هم الله کے عدل کے قائل هيں همارایمان هے که الله
اپنے بندوں پرظلم نہیں کرتا،کسي دليل کے بغيران کوسزاياجزا نہیں دیتا ،
اپنے وعدے کووفا کرتا ہے ،کسي گنهگارانسان کومنصب نبوت عطاکرکے اپنے
معجزات اس کے اختيارميں نہیں دیتا- اور اس نے اپنے جن بندوں کوسعادت کي
راه طے کرنے کے لئے خلق کياهے،ان کو کسي هادي کے بغيرچھوڑتا کيونکه يه
سب کام قبيح (برے) هيں اورالله قبیح کام انجام نهيں ديتا-
جيساکه قرآن میں آیا ہے “ولايظلم ربک احد” (1)يعني تمهارارب کسي پربھي
ظلم نهيں کرتا-
اگرکوئي انسان اس دنياياآخرت ميں کسي مصيبت ميں گرفتارهوتاهے،تووه
خوداس کے اعمال کانتيجه هوتاهے “فماکان الله ليظلمهم ولکن کانواانفسهم
يظلمون”(2) يعني الله نے ان پر(وه گذشته امتوں جوالله کے عذاب ميں
مبتلاهوئي) ظلم نهيں کيا،بلکه انهوں نے خوداپنے نفسوں پرظلم کيا-
الله صرف انسانوں پرهي نهيں بلکه اس دنياميں موجودکسي بھي چيزپرظلم
نهيں کرتا”وماالله يريدظلمن للعالمين” (3)
يعنی الله کسي بھي موجودپرظلم نهيں کرتا- يه تمام آيتيں عقل کي
تائيدکرتي هيں
عدل الہٰی اور مسئلہ ”خلود“
ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید نے کفار اور گناہگاروں کے ایک گروہ کے بارے
میں واضح طور پر دائمی سزا دینے یعنی دوسرے الفاظ میں ”خلود“کا ذکر کیا
ہے۔
سورئہ توبہ کی آیت نمبر۶۸ میں آیا ہے:
<وعداللہّٰ المنٰفقین والمنٰفقٰت والکفّار نار جھنّم خٰلدین فیھا>
”اللہ نے منافق مردوں اور عورتوں سے اور تمام کافروں سے آتش جہنّم کا
وعدہ کیا ہے جس میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
اسی طرح <وعداللّٰہ المؤمنین والمومنٰت جنّٰت تجری من تحتھا الانھار
خٰلدین فیھا> ( سو ر ہ توبہ/۷۲)
”اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ان باغات کا وعدہ کیا ہے جن کے
نیچے نہریں جاری ہوں گی ۔یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔“
یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اس بات کو کیسے قبول کیا جائے کہ ایک
انسان جس نے دنیا میں زیادہ سے زیادہ اسی سال یا سو سال زندگی گزاری ہو
اور اس سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہو ،اسے کروڑوں سال بلکہ ہمیشہ ہمیشہ
سزادی جائے؟!
البتہ یہ مطلب نیک اعمال کی جزا کے بارے میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتا
کیو نکہ خدا کی رحمت کا سمندر وسیع ہے اور جزا جتنی زیادہ ہو خدا کی بے
انتہا رحمت اور اس کے فضل و کرم کی علامت ہو گی ۔لیکن برے اعمال اور
محدود گناہوں کے نتیجہ میں ہمیشہ کے لئے اس کو کیسے عذاب میں مبتلا
رکھا جاسکتا ہے ۔خداوند متعال کی عدالت کے پیش نظر اس کی کیا وجہ بیان
کی جاسکتی ہے؟
کیا گناہ اور اس کی سزا کے در میان ایک قسم کا تعادل بر قرارنہیں ہو نا
چاہئے؟
جواب:
اس بحث اور سوال کے قطعی حل اور جواب تک پہنچنے کے لئے چند نکات پر دقت
کے ساتھ غور وفکر کر نے کی ضرورت ہے:
الف:قیامت کے دن کی سزائیں اس دنیا کی سزاؤں سے ہر گز شباہت نہیں رکھتی
ہیں ۔مثلاًاگر کوئی شخص دنیا میں کسی جرم ،جیسے چوری وغیرہ کا مرتکب ہو
جائے تو اسے ایک خاص مدت تک جیل میں ڈال دیا جاتاہے،لیکن قیامت کی
سزائیں اکثر انسان کے اعمال کے آثار اور اس کے کاموں کی خاصیتوں کے
اعتبار سے ہو تی ہیں۔
واضح ترعبارت میں گناہگاروں کی تمام سزائیں ،جن کا سامنا انہیں دوسری
دنیا (قیامت)میں کرنا ہے در حقیقت ان کے اپنے کئے گئے گناہوں کا نتیجہ
ہے جو ان کے دامن گیر ہو تے ہیں۔
اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ایک واضح تعبیر موجود ہے،
<فالیوم لا تظلم نفس شیئاًولا تجزون إلاّ ماکنتم تعملون> (سورہ
یٰس/۵۴)
”پھر آج کے دن کسی نفس پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا اور تم کو
صرف ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا،جیسے اعمال تم کر رہے تھے۔“
ایک آسان مثال سے ہم اس حقیقت کو واضح کرسکتے ہیں:
ایک شخص منشیات یا شراب پینے کا عادی ہے ،جتنا بھی اس سے کہا جاتا ہے
کہ یہ زہریلی چیزیں تیرے معدہ کو خراب،تیرے دل کو بیمار اور تیرے اعصاب
کو مجروح کردیں گی ،وہ پروا نہیں کر تا ہے ۔چند ہفتے یا چند مہینے ان
مہلک چیزوں کی خیالی لذت میں غرق رہتا ہے اور اس کے بعد بتدریج زخم
معدہ ،عارضہ قلب اور اعصاب کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر
دسیوں سال عمر بھران بیماریوں میں مبتلا ہو کر شب وروز ان کے عذاب میں
گزارتا ہے ۔کیا یہاں پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ اس شخص نے تو چند
ہفتہ یا چند مہینے سے زیادہ عرصہ منشیات یا شراب کا استعمال نہیں کیا
تھا ،دسیوں سال عمر بھر کیوں امراض میں مبتلا ہو گیا؟
اس کے جواب میں فوراً کہا جائے گا یہ اس کے عمل کا نتیجہ واثر ہے !حتی
اگر وہ حضرت نوح علیہ السلام کی عمر سے بھی زیادہ عمر پائے اور مسلسل
رنج و عذاب میں رہے تب بھی ہم یہی کہیں گے کہ اس نے جان بوجھ کر اور
آگاہانہ طورپر اس چیز کو اپنے لئے خریدا ہے۔
قیامت کے دن کی سزائیں زیادہ تر اسی طرح ہیں ،اس لئے عدالت الہٰی پر
کسی قسم کا اعتراض باقی نہیں رہتا ہے۔
ب:بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ سزاؤں کی مدت گناہ کی مدت کے برابر ہونی
چاہئے ،یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے ،کیونکہ گناہ اور اس کی سزا کے در میان
زمانہ کے اعتبار سے کوئی ربط نہیں ہے بلکہ سزا کا تعلق اس گناہ کی
کیفیت اور نتیجہ سے ہوتا ہے۔
مثلاًممکن ہے کوئی شخص ایک لمحہ میں ایک بے گناہ انسان کو قتل کر ڈالے
اور اس دنیا کے بعض قوانین کے مطابق اسے عمر قید کی سزا دی جائے ۔یہاں
پر ہم دیکھتے ہیں کہ گناہ انجام دینے کی مدت صرف ایک لمحہ تھی جبکہ سزا
کی مدت دسیوں سال (عمر بھر)ہے،اور کوئی شخص اس سزا کو ظالمانہ شمار
نہیں کرتا ہے،کیو نکہ یہاں پر منٹ،گھنٹے،مہینے یا سال کی بات نہیں ہے
بلکہ گناہ کی کیفیت اور نتیجہ مد نظر رکھا جاتا ہے۔
ج:جہنم میں”خلود“ہمیشگی ،اور دائمی سزائیں ان لوگوں کے لئے ہیں ،جنہوں
نے نجات کے تمام راستے اپنے اوپر بند کر لئے ہوں اور جان بوجھ کر
فساد،تباہی اور کفر و نفاق میں غرق ہوئے ہوں اور گناہوں نے ان کے سارے
وجود کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہو کہ حقیقت میں وہ خود گناہ و کفر کا
روپ اختیار کر گئے ہوں۔
قرآن مجید میں یہاں پر ایک خوبصورت تعبیر ہے:
<بلیٰ من کسب سیّئة واحاطت بہ خطیئتہ فاولٰئک اصحٰب النّار ھم فیھا
خٰلدون> (سورہ بقرہ/۸۱)
”یقینا جس نے کوئی برائی حاصل کی اور اس کے گناہ نے اسے گھیر لیا،وہ
لوگ اہل جہنّم ہیں اور وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
اس قسم کے افراد خداوند متعال کے ساتھ اپنے رابطہ کو مکمل طور پر منقطع
کر لیتے ہیں اور نجات کے تمام راستوں کو اپنے اوپر بند کر لیتے ہیں ۔
ایسے افراد کی مثال اس پرندہ کے مانند ہے جس نے جان بوجھ کر اپنے پروں
کوتوڑ کر آگ لگا دی ہو اور وہ مجبور ہے ہمیشہ زمین پر رہے اور آسمان کی
بلندیوں پر پرواز کر نے سے محروم رہے ۔
مذکورہ بالا تین نکات اس حقیقت کو واضح کر دیتے ہیں کہ دائمی عذاب کا
مسئلہ جوکہ منافقین اور کفار کے ایک خاص گروہ کے لئے مخصوص ہے ہر
گز”عدل الہٰی“کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ ان کے برے اعما ل کا نتیجہ ہے
اور ان کو پہلے ہی اس بات سے انبیاء الہٰی کے ذریعہ آگاہ کیا جا چکا ہے
کہ ان کاموں کا نتیجہ اتنا تلخ اور برا ہے۔
لیکن اس کے باوجود بہت سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو سب کچھ جاننے کے
باوجود خود تو گمراہ ہیں ہی دوسرں کو گمراہ کرنے میں بھی ایڑی چوٹی کا
زور لگاتے ہیں جیسے غضنفر تونسوی ، حافظ تصدق اور جعفر جتوئی اور ان
جیسے بہت سے نامور خطباء جو شیعہ مذہب کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ
توہین خدا ، رسول اور اہلبیت سے بھی خوف نہیں کھاتے اور غلط عقائد کا
پرچار کر رہے ہیں لیکن یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ وہ دنیا میں تو لوگوں کو
بےوقوف بنا سکتے ہیں لیکن قیامت کے دن خدا ، رسول اور اہل بیت علیہم
السلام کو کیا جواب دیں گے ۔
خداوند ہمیں مشرکانہ عقائد سے بچنے اور صحیح معنوں میں محمدو آل محمد
علیہم السلام کے پیروکار بننے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ |