آیت 64 : وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن
رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ
ظَّلَمُوٓا أَنفُسَهُمْ جَآءُوكَ فَٱسْتَغْفَرُوا۟ ٱللَّهَ وَٱسْتَغْفَرَ
لَهُمُ ٱلرَّسُولُ لَوَجَدُوا۟ ٱللَّهَ تَوَّابًۭا رَّحِيمًۭا
ترجمہ : اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی
اطاعت کی جائے (175) اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں (176) تو اے
محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی
شِفاعت فرمائے تو ضرور اللّٰہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں
(177)
تفسیر :
(175 )
جب کہ رسُول کا بھیجنا ہی اس لئے ہے کہ وہ مُطَاع بنائے جائیں اور اُن کی
اطاعت فرض ہو تو جواُن کے حکم سے راضی نہ ہو اُس نے رسالت کو تسلیم نہ کیا
وہ کافر واجب القتل ہے۔
(176 )
معصیت و نافرمانی کر کے۔
(177 )
اس سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ الہٰی میں رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا
وسیلہ اور آپ کی شفاعت کار بر آری کا ذریعہ ہے سیّدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ
وآلہ وسلم کی وفات شریف کے بعد ایک اعرابی روضہء اقدس پر حاضر ہوا اور روضہ
شریفہ کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا یارسول اللہ جو آپ نے
فرمایا ہم نے سُنا اور جو آپ پر نازل ہوا اس میں یہ آیت بھی ہے
وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں
آپ کے حضور میں اللہ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا تو میرے رب سے
میرے گناہ کی بخشش کرائیے اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تیری بخشش کی گئی
اس سے چند مسائل معلوم ہوئے مسئلہ: اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرضِ حاجت کے
لئے اُس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا ذریعہ کامیابی ہے مسئلہ قبر پر حاجت کے
لئے جانا بھی '' جَآءُ وْکَ '' میں داخل اور خیرُ القرون کا معمول ہے مسئلہ:
بعد وفات مقبُولان ِحق کو( یا )کے ساتھ ندا کرنا جائز ہے مسئلہ:مقبُولانِ
حق مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے۔
نوٹ : اپنی اور لوگوں کی اصلاح کیلئے اس لنک پر کلک کریں اور اس کتاب کا
مطالعہ ضرور کریں۔
https://library.faizaneattar.net/Books/index.php?id=49 |