۲۰۱۷ء۔۰۷۔۲۵، منگل
۱۔ ایک دوست وہ ہوتے ہیں جو دنیا کے ساتھی ہوتے ہیں اور دوسرے وہ ہوتے ہیں
جو آخرت کے ساتھی ہوتے ہیں۔
۲۔ دنیا کے دوست قبر تک جاتے ہیں جبکہ آخرت کے دوست قبر سے آگے تک جاتے ہیں۔
۳۔ دوست وہ ہوتا ہے جو مصیبت میں ساتھ دے، تو اصل دوست تو پھرآخرت کے دوست
ہوئے ۔
۴۔ دنیا کے دوست عام طور پر قبر تک جاتے ہیں اور بعض اوقات قبر تک لے بھی
جاتے ہیں۔
۵۔ دنیا کے دوست: مال دولت، شہرت ، تعلقات، حکومت اور رتبہ وغیرہ ہیں ،جب
کہ آخرت کے دوست: قرآن، نماز، روزہ،حج، زکوٰۃ، صدقہ ، حسنِ اخلاق و غیرہ
ہیں۔
۶۔ دوست کی موجودگی انسان کو سکون اور خوشی دیتی ہے اور اگر دوست اﷲ کی یاد
ہو تو کوئی پریشانی کیسے رہ سکتی ہے۔
۷۔ جو لوگ خدا کے دوست بن جاتے ہیں وہ ہر قسم کی خوف سے آزاد ہوجاتے ہیں
کیو ں کہ دوست کے گھر میں دوست کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔دنیا بھی خدا کا گھر
ہے اور آخرت بھی اس کا گھر ہے۔
۸۔ دنیا بھی خدا کی اور آخرت بھی خدا کی، تو خدا کے دوستوں کو فکر کیسی۔
۹۔ خدا کے دوست، خدا کی مخلوق سے بھی محبت کرتے ہیں اس بنا پر کہ وہ خدا کی
مخلوق ہے۔
۱۰۔ خدا نے خود اپنے دوستوں کا خوف و حزن سے آزاد ہونا بیان فرمایا ہے۔
۱۱۔ خدا کی دوستی کی نشانیوں میں سے عاجزی، فیاضی، تواضع، پاکیزگی، بے
اعتنائی وغیرہ شامل ہیں۔
۱۲۔ خدا کے دوست خدا کی یاد میں ایسے ہی محو رہتے ہیں جیسے قریبی دوست ہر
وقت ایک دوسرے سے منسلک رہتے ہیں۔
۱۳۔ خدا اپنے دوستوں کو اپنی رضا میں راضی کر لیتا ہے۔
۱۴۔ دوستی دو طرفہ عمل ہوتا ہے، خدا کے دوست اس سے خوش ہوتے ہیں اور خدا ان
سے خوش ہوتا ہے۔
۱۵۔ اگر دل خدا کی دوستی سے مزین ہو جائے تو اخلاق سے خوش بو آنے لگتی ہے۔
۱۶۔ خدا کی دوستی دنیا و آخرت کی سب سے بڑی متاع ہے۔
۱۷۔ دوستی ، قربانی مانگتی ہے اور خدا سے دوستی کے لئے سب سے پہلے اپنی انا
قربان کی قربانی دینا پڑتی ہے۔
۱۸۔ دنیا کی دوستی فساد کی جڑ جب کہ خدا کی دوستی امن کی بنیاد ہے۔
۱۹۔ خدا کی دوستی مل جانے سے دنیا حقیر لگنے لگتی ہے۔
۲۰۔ جیسے دوست ایک دوسرے کی بات مان لیتے ہیں ، ویسے خدا بھی اپنے دوستوں
کی بات مان لیتا ہے۔
۲۱۔ دوست اگر ملک بادشاہ ہو تو دل کے سکون کے کیا کہنے اور اگر دوست کائنات
کا بادشاہ ہو تو پھر پریشانی کیسی۔
۲۲۔ ویسے تو خدا ہر مخلوق کے قریب ہے لیکن اپنے دوستوں کے زیادہ قریب ہے۔ |