اسلام سے قبل عرب معاشرہ جہالت کے اندھیروں میں گھرا
ہوا تھا۔ طاقت کا سکہ رائج تھا اور انسانیت غلامی کی زنجیروں میں جکڑی
ہوئی تھی۔ خدائے واحد کا تصور بھلا کر انسانوں نے بتوں کو پوجنا شروع
کردیا تھا اور ایک سے زیادہ خداؤں کو ماننے کا رواج عام تھا۔ قتل وغارت
کا بازار گرم تھا۔ جوا،شراب ،زنا جیسی ہر برائی عام تھی۔ یہاں تک کہ
بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔
جہالت کے ان اندھیروں کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالی نے اپنے پیارے
حبیب سیدالمرسلین ﷺ کو دنیا میں بھیجا۔آپﷺ نے غلامی کی زنجیروں کو
توڑا، دنیا کو اسلام کی تعلیمات سے منور کیا اور انسانیت کے لیے سر
چشمۂ ہدایت بنے۔ مگر۔۔۔افسوس، صد افسوس کہ چودہ سو سال پہلے جو
زنجیریں توڑی گئی تھیں آج ہم نے خود کو انہی میں جکڑ رکھا ہے۔ ان
تعلیمات کو بھلا کر نفس کی غلامی اختیار کرلی ہے۔ زمین کے ٹکڑے کی وجہ
سے بھائی بھائی کا دشمن بن گیا ہے۔ دولت کی ہوس میں اپنی دیانت داری کا
سودا کیا جا رہا ہے۔عزت وشہرت پانے کے لیے اپنے ضمیر کو بیچا جا رہا
ہے۔ رشوت اور جوئے کا کاروبار گرم ہے۔ باپ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر
بیٹیوں کو قتل کر رہے ہیں جبکہ دعویٰ یہ ہے کہ رزق دینے والی ذات اللہ
ہے۔ آج فحاشی عام ہو چکی ہے ، گویا چودہ سو سال پہلے جس جہالت کا خاتمہ
کیا، آج پھر اسی دلدل میں پھنس گئے ہیں۔کیوں؟
اسکی وجہ قرآن کریم کی تعلیمات کو بھلا کر اپنے نفس کی پیروی شروع کر
دی ہے۔ نفس تو انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے، جس کی پیروی کی وجہ سے ہی
ابلیس کو جنت سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ آج ہمارے خسارے کی وجہ بھی یہی
ہے۔
رسول پاک ﷺ نے فرمایا میں اپنی امت کے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ
اندیشہ کرتا ہوں ،وہ یہ ہے کہ میری امت خواہشات کی پیروی کرنے اور
دنیاوی مال و متاع کے لمبے چوڑے منصوبے بنانے میں لگ جائے گی ۔ اس کی
خواہشِ نفس کی پیروی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ حق سے دور جا پڑے گی اور
دنیا سازی کے منصوبے آخرت سے غافل کر دیں گے (مشکوٰۃ عن جابرؓ)
یہی حقیقت ہے کہ آج ہم اپنے نفس کی پرستش کر کے حق سے دور ہو گئے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کریں اور ااس کے
لیے قرآن مجید کو تھام لیں کیونکہ وہی سر چشمۂ ہدایت ہے۔ اگر آپ ہدایت
چاہتے ہیں تو اپنے نفس سے خود لڑنا ہو گا۔ ہمیں کوئی دوسرا فرد ان
زنجیروں سے نہیں نکال سکتاجب تک ہم خود اس کو توڑنا نہ چاہیں ،اپنے آپ
کو آگ سے بچانا نہ چاہیں۔
دراصل اپنی خواہشاتِ نفس کو پورا کر کے انسان اپنے آپ کو عقلمند سمجھتا
ہےجبکہ وہی سب سے بڑا بےوقوف ہے۔
حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ ہوشیار درحقیقت وہ ہے جس نے نفس کو قابو میں کیا اور موت کے
بعد آنے والی زندگی سنوارنے میں لگ گیا ،اور بیوقوف وہ ہے جس نے اپنے
آپ کو نفس کی ناجائز خواہشوں کے پیچھے لگایا اور اللہ تعالی پر غلط
توقع باندھی۔ (ترمذی ،شداد ؓبن اوس)
اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ نفس کی زنجیروں کو توڑ کر ہمیشہ زندہ رہنے
والی آخرت کی زندگی سنوارنی ہے یا اس کی پیروی کر کے عارضی دنیا بنانی
ہے؟ |