وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف اور ان کی حکومت کے
خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میںوزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق
حیدر خان نے 29جولائی کو وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان کے
ہمراہ اسلام آباد کشمیر ہائوس میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا
کہ'' جو ڈیشل کو'' کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا،نظرئیہ ضرورت کو
دوبارہ زندہ کیا گیا،وزیر اعظم محمد نواز شریف نے نہ تو اپنے آفس کو مس یوز
کیا اور نہ ہی کوئی کرپشن کی جبکہ سازش کے تحت کرپشن کا جھوٹا پروپیگنڈہ
کیا گیا،خطرناک بات یہ کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن،ٹرائیل کورٹ اور نیب
کے اداروںکا کردار بھی خود سنبھال لیا،اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی
حاصل نہیں،فیصلے کے وقت جج صاحبان کی فیملیز کے لئے خصوصی نشستیں لگائی
گئیں،پاکستان کی صورتحال سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہی نہیں مقبوضہ
کشمیر پر بھی اثر پڑتا ہے،لیاقت علی خان سے نواز شریف تک وزرائے اعظم کو ہی
نشانہ بنایا گیا،پاکستان میں کٹھ پتلی وزیر اعظم کا راستہ ہموار کیا جا رہا
ہے،JIT کے بارے میں خدشات درست ثابت ہوئے،دو جج صاحبان نے پہلے ہی فیصلہ دے
دیا،یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ نواز شریف کو ہٹانا ہے،کیا ان ججز نے PCOکے
تحت حلف نہیں اٹھایا،ایک شخص ملک کو آگے لیجا رہا تھا،اسے روک دیا
گیا،نظرئیہ ضرورت کو نافذ کیا گیا،پروپیگنڈہ مہم کے ذریعے وزیر اعظم
پاکستان کے عہدے کی تذلیل کی گئی،ان کی فیملی،بیٹی پر قابل اعتراض جملے کسے
گئے،بغیر نکاح کے بچی کا باپ اور انجمن طلاق کا سربراہ علامہ اقبال کا نیا
پاکستان بنانے کو مضحکہ خیز دعوی کر رہا ہے،کشمیری کی حیثیت سے بھی یہ
سوچنا پڑے گا کہ یہی ہے پاکستان؟سپریم کورٹ نے نیب کی آئوٹ لائینز خود ہی
طے کیں،جن پر الزام ہے ان کی بات نہ سنی گئی،ملک میں بحران پیدا اور لوگوں
کو گروہوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے،مسلم لیگی کارکنوں نے تحمل سے کام
لیا،جمہوری پروسیس کو ڈی ریل نہ ہونے دیں گے،گزشتہ روز سے ملک میں نہ حکومت
ہے نہ نیشنل سیکورٹی کونسل کا کوئی سربراہ ہے،اس بات کا بھی احساس نہیں کیا
گیا،یہ اقدام قومی مفاد کے خلاف ہوا ہے،ہم نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا
ہے،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو این ایف سی میں حصہ دیا جا رہا
تھا،آئینی اصلاحات کی جا رہی تھیں،لیکن اب یہ سارا عمل رک چکا ہے اور غیر
یقینی کا شکار ہے،نواز شریف سے بڑھ کر کشمیریوں کا ہمدرد کوئی نہیں ہے،اس
سازش کا الیکشن میں جواب دیں گے،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان اور پنجاب میں
مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے،نواز شریف چوتھی باربھی وزیر اعظم بنیں گے''۔
اس پریس کانفرنس میںو زیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کے ایک جملے
پرپاکستان کے بعض نجی ٹی وی چینلز ،سوشل میڈیا پہ غیر مناسب،شر انگیز اور
سیاسی اہداف کے طور پرتنقیدی مہم شروع کی گئی ہے۔پاکستان میں بعض سیاسی
عناصر کشمیریوں کی فطرت اور کردار سے لاعلمی کے عالم اور ملک میں اقتدار کی
کشمکش کی المناک صورتحال میں ایک کشمیری کی دکھ بھری تنقید کو پاکستان سے
غداری کے طور پر پیش کرنے کی ناکام لیکن شر انگیز اور پاکستان و کشمیر کاز
کے وسیع تر مفادات کو شدید ترین نقصان پہنچانے کے نتائج پر مبنی کوشش، سازش
کا ملکی سلامتی کے ذمہ داران کو بھی نوٹس لینا چاہئے۔پاکستان کے بعض حلقوں
کی طرف سے اس طرز عمل کا مظاہرہ کشمیر کا ز ہی نہیں بلکہ خود پاکستان کے
وسیع تر مفادات کے لئے بھی مہلک نتائج پر مبنی سازشی اقدام ہو سکتا ہے۔یہ
درست بات ہے کہ عام افراد کے سامنے کوئی بات واضح انداز میں کی جانی چاہئے
تا کہ کسی کوابہام،،غلط فہمی نہ رہے،نہ کوئی کسی کہی بات کو غلط طور پر پیش
کرتے ہوئے دیگر کے اہداف میں معاون بن سکے۔ پریس کانفرنس میںوزیر اعظم راجہ
فاروق حیدر خان کا کہنا یہی تھا کہ پاکستان میں اس اس طرح کے افسوسناک، ملک
کے وسیع تر مفادات کے لئے ناقابل تلافی نقصانات پر مبنی اقدامات سے پاکستان
کو برباد کرنے والے فیصلوں اور اقدامات کو دیکھتے ہوئے ایک عام کشمیری بھی
یہ سوچتا ہے کہ یہی ہے وہ پاکستان جس کے لئے ہم درندہ صفت بھارتی فوج سے
نہتے مقابلہ کرتے ہوئے عزت،جان و مال،ہر طرح کی بے مثال قربانیاں دے رہے
ہیں اور نسل در نسل دے رہے ہیں؟
کیا ابھی بھی پاکستان میں کسی کو کشمیریوں پر شک ہے؟ ان کشمیریوں پر شک ہے
جو قیام پاکستان سے پہلے سے ہی پاکستان سے الحاق کو اپنی منزل قرار دیتے
ہوئے بھارت سے آزادی کی جدوجہد نسل در نسل جاری رکھے ہوئے ہیں،جو کشمیری
خانہ کعبہ کے بعد پاکستان کو مقدس ترین سمجھتے ہیں،پاکستان سے محبت ان کی
روح میں بسی ہوئی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ کشمیریوں کے نزدیک پاکستان کا تعارف
قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز،بے خوف ،نہ بکنے والی باکردار
قیادت کی صورت ہے، لیکن لیاقت علی خان کے قتل کے ساتھ ہی ایسے نئے پاکستان
کی تخلیق شروع ہوئی جس کے نظریات اور مقاصد اور نظرئیہ پاکستان پر مبنی
قائد اعظم کے افکار وکردار میں مشرق اور مغرب کی طرح کا فرق نمایاں
ہے۔پاکستان کے اپنی اساس،بنیاد سے گمراہ ہونے پر کشمیری پریشان ہیں،یہ وہ
پاکستان نہیں ہے جو قائد اعظم نے بنایا تھا اور جس کا خواب علامہ اقبال نے
دیکھا تھا،یہ ارباب اختیار کی غلط اور پاکستان کے وسیع تر مفادات کے برعکس
نقصاندہ پالیسیاں اور اقدامات ہیں جس پر ہر محب وطن پاکستانی ہی نہیں بلکہ
نظرئیہ پاکستان پر ایمان رکھنے والے کشمیری بھی پریشان اور عاجز ہیں۔وزیر
اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے کوئی دھمکی نہیں دی بلکہ اظہار
افسوس کیا ہے کہ کشمیریوں کو بھی پاکستان سے غلط اشارے دیئے جا رہے ہیں ،ہم
قائد اعظم کے پاکستان پر یقین رکھتے ہیں،جانائز قابضین کے پاکستان کے
مفادات کے برعکس فیصلوں کی حمایت نہیں کر سکتے۔نظرئیہ پاکستان پرایمان
رکھتے ہوئے کئی نسلوں سے جدوجہد اور قربانیاں دینے والے کشمیریوں کو
پاکستان سے کسی محب وطنی کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ
اس بات کو ایک بار پھر ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آج کے پاکستان کا
قائد اعظم کے نظریات، علامہ اقبال کے افکار،نظرئیہ پاکستان سے کوئی تعلق
نہیں ہے ۔مشہور ہے کہ کم عقل ایک تلخ بات پر عمر بھر کی اچھائیاں فراموش کر
دیتے ہیں۔جلد یا بدیر ارباب اختیار کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ
پاکستان کا قیام عوامی جدوجہد اور اتفاق و اتحاد کا کارنامہ ہے اور مقبوضہ
کشمیر کی آزادی کے لئے بھی کشمیری عوام ہی جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن اس
حقیقت کے اعتراف میں تاخیر سے ہونے والے قومی نقصانات مہلک ترین نتائج پر
مبنی ہو سکتے ہیں۔ |