ڈیڑھ ہزار سال قبل افلاطون نے کہا تھا کہ بہترین معاشرہ
تشکیل دینے کے لیے بہترین نظام ِتعلیم ضروری ہے،افلاطون کے اس فکر کی صداقت
آج پوری دنیا تسلیم کر چکی ہے ، دنیا کے نقشے میں انہیں ممالک کو عزت ووقار
حاصل ہے جنہوں نے علم وادب اور فکر وآگہی سے گہری وابستگی رکھی ، تعلیم کے
شعبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مستحکم رکھا،اس بین الاقوامی حقیقت کا اعتراف
کرتے ہوئے ممتازمورخ ایچ ، جی ، ویلز(H.G. WELZ) نے کہا کہ‘‘انسانی تاریخ ،
تعلیم اور تباہی کے در میان کےگردش کرتی نظر آتی ہے’’۔یعنی انسانی تاریخ
میں جہاں تعلیم کاذکر ہے وہاں تباہی کا نام ونشان نہیں ملتااور جہاں تباہی
ہے وہ دَوْر علم وحکمت کی روشنی سے دُور نظر آتا ہے ۔
علم وآگہی کے فروغ میں نصابِ تعلیم اور نظام تعلیم کا بڑا اہم کردار ہو تا
ہے ،اچھانصاب اور عمدہ نظام ِ تعلیم طلبہ کی شخصیت کونکھار نے میں نمایاں
کردار ادا کرتے ہیں،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ متعلم کی شخصیت پر سب سے قوی
اور فوری اثر نہ تو نظام تعلیم کا ہو تا ہے اور نہ ہی نصاب تعلیم کا ،نظام
ونصاب کو کامیاب بنانے میں سب سے کلیدی کردار استاذ اور معلم کا ہو تا ہے ،
علم وادب کے فروغ کے لیے سب سے بڑا سر چشمہ استاذ ہی کی ذات ہے ،اس لیے کہ
استاذ کا تعلق صرف نصابی کتابوں کی تعلیم ہی سے نہیں ہو تا بلکہ وہ قوم
وملت کا معمار ،سماج و معاشرے کا رہبر ورہنما ہو تا ہے ،مستقبل کےقائدین کی
تعلیم وتربیت اور ان کی رہنمائی ونگہ داشت استاذ ہی کے رحم وکرم پر ہو تی
ہے ،وہ چاہے تو اپنی درس گاہ سے با فیض مدرس ،بالغ نظر مفکر ، مستقبل شناس
قائد ، دور اندیش مبلغ ، سحر بیاں خطیب اور قوم وملت کو نئی جہت عطا کر نے
والے شاہین صفت جیالے پیدا کرے اور دین ومذہب اور ملک وملت کے مختلف شعبوں
میں ایک عظیم انقلاب برپا کردے،لیکن اگر بد قسمتی سے کسی قوم کے معلمین کے
اندر خیانت اور فرض ناشناسی کے عناصر پیداہو جائیں تو پھر اس قوم کا اللہ
ہی حافظ ہے۔
آج کی صحبت میں ہم فارغین مدارس اسلامیہ بلفظِ دیگر اساتذہ مدارس کی تعلیمی
، تدریسی اور تربیتی ذمے داریوں کے سلسلے میں گفتگو کریں گے ۔ برصغیر کے
مدارس اسلامیہ میں جو نظام تعلیم رائج ہے ، دیگر تعلیمی اداروں کی بہ نسبت
اس نظام تعلیم میں اساتذہ مدارس کی ذمے داریاں زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے
فارغین مدارس کو ہمہ جہت صلا حیتوں کا حامل ہو نا چاہیے،خاص طور سے تدریس
کے اصولوں سے مکمل طور پر واقفیت ہو نی چاہیے ، طلبہ کی نفسیات کو سمجھنے
کا ملکہ ہو نا چاہیے، کیوں کہ فلسفہ تعلیم سے آگہی کے بعد ہی کو ئی استاذ
طریقہ تدریس کے قواعد سے آشنائی حاصل کر سکتا ہے،مسائل کا ادراک ، حقائق کی
نشان دہی ، وقتی مشکلات کا تجزیہ اور معقول حل کی تلاش، نظریاتی بنیادوں تک
رسائی کے ساتھ تدریسی عمل کی درستگی کی لیے طریقہ تعلیم کےرموز واسرارسے
واقفیت ایک کام یاب استاذ کے لیے از حد ضروری ہو ا کرتی ہے۔
ذیل کی سطروں میں ہم کام یاب تدریس کے کچھ رہنما اصول تحریر کرتے ہیں :
طلبہ کی ذہنی سطح کا اندازہ:
کام یاب تدریس کے لیے ضروری ہے کہ معلم متعلقہ درجہ کے طلبہ کی ذہنی سطح ،
علمی استعداداور فکری بالیدگی کا باریکی کے ساتھ جائزہ لے اور اجتماعی
وانفرادی طور پر طلبہ کی لیاقت کا معائنہ کر نے کے بعد ہی تدریس کا عمل
شروع کرے،بسا اوقات استاذ اپنی لیاقت کے مطابق ایسی گاڑھی گفتگو شروع کرتا
ہے جو طلبہ کے سروں سے گزر جاتی ہے، طلبہ نہ صرف یہ کہ سبق سمجھنے سے قاصر
رہتے ہیں بلکہ اپنے استاذسے بد دل بھی ہو جاتے ہیں، ظاہر ہے کہ ہدایۃ النحو
پڑھاتے وقت اگر شرح جامی کے نکات بیان کیے جائیں اور کتاب العقائد کے درس
میں شرح عقائد اور نبراس کی بحثوں کو موضوع سخن بنا لیا جائے تو طلبہ کا
حواس باختہ ہو نا بعید از قیاس نہیں ۔ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایک
در جے میں کئی طرح کے طلبہ ہو تے ہیں ، بعض ذہین وفطین ، بعض درمیانی قسم
کے اور بعض نہایت کمزور ، لہذا تدریس ایسی ہو نی چاہیے کہ کمزور سے کمزور
طالب علم بھی سبق کو حتی الامکان سمجھ سکے۔یہی کام یاب تدریس کی نشانی ہے۔
سبق کے لیے خصوصی تیاری:
کام یاب تدریس کے لیےمتعلقہ سبق کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ بہت ہی اہمیت کا
حامل ہے ، سبق چاہے جس قدر سہل ہو لیکن تدریس سے قبل اس سبق کی تیاری کو
ماہرین تعلیم نے ضروری قرار دیا ہے، ہمارےا کابر بغیر مطالعہ کے پڑھانے کو
جُرم سمجھتے تھے ، وہ چھوٹی سے چھوٹی کتابوں کو بھی مطالعہ کے بعد ہی پڑھا
یا کرتے تھے ، حالاں کہ ان کی علمی لیا قت اور سالہا سال کا طویل تدریسی
تجربہ ہی معمولی مضامین کی تدریس کے لیے کافی ہوا کرتا تھا ،اس کے باوجود
وہ کبھی بھی غفلت سے کام نہیں لیتے تھے ۔سہل پسندی اور غفلت وکو تا ہی کے
اس دور میں نئی نسل کے فارغین مدارس کے اندر بغیر مطالعہ کے پڑھانےکی
بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے ، حالاں کہ بسا اوقات انہیں اپنی غفلت کا
خمیازہ درس گاہی میں بھگتنا پڑتا ہے ۔ لیکن اس سے طلبہ مدارس کا جو تعلیمی
نقصان ہو تا ہے اس کا کفارہ کہاں سےادا ہو گا ؟ اس ضمن میں ذمے داران مدارس
سے بھی بڑے ادب سے گزارش کروں گا کہ اساتذہ کی سب سے بنیادی اور اہم ذمے
داری تدریس ہے ، تدریس کا عمل بذات خود اس قدر محنت طلب اور مشقت آمیز ہے
کہ ایک مدرس کے لیے مختلف فنون کے آٹھ نو اسباق کی تیاری اور پھر اوقات درس
میں ان کی تدریس بڑا صبر آز ما ہو تا ہے ،اس کے بعد اگر استاذ کو مختلف قسم
کے غیر تدریسی کاموں میں الجھا دیا جائے تو یقانواسبا ق کے ساتھ استاذ
انصاف نہیں کر سکےگا اور اس نا انصافی کے مجرم اساتذہ کے ساتھ مدارس کے
ارباب حل وعقد بھی ہوں گے۔
جدید طریقہ تدریس میں سبق کے خصوصی نکات کو تحریری شکل میں نوٹ کر کے لے
جانا اور پھر اسی کی روشنی میں طلبہ کے در میان تقریرکرنے کا رواج عام ہے ،
عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور لکچرار عموماسبق کے اہم نکات کی جامع
تلخیص اپنی ڈائری میں نوٹ کر کے ہی کلاس میں پہنچتے ہیں اور طلبہ کو بھی یہ
نکات نوٹ کرا تے ہیں ، یہ طریقہ بہت مفید اور کا ر آمد ہے، اس کے بر عکس
مدارس اسلا میہ میں اب بھی تدریس کا قدیم رواج نافذ ہے،اگر مدارس کی نصابی
کتابوں کی تدریس میں بھی اس طریقے کو رائج کیا جائے تو خاطر خواہ فوائد
حاصل ہو سکتے ہیں ، اس طریقہ تدریس میں مر کزی توجہ مضمون کے اہم نکات کو
ذہن نشیں کرانے پر بھی ہو تی ہے ، جو بہر حال مفید ہے۔
یکسوئی اور دل جمعی کے ساتھ تدریس:
تدریس کا عمل بہت ہی توجہ ، یک سوئی ، دل جمعی اور دل چسپی کا تقاضا کرتا
ہے ، جو اساتذہ خالص نصاب مکمل کر نے اور کسی طرح نہ کسی طرح سبک دوشی حاصل
کر نے کے لیے اسباق پڑھاتے ہیں ان کی تدریس کام یاب نہیں ہو تی ،کام یاب
تدریس کے لیے ضروری ہے کہ معلم اوقات درس میں دیگر تمام افکار سے فارغ ہو
کر پوری توجہ کے ساتھ درس دے ،تاکہ عبارتوں کی باریکیوں تک اس کی نظر پہنچ
سکے اور وہ موضوع سے متعلق ان مسائل کو بھی طلبہ کے ذہن ودماغ میں اتار سکے
جو کتاب میں بیان نہیں کئے گئے ہیں ، تدریس میں عجلت اور نصاب کی تکمیل کے
لیے سرسری طور پر درس دے کر آگے بڑھ جانا یقینا طلبہ کا مستقبل تاریک کر نے
کے مترادف ہے۔اس ضمن میں اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ درس
گاہ کا ماحول نہایت پر سکون ، صاف ستھرا اور خوش گوار ہو ، تنگ وتاریک کمرے
میں گر می کی شدت اور شدید شور شرابے کے در میان درس دینا نہایت مشکل کام
ہو تا ہے ، انتظامیہ درس گاہ کو با وقار ، خوش گوار اور آرام دہ بنا نے کی
طرف خصوصی توجہ دے تو معلم کی دل چسپی بر قرار رہے گی اور موثرانداز میں
تدریس پر قادر ہو گا۔ٍ
اسباق کی پابندی :
کام یاب تدریس کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کو تسلسل کے ساتھ پڑھا یا جائے ،ایک
سبق دوسرے سبق سےاس طرح مر بوط ہو کہ طلبہ پچھلے سبق کے اہم گوشوں کو ذہن
نشیں رکھیں تاکہ اگلا سبق اسی کی روشنی میں سمجھنا آسان ہو جائے ، اسباق کے
در میان بار بار کا ناغہ جہا ں درس کی برکتوں کو زائل کر دیتا ہے وہیں طلبہ
کے لیے اگلے اسباق میں کئی طرح کے مسائل پیدا کرتا ہے، بلا ضرورت سبق کا
ناغٖہ طلبہ کے اندر استاذ کے تعلق سے بد دلی بھی پیدا کرتا ہے جو نہایت ہی
مضر ہے ، لہذا ضروری ہےکہ ہمارے فارغین اسباق کی پابندی کا خصوصی خیال
رکھیں ، کسی وجہ سے مکمل سبق پڑھانے سے قاصر ہوں تو چند سطریں ہی پڑھا لیں
تا کہ تسلسل بر قرار رہے اور تدریس میں بے بر کتی پیدا نہ ہو، درس گاہوں
میں حاضری کے تعلق سے طلبہ پر بھی کڑی نظر رکھیں ، بلا عذرِ معقول کے اگر
کوئی طالب علم درس گاہ سے غیر حاضر ہو تو اسے مناسب فہمائش کریں ۔
سبق کا خلاصہ :
تدریس کو کام یاب اور موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر سبق کے اخیر میں
استاد اس دن پڑھائے گئے سبق کا خلاصہ نہایت مختصر اور موزوں الفاظ میں بیان
کردے ،کیوں طلبہ اگر سبق کی لمبی چوڑی تقریر کو اپنے ذہن ودماغ میں محفوظ
نہ کر سکیں تو کم از سبق کے اہم نکات دماغ کی میموری میں محفوظ کرلیں،
علاوہ ازیں اگر طلبہ اس خلاصے کو اپنی نوٹ بک میں محفوظ کر نا چاہیں تو
آسانی کے ساتھ کرسکیں ، اس ضمن اس بات کا ذکر بھی مناسب ہے کہ عمو ما ہمارے
مدارس کے طلبہ درس گاہ میں حاضر ہو کر محض ایک سامع کی طرح استاذ کی تقریر
سن لینے پر اکتفا کر تے ہیں ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کرایے کا کا کوئی مقرر
اپنی طے شدہ تقریر مخصوص لب ولہجے میں سنا رہا ہےاور طلبہ اپنا کرایہ وصول
کر رہے ہیں ، اس کے بر خلاف عصری درس گاہوں میں اکثر طلبہ کلاس روم میں نوٹ
بک بھی ساتھ لے جاتے ہیں جس میں سبق کے ضروری نکات نوٹ کر لیتے ہیں ، یہ
نوٹ بک ان کے لیے ایک اہم سر مایہ ہو تا ہے ،یہ ایک مفید طریقہ ہے ، مدارس
کے اساتذہ بھی طلبہ مدارس کو نوٹ بک ساتھ رکھنے کی ترغیب دیں اور سبق کے
اخیر میں پانچ منٹ کا وقت انہیں ضروری نکات کو نوٹ کر نے کے لیے ضرور دیں ،
اس کی دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ استاذ سبق کا خلاصہ یا اہم نکات درس
گاہ کے بلیک بورڈ پر لکھ دیں جسے تمام طلبہ نقل کرلیں ، یہ طریقہ، تدریس کی
کام یابی کے لیے بہت ہی اہم اور موثر ہے۔
سبق سے متعلق سوالات کی اجازت:
ایک کام یاب معلم کی خصوصیت یہ ہو تی ہے اس کی درس گاہ سے طالب علم آسودہ
اور مطمئن ہو کر نکلتا ہے ، اس کے ذہن میں پیدا ہو نے والے شکو ک وشبہات
اور دماغ میں گردش کر نے والےسوالات کے جوابات استاذ کی تقریر سے ہی مل
جاتے ہیں ، لیکن بسا اوقات بے توجہی یا ذہنی کمزور کی وجہ سےطالب علم آسان
اور معمولی مسئلے میں بھی الجھ کر رہ جاتا ہے، ایسے طلبہ اپنے اساتذہ سے
سوالات کے ذریعہ اپنا ذہین خلجان دور کرتے ہیں ، اس لیے استاذ طلبہ کو پوری
کشادہ قلبی کے ساتھ سبق سے متعلق سوالات کر نے کی اجازت دے ، طلبہ کے
سوالات پر کسی طرح بھی ناراضگی کا اظہار نہ کرے بلکہ جہاں تک ممکن ہو ، ان
کے سوالات کو سنجیدگی سے سن کر انہیں مطمئن کر نے کی کوشش کرے ، بسااوقات
ایسے سوالات بھی آجاتے ہیں جن کاجواب فوری طور استاذ نہیں دے سکتا ، اور یہ
ضروری بھی نہیں کہ طالب علم کے ہر سوال کا جواب اسی وقت دیا جائے ،بلکہ
تشفی بخش جواب ذہن میں نہ ہو تو دوسرے دن مکمل تحقیق وتفتیش کے بعد اسی
کلاس میں متعلقہ سوال کے جواب پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے ،یہ استاذ کے لیے
کسی طرح بھی باعث عار نہیں بلکہ دیانت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔ استاذ
درس گاہ کا ماحول ایسا خوش گوار رکھے کہ طالب علم بلا جھجھک اپنی بات کہہ
سکے ، خوف ودہشت کا ماحول اور کبید گی کی فضا ہر گز پیدا ہو نے نہیں دینا
چاہیے ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض طلبہ درس گاہ میں اساتذہ سے بے سر وپیر
کےسوالات صرف اس لیے کرتے ہیں کہ دوسرے طلبہ پر ان کی قابلیت اور فوقیت
ظاہر ہو اور استاذذلیل ورسوا ہوں، ایسے نابکار طلبہ نہ سمجھنا چاہتے ہیں نہ
کوئی استاذ انہیں سمجھا سکتاہے،ایسے طلبہ کا انداز تکلم سائلانہ نہیں بلکہ
مناظرانہ ہو تا ہے ، اور وہ باضابطہ درس گاہ کو مناظرے کا اسٹیج بنا دیتے
ہیں ،اس طرح کے جری طلبہ کو شدید تنبیہ کی جائے اور بار بار کی حرکت پر
باہر کا راستہ دکھا دیا جائے ۔
اساتذہ مخصوص فنو ن میں مہارت پیدا کریں :
ہمارے مدارس اسلامیہ میں جو نظام ِ تعلیم رائج ہے اس کے تحت ایک ہی استاذ
کو متعدد فنون کی تدریس کی ذمے داری دی جاتی ہے، ایک ہی استاذ نحو بھی
پڑھاتا ہے ، وہی منطق وفلسفہ ، قرآن وحدیث ، فقہ وتفسیر اور ادب وبلاغت کی
تدریس کی ذمے داری بھی نبھاتاہے، اس طرح برسہا برس کی تدیس کے بعد بھی کسی
ایک فن میں مہارت حاصل نہیں ہو پاتی ، اس سلسلے میں میری ناقص راے یہ ہے کہ
فنون کے لیے اساتذہ مختص کیے جائیں ، ایک استاذ اگر فن حدیث کی تدریس میں
دل چسپی رکھتا ہے تو اسے کئی سالوں تک حدیث ، اصول حدیث اور اس سے متعلق
فنون کی تدریس کے لیے منتخب کر لیا جائے ، تاکہ فن حدیث کی تدریس میں انہیں
اختصا ص حاصل ہو جائے ، اسی طرح دیگر اساتذہ کو بھی مختلف فنون کی تدریس کے
لیے خاص کرلیا جائے تو چند سالوں کے اندر مدرسے میں ماہرین فن اساتذہ کی
ایک مضبوط ٹیم پیدا ہو جائے گی اور ادارے کی تعلیمی معیار میں خاطر خواہ
ترقی ہو گی ۔
آخری بات:
مدارس اسلامیہ کے فارغین سے یہ آخری بات کہہ کے اپنی گفتگو ختم کررہاہوں کہ
نسلِ نو کوموجودہ دور کے حالات ومقتضیات کے مطابق تیار کرنا آپ کا منصبی
فریضہ ہے ، آج کی تھوڑی سی کوتا ہی مستقبل کے معماروں کو بے دست وپا بنا
سکتی ہے ، جس کا خمیازہ فرد واحد کو نہیں بلکہ پوری قوم کو بھگتنا ہو گا ،
پھر طالب علم جب کل میدان عمل میں آئے گا تو آپ کو اسی طرح کوسے گا جس طرح
دیوانِ حماسہ کے ایک شاعر نے اپنے قبیلے والوں کو کوساہے، شاعر کہتا ہے:
فھلا اعدونی لمثلی تفاقدو اذالخصم ابزی مائل الراس انکب
وھلا اعدونی لمثلی تفاقدو وفی الارض مبثوث شجاع وعقرب
جوان اپنے قبیلے والے کوستے ہوئے کہہ رہا ہے کہ جب ان کو معلوم تھا کہ میری
دشمنی بڑے متکبر آدمی سے ہے تو انہوں نے مجھے تربیت کیوں نہیں دی ؟جب ان کو
پتہ تھا کہ زمین پر بچھو سانپ بکھرے پڑے ہیں تو مجھے بتایا کیوں نہیں؟ اور
ان سے بچنے کا طریقہ کیوں نہیں بتایا؟ ۔حماسہ کے ان اشعار میں اساتذہ کے
لیے پیغام ہے کہ آج دنیا میں نظریاتی ، ثقافتی ، علمی اور فکری لحاظ سے
شکوک وشبہات کے جو بادل چھائے ہیں، اور فکری انتشار، تہذیبی خلفشار اور
ثقافتی یلغار کا جو دائرہ پھیل رہا ہے اس اپنے طالب علم کو آگا کر نا اور
ان سے نمٹنےکےتیار کر نا ہماری ذمے داری ہے ۔واللہ المستعان علیہ التکلان۔ |