مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر۔۔۔

قانون فطرت اٹل ہے اور یہ کسی کے لئے بھی تبدیل نہیں ہوتا ۔انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی و کوشش کرتا ہے۔کامیابی ان ہی کو ملتی ہے جو نہ صرف اس کی آرزو وتمنا کرتے ہیں بلکہ اس کے حصول کے لئے انتھک اورمسلسل جد و جہد کو اپنا شیوا و شعار بنالیتے ہیں۔ ۔کامیابی کوئی معجزہ ہے ،نہ ہی یہ اچانک حاصل ہوتی ہے اور نہ از خود کبھی ظہور پذیر ہو ئی ہے بلکہ روز مرہ انجام دیئے جانے والے چھوٹے بڑے اعمال ، افعال اور عادات کی صورت محو سفر رہ کر یہ کامیابی یا ناکامی کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ برے نتائج کو ہم جہاں ناکامی کہتے ہیں وہیں خوشگوار اور اچھے نتیجے کو کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں۔دانشور وں نے اسی لئے کہا ہے کہ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔آدمی کے روزمرہ کے افعال و عادات کو دیکھ کر با آسانی اس کے کامیاب یا ناکام ہونے کی پیش قیاسی کی جاسکتی ہے۔ حکیم لقمان کی دانائی آج بھی ضرب المثل ہے۔آپ ایک مرتبہ کہیں جارہے تھے کہ سڑک کے کنارے ایک مسافر کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔مسافر حکیم لقمان کو اپنے جانب آتے دیکھا تو پوچھنے لگا کہــ’’ میں یہاں سے شہر کتنی دیر میں پہنچ جاؤں گا؟‘‘حضرت لقمان نے نہایت مختصر جواب دیا ’’اپنی راہ لو‘‘۔مسافر کو ایسے اکھڑے جواب کی توقع نہیں تھی وہ بہت مایوس ہوالیکن پھرا یک بار سوال کر بیٹھا ’’جناب عالی آپ نے شاید میرا سوال نہیں سنا۔میں ایک تھکا ماندہ مسافر ہوں اور یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہاں سے شہر کتنی دور ہے اور میں کتنی دیر میں وہاں پہنچ پاؤں گا؟‘‘حکیم لقمان نے کہا ’’میاں !کہہ تو رہا ہوں اپنے راہ لو‘‘۔مسافر حکیم لقمان کو پاگل سمجھ کر پھر کوئی سوال نہیں کیا اور شہر کی سمت چل پڑا۔ابھی تھوڑی دور ہی چلا تھا کہ حکیم لقمان نے بلند آواز میں کہا’’سنو شا م سے پہلے تم شہر پہنچ جاؤگے۔‘‘مسافر حیرت زدہ ہوکر واپس لوٹا اور پوچھنے لگا’’جناب جب میں نے آپ سے سوال کیا تو کوئی جواب نہیں دیا اور جب میں مایوس ہوکر چل پڑا ہوں تو آپ چیخ کر بتا رہے ہیں،بھلا، یہ کیا بات ہوئی؟‘‘۔حکیم لقمان سادگی سے کہنے لگے ’’میاں! جب تم نے سوال کیا تو تم بیٹھے ہوئے تھے اور مجھے تمہاری چلنے کی رفتار معلوم نہیں تھی۔ لیکن جب میں نے تمہیں چلتے دیکھا تو اندازہ لگایا کہ تم کو شہر پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا۔‘‘ کامیا بی کبھی آن واحد میں حاصل نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک طویل سفر طئے کرتے ہوئے عادات ،اعمال و افعال کا سخت امتحان لے کر وقت مقررہ پر الوالعزم لوگوں کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔کامیابی کے دلدادہ لوگ اپنے وقت کے ہر لمحہ کو کار آمد بناتے ہیں۔ فضول اور بیکار عادتوں ، سیر و تفریح جیسی لذتوں سے محظوظ ہوکر غفلت کا شکار نہیں ہوتے ہیں ۔ ہر پل ان کی نظر اپنے اہداف و مقاصد(Targets,Goals) پرجمی رہتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کامیابی ان ہی کو ملتی ہے جو زندگی کے سفر میں اپنی روزمرہ کی رفتار پر ہمیشہ نظر رکھتے ہیں۔کامیابی کے حصول میں ہمیشہ پہلا قدم بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔کسی بھی در پیش مسئلے کے حل کے لئے ہمیشہ پہلا قد م اٹھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔لیکن جب آدمی پہلا قدم اٹھانے میں کامیاب ہوجاتا ہے پھر راستے میں حائل رکاوٹیں اپنے آپ ختم ہونے لگتی ہیں۔ رکاوٹوں کو دیکھ کر عزم و حوصلہ ہار دینا مسئلہ کا حل ہرگز نہیں ہوتا۔کامیابی کے لئے سخت محنت کے ساتھ عزم و حو صلہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔کامیابی کے لئے درکار عناصر پر روشنی ڈالنے سے پہلے ضروری سمجھتا ہوں کہ عزم و حوصلہ کی اہمیت کو پہلے اجاگر کردوں۔جب کبھی حوصلے ،ہمت و عزم کی بات چلی ہے تو اکثر و بیشتر مردوں کے آہنی ارادوں کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے ۔لیکن اس مرتبہ اس مضمون کے ذریعہ میں نے ان باہمت عزم و حوصلہ کی حامل بیٹیوں کو خراج پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو نامساعد حالات کا شکار ہوکر بھی اپنے مقاصد و اہداف سے کبھی صرف نظر نہیں کیا اور عزم و حوصلے کی چٹانیں بنی رہیں اور دنیا کے سامنے عزیمت و حوصلے کی عظیم مثالیں پیش کیں ۔اس مرتبہ دھول سے اٹے تاریخی واقعات کو پیش کرنے کے بجائے میں نے مناسب سمجھا کہ معاشرے میں سانس لینے والے ،زندہ چلتے پھرتے واقعات آپ کے سامنے پیش کروں تاکہ ترغیب و تحریک کی جانب کامیاب پیش قدمی کی جا سکے۔یہ نرم و نازک اندام لڑکیاں عزم و حوصلے کی زندہ مثال اس لئے بھی ہیں کہ یہ جسمانی طور پر عام لوگوں کی طرح تندرست و فٹ نہیں ہیں بلکہ کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہوکر جسمانی معذوری کا شکار ہوچکی ہیں۔معذوری کی حالت میں مقاصد کا حصول تو درکنار ایک کمزور آدمی جینے کی امید بھی چھوڑ بیٹھتا ہے۔ نرم و نازک لڑکیوں کہ یہ داستان عزیمت معاشرے کے ہٹے کٹے افراد کو لگاتاردعوت عمل دے رہی ہے کہ مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لجیئے۔

اکثر خواتین اور بالخصوص مسلم خواتین کی جب بات آتی ہے تو ان کے پردے اور نزاکت کی بات ضرور ہوتی ہے۔لیکن آج کی مسلم خواتین اور بالخصوص’’ روشن جواد‘‘ نے اپنے عزم و حوصلہ سے یہ ثابت کردیا ہے کہ آدمی کی ہار اس وقت ہوتی ہے جب اس کے حوصلے ہار جاتے ہیں۔جو گیشوری ممبئی کی ،روشن جواد ،ٹھیلے پر ترکاری بیچنے والے معمولی آدمی جواد شیخ اور انصاری خاتون کی ایک باحوصلہ دختر ہے۔ 2008میں اپنے دونوں پاؤں ایک ٹرین حادثے میں گنوادینے والی روشن جواد نے ایم بی بی ایس(MBBS) سال آخر کے امتحان میں اول نمبر سے کامیابی حاصل کی ہے۔ عام لوگوں کے لئے بھی ایم بی بی ایس امتحان میں کامیابی حاصل کرنا ایک معمولی بات نہیں ہے جبکہ روشن تو دونوں پاؤں سے معذور ایک باحجا ب نرم و نازک ایک لڑکی ہے۔ لیکن روشن جوادنے ایم بی بی ایس میں اعلی نشانات سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے ایک غیر معمولی کارنامہ انجام دیا ہے جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔ کیونکہ ایم بی بی ایس میں داخلے کے مروجہ شرائط میں یہ بات بھی شامل ہے کہ 70%(ستر فیصد)سے زیادہ جسمانی معذوری کے حامل افراد کو داخلہ نہیں دیا جاسکتا۔ روشن جواد تو پھر 88%(اٹھاسی فیصد) معذوری کا شکار تھی ۔پھر شروع ہوتی ہے ایک طویل قانونی کشمکش اور عزم و حوصلے کی رقم ہونے والی ایک تاریخی داستان۔روشن جواد 2008 میں دسویں جماعت کا امتحان 92.15% سے کامیاب کیا۔ 16اکتوبر2008کے دن جب وہ انجمن اسلام گرلز کالج، باندرا میں امتحان لکھنے کے بعد ٹرین سے واپس ہورہی تھی، اندھیر ی اسٹیشن پر ٹرین میں سوار ہونے اور اترنے والے مسافرین کی دھکم پیل کی وجہ سے ٹرین سے نیچے پٹریوں پر گر پڑی۔جب تک لوگ روشن کی چیخیں سن کر ریل کی زنجیر کھینچ پاتے، روشن رانوں تک اپنی دونو ں ٹانگیں گنوا بیٹھی۔ حادثے کے دوسرے روز جب رپوٹرس روشن سے ملنے ملت نرسنگ ہوم پہنچے وہ درد سے جاں بلب کراہتے ہوئے اﷲ سے فریاد کررہی تھی’’اﷲ میری دعا کیوں نہیں سنتے؟درد کم نہیں ہو رہا ہے۔‘‘ پیر گنوانے کے بعد جب وہ زخموں سے صحت یا ب ہوئی تب تعلیم کے لئے اس کو معاشی اور عدالتی کشمکش کا سخت سامنا کرنا پڑا۔ معذوری کی بناء کالج انتظامیہ نے روشن کا داخلہ رد کردیاتھا۔ عدالت کے کئی چکر لگانے کے بعد بالاخرچیف جسٹس موہت شاہ نے فیصلہ صادر کیا کہ ’’روشن جب خود چلتے ہوئے عدالت آسکتی ہے توپھر آپ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ وہ کلاس روم تک کیسے نہیں آسکتی؟‘‘۔ عدالتی مداخلت سے روشن نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور امتحان میں کامیابی حاصل کی ۔اس کے بعد ایم بی بی ایس داخلے کے انٹرنس ٹسٹ مہاراشٹرا کامن انٹرنس ٹسٹ (MHCET)میں کامیابی حاصل کی۔ انٹرنس ٹسٹ میں کامیابی کے حصول کے بعد بھی اسے ایم بی بی ایس میں داخلہ دینے سے انکار کردیا گیا۔ قواعد کے اعتبار سے جسمانی طور پر 40%سے 70%معذوری کے حامل افراد کو ہی ایم بی بی ایس میں داخلہ دیا جاسکتاہے ۔روشن نے پھر سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جس پر عدالت نے روشن جواد کو ایم بی بی ایس میں داخلہ دینے کا فیصلہ صادر کیا۔آج روشن جواد اپنی معذوری کے باوجود ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن چکی ہے۔روشن جواد نے اپنی معذوری کا رونا رونے ،حالات کا شکوہ کرنے ،مشکلات کے آگے سپر ڈالنے کے بجائے زمانے سے سینہ سپر ہوگئی اور عزم و حوصلہ کی ایک روشن مثال بن گئی۔

جسمانی معذور سے پرے اسی سال عزم و حوصلے کی ایک اور زندہ مثال تب سامنے آئی جب اخباروں میں یہ خبر شہ سرخی بن کر چھپی کہ راجستھان کی اکیس سالہ خاتون روپا یادو نے 2017کے منعقدہ قومی سطح کے میڈیکل انٹرنس ٹسٹ نیٹ(National Eligibility and Entrance Test-NEETمیں جملہ 720نشانات میں سے 603نشانات حاصل کرتے ہوئے ہندوستان بھر میں 2,612رینک(مقام) حاصل کیا ہے۔یہ خبر عام سی ضروری لگتی ہے لیکن خاص اس لئے ہے کہ آٹھ سال کی روپاکا جئے پور ضلع کاریری گاؤں کے متوطن ایک غربت زدہ کسان گھرانے کے بارہ سالہ لڑکے شنکر لعل سے ا س وقت بیاہ کردیا گیا تھاجب وہ صرف تیسری جماعت کی طالبہ تھی۔ازدواجی زندگی کے مسائل میں گھری روپا نے اپنا تعلیمی کو سفر جاری رکھا ۔ دسویں جماعت کے امتحان میں 84%نشانات حاصل کرتے ہوئے امتیازی کامیابی حاصل کی۔بارہویں جماعت کے امتحان میں بھی اپنی تعلیمی کامیابی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اس نے 84%نشانات حاصل کیئے۔ گزشتہ سال بی ایس سی میں داخلہ لینے کے ساتھ ساتھ AIPMTامتحان میں شرکت کرتے ہوئے 23000رینک حاصل کیا لیکن خراب رینک کی وجہ سے اسے میڈیکل سیٹ نہیں مل سکی۔ AIPMTکے حاصل شدہ رینک سے حوصلہ پاکر اس کے شوہر اور جیٹھ نے ایم بی بی ایس انٹرنس کی تیاری کے لئے سماج کی لاکھ مخالفت کے باوجودروپا کو کوٹہ روانہ کیا کیونکہ ان کے گاؤں میں بہتر تعلیمی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔عمدہ تعلیمی مظاہرہ پر کوچنگ سنٹر نے اس کو اسکالرشپ بھی عطا کی۔آخر کار روپا نے 2017کے نیٹ میں ایک انہونی کوکر دکھایا ۔شادی شدہ زندگی کی الجھنوں باوجود ہندوستان بھر میں 2612رینک حاصل کرتے ہوئے روپا یادو نے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایابلکہ اپنی عمر کی لڑکیوں کے لئے ایک مثال بھی قائم کی۔روپا نے اپنے مقصد کے آگے کسی چیز کو نہیں آنے دیا۔ گھریلو کام کاج کرتے ہوئے ، کھیتوں میں محنت مزوری کرتے ہوئے، نامساعد حالات کا غربت کا سامنا کرنے کے ساتھ لوگوں کے دل کو چھلنی کردینے والے فقرے اور تمسخر کو کبھی راستے کی روکاوٹ نہیں بننے دیا اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ریو ،اولمپکس 2016میں امریکی ایتھلیٹ ابتہاج محمد دنیا کی وہ پہلی باحجاب مسلم خاتون ہے جس نے کانسے کا تمغہ حا صل کیا۔ عزم و حوصلے کی ایک اور عظیم مثال ریشما قریشی جس نے تیزاب سے مسخ شدہ اپنے چہرے کے ساتھ نیویارک فیشن ویک میں ریمپ پر چل کر پیغام دیا کہ مسخ ہوجانے والے چہروں کو بھی جینے کا حق حاصل ہے۔ریشما قریشی کی طرح نئی دہلی کی لکشمی کی خوب صورتی کو ایک درندے صفت انسان نے تیزاب ڈال کرملیامیٹ کردیا۔ ان حالات میں بھی لکشمی نے ہمت نہیں ہاری اور تیزاب کی عام فروخت کے خلا ف ایک کامیاب تحریک چلائی جس کی وجہ سے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو تیزاب کی فروخت کی نگرانی اور ایسڈ اٹیک کی روک تھام کے لئے اقدامات کرنے کے احکامات جاری کیئے۔

حالات سے مردانہ وار مقابلہ کرنے والی حوصلہ مند خواتین کے ناموں میں ایک اور نام دختر ہند ارونیما سنہا کا شامل ہے۔صوبہ اترپردیش سے تعلق رکھنے والی ارونیما کے والد ایک فوجی تھی ۔بچپن میں ہی ارونیما کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا۔ارونیما کو بچپن سے ہی کھیلوں میں دلچسپی تھی۔ ارونیما سنہا قومی خواتین والی بال ٹیم کا حصہ بھی رہی ہے۔قانون کی تعلیم حاصل کرنے والی ارونیما کی زندگی میں ایک عجیب و غریب موڑ اس وقت آیا جب وہ سی ائی ایس ایف(سنٹرل سیکورٹی فورس ) کی جانب سے تقرر کیئے جانے پر’’ پر نوتڑا‘‘ سے پدماوتی ایکسپریس میں سوار ہوئی۔ریل میں چند سارقوں نے ارونیما کے گلے سے طلائی چین چھین لی۔ جس پر ارونیما چوروں پر جھپٹ پڑی۔سارقوں نے ارونیما کو زدوکوب کرتے ہوئے چلتی ٹرین سے پھینک دیا۔ ارونیما کا ایک پیر ٹرین کی زد میں آنے کی وجہ سے کٹ گیا۔رات بھر وہ اسی حالت میں پڑی رہی ۔پٹری سے کئی ٹرینیں رات بھر گزرتی رہیں۔ ارونیما درد سے تڑپتی بلبلتی رہی۔ کرب و اذیت والی رات کی بھی آخر صبح ہوئی ۔ پٹریوں کے قریب رفع حاجت کے لئے آنے والے دیہاتیوں نے اورنیما کو دواخانہ پہنچایا۔ یہ خبر اخباروں اور ٹی وی چینلوں کی زینت بن گئی ۔ بے بنیاد باتیں اور الزامات ارونیما پر تھوپے گئے کہ وہ خودکشی کرنا چاہتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ارونیما کا ان باتوں سے پریشان ہونا بالکل فطری عمل تھا وہ ایک پیر کاٹ دینے کی وجہ سے پہلے ہی ذہنی اذیت کا شکار تھی اس پر ذرائع ابلاغ کی دروغ گوئیاں الاماں۔دواخانے کے بستر پر لیٹے لیٹے ہی ارونیما نے تہیہ کرلیا تھا کہ اسے کسی کی ہمدردی اور ترس کی ضرورت نہیں ہے اور وہ ایک پیر سے معذور ہوکر بھی اپنے پیروں پر کھڑے رہنا کا حوصلہ رکھتی ہے۔اس نے کوہ پیمائی کی تربیت حاصل کرنے کے بعد انڈین مونٹینیرنگ فاؤنڈیشن سے ایورسٹ پر چڑھائی کی اجازت حاصل کی۔ارونیما سنہا ایورسٹ کی بلند ترین چوٹی فتح کرنے والی دنیا کی پہلی معذور خاتون ہے۔21مئی 2013کو صبح دس بجکر پچپن منٹ پر ایورسٹ پر ہندوستانی ترنگا کوارونیما سنہا نے لہراکر ایک تاریخ رقم کردی۔ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے کے دوران اورنیما کوسخت حالات کا سامنا کرنا پڑا جہاں زندگی سہمی ہوئی تھی اور چاروں طرف موت کا ننگا رقص جاری تھا ۔ حوصلے جہاں مضبوط ہوں موت کو بھی شکست دے دیتے ہیں۔ ایک پیر سے معذورلیکن بلند حوصلے کی حامل 26 سالہ عظیم دختر ہند نے ملک کا نام روشن کردیا۔اس کارنامے کو سرانجام دینے پر ار ونیما کو پدم شری ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ارونیما نے زندگی کے سرد و گرم ،تلخ و و ترش حالات کا سامنا کیا۔موت کے آہنی پنجوں سے زور آزمائی کی۔نامساعد اور حوصلہ شکن حالات کا سامنا کیا۔لیکن کسی بھی طور شکست تسلیم نہیں کی۔ بلندعزم ،آہنی ارادے ،سخت محنت ،مسلسل جد و جہد کے ذریعہ ارونیما نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ کو سر کرتے ہوئے ارونیما سنہا نے ثا بت کر دیا کہ حوصلہ کے آگے کوئی بلند ی اہمیت نہیں رکھتی ۔ارونیما سنہا نے اپنے حوصلے سے دنیا کو بتا دیا کہ آدمی جسم سے معذور نہیں ہوتا ہے بلکہ سوچ اور ذہن سے اپاہچ ہوتا ہے۔ آدمی جب ذہنی معذوری سے ابھر جاتا ہے تو کوئی بھی مشکل مشکل نہیں رہتی اور وہ ہر ناممکن کو ممکن بناسکتا ہے۔عزم بلند سے کام لے کر تاریخ رقم کرنے والی ایسی ہی ایک اور باعزم دختر ہند ’’ارا سنگھل‘‘ہے ۔ جس کوجسمانی معذوری اور طبی بنیادوں پر مختلف محکموں نے کلرک اور جاروب کشی کی نوکری دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔اسی لڑکی نے یونین پبلک سرویس کمیشن(UPSC) امتحان میں ٹاپ کرتے ہوئے آئی اے ایس(IAS) کے باوقار عہدے کو حاصل کرتے ہوئے عزم و حوصلے کی ایک تاریخ رقم کی ہے ۔ ایک ناقابل علاج بیماری اسپائنل مسل ڈسٹرافی (Muscle Destrophy) کا شکار نیہا ملہوترا جس کے لئے اپنی وہیل چیر پر بیس منٹ تک لگاتار بیٹھنا بھی ممکن نہیں ہے ۔اس بیماری کی وجہ سے نہ تو وہ اٹھ بیٹھ سکتی ہے اور نہ ہی کروٹ بدل سکتی ہے۔ نیہا ملہوترا نے سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (CBSE)کے بارہویں جماعت کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے ثابت کردیا کہ حوصلے مشکل حالات کو ہی نہیں بلکہ جسمانی معذوریوں کو بھی مات دے دیتے ہیں۔نیہا ملہوترا کی بارہویں جماعت میں یہ کامیابی محض ایک اتفاق نہیں ہے بلکہ اس باہمت لڑکی نے دسویں جماعت کے امتحان میں بھی الہ آباد کے سب سے بڑے اسکول میں تیسرا مقام حاصل کیاتھا۔علم کے حوالے سے ساری دنیا میں پہچانے جانے والی ایک اور باہمت و باحوصلہ لڑکی ملالہ یوسف زئی کی داستان عزیمت بھی ناقابل فراموش ہے۔ وادی سوات پاکستان سے تعلق رکھنے والی یہ نرم و نازک بچی دہشت گردوں سے ہار نہ مانتے ہوئے اپنے علمی سفر کو جاری رکھا۔تعلیم کو عام کرنے کے ملالہ یوسف زئی کے عزم و حوصلے کو دنیا بھر میں سراہا گیا ۔ملالہ یوسف زئی جسے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا مگر ملالہ کی یہ معصوم خواہش دہشت گردوں کے نزدیک ایک نا قابل معافی جرم تھا ۔اس جزم کی پاداش میں ملالہ پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔اس کی سر میں گولیا ں پیوست کر دی گئی۔عزم کی پیکر ملالہ نے ببانگ دہل طالبان کے اثر و رسوخ کے آگے سر تسلیم خم کرنے اور جاہل رہنے سے انکار کردیا۔ملالہ خو ف ،دہشت، ظلم و جبر سے کہیں زیادہ مضبوط نکلی اور آج دنیا بھر میں اس کو عزم و ہمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ملالہ یوسف زئی کے عزم و حوصلے کی ستائش کرتے ہوئے دنیا کے سب سے معتبر انعام نوبیل پرائز سے ملالہ یوسف زئی کو سرفراز کیا گیا۔

مشکل حالات میں گھبرانے کے بجائے دانشوروں نے ہمت سے کام لیناکا مشورہ دیا ہے۔زندگی کانٹوں کاتاج نہ صحیح پھولوں کی سیج بھی نہیں ہے۔زندگی میں ہر ایک کو مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مشکل حالات میں بھی اپنا کام جاری رکھنا ہی کامیابی کی دلیل ہے۔وقتی لذتوں، آرام و آسائش ،لطف و سرورمیں مشغول ہوکر اپنے مقصد حیات کو فراموش کرنے والے لوگ زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں ۔انسان اپنی پسند یعنی آرام طلبی اور تن آسانی کو چھوڑے بغیر کامیابی کی بلندیوں کو کبھی نہیں چھو سکتا ۔آدمی جب تک آرام طلبی، تن آسانی،وقتی لذت و آسائش کے خول سے باہر نہیں آتا تب تک وہ قابل قدر کامیابی حاصل نہیں کر سکتا ۔اپنی مرضی کے خلاف جاتے ہوئے سخت راہوں پر چلنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔کامیابی مصائب و مشکلات سے عبارت ہے۔یہ کسی کو بھی آج تک بیٹھے بیٹھائے حاصل نہیں ہوئی ہے۔کامیاب کا سفر اکیلے ،تنہا اور محنت کے سہارے ہی طئے کیا جاسکتا ہے۔اپنے مقصد و کام کو دل جمعی سے پورا کرنا ہی کامیابی ہے۔بے دلی سے کام کا معیار خراب ہوجاتا ہے۔پڑھائی اور کام میں بے دلی سے احتراز ضروری ہے۔ آدمی کوناکامی اور زمانے کے طعن و تشنہ سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔اپنے حوصلے ہمیشہ بلند و مضبوط رکھنا چاہیئے۔آدمی کو غیر ضروری اور غیر اہم کاموں میں وقت برباد کرنے سے بچنا چاہیئے۔ کامیابی کے لئے ہمیشہ اپنے مقصد اور کام پر توجہ مرکوز رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ اپنی ناکامی اور خراب مظاہرہ پر حیلے بہانوں سے کام لینے سے گریز کرنا چاہیئے ۔شخصی کوتاہیوں اور خامیوں کی اصلاح سے شخصیت میں نکھار پیدا ہو تا ہے ۔محنت و مشقت کے علاوہ کوئی ایسا نسخہ نہیں ہے جو آدمی کوکامیابی کی راہ پر گامزن کرسکے۔جو محنت کرے گا وہی کامیاب ہوگا۔کامیابی کی آرزو کرنے سے آج تک کوئی کامیاب نہیں ہواہے۔ آرزوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے عملی جدو جہد ضروری ہے۔ اگر کامیابی خواہش مند ہوتو اپنے کام میں دلچسپی لو۔اگر کام میں دلچسپی نہیں ہوگی تو ہر کام ادھورا رہ جائے گاجس کی وجہ سے ناکامی ،ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔دنیا میں وہی لوگ سرخ رو ہوتے ہیں جو اپنے کام اور مقصد کو اپنا نصب العین بنالیتے ہیں۔عزیزو!کچھ بھی ناممکن نہیں ہے صرف ا یک قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ تو۔۔۔پھرکیا سوچ رہے ہو قدم بڑھاؤ فقید المثال کامیابیاں آپ کی منتظر ہیں۔

farooq tahir
About the Author: farooq tahir Read More Articles by farooq tahir: 131 Articles with 237742 views I am an educator lives in Hyderabad and a government teacher in Hyderabad Deccan,telangana State of India.. View More