اس کی کوئی بہن نہیں تھی۔ خاندان بھر کے افراد کی طرح
اس کی بھی خواہش تھی کہ ایک اﷲ تعالیٰ اسے ایک لڑکی سے نواز دے۔ شادی
کے دو سال ہوگئے مگر کوئی نوید نہیں ملی تھی۔ دن رات کی دعاؤں اور
مناجات کے بعد بالآخر اﷲ تعالیٰ نے اسے وہ دن دکھا ہی دیا جس کے انتظار
میں وہ تھا۔
سورج کے سائے مغرب کی جانب لمبے ہورہے تھے۔ نور دین ہتھوڑی اور بیلچہ
پکڑے جیسے ہی گھر میں داخل ہوا گھر میں ایک عجیب سا ماحول تھا۔ نسیم بی
بی کی طبیعت مسلسل خراب ہورہی تھی اور وہ تکلیف سے کراہ رہی تھی۔ نور
دین نے فوری طور پر پڑوسی سے سائیکل لی اور بیوی کو بیٹھا کر پیدل چلتے
ہوئے اسپتال کی جانب بڑھ گیا۔ سرکاری اسپتال کی حالت ابتر تھی مگر اس
کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ پرائیویٹ اسپتال لے جاتا۔ 10دسمبر کی
وہ رات نور دین اسپتال کے گیٹ پر بیٹھا ٹھٹھر رہا تھا۔ پوری رات ٹھنڈ
میں آنکھوں پر کاٹی اور صبح تک ڈاکٹر نے بچی کی نوید سنائی۔ بچی کی
خوشی میں نور دین گزرے کل کی تھکاوٹ، بھوک اور پوری رات کی تکلیف بھول
گیا تھا۔ پورا دن نور دین بچی کو گود میں لے کر بیٹھا رہا اور نہ سویا
اور نہ کچھ کھایا۔
کچھ روز قبل جب وہ اپنے پڑوسی اقبال سے باتیں کر رہا تھا تو وہ کہے رہا
تھا کہ اسے بیٹی ہی اچھی لگتی ہے۔ لڑکپن سے اس کی یہ خواہش شادی کے دو
سال بعد ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ بالآخر پوری ہوگئی تھی۔ اﷲ نے نور دین کو
اکلوتی بیٹی ہی دی اور اس کے بعد کوئی اولاد نہ ہوئی مگر وہ اسی میں
خوش تھا۔ بیٹی کے ہر ناز نخرے برداشت کرتا۔ نور دین نے بچی کی تعلیم
اور تربیت کے لیے اب دوسرے شہر جاکر مزدوری کرنی شروع کردی تھی۔ بچوں
کے پالنے پوسنے میں جو کردار ماں ادا کرتی اس کی فضیلتیں بیان کرنا بھی
یقینا توہین کہلائے گی۔ مگر یہاں تو نور دین بھی کوئی کثر نہیں چھوڑ
رہا تھا۔ بیٹی نے میٹرک مکمل کی تو کالج میں داخلہ لے لیا۔ نوردین اس
کے اخراجات پورے کرتے کرتے ڈیڑھ سال تک بھی گھر نہیں آپاتا۔ ثانیہ نے
بارہویں مکمل کی تو نوردین بیٹی کی شادی کرنے کے بارے سوچنے لگا۔ نور
دین کے بڑے بھائی کا ایک بیٹا بھی ثانیہ کا ہم عمر تھا۔ نوردین نے بغیر
رائے لیے ثانیہ کی نسبت عمر سے کردی۔ شادی کی تاریخ طے کردی گئی۔ نور
دین پر امید تھا کہ جس بیٹی کے لیے انہوں نے اپنا آپ تک خرچ کردیا تھا
وہ کب انکار کرے گی۔
ایک دن نسیم بی بی بہت پریشانی کے عالم میں نور دین کی چار پائی کے
ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔ ’’کیا ہوا سب خیریت تو ہے‘‘نور دین نے پریشانی
بھانپتے ہوئے پوچھا۔ ’’ثانیہ نے عمر سے شادی کرنے سے انکار کردیا ہے
اور بول رہی ہے کہ وہ جس سے محبت کرتی ہے اسی سے شادی کرے گی۔ نور دین
پر جیسے بجلی گر گئی تھی۔ خود کو سنبھالتے ہوئے پوچھا کون ہے وہ ؟ نسیم
بولی کوئی کالج کا لڑکا ہے ۔ نور دین بڑی مشکل سے اٹھ کر بیٹی کے کمرے
تک آیا۔ بہت پیار سے سمجھانے کی کوشش ہی کی تھی کہ ثانیہ نے بگڑتے ہوئے
کہا ’’میری لائف ہے میں جیسے چاہوں جیوں، آپ کون ہوتے ہو میری زندگی کا
فیصلہ کرنے والے۔ آپ کو کچھ نہیں پتا جہالت کی زندگی گزارنے کے بعد
مجھے بھی اسی جہنم میں جھونکا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کو میری شادی پسند کے
مطابق نہیں کرنی تو میں خود کرلوں گی‘‘۔
نور دین کچھ اور کہتے دیوار کا سہارہ لیتے ہوئے واپس پلٹ آئے۔ نسیم نے
کہا کہ آپ فکر نہ کریں مگر میں سمجھاؤں گی سمجھ جائے گی۔ یہ سلسلہ ایک
ہفتے تک چلتا رہا اور ایک رات نسیم ہڑبڑائی ہوئی نور دین کے پاس پہنچی۔
’’وہ وہ۔۔ ثانیہ کا کچھ پتا نہیں ، ناجانے کہاں چلی گئی اور پتا نہیں
کس حال میں ہوگی‘‘۔ اس کا لفظ لفظ لرز رہا تھا۔ نور دین کو پہلا اٹیک
اس دن ہوا اور دو دن تک وہ اسپتال میں پڑ رہا۔ گھر کی بھینس بیچ کر
نسیم نے شوہر کا علاج کروایا۔ثانیہ کا کچھ معلوم نہ تھا۔ ایک دن کسی
پڑوسی نے بتایا کہ نسیم نے کورٹ میرج کرلی ہے۔ آخری اٹیک نوردین کو اس
دن ہوا اور وہ چل بسا۔
گزرے دنوں کی یہ ہولناک کہانی میرے دماغ میں تب گھوم گئی جب 20جولائی
کے ایک قومی اخبار پر نظر پڑی تو 2خبریں ایک ساتھ دیکھائی دیں۔ جنہیں
دیکھا اور دیکھتا رہے گا۔ دونوں خبریں تصویر کے ساتھ نمایاں تھیں۔
’’جہلم کے رہائشی نعیم بلال اور اس کی بیوی ام حدیثہ کو پسند کی شادی
کرنے پر دھمکیوں کا سامنا۔ ملتان کی رہائشی شائلہ بی بی کا شوہر محمد
جاوید کے ہمراہ پسند کی شادی پر انتظامیہ سے تحفظ کی طلبگار‘‘۔ اگلے
صفحہ پر ایک خبر تھی کہ ’’پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو حراساں کرنے
والوں کیخلاف کارروائی‘‘ یہ خبریں پڑھنے کے بعد میرے پاس الفاظ نہیں
رہے۔ اس وقت میری سوچ اور میرے خیالات نا جانے کہاں کھوگئے۔ میں اس سب
کو کیسے تسلیم کر لوں کہ جس ام حدیثہ کی پیدائش کے وقت باپ نے گھر گروی
رکھ کر مہنگے ترین اسپتال کا انتخاب کیا تھا۔ جب وہ بول بھی نہیں سکتی
تھی اور آدھی رات کو بھی روتی باپ اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر اسپتال لے
جاتا وہ کیسے اس عظیم باپ کو چھوڑ کر یوں رسوا کر کے چلی جائے گی۔
آپ ہزار وں دلائل دو مگر میں کیسے تسلیم کرلوں کہ کئی سالوں کے انتظار،
دعاؤں اور مناجات سے مانگی گئی شائلہ کے لیے اس کے والدین ہی اجنبی
ہوجائیں گے۔ میرا دماغ کیسے اس بات کو قبول کر لے کہ جس ثانیہ کو
نوردین نے پڑھا کر تعلیم یافتہ بنانا چاہا وہیں اسے جاہل کا لقب نواز
کر اپنی پسند کے لڑکے کے ساتھ جاسکتی ہے اور پیچھے اس کا وہیں باپ تڑپ
تڑپ کر دم توڑ دیتا ہے۔ جس والدہ نے اسے جنم دیا وہ چھت سے محروم ہوکر
در بدر بھٹکتی پھرتی ہے۔
لڑکیاں والدین کا مان ہوتی ہیں۔ مجھے آج بھی وہ والد یاد ہے کہ جو دن
میں ریڑھی پر سبزی بیچتا تھا، صبح نماز کے بعد اسی ریڑھی پر پڑوس کی
مسجد کے کولر سے پانی بھر کرلے جاتا۔ ایک دن پوچھا کہ دو کین پانی روز
پی جاتے ہیں تو اس نے شرمندگی سے کہا۔ میں ایک کین پینے اور دوسرا کین
اپنی بیٹی کے سردھونے کے لیے بھرتا ہوں۔ حیرت سے پوچھا کہ مطلب۔ تو
بولے میری بیٹی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے۔ کراچی کے کھارے پانی سے بال
خراب ہوجاتے ہیں تو میٹھے پانی سے سردھوکر جاتی ہے۔ میری آنکھیں نم
ہوگئیں۔ میں نے اس کی چپل دیکھی تو ایک طرف سے گھس کر مکمل ٹوٹ چکی
تھی۔ میں نے جب یونیورسٹی کی طرف دیکھا تو مجھے ایسا لگا کہ بے فکر
کھلکھلاتی نئے کپڑوں میں ملبوس لڑکیوں میں سے ایک ٹوٹی چپل والے اسی
بابا جی کی بیٹی بھی وہاں موجود تھی۔
میں عدالت میں کھڑا تھا، وکیل بول رہا تھا ابھی ابھی ایک جوڑے کی پسند
کی شادی کروائی ہے۔ پسند کی شادی سنتے ہی میرا وجود لرز اٹھا۔ آن کی آن
وہاں پر زکر بچی کا والد اور والدہ میرے سامنے چیخیں مارتے روتے آن
کھڑے ہوئے۔ ایک پل کو مجھے لگا کہ میرا کلیجہ پھٹ جائے گی۔ باپ مکمل
ٹوٹ چکا تھا۔ابھی وکیل کا زکر جاری تھی۔ والدین کو چھوڑ کر چلی آئی،
کیسے ؟ میں اس لفظ کو قبول نہیں کر پارہا تھا ۔ سوالات کی بھرمار تھی۔
کیا یہ بچیاں نہیں جانتی کہ پیدائش سے لے کر جوانی تک ایک ایک پل میں
ان کے والدین ان کی وجہ سے کتنی بار جیتے اور کتنی بار مرتے ہیں۔ ایک
تھکادینے والا سفر طے کرتے ہیں اور پھر یہ بچی اپنے والدین کو ہی
پہچاننے سے انکاری ہوجاتی ہیں۔
وہ یہ تک نہیں سوچتی کہ اس کے والدین نے اس کے لیے دنیا سے جنگ لڑی ہے۔
وہ یہ نہیں سوچتی کہ وہ جس غریب والد کی بیٹی ہے اس والد نے تپتی دوپہر
کو سڑک پر کھڑے ہوکر مزدور کی اور 300 روپے میں سے 200 روپے اس کی فیس
ادا کی جس کے بعد وہ پرائمری سے سیکنڈری اسکول میں آگئی۔ یہ کیا جانے
کہ جب پوری رات بخار کے ساتھ والد اگلے روز اپنی بیٹی کو کندھوں پر
اٹھا کر اسپتال لے گیا تھا اور پھر اپنی دوا لیے بغیر بچی کو ڈرپ لگوا
کر اسی طرح کندھوں پر اٹھا کر لایا تھا۔ واقعی وہ اجنبی ہی اس کے لیے
اچھا تھا کہ جس کے لیے وہ اپنے عظیم والدین کو یوں رسوا کر کے چلی گئی۔
اگر وہ اپنی عمر بھی لگا دے تو بھی اپنے والدین کی قربانیوں کا ایک حصہ
بھی ادا نہیں کرپائے ۔ کاش وہ ایک مرضی ہی چھوڑ دے تو کیا چلا جائے گا
۔۔۔ مگر۔۔۔ شاید وہ اس وقت عمر کی اس دہلیز پر ہوتی ہے کہ جب اسے اپنے
پرائے اور پرائے اپنے لگتے ہیں اور پھر وہ آخری قدم اٹھا لیتی ہے۔
میں سوچتا رہا تھا کہ ایک مرتبہ حدیث پڑھی تھی کہ جس شخص نے اپنی دو
بیٹیوں کو پال پوس کر جوان کردیا اور ان کی اچھی تربیت کی وہ شخص اور
نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم جنت میں دو انگلیوں کی طرح اکھٹے ہوں گے۔ اس
قدر عظیم انعام صرف اس لیے رکھا گیا کہ بچیوں کو پالنا پوسنا اور پھر
تربیت کرنا اس قدر محنت والا کام تھا۔ مگر آج کی یہ بچی اپنے ہی محافظ
کو اپنا دشمن قرار دیتی ہے۔۔ اپنے حفاظتی قلعہ گھر کو اپنے لیے جیل
سمجھتی ہے۔ کسی باپ کا ایک بیٹا پیدا ہوا اور وہ چل بسا۔ اس کے بعد جب
بھی میں اس کو اولاد کی دعا دیتا تو وہ مجھے کہتا اﷲ کے لیے بچی پیدا
نہ ہو۔ میں اسے بچیوں کے رحمت اور اس فضائل بیان کرنے لگتا تو وہ میرے
سامنے ایسے بے شمار اخبار کے تراشے رکھتا اور کاپنتے ہاتھوں سے کہتا
میں ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں مجھے ایسی اولاد نہیں چاہیے میں مرنا گوارہ
کرسکتا ہوں مگر یہ نہیں۔۔۔ یہ چند بچیوں کا کردار نہ جانے کتنے والدین
کو اپنے ہی بچوں سے خوف زدہ کردیتا ہے۔ کتنی بچیوں کے والدین انہیں کی
وجہ سے اپنے ہی سائے سے خوف کھانے لگے ہیں۔ جو خوف میں نے اس والد کے
چہرے اور جسم پر محسوس کیا کچھ پل کو تو مجھے بھی لگا تھا کہ شاید
اولاد جیسی نعمت سے بندہ بے اولاد ہی اچھا ہے۔ آج وہ ڈر میرے انگ انگ
میں ہے اور جب بھی میں یہ سب دیکھتا ہوں تو یقین جانیے مجھے والدین کی
تربیت پر شک نہیں ہوتا، بس یہ لگتا ہے کہ میں مر گیا۔۔ ایک بار پھر میں
مار دیا گیا۔۔
|