بد نگاہی و بے پردگی کا پرفتن دور
تحریر: اللہ بخش فریدی
E-conduct: [email protected]
بے حیائی ، بے شرمی اور بے پردگی کے اس پر فتن دور میں بدنگا ہی جس قدر پھل
پھول رہی ہے وہ اصحاب فکرو نظر سے پو شیدہ نہیں ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو آنکھ
کی ہولناکیوں سے بچے ہوئے ہیں وگرنہ کیا بچے ، کیا جوان ،کیا بوڑھے سب آنکھ
کی اس موذی مرض کا شکارہیں ۔جوان تو جوان رہے اب بڑوں اور بوڑھوں کی آنکھوں
میں حیاء نہیں رہا ہے۔ معاشرے کی اس قبیح حرکت اور بدترین عادت نے پوری قوم
کا اخلاق تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں اغوا، گینگ ، ریپ
(زنابالجبر) اور ظلم و زیادتی کے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ جعلی عشق و
مستی اور جھوٹی محبت کے عہد و پیمان ہوتے ہیں ، کبھی ایک فریق اپنی پسندیدہ
شے نہ ملنے پر خود کشی کر لیتا ہے، اسی نظر کے بارے میں حضرت عبداللہ بن
مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔’’ نظر
شیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔‘‘(حاکم)
مشہور تابعی حضرت ابن زیاد بصری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’اپنی نظر
عورت کی چادر پر بھی نہ ڈال کیو نکہ یہ نظر دل میں شہوات پیدا کرتی ہے۔‘‘
(الکتاب الزھد)
جب آنکھ دیکھتی ہے اور کان سنتے ہیں تبھی دل میں کچھ کرنے کی حرکت پیدا
ہوتی ہے اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کو ڈرایااور خبردار کیا کہ
اے لوگو! تم سے آنکھ ، کان اور دل کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ فرمایا
اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَوَالْفُؤَادَکُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ
مَسْءُوْلًا o
’’بیشک کان اور آنکھ اور دل ، ان سب سے بازپرس (پوچھ گچھ ) ہو گی ( کہ تو
نے ان سے کیا کیا کام لیا اور ان کو کن کن مقاصد کیلئے استعمال کیا۔‘‘ (بنی
اسرائیل 36:17)
پھر لوگوں کو اس طرح خبردار کیاگیا تاکہ وہ باز آئیں۔
یَعْلَمُ خَآئنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُo (المؤمن 19:40)
’’اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت ( چوری چھپے کی نگاہ ، نامحرم کودیکھنے اور
ممنوعات پر نظر ڈالنے) کو خوب جانتا ہے اور جو باتیں سینوں میں پوشیدہ اور
دلوں میں مخفی ہیں ان سے خوب واقف ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
فرمایا۔ ’’ اس کا مصداق وہ شخص ہے جو لوگوں کے ساتھ (محفل میں ) بیٹھا ہو
اور جب کوئی عورت گزرے تو وہ لوگوں سے نظریں چرا کر اس کی طرف دیکھ لے۔‘‘
(الجامع الاحکام القرآن)
پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مزید اس طرح خبردار کیا تا کہ وہ باز آئیں اور
عبرت حاصل کریں۔فرمایا
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاھِھِمْ وَ تُکَلِّمُنَا اَیْدِیْھِمْ وَ
تَشْہَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ o (یٰسین 65:36)
’’آج ہم ان کے چہروں پر مہر لگا دیں گے اور (جو کچھ وہ دنیا کی زندگی میں
کرتے رہے تھے ) ان کے ہاتھ ہم سے بیان کر دیں گے اور ان کے پاؤں ان کی
گواہی دیں گے ( اور اس طرح تم اپنی کوئی بات بھی اللہ عزوجل سے مخفی نہ رکھ
سکو گے)۔‘‘
اگر نظر پر مکمل کنٹرول (قابو )کر لیا جائے تو بہت سی برائیوں اور تباہ
کاریوں سے بچا جا سکتا ہے اور متوقع تصادم ہو ہی نہیں پاتا۔ بعض ہٹ دھرم
لوگ کہتے ہیں کہ ہم عورتوں کو محض اس لیے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی
پیدا کردہ شے کی تعریف کریں ۔ لاحول ولا قوۃ الاباللہ۔ کیا پوری کائنات کو
دیکھ کر انہیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنا نہیں آتی ؟ کیا غیر عورتوں کو
دیکھ کر ہی انہیں اللہ رب العزت کی تعریف یاد آتی ہے؟کیا ایسے لوگ اپنی
ماؤں، بہنوں، بیٹیوں او ر بیویوں کی طرف ایسی پُر ہوس اور تعریفی نظر وں کا
اٹھنا پسند کریں گے؟ ہر گز نہیں ۔ بھئی ! اگر عورتیں بے پردہ ہو کر بازاروں
میں گھومتی ہیں تو وہ اپنے آپ کوجہنم کا ایندھن بنا رہی ہیں اور ان (
عورتوں ) کے والیوں ( سرپرستوں ) کو یہ حدیث مبارکہ یاد رکھنی چاہیے کہ
’’ ایک عورت اپنے ساتھ چار مردوں کو جہنم میں لے کر جائے گی ایک اس کا
والد، شوہر ، بھائی اور بیٹے۔ (کہ انہوں نے اسے شرعی احکامات و ہدایات کا
پابند کیوں نہ کیا)۔‘‘
اسی حوالے سے ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ
کلکم راع وکلکم مسءُول عن رعیتہ۔
’’ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال
کیا جائے گا۔‘‘
اس حدیث مبارکہ میں ہر شخص کو ذمہ دار اور جوابدہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ
اپنے رب کے حضور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے مثلاً باپ اپنے خاندان
اور اولاد کا ذمہ دار اور جوابدہ ہے۔اللہ عزوجل اس سے پوچھیں گے کہ تو نے
اپنی اولاد کو اللہ کی راہ پر چلایا یا شیطان کے راستے پر؟ اپنی اولاد کی
تعلیم و تربیت کیسے کی؟انہیں حلال کی روزی کھلائی یا حرام کی؟اسی طرح شوہر
اپنی بیوی کا ذمہ دار ہے ۔ خداند قدوس اس سے باز پرس ، پوچھ گچھ کریں گے کہ
تو نے بیوی کا حق کیونکر ادا کیا؟ اسے شرعی احکامات و ہدایات کا پابند
بنایا یا اسے شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا؟اس سے پردے کا اہتمام اور پابندی
کہاں تک کرائی؟اسی طرح بھائی اپنی بہنوں اور بھائیوں کاذمہ دار ہے کہ انہیں
غلط راستے پر نہ چلنے دے ۔ آج کل عورتوں میں جس قدر وسیع پیمانے پر بے
پردگی دیکھنے میں آتی ہے اس کی ذمہ داری براہ راست والدین ، شوہر ، بھائیوں
وغیرہ پر عائد ہوتی ہے ، اگر یہ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اس کا
احساس کریں تو اس قسم کی بے راہروی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
دیکھیں حضور نبی کریم ﷺاس معاملہ میں کتنی سختی فرمارہے ہیں بلکہ ایک مقام
پر آپ ﷺ نے فرمایا۔’’ جب تم اپنے گھروں میں داخل ہو تو پہلے دستک دے لیا
کرو تا کہ گھر میں بیٹھی خواتین فوراً اپنے پردے کا اہتمام کر لیں۔ اس کے
علاوہ ٹی وی ، کمپیوٹر ، انٹر نیٹ ، اخبارات، رسائل، جرائد ، میگزین اور
سڑکوں پر لگے بورڈز وغیرہ پر خواتین کی تصاویر دینے اور دیکھنے سے پرہیز
کرنا چاہیے۔ جدید ایجادات سے فاہدہ حاصل کرنا شرعا ممنوع نہیں ہے ہاں البتہ
اس میں جو خلاف شرع باتیں ہیں ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
کمپیوٹر ، انٹر نیٹ وغیرہ کے جائزاستعمال کی شریعت میں کوئی ممانعت نہیں ہے
لیکن ان میں فحش و عریاں تصویریں دیکھنے ، گانا سننے ، فلمیں دیکھنے اور
ڈرامہ وغیرہ سے دل بہلانے کی اجازت ہرگز نہیں ہے کیونکہ تصاویر اور گانا
وغیرہ فواحشات میں داخل ہیں اورفواحشات پر انتہائی سخت وعیدیں وارد ہوئی
ہیں اس لیے ہر مسلمان کو اعتدال کے اندر رہتے ہوئے پرہیز گاری کی زندگی
بسرکرنی چاہیے۔ ہمیں اللہ رب العزت کی عطا کردہ تمام نعمتوں کودرست ،
معقول،اور انتہائی جائز مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہیے وگرنہ یہ اشیاء ،
یہ نعمتیں عطاکرنے والا اپنی نعمتوں کے غلط استعمال پر انہیں واپس بھی لے
سکتا ہے اور بیشک وہ اس پر مکمل قدرت رکھتا ہے۔
اللہ رب العزت نے اس سے ہمیں(بنی نوع انسان ) کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا۔
وَلَوْ نَشَآءُ لَطَمَسْنَا عَلٰی اَعْیُنِھِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ
فَاَنّٰی یُبْصِرُوْنَo
’’اگر ہم چاہیں تو اس جگہ ( جہاں لوگ کوئی برائی کرنے میں مشغول ہوں یا جس
وقت کوئی برا کام کر رہے ہوں ) تو ان کی آنکھیں مٹا دیں (بے نور کر دیں
)پھر وہ راستے کو دوڑیں تو کہاں دیکھ سکیں گے۔‘‘
پھر فرمایا
وَلَوْنَشَآءُ لَمَسَخْنٰھُمْ عَلٰی مَکَانَتِھِمْ فَمَااسْتَطَاعُوْا
مُضِیًّا وَلَا یَرْجِعُوْنَ o
’’اگر ہم چائیں تو اس جگہ ( جہاں وہ کوئی برائی یا خلاف شرع کام کر رہے ہوں
) ان کی صورتیں بدل دیں پھر وہا ں سے نہ آگے جا سکیں اورنہ پیچھے لوٹ
سکیں۔‘‘ (یٰسین 67:36)
ہمارے ہاں اخبارات میں آئے روز کسی نہ کسی لڑکی (عورت) کے قتل کی خبر چھپتی
ہے اور ساتھ لکھا ہوتا ہے کہ اس کے کسی غیر مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے
جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا ۔ اس کے علاوہ یہ خبر بھی روز کامعمول ہے کہ
چند اوباش لڑکوں نے نوعمر لڑکی کو پکڑ کر ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا ۔ یہ
خبر تو ان علاقوں کی ہے جہاں تک میڈیا کا ہاتھ پہنچتا ہے اور جو علاقے
میڈیا کی رینج (کنٹرول) سے باہر ہیں ان میں ایسے واقعات کا شمار کرنا مشکل
ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ ہر روز ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی ایک وجہ تو نیم
عریاں لباس ، فحاشی اور بے پردگی ہے جبکہ اس کی دوسری بڑی وجہ میڈیا کاغلط
استعمال ہے ۔ آج ہر گھر میں ٹی وی ، وی سی آر، ڈش، سی ڈیزوغیرہ موجودہیں جن
میں فحاشی و عریانی ، بے حیائی و بے پردگی عروج پر ہے اس کے علاوہ بازاروں
، مارکیٹوں میں ایسی فلمیں دستیاب ہیں جن میں عورت کو سرسے لے کر پاؤں تک
برہنہ کرکے دکھایا گیا ہے۔اس کے علاوہ پرنٹ میڈیا پر بھی عورتوں کی برہنہ
اخلاق سے گری ، فحاش اور نیم عریاں لباس میں تصاویر شائع ہوتی ہیں ۔ ہمارے
اخبارات ،رسائل ، جرائد، میگزین ایسی تصاویرسے بھرے پڑے ہیں لیکن کبھی کسی
نے یہ سوچا کہ اس کا انجام کیا ہوگا ؟ معاشرہ پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟
ڈراموں اور فلموں وغیرہ میں عورت کو کس روپ میں غیر مردوں کے ساتھ دکھایا
جاتا ہے ، ٹی وی ، اخبارات و غیرہ پر جو اشتہارات آتے ہیں ان میں عورت کو
کس قدر نیم عریاں لباس میں بطور اشتہار استعما ل کیا جاتا ہے خواہ وہ کسی
کمپنی ، کارخانے ، فیکٹری ، تجارتی و صنعتی ادارے یا بنک وغیرہ کے ہوں ۔
آخر کیوں اور کس لئے؟محض اس لیے کہ عورت کے ناز و انداز نرالے ہیں جس سے
لوگ بہت جلد متاثر ہو تے ہیں۔ اسی طرح دکان خواہ وہ کسی چیز کی ہو ۔ عورت
کی تصویر یا اس کامجسمہ آپ کو لازمی نظر آئے گا۔ حتیٰ کہ دورانِ سفر ،زندگی
اور موت کی کشمکش میں بھی(ناجانے کسی وقت بھی حادثہ ہو سکتا ہے، گاڑی الٹ
سکتی ہے ) بسوں وغیرہ میں ٹی وی ، وی سی آر اور فحش کیسٹ لگائے جاتے ہیں جن
میں بالکل اخلاق سے گری فلمیں، ڈرامے، لنچر گانے وغیرہ دکھائے اور سنائے
جاتے ہیں ۔ اسی طرح ہر شہر کے بڑے بڑے چوراہوں، گزرگاہوں وغیرہ پر کوئی نہ
کوئی سائن بورڈ نصب ہوتا ہے جن پر عورتوں کے بڑے بڑے فحاش مجسمے اور تصاویر
نصب ہوتی ہیں ، کیا ان سب چیزوں کا ہمارے معاشرے بالخصوص نوجوان نسل پر
کوئی اثر نہیں پڑے گا؟
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
جوشاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
یہ نعرہ آج بہت زور پکڑ گیا ہے کہ ملک کی معاشی ترقی اوراقتصادی خوشحالی
کیلئے ضروری ہے کہ عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں ۔ مغربی تہذیب
نے یہ پروپیگنڈہ ساری دنیا میں کیا ہے لیکن ان عقل کے اندھوں نے یہ نہیں
سوچا کہ اگر مرد و عورت دونوں ایک ہی مقصد ،ایک ہی جیسے کام کیلئے پیدا
ہوئے ہیں تو پھر دونوں کو جسمانی طور پر الگ لگ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟
مرد کا جسمانی نظام اور ہے عورت کا جسمانی نظام اور ہے ،مرد کا مزاج اور ہے
عورت کا مزاج اور، مرد کی جسمانی طاقت اور ہے عورت کی جسمانی طاقت اور ہے ،
مرد کی صلاحیتیں اور ہیں عورت کی صلاحیتیں اور ہیں اللہ تعالیٰ نے دونوں
صنفیں اس طرح سے بنائی ہیں کہ دونوں کی تخلیق ، ساخت اور نظام میں بنیادی
فرق پایا جاتا ہے لہٰذا یہ کہنا کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں تو یہ فطرت کے
خلاف بغاوت اورمشاہدہ کا انکار ہے۔
نئی تہذیب اور نئے فیشن نے مرد وعورت کے اس بنیادی فطری فرق کو مٹانے کی
کئی کوششیں کر دیکھیں، مردوں نے عورتوں جیسی شکل اپنا لی اور اپنے چہروں سے
اللہ عزوجل کے نور کو بجھا دیا ، حضور نبی کریم ﷺ کی محبوب ترین سنت (داڑھی
مبارک) کو پامال کر کے اسے اپنے قدموں تلے روند ڈالا ۔ عورتوں نے مردوں
جیسی شکل اپنا لی، مردوں جیسا لباس پہننا شروع کر دیا ، مردوں جیسے بال
رکھنا شروع کر دئیے مگر اب تک مرد و عورت کے بنیادی فرق کونہیں مٹا سکے ۔
اس حقیقت سے اب تک انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مردو عورت دونوں کا جسمانی
نظام مختلف ہے، دونوں صنفیں مختلف ہیں ، دونوں کا انداز زندگی مختلف ہے اور
دونوں کی صلاحیتیں مختلف ہیں ۔ لیکن یہ کس سے معلوم کیا جائے کہ مرد کو
کیوں اور کس لیے پیدا کیا گیا؟ او ر عورت کو کس لیے پیدا کیا گیا؟ ظاہر ہے
کہ اس کا جواب یہی ہو گا کہ جس ہستی نے ان کو پیدا کیا ہے اس سے پوچھا جائے
کہ تو نے مرد کو کس لیے پیدا کیا ؟ اور عورت کو کس لیے پیدا کیا؟ اس سے
پوچھنے کاواحد ذریعہ انبیائے علیہ السلام اور ان پر نازل شدہ آسمانی کتابیں
ہیں۔
قرآن کریم اور رسول معظم و مکرم حضور نبی آخرالزماں ﷺ کی تعلیمات سے یہ بات
بغیر کسی ادنیٰ سے شبہ کے ثابت ہوتی ہے کہ درحقیقت انسانی زندگی دو مختلف
شعبوں میں منقسم ہے، ایک شعبہ داخلی (اندرونی ) ہے اور ایک خارجی ۔ یعنی
ایک شعبہ گھر کا ہے اوردوسرا گھر سے باہر کا، ان دونوں شعبوں کاکام مختلف
ہے ،ان کی ذمہ داریاں مختلف ہیں دونوں مل کر ایک جیسا کام نہیں کر سکتے۔
اگر دونوں ایک جیسا کام کرنا شروع کر دیں تو ایک شعبے کا وجود ختم ہو کر رہ
جاتا ہے۔ یہ دونو ں شعبے ایسے ہیں کہ ان دونو ں کو ساتھ لئے بغیر ایک
متوازن اور معتدل زندگی نہیں گزاری جا سکتی ۔ گھر کا انتظام بھی ضروری ہے
اور باہر کا بھی۔ جب دونوں شعبے ایک ساتھ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک ٹھیک چلیں
گے تب انسان کی زندگی استوار ہوگی اور اگر ان میں سے ایک شعبہ ، ایک نظام
بھی ختم یا ناقص ہوگیا تو اس سے انسان کی زندگی میں توازن ختم ہو جائے گا ۔
اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ نے ان دونوں شعبوں کو الگ الگ ذمہ
داریاں سونپی اور تقسیم فرمادی کہ مرد کے ذمے گھر کے باہر کاکام مثلاً کسب
معاش ،روزی کمانے ، معاشرتی، سیاسی ، سماجی بہبود وغیرہ ہیں اور گھر کے
اندر کا شعبہ عورتوں کے حوالے کیا کہ وہ اس کو سنبھالیں ۔ اگر خدانخواستہ
اللہ رب العزت کی طرف سے یہ حکم آجاتا کہ عورت باہر کا انتظام کرے اورمرد
گھرکے اندر کا نظام چلائے تو بھی کسی کو چوں چراں کرنے کی مجال نہ تھی لیکن
اگر عقل سے کام لیتے ہوئے انسان کی فطری تخلیق کا جائزہ لیا جائے تو بھی
یہی نتیجہ نکلے گا جواللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ فرما رہے ہیں یعنی
عورت گھر کے اندر تک محدود رہے اور گھر کا نظم و نسق چلائے۔ اگر جسمانی قوت
و طاقت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو جتنی قوت و طاقت مرد میں پائی جاتی ہے
عورت میں نہیں پائی جاتی اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ اللہ
تعالیٰ نے عورت کی نسبت مرد میں جسمانی قوت اس لیے زیادہ رکھی ہے کہ اس نے
باہر کا نظام چلانا ہے اور باہر کا نظام قوت و طاقت کا تقاضا کرتا ہے، محنت
کا تقاضا کرتا ہے لہٰذا عورت میں جتنی قوت پائی جاتی ہے وہ اندرونی ( گھر
کی )حد تک ہی ہے۔
جس ماحول میں معاشرہ کی پاکیزگی کوئی قیمت نہ رکھتی ہو اور جہاں شرم و حیاء
عفت و عصمت کی بجائے اخلاقی باختگی اور حیا سوزی کو منتہائے مقصود سمجھا
جاتا ہو ظاہر ہے کہ وہاں اس تقسیم کار ، پردے اورشرم و حیا کو نہ صرف غیر
ضروری بلکہ راستے کی رکاوٹ سمجھا جائے گا ۔ چنانچہ جب اہل مغرب نے تمام
اخلاقی اقدار کو بے مقصد ، غیر ضروری اور راستے کی رکاوٹ سمجھا تو انہوں نے
اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ ایک طرف تو اس کی پُر شہوت ، ہوس ناک طبیعت
عورت کی کوئی ذمہ داری قبول کئے بغیر قدم قدم پر اس سے لطف اندوز ہوناچاہتی
تھی اور دوسری طرف وہ اپنی قانونی بیوی کی معاشی کفالت کو بھی ایک بوجھ
تصور کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ان دونو ں مشکلات کا جو عیارانہ حل نکالا،
اس کا خوبصورت اور معصوم نام ’’ تحریک آزادی نسواں ‘‘ رکھا ، تاکہ عورت
اخلاق ، پردے اور شرم و حیاء کے دنگل سے آزاد ہوکر ہر وقت اس کے ساتھ رہے
،ان کیلئے راحت اور تسکین کا سامان پیدا کرے اوران کی نفسانی خواہشات اور
حیوانی جذبات کی بر وقت تکمیل ممکن ہو سکے۔
عورت کو یہ پڑھایا گیا کہ اب تک تم گھر کی چاردیواری میں قید رہی ہو ،
تمہیں آزادی ، تعمیر و ترقی کے ہر کام میں برابر کا حصہ لینا چاہیے ۔اب تک
تمہیں حکومت و سیاست کو ایوانوں سے محروم رکھا گیا اب تم باہر آ کر زندگی
کی جد وجہد میں برابر کا حصہ لو ، دنیا کے عظیم اعزازات اور اونچے اونچے
منصب تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ مغربی افکارکی یورش نے یہ پروپیگنڈہ ہر جگہ
کیا اور سب سے پہلے اسلام کو نشانہ بنایا کہ اسلام میں عورت کو نقاب اور
پردہ میں رکھ کر گھونٹ دیا گیا ہے اور اسے گھرکی چاردیواری میں بند کر دیا
گیا ہے۔لیکن درحقیقت یہ سارا ڈرامہ ، پروپیگنڈہ ایک حسین جھو ٹ ، ایک مہمل
فریب اور اپنے پُرہوس حیوانی جذبات کو پورا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
ان دلفریب نعروں کی آڑ میں عورت کو گھسیٹ کر سڑکوں پر لایا گیا ،اسے فحاش و
عریاں لباس پہنا کر مردوں کی حیوانی جذبات کی تسکین کاسامان کیاگیا۔اس کے
حسن و جمال اور محاسن کی نمائش کی گئی ،اسے شو بز میں لا کر سر سے لے کر
پاؤں تک ننگا کر کے پوری دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ، اسے اجنبی مردوں کی
پرائیوٹ سیکر ٹری کا منصب سونپا گیا،اسے دفتروں میں غیر مردوں کے ساتھ
ملازمتیں دی گئیں ،تجارت اور کاروبار چمکانے کیلئے اسے ’’ سیلز گرل ‘‘ اور
’’ماڈل گرل‘‘ بننے کا شرف بخشا گیا، کاروباری ذہنیت نے عورت کو جنس بازار و
کشش بنایا اور اس کے جسم کو لباس سے محروم کر دیا اور اس کے ایک عضو کو
برسر بازار رسوا کرکے گاہکوں کو دعو ت دی گئی۔ یہاں تک کہ وہ عورت جس کے سر
پر دینِ فطرت نے عزت و آبرو ، عفت وعصمت کا تاج رکھا تھا اور جس کے گلے میں
شرم و حیا ، اعلیٰ اخلاق اور پر ہیزگاری و پارسائی کے ہار ڈالے تھے وہ
تجارتی و صنعتی اداروں کیلئے ایک شو پیش (Show Piece)، اشتہار اورمرد کی
تھکن دور کرنے کیلئے ایک تفریح کا سامان بن کر رہ گئی ہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جدید تہذیب نے عورت کو آزادی کے نام پر کیا
دیا ؟ گھروں سے نکالا۔ بازاروں، دکانوں ، کارخانوں ، فیکٹریوں اور دفتروں
میں لے آئی ۔ مطلب یہ کہ عورت مرد بن کر دن بھر دفتروں، کارخانوں ،
فیکٹریوں وغیرہ میں کام کرے ، دن بھر سخت محنت کرکے اپنی روزی خود کمائے
اور پھرتھکی ماندی شام کو عورت بن کر گھر کا انتظام بھی کرے، بچے بھی
سنبھالے اور مرد کی دلچسپی کا ساماں بھی پیدا کرے۔ اس طرح آزادی کے نام پر
اس کمزور صنف کے کندھو ں پر سماج کادوہرا بوجھ ڈال دیا گیا۔ اگر آزادی اسی
کا نام ہے تو پھر پابندی کس کا نام ہے ؟جبکہ اسلام نے اس جنس لطیف کی
نزاکتوں کا پورا خیال رکھا اور اتناہی بوجھ ڈالاجتنا اس کی نزاکت برداشت
کرسکے۔ آج کی تہذیب نے دنیاکو ایک حسین چراگاہ سمجھ کر مردوعورت کو ہر طرح
سے چرنے کی چھوٹ دے دی جبکہ اسلام نے کہا ۔ خبردار ! دنیا کوئی چراگاہ نہیں
ہے کہ جس کا جو جی چاہے کرتا اور مستی مارتا پھرے۔ اسلام نے مرد و عورت
دونوں کو حکم دیا اورانہیں اس بات پر نہایت سختی سے پابند کیاکہ وہ اپنی
پسند کے مطابق کسی ایک کا انتخاب کر لیں اور تقویٰ ، طہارت و پاکیزگی کی
زندگی بسر کریں۔
پھر دیکھیں کہ اللہ رب العزت نے نماز جیسی عظیم دینی عبادت کیلئے عورت کو
گھر سے باہر نکلنے کا حکم نہیں دیا۔ یہ نہیں فرما یا کہ تم بھی مردوں کے
ساتھ مل کر باجماعت نماز ادا کرو۔ صرف اس لیے کہ ان کے پردے ، عزت و آبرو
اور عفت وعصمت کی مکمل حفاظت ہو سکے ۔ مگر آج عورتیں بے پردہ ہو کر دنیا کے
حقیر کامو ں کی خاطر گھر سے نکل پڑتی ہیں ۔ اگر انہیں کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ
، حقیر سے حقیر تر چیز خریدنا ہو تو تنہا ، بے پردہ ، بلااجازت بازاروں میں
چلی جاتی ہیں انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ اللہ عزوجل اور اس کے
پیارے رسول ﷺ کی مخالفت مول لے رہی ہیں، ان کے ا حکامات و ہدایات کی خلاف
ورزی کر کے ان کے غضب میں گرفتار ہو رہی ہیں ۔ جب کہ انہیں غور کرنا چاہیے
کہ اللہ عزوجل انہیں مسجدوں میں جا کر مردوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی اجازت
نہیں دے رہے ، جہاد فی سبیل اللہ جیسی عظیم اسلامی عبادت کی ادائیگی کیلئے
انہیں میدان جہادمیں جاکر مردوں کے شانہ بشانہ لڑنے کا حکم نہیں دیا ، اللہ
رب العزت نے عورتوں کو دین حق کی تبلیغ و اشاعت ، فریضہ نبوت و خلافت کی
ادائیگی کیلئے گھر سے باہر نکلنے کا حکم نہیں دیاتودنیاکے حقیر کاموں کی
خاطر کیونکر گھر سے باہر نکل سکتی ہیں؟ |