تحریک آزادی کشمیرمیں حکمت عملی کا فقدان

 حکمت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی دانائی ،تدبیر،ترکیب ،کسی چیز کی حقیقت جاننا یا سمجھنا اور کسی چیز کو دریافت کرنے والے علم کا نام ہے ۔ہر دشوار اور مشکل کام حکمت سے آسان ہو جاتا ہے ۔حکمت اختیار کرنے سے ناممکن الحصول کام ممکن ہوجاتا ہے اور بے تدبیری اور بدترکیبی سے اچھا بھلا معاملہ بھی بگڑ جاتا ہے ۔کامیاب تحریکات کے بانیان کا اصل کمال درست حکمت عملی اختیار کرنا ہی نظر آتا ہے ۔نظریوں اور افکار کو پیش کرنا ہی کمال نہیں بلکہ کمال یہ بھی ہے کہ نظریہ یا فکر کو انسانی معاشروں کے لئے مفید ثابت کرنے کے بعد مطلوبہ حکمت عملی پیش کرتے ہو ئے عملی طور پر ممکن الحصول ثابت کردیا جائے۔ایک نظریہ چاہیے کتنا ہی بہترین کیوں نا ہو بغیرحکمت عملی وہ زندہ سماجوں کے بیچ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنی موت آپ مر جاتا ہے ۔نظریوں کے برعکس تحریکات کے لئے حکمت عملی آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے ۔تحریک اگر نظریہ کی بنیاد پر قائم ہو تو سفرآسان اور منزل قریب ہوجاتی ہے نہیں تو پاس کی منزل بھی ایک سراب نظر آتا ہے ۔حیرت انگیز بات یہ کہ قرآنِ مقدس میں اﷲ تعالیٰ نے حکمت اور دانائی کو ’’خیرِ کثیر‘‘قرار دیا ہے (سورہ بقرہ۔آیت نمبر:269)اس سے معلوم ہوا کہ حکمت عملی پیش کرنا یا عملانا گو اعلیٰ ترین دانائی ہے مگر یہ کسی ’’ایرے گیرے‘‘کا کام نہیں بلکہ دانائے دہر سے ہی ممکن ہے اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک بالکل واضح ہے کہ حکمت و دانائی صرف تمناؤں اور آرزؤں سے نہیں ملتی ہے بلکہ یہ بھی انعام الٰہی کی ایک خاص قسم ہے جو وہ اپنی مرضی سے دیتا ہے جسے چاہتا ہے ۔مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں کہ اہل عرب حکمت کا لفظ انسان کی اس قوت وصلاحیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں جو عقل و رائے کی پختگی اور شرافت اخلاق کی جامع ہوتی ہے (تدبر قرآن ۔جلد اول ،صفحہ نمبر:341)

حکمت عملی کا سرچشمہ عقل ہے اور عقل کی تخلیق قلم کے بعد ہوئی ہے۔عقل ہرفردکی ایک جیسی نہیں ہوتی ہے ۔دنیا کو جن نیک ناموں نے اپنے علوم و فنون سے آباد کیا وہ بیوقوف یا کم عقل نہیں تھے ۔عقل کا رشتہ اﷲ سے جڑا ہو تو اسے نور پھوٹتا ہے نہیں تو شیطان عقل والوں سے وہ کام کراتا ہے کہ انسانیت صدیوں تک دردوکرب سے کراہتی رہتی ہے ۔تھوڑی دیر کے لئے عقائد اورنظریات کی بحث سے چشم پوشی کرتے ہو ئے براہِ راست تحریک آزادی کشمیر کی طرف آتے ہیں جس کے ساتھ عقائد و نظریات کی دعوت اور نفاذ ہی کی طرح بیش بہا قربانیوں کی تاریخ جڑی ہوئی ہے ۔ صدیوں سے جاری تحریک آزادی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے ایک بے ہنگم اور بے رُخ تحریک نظر آئے گی ۔جو مختلف مراحل سے گذرتی ہوئی کبھی ایک سمت اور کبھی دوسری مخالف سمت کی طرف چل پڑتی ہے ۔1990ء کے بعد جس خونین طرز پر اس کو چلایا گیا اس کا تصور بھی 1989ء میں نہیں کیا جا سکتا تھا ۔مار دھاڑ اور قتل و غارت نے ایک چھوٹی سی قوم کو ہمہ جہت اور ہمہ پہلو اضطراب میں مبتلا کررکھا ہے ۔جو معصوم نوجوانوں کے مسلسل قتلِ عام سے ششدر ہے اور اس کی حالت اس بے کس انسان کی بنی ہے جس کے پیچھے شیر اور آگے پہاڑ ہو ۔اس کے لئے تحریک سے دستبرداری اور بغیر حکمت عملی کے آگے بڑھنا دونوں خود کشی کے مترادف ہیں ۔

1947ء کی تقسیم کے وقت ہماری قوم جس بھنور میں پھنس گئی اس میں لیڈرشپ کی یک رُخی اور یکسوئی کے فقدان کے ساتھ ساتھ غلط حکمت عملی کا عنصر بھی شامل تھا ۔خطے کی تین طاقتوں نے مسلم اکثریتی ریاست کے تین حصوں پر قبضہ کر کے خطے میں ایک ایسے ناسور کو جنم دیا ہے کہ کشمیر کی لیڈرشپ کی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں اورجو جنگ انہیں اپنی قوم کی بقاء کے لئے لڑنی تھی وہ انھوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی لڑی اور نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ڈھائی سوبرس کی طویل جدوجہد کے باوجود بھی ہم کامیاب نہیں ہو ئے اس لئے کہ ہم نے وقتی اور عارضی مراحل پر قناعت کر کے کچھ پانے کے برعکس بہت کچھ کھودیا ۔اٹھائیس برس کی تحریک میں ابھی تک ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ہم نے کب کیا اور کیوں کرنا ہے اور تیزی کے ساتھ بدلتے عالمی منظر نامے میں ہماری اہمیت بڑھنے کے باوجود ہمیں اپنی اہمیت کا کوئی احساس نہیں ہے ۔لیڈرشپ ہو یا قوم اس کے سامنے کوئی واضح لائحہ عمل یا نقش راہ نہیں ہے ۔کہنے کو ہم آزادی مانگتے ہیں مگر اس طویل اور پر مشقت سفر کے کم سے کم بہتر (72)اور زیادہ سے زیادہ ڈھائی سو سال میں ہمیں یہ تک نہیں معلوم ہے کہ قوم کو کیسے اس پر مشقت سفر پر دوڑاتے رہیں گے اور کیسے اس بوجھ کو ہلکاکردیں گے ۔

ہدف اور منزل واضح ہو تو پھر حکمت عملی کے تعین میں بھی آسانی ہوتی ہے ۔بے شک ہدف آزادی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے حصول کے لئے طریقہ کار کا تعین کون کرے گا ؟1947ء سے قبل اور بعدہندوستانی جموں و کشمیر میں غالب رجحان پر امن جدوجہد کارہا ۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان نے مسلح بغاوت کرتے ہو ئے اپنا راستہ خود چن لیا ۔شیخ عبداﷲ نے ہدف بدلتے ہو ئے راستہ ہی بدل دیا اور حکومتی گھوڑے پر بیٹھ کر دہلی کے راج گھاٹ پر اپنی منت پوری کر لی ۔معاملہ1990ء تک آگیا کہ قوم پھر جاگ اٹھی لبریشن فرنٹ نے چند بندوقوں سے اس میں آزادی کی نئی روح پھونک دی ۔پوری قوم ایک آوازپرمجتمع ہوکر آزادی کا مطالبہ کرنے لگی ۔مگر المیہ یہ کہ لبریشن فرنٹ کے بعد درجنوں فرنٹ ،احزاب،محاذ اور کانفرنسیں وجود میں ضرور آئی پر پورے اٹھائیس برس میں کسی نے بھی تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے حکمت عملی مرتب نہیں کی ۔جس کے جی میں جو آیا جیسا چاہا وہ ویسا کرتے ہو ئے آگے بڑھا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف قوم منتشر و پریشان رہی بلکہ دنیا بھی یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں ۔ہدف کا حصول تب آسان ہو جاتا ہے جب اس کے لئے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے اور کامیاب لائحہ عمل وہ کہلاتا ہے جس کی سواری عقل مندوں کی ترتیب دی ہوئی حکمت عملی ہو نہیں تو منزل سراب کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتی ہے ۔

پرامن جدوجہد کو ترک کرتے ہو ئے مسلح جدوجہد کو ترجیح دینے کا فیصلہ کس حکمت عملی کا نتیجہ تھا اور اس کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما تھیں محققین کے لئے دلچسپ موضوع ہوگا ۔اس کے نتائج و عواقب سے بے خبر وہ خفیہ قوتیں(جنہوں نے اس کے شروع کرنے کی وکالت کی تھی) نہ جانے آج کہاں اور کس حال میں ہیں مگر ایک لاکھ گودیں خالی کرنے کے بعد بھی ابھی تک اس پر بحث کی بھی نوبت نہیں آئی ہے کہ پر امن جدوجہد کے برعکس مسلح جہادکا آغاز درست اور حکمت پر مبنی فیصلہ تھاکہ نہیں ؟اب 1990ء میں لئے گئے ایک فیصلے پر ہم گذشتہ اٹھائیس برس سے کاربند ہیں اور ہم نے حکمت عملی ترتیب دینے کے بجائے ایک ایسے مزاج کو پروان چڑھایا ہے کہ جو بھی فرد ،لیڈر،دانشور،عالم یا قلمکار دوسری راہوں پر سوچنے کی وکالت کرتا ہے ہم اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اورہمارا ابتدائی تاثر اور تصور یہ ہوتا ہے کہ یہ راگ اور ساز دلی یا اسلام آبادکے اشارے پر الاپا جارہا ہے اپنی عقلی جستجو یا دلسوزی پر نہیں۔ اس لئے کہ عسکری تحریکوں کا یہ خاصا ہوتا ہے کہ وہ اچھے بھلے انسان پر بھی شک کرتی ہے اور عسکری دور طول پکڑ جائے تو یہ شک و شبہ کے سہارے جینا سراغرساں اداروں کی طرح معاشرے کی بھی سرشت میں داخل ہوجاتاہے ۔اصول اور ہدف پر ڈٹ جاناآزادی کی تحریک کے لئے زندگی ہے مگر طریقہ کار میں بدلاؤ حکمت عملی کے تحت ترتیب دئے بغیر خوفناک خودکشی ہوگی ۔حکمت عملی کو ترتیب دینے کی ضرورت1990ء میں تھی جس کا 2017ء جولائی میں بھی کوئی سراغ نہیں مل رہا ہے ۔اس کی اہم ترین اور ناقابل انکار وجہ صرف یہ ہے کہ لیڈرشپ نے تحریک کو ’’اداراتی تحریک‘‘بنانے میں نا ہی دلچسپی دکھائی نا ہی اپنے سواء کسی کو کچھ کرنے یا کہنے کی اجازت دی اس طرح تحریک کے حوالے سے کچھ کہنایا بولناچند اشخاص کے لئے مخصوص ہوگیا ۔

حکمت عملی کی ترتیب اہداف کی روشنی میں ایک ادارے کا کام ہے فرد واحد یا ایک تنظیم کا نہیں ۔اس کی ضرورت اس لئے بھی ضروری ہے کہ بدلتی دنیا میں منظر نامہ بہت تیزی کے ساتھ بدلتا رہتاہے یہی وجہ ہے کہ غیروں کے ہاں ’’تھنک ٹینکس‘‘کی اصطلاح کے چرچے خوب ہیں پر ہمارے ہاں اس کے حروف تہجی کا بھی پتہ نہیں چلتا ہے ۔بدلتے موسموں کی طرح بدلتی دنیا میں کبھی ایک چیز ممنوع ہوجاتی ہے اور کبھی دوسری ۔کبھی ایک چیز محبوب ہوجاتی اور کبھی وہی مبغوض ۔کبھی حالات عسکریت کے حق میں ہو جاتے ہیں اور کبھی اس کے خلاف ۔کبھی عسکریت ہی واحد ہتھیار رہ جاتا ہے اور کبھی پر امن جدوجہد ہی دشمن کی موت ثابت ہو جاتی ہے ۔یہ پچاس سال پرانی دنیا بھی نہیں ہے جہاں مسائل کو ایک ہی لگے بندھے طریقہ سے حل کرنے اور کرانے کی کوششیں کی جاتی تھیں ۔دنیا عملی طور پر پانچ ممالک کی لونڈی بن چکی ہے ان کے مزاج اور طبیعت کے بدلاؤ سے دنیا میں نئی ہوا چلتی ہے ۔ہم لاکھ سر ماریں کہ ہم پانچ طاقتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے تو اس سے ان کی صحت پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے البتہ ظلم وجبرکے باوجود ان کی قوت و صلاحیت ، محنت و مشقت اور عالمی رول کو اگر ہم ذہن میں رکھیں تو شاید ہمیں اپنے مسائل کے حل میں تھوڑی سی راحت محسوس ہوگی ۔اسلام کی دعوت ہو یا اس کے نفاذ کی کوششیں ،مسلمانوں کے ملی مسائل ہوں یا مسلم مقبوضات کی دردناک داستان انہیں تیزی کے ساتھ بدلتی دنیا کے ساتھ مانوس رہ کر اجنبیت ختم کرنا بہت ضروری ہے ۔اس لئے کہ چودہ سو برس سے ایک ناقابل انکاراُمت بن جانے کے باوجودبھی ابھی تک نئی دنیا ’’امت کے سورج ڈھل جانے کے بعد‘‘ہماری نہیں سنتی ہے ،رہے ہمارے مسائل کے حل میں مدد دینا تو یہ اس وجہ سے ممکن نہیں ہے کہ آج کل ساری غیر مسلم دنیااس بات پر متفق ہے کہ تمام تر برائیوں اور فساد کی جڑ مسلمان ہیں۔

تیزی کے ساتھ بدلتے عالمی حالات میں جہاں ثابت شدہ مسلم دشمن طاقتوں امریکہ اوراسرائیل کے شیطانی اتحاد میں ہندوستان کاکھل کرشامل ہوناایک پریشان کن امر ہے وہی دوسری طرف چین اورروس کا پاکستان کے ساتھ دوستی اور قربت بھی قابل غور ہے ۔کشمیر کے مسئلے کو لیکر جہاں آنے والے وقت میں چین اور روس اپنا کردار ادا کرے گا وہی امریکہ اور اسرائیل بھارت کے راستے دخل اندازی کے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گا ۔ ایسے میں کشمیری قوم اور لیڈرشپ کا کیا رول ہونا چاہیے گذشتہ تمام تر آزمائشوں کے برعکس اب ہماری لیڈر شپ کے عقلی امتحان کی گھڑی آن پہنچی ہے ۔انہی مواقع پر حکمت عملی کو قبل از وقت ترتیب دینا اور پالیسی کے جز جز پر کھلی بحث و تمحیص کی شدید ضرورت ہوتی ہے ۔مگر ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم قبل از وقت تیاری تو دور کی بات اس کے لئے سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے ہیں ۔ اس کے لئے یہ چند مثالیں کافی ہیں کشمیری قوم نے پرامن جدوجہد کے راستے پر 1990ء میں عسکری اور جہادی راہ کو ترجیح دی یہ کسی کھلی مشاورت کے نتیجے کے برعکس ایک خفیہ پلان تھا ۔2008ء کے امرناتھ شرائین بورڈ کو ریاستی سرکار نے دفعہ 370کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہو ئے زمین الاٹ کی تواس کے خلاف پر امن احتجاج کے بعد لوگوں نے پر امن راہوں پر چلنے کا من بنا لیا تو یہ بھی کسی ’’قائدانہ حکمت عملی ‘‘کے برعکس عوامی خواہشات کا نتیجہ تھا۔2009ء میں آسیہ نیلوفر قتل،2010ء میں مژھل فرضی انکاؤنٹر،2013ء میں افضل گورو کی پھانسی اور2016ء میں برہان وانی اور اس کے دو ساتھیوں کا ایک معرکے میں قتل کے خلاف عوام سڑکوں پر آئی جس سے معاملات ان اشوز تک محدود رہنے کے بجائے تحریک آزادی کو بھی ایک طرح کی قوت ضرور ملی جبکہ یہ سانحات تحریک کا حصہ ضرور ہیں خود تحریک نہیں ۔اس لئے کہ میری یہ سوچ ہے اور میں اپنی سوچ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں کہ اگر یہ سانحات پیش ہی نہ آتے تحریک ان کے سوا بھی ایک مسلمہ حقیقت کی طرح موجود تو ہوتی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے تب ہماری لیڈرشپ کیا کرتی ؟کیا تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد پورے طور پر سانحات اور حادثات ہی کے ارد گرد گھومتی رہے گی؟

کشمیری قوم اعلان جنگ کئے بغیر حالتِ جنگ میں ہے اوربغیر حکمت عملی یا اسٹریٹجی ہم ترجیحات کا تعین کرنے سے بھی قاصر ہیں۔حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ایسا طریقہ کار اختیار کریں کہ ہمارا جانی نقصان نا ہونے کے برابر ہو،ہماری معیشت اور تعلیم کا نقصان نا ہو ،ہمارے بیچ سماجی اور فرقہ وارانہ ٹکراؤجنم نا لے ،تمام تر ممکنہ کوششوں کے ساتھ پوری ریاست آزادی کا مطالبہ کرے اور ریاست سے مراد ’’وادیٔ کشمیر‘‘نہیں بلکہ کشمیر،لداخ،جموں،آزادکشمیراور گلگت بلتستان ہے، دنیا ہماری تحریک کو دہشت گردی سے نتھی کرنے میں کامیاب نا ہو جائے،ہم اصولوں کی بنیاد پر یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ہماری تحریک کسی کی مذہبی یا انفرادی آزادی سلب کرنے کے لئے نہیں ہے ،ہم اپنے ’’اجتماعی عمل‘‘سے یہ ثابت کریں کہ ہماری تحریک کسی خاص مسلک یا فرقے کی تحریک نہیں ہے ،ہم یہ بھی محکم بنیادوں پر باور کریں کہ کشمیر ی امن پسند لوگ ہیں امن دشمن نہیں اور ہاں جنگی حالات ہم پر مسلط شدہ ہیں ہمارے تخلیق شدہ نہیں ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیامیں ہمیں بدنام کرنے کی جاری پروپیگنڈا مہم کا توڑ گر چہ ہمارے بس میں نہیں مگر ہمیں طرزِ جدید اختیار کرتے ہو ئے سوشل میڈیا کا استعمال کر کے بدنامی کے داغ کو بہر صورت دھونا ہوگا نہیں تو دنیا ہماری بات کبھی نہیں سنے گی ، ہمیں یہ بتانا ہوگا کہ ہم بھارتی عوام کے دشمن نہیں ہمدرد ہیں تاکہ بھارت کے اندرسے ہمارے حق میں صدا بلند ہو اور پوری پاکستانی قوم ہمارے حق میں عالمی سفراء کا کردار ادا کریں ،ہم بیرون ممالک مقیم کشمیریوں کو سفیر کااعزاز بخشیں،اور سب سے اہم یہ کہ مغربی ،یورپی اور مسلم ممالک فلسطینی کاز کی طرح ہماری حمایت کریں۔ ہم اپنے طرز عمل سے یہ بتانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ہم مظلوم ہیں ظالم اور جابر نہیں۔

دنیا کے تقریباََ 196ممالک میں باون مسلم ممالک ہیں جن میں پاکستان کے سواء کوئی ہمارا غلطی سے بھی نام نہیں لیتا ہے اور پاکستان بھی ہماری بات اس وجہ سے کرتا ہے کہ آزاد کشمیر یعنی ریاستِ جموں و کشمیر کا ایک حصہ اس کے پاس ہے اگر ایسا نا ہوتا تو شاید پاکستان کا کردار ہمارے لئے ویسا ہی ہوتا جیسااس کا کردار برما کے مظلوم ترین عوام کے لئے دکھائی دیتا ہے ۔اس ساری صورتحال میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس قوم کو یہ آزادی چاہیے اس کو اس کا ادراک کرایا جائے کہ ’’غلامی اورآزادی‘‘میں بنیادی اور حقیقی فرق کیا ہے۔لیڈرشپ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر فن مولیٰ کے وہم سے باہر آکر اپنی صلاحیتیں آپ پہچان کر اپنی کمیوں کو بھرنے کے لئے دوسروں کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھیں اور اسے بھی پہلے آپ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے 2010ء سے اب تک پھیلی ہوئی یا پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کو دور کریں ۔فی الوقت بھارت کی کامیاب کوشش یہ ہے کہ کشمیریوں کے خلاف سخت اسٹینڈ لے کر انہیں مکمل طور پر مایوس کرکے تحریک کو’’عالمی دہشت گردی‘‘کے ساتھ نتھی کرتے ہو ئے فوجی طاقت کے ساتھ کچلنے کا موقع نہ گنوا دیں ۔عالمی صورتحال کل کیا ہوگی حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے ایسے میں لیڈر شپ کوطویل اور قلیل مدتی حکمت عملی کی روشنی میں قوم کے سامنے لائحہ عمل رکھنا چاہیے ،یہ بات ذہن میں رکھتے ہو ئے کہ بھارت کی قیادت ہندتوا کے علمبردار سنگھ پریوار کے ہاتھوں میں آچکی ہے ،جس کی نگاہ کشمیر اور پاکستان پر ہی نہیں افغانستان پر بھی ہے ۔اکھنڈ بھارت نا صحیح پورا ہندوستان مسلم دشمن بھارت ضرور بنتا جا رہا ہے ایسے میں عالمی سامراج امریکہ کے ساتھ اسرائیلی دوستی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔ساری امیدیں چین اور پاکستان سے جوڑ کر تھکا دینے والے صورتحال کے سہارے قوم کو خوش رکھنا بھی عقل مندی نہیں ہوگی لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ لیڈرشپ کھلے ذہن کے ساتھ اپنے دائرے کو وسیع کرتے ہو ئے تمام تر امکانات اور امتحانات کو سامنے رکھ کر ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ ہر صورت میں بھارت کی ظالم بیروکریسی تھکے کشمیرکی مظلوم قوم نہیں اور یہ جنگ ہماری ذہانت کا امتحان ہے ہماری قوت کا نہیں ۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 84324 views writer
journalist
political analyst
.. View More