امریکہ اور پاکستان کہنے کو اتحادی ہیں اور ماضی میں بھی
رہے ہیں اورپاکستان نے ابتدا ہی سے امریکہ سے مضبوط تعلقات استوار کرنے کی
کوشش کی، وجوہات جو بھی تھیں یا اس کے پیچھے جو بھی محرکات تھے وہ اپنی جگہ،
اُن پر بحث سے ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے اور نہ حالات کو پلٹ کر اپنی
مرضی کے مطابق کر سکتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالسی پر ہمیشہ امریکہ کا اثر رہا
ہے چاہے ہمیں اس سے فائدہ پہنچا ہو یا ہم دوسری طرح اس سے متاثر ہوئے ہوں ۔اگر
بنظرِ غائر ان تعلقات کا مطالعہ کیا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ
نے ہمیشہ آقا بن کر پاکستان سے مطالبات کر کے کچھ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے
اور اپنی طرف سے آنے والی امدا کو خیرات کی طرح پاکستان کی جھولی میں
ڈالااور جب چاہا اسے روک دیا ۔حالیہ افغان اور دہشت گردی کے خلاف جنگوں میں
’’ڈو مور‘‘کی ایک رٹ لگی رہی پاکستان کوقرار تو اتحادی دیا گیالیکن سلوک
ہمارے ساتھ مخالفین والا کیا گیابلکہ باقاعدہ ہمیں نشانہ بنایا
گیا۔حکمرانوں کے غلط فیصلوں نے تو ملک کو نقصان پہنچایا ہی امریکہ بھی
مطمئن نہ ہو سکا اور آج تک اُس کا یہ رویہ جاری ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ
کے نام پر امریکہ افغانستان میں داخل ہوااور اُس کی سر گرمیاں بڑھتی گئی۔
امریکہ کے ٹوئن ٹاور پر حملہ نہ پاکستان سے ہواتھانہ ہی ہم اس میں ملوث تھے
لیکن اس جنگ سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہوا ہمارے ہزاروں شہری اس کی نظر
ہو گئے، ہزاروں فوجی جوان اور پولیس اہلکار شہید ہو گئے، بے تحاشہ خون بہا
اور معصوم بچے تک مارے گئے۔مالی اور تجارتی نقصانات کی تو کوئی حد نہیں
ہمارا انفرا سٹرکچر تباہ کر دیا گیامدتوں ہماری سڑکیں امریکی کنٹینروں کے
ٹائروں تلے روندی جاتی رہیں اور ٹوٹتی رہیں لیکن پھر بھی امریکہ کے خیال
میں پاکستان نے وہ نہیں کیا جو اُس کا مطالبہ تھا۔پاکستان اِن مصائب سے
گزرتا رہا دہشت گردی کا نشانہ بنتا رہا لیکن حیرت انگیز طور پر بھارت
امریکی عنایات کا مستحق ٹھہرتا رہا۔ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران
صاف طور پر بھارت کی طرف جھکاؤکا مظاہرہ کرتے رہے۔مسلمانوں سے ٹرمپ کی نفرت
تو خیر کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور پاکستان کو تو اہلیانِ مغرب ہمیشہ اپنے
لیے خطرے کی گھنٹی سمجھتے رہیں ہیں اور اسی لیے وہ بھارت جہاں انسانی حقوق
کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، جہاں کے باشندے اپنی مرضی کا کھانا تک
نہیں کھا سکتے اور گائے کا گوشت کھانے پر قتل کر دیے جاتے ہیں مغرب کی آنکھ
کا تارا بنا رہتاہے ۔ٹرمپ اِس وقت بھی بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے
اور پاکستان سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ اور یہ کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف
کاروائی کی جائے ورنہ امریکی امدا د روک دی جائے گی کی دھمکی دے رہا
ہے۔امریکہ اور بھارت کے لیے ’’سی پیک‘‘ایک اور پریشانی کا باعث ہے جو اِن
دونوں ممالک کو قریب لا رہا ہے لیکن امریکہ یہ نہیں سمجھ رہا ہے کہ پاکستان
کی اُس کے لیے کیا اہمیت ہے ۔جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا کہ امریکہ
اِس علاقے میں کبھی پاکستان کے بغیر اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتااسے
پاکستان کے پاس بار بار آنا پڑتا ہے اُسے اس کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ا ور
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی حکومتیں جانتے ہوئے بھی بار بار دھوکے
میں آتی ہیں اور قوم کی مرضی کے خلاف اُس کی مدد کرتی ہیں بار بار قوم
نقصان اُٹھاتی ہے اور بار بار ہم ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ سنتے ہیں لیکن امریکہ
پھر بھی بھارت کے عشق میں مبتلاء ہوتا رہتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ روس
افغان جنگ میں بھارت روس کے ساتھ امریکہ کے خلاف کھڑا رہا اور ٹرمپ کے تو
برسر اقتدار آتے ہی اُسے سب سے زیادہ بھارت کی فکر ستائی وہ بھارت آیا اور
بھارت کے مطالبات مانتا گیا مثلاََکشمیری مجاہد سید صلاح الدین کو عالمی
دہشت گرد قرار دے دینا، چین کے نظریے ون بیلٹ ون روڈکی مخالفت اور بھارت کی
حمایت،بھارت کے مطالبے پر پاکستان پر دہشت گردوں کی مدد کرنے کے الزامات
وغیرہ سب مودی کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا۔
بھارت اور امریکہ کو اپنے رویے سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ پاکستان کو
تنہاکر دیں گے اور پاکستان کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا چاہیے ہمیں
اپنے مفادات کا تحفظ مقدم رکھنا چاہیے نہ کہ امریکہ اور دوسری طاقتوں کے
مفادات کا۔اگر امریکہ ہم سے صرف مطالبات ہی کرتا رہے اور بات بات پر
دھمکیاں ہی دیتا رہے امداد بند کرتا رہے تو ہمیں بھی اپنی سمت تبدیل کر
دینی چاہیے۔ چین اور روس ہمارے زیادہ قریب ہیں لہٰذا اِس پہلو پر بھی غور
کرنا چاہیے۔پاک چین دوستی تو ہمیشہ بھارت کے لیے باعث تکلیف ہے اور ظاہر ہے
دو دشمنوں کی دوستی کسی کو بھی پسند نہیں لہٰذا بھارت کو بھی نا پسند ہے
اور اسی لیے وہ اس کے خلاف سرگرم ہے اور اسی لیے بھارت امریکہ کی حمایت
حاصل کر نا چاہ رہا ہے۔خود امریکہ میں بھی امریکی رویے کے خلاف آوازیں اُٹھ
رہی ہیں اور نیویارک ٹائمز میں سٹیفن ہیڈلے اور معید یوسف لکھتے ہیں کہ
امریکہ پاکستان کے خلاف ڈنڈا اُٹھانے کی بجائے اُس کی تشویش کودور کرے
لہٰذا امریکہ کو اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرہی لینی چاہیے ورنہ پاکستان کو
تو ایسا کرنا ہی پڑے گا۔
|