ جلد از جلد پیاسوں تک پانی پہنچائے لیکن رستے میں کسی
طاقت ور زمیندار کی زمین پڑتی ہے اور وہ فتنہ کھڑا کردیتا ہے کہ اس کی زمین
سے گزر کر کوئی دوسری طرف پانی نہیں لے جاسکتا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی
ہولناک صورتِ حال کا کیا حل ہو؟ ہر سلیم الطبع انسان فوراً یہی فیصلہ دے گا
کہ انسانی جانوں کو بچانے کی خاطر مزاحم ہونے والے ہٹ دھرم کا شتکار سے کم
از کم اُس قوت کو چھین لیا جائے کہ جو انسانوں کے لیے وبالِ جان بن گئی ۔
ہوبہو یہی صورت اسلامی جہاد ہے۔ اسلامی جہاد دنیا کے مادی فائدے حاصل کرنے
کے لیے قطعاً نہیں ۔ اگر کوئی مادی فوائد بٹورنے کے لیے کر ے تو خود قیامت
کو پکڑا جائے گا ۔ اسلامی جہاد صرف اس لیے ہے کہ گمراہ انسانوں سے وہ طاقت
چھین لی جائے کہ جو دوسرے انسانوں کو گمراہ کرنے کی باعث ہو اور ماحول کو
اس قدر سازگار بنا دیا جائے کہ اسلامی تعلیمات پہنچانے کے راستے میں کوئی
فتنہ کھڑا نہ کردے ۔ مسلح جدو جہد کا راستہ اختیار ہی اس وقت کیاجاتاہے جب
مزاحم قوتیں دعوت و تبلیغ کے ذریعے رسالت کے کام کو نا ممکن بنا دیں۔ کسی
انسان پر سب سے بڑا ظلم یہی ہے کہ آسمانی ہدایات کو اس تک پہنچنے نہ دیا
جائے۔ دینِ فطرت ایسے ظلم کو کیسے برداشت کرتا؟
چونکہ اسلامی جہاد نہ مادی فوائد بٹورنے کے لیے ہے اور نہ ہی کسی کو
مجبوراً مسلمان کرنے کے لئے(لااکراہ فی الدین) لہٰذا اس کے ساتھ فی سبیل اﷲ
کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ اسلامی جہاد کی اسی فی سبیل اﷲ شرط کا
اعزاز ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں اس جہاد کے ذریعہ اتنی جانیں تلف ہوئیں
جتنی کہ مثال کے طور پر دو میں سے ایک عالمی جنگ میں ۔ یاد رہے غزواتِ رسول
ﷺ میں کل 7323مخالفین قتل ‘ زخمی یا اسیر ہوئے۔ اسی دوران محض 387مسلمان
شہید ہوئے۔ اس کے برعکس صرف جنگِ عظیم اول کے مقتولین کی تعداد
7469700زخمیوں کی تعداد 19432000اور قیدیوں کی تعداد6526500تھی۔ جنگِ عظیم
دوم میں ان اعداد و شمار سے بھی کئی گنا زیادہ تعداد متاثرین کی تھی ۔ کن
الفاظ میں اس حقیقت کو بیان کیا جائے کہ اسلامی جنگ انسانیت کی خاطر جد
وجہد ہے تو غیر اسلامی جنگ محض فساد ہے۔ ایک جنگ انسانیت کی فلاح و بہبود
کی ضامن ہے تو دوسری انسانیت کی ویرانی و بربادی کا ذریعہ ۔ ایسے میں کیا
رتی بھر بھی کوئی شک ہے کہ ’’ اسلام پر یلغار اصل میں انسانیت پر ظلم ہے‘‘
۔ کاش اس دنیا کے مکیں اپنا برا بھلا پہچانیں!
جیسا کہ ثابت ہوچکا اگر تعدّدِ ازواج ‘ مردو عورت کے حقوق عد مِ مساوات ‘
اسلامی سزاؤں کا سخت ہونا اور جہادِفی سبیل اﷲ جیسے متنازع موضوعات انسانیت
کی بھلائی و خیر خواہی کے لیے ہیں تو پورے اسلام کی برکات و فیوضی کا انداز
ہ خود لگائیں ۔ یہ محض تصوراتی معاملہ ہی نہیں تاریخ شاہد ہے کہ اس گیارہ
سو سالہ دور میں جب اسلام اس دنیا میں بطورِ غالب قوت موجود رہا ‘ صرف
انسانوں ہی نے سکھ کا سانس نہ لیا ‘ پرندوں اور چرندوں کا مقدر بھی جاگ
اٹھا ۔ کسی کی کیا مجال کہ اس دور میں کسی دوسرے پر بھی زیادتی کرتا۔ اس کی
وجہ یہی تھی کہ حکمرانوں نے اپنے آپ کو خادموں کی سطح پر رکھا اور آخرت کی
باز پرس کا خوف انہیں اس قدر متفکر کیے رکھتا کہ وہ خود تو بھوکے ننگے رہے
لیکن یہ گوارہ نہ کیا کہ ’’ فرات کے کنارے کوئی بکری کا بچہ تک بھوکا
رہے‘‘۔
آج انسانیت اسلام کی برکات سے محروم ہے تو اس وجہ سے کہ وہ امت جس نے اسلام
کو دوسروں تک پہنچانا تھا خود نااہلیت کا شکار ہوکر دنیا میں مغلوب و مجبور
ہوگئی ۔ جس امت نے اس دنیا کو سنوارکر رکھنا تھا خود تباہی و بربادی کا
شکار ہوگئی ۔ بحر وبر میں شر اور فساد نے ڈیرے آجمائے تو اس کی کوئی تو وجہ
ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کو انسانیت کی ضرورت ہے لیکن اس سے بھی
بڑ ھ کر یہ کہ انسانیت کو اسلام کی بہت ضرورت ہے۔
نوٹ: میری دلی خواہش ہے کہ اس مضمون کا دنیا کی ہر مروجہ زبان میں ترجمہ
ہو۔ نیز یہ بھی کہ داعیانِ علم و ادب اسے مروجہ تعلیمی سلیبس میں شامل
کریں۔ مطلب یہ کہ بڑا خسارہ ہے قرآن و سنت کی روشنی میں تیار کردہ اس مضمون
کا احاطہ کیے بغیر ایک دن اﷲ کے حضور حاضر ہونا۔
|