جدید ٹیکنالوجی نے ایک ایسا انقلاب برپاکیا ہے جس کی وجہ
سے آج کے نوجوانوں کی زندگی بالکل بدل گئی ہے۔موبائیل اور انٹر نیٹ کے بغیر
جیسے یہ رہ نہیں سکتے۔ کسی بھی قوم کی نوجوان نسل اس کا قیمتی سرمایہ ہوتی
ہے مگر موبائل فون نے نوجوان نسل کو ان کی منزل مقصود سے بھٹکانے میں اہم
کردار ادا کیا ہے۔ہر وقت موبائل فون کا استعمال نوجوانوں میں فیشن بن چکا
ہے۔ ہر نوجوان کو شوق ہے کہ اس کے پاس مہنگے سے مہنگا موبائل فون ہو۔اسی
لئے موبائل کمپنیوں کی طرف سے صارفین کے لئے نت نئے اور دل کش
اسکیمیں،ریچارچ،فری نیٹ پیک کو دیکھ کر نہ چاہنے والا بھی موبائل فون کو
استعمال کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور یہی ان موبائل کمپنیوں کی چال ہوتی
ہے کہ جس سے ان کے نیٹ ورک اور موبائلز زیادہ سے زیادہ صارفین استعمال کر
یں۔لہٰذا اِسی شوق کی تکمیل کے لئے چوری کا مہنگا موبائیل سستے داموں میں
خریدنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے شہر
مالیگاؤں میں مہنگے چوری کے موبائیل کی خرید وفروخت میں اضافہ ہو گیا تھا۔
ممبئی وپونہ کے بعد شہر مالیگاؤں میں مسروقہ موبائیل کے آئی ایم ای آئی
نمبروں کو تبدیل کرنے کا کام بھی جاری تھا۔ جس کی وجہ سے سمگل شدہ فونز کی
غیر قانونی خرید و فروخت میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ مسلسل شکایت پر شہر کی
پولس نے سخت ایکشن لیا جس کی وجہ سے موبائیل دکان مالکوں کے ساتھ ساتھ کئی
لوگوں کو حراست میں لیاگیا۔چند ایک لوگوں کی حرکتوں کی وجہ سے سب پریشان
ہوئے۔ پولیس حکام کہتے ہیں کہ پہلے کسی دور میں یہ کام ہوتا ہو گا لیکن اب
جدید ٹیکنالوجی کے باعث چوری شدہ موبائل استعمال کرنا ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ
بات ملحوظ رہے کہ اگر آپ کو معلوم ہوجائے کہ موبائیل فون چوری کا ہے تو آپ
کے لیے کسی قیمت پر بھی اس کاخریدنا جائز نہیں۔ کیونکہ چوری کا مال جتنے
ہاتھوں میں پہنچے وہ حرام ہی رہتا ہے اور اصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرا اس
کا مالک نہیں بنتا۔اب یا تو اسے واپس کردیں یا اگر اصل مالک کا علم ہو تو
اس کے حوالے کردیں ،بلکہ علماء فرماتے ہیں کہ کسی دینی مقصد کے لیے بھی اسے
استعمال میں لانا جائز نہیں،اس سے احتراز کرنا لازم ہے۔جس شخص کو یہ معلوم
ہو کہ فروخت کیا جانے والا مال مسروقہ (چرایا ہوا) ہے تو اس کے لیے اسے
خریدنا حرام ہے اور واجب یہ ہے کہ چوری کا مال بیچنے والے کو منع کرے اور
اسے نصیحت کرے کہ یہ مال اس کے اصل مالک کو لوٹا دو۔خواہش نفس کے لئے مختلف
تاویلوں سے حرام کو حلال قرار نہ دیں۔اور جب تک آدمی حرام چیزوں سے نہ بچے
نہ اس کا اسلام معتبر ہے نہ اس کی عبادت مقبول ہے۔ یاد رکھیں جس طرح ہم
فیمیلی ڈاکٹر،فیمیلی وکیل رکھتے ہیں تو کم از کم ایک فیمیلی عالم کے رابطے
میں رہیں تاکہ وقتاً فوقتاً معلوم کیا جا سکے کیا حلال ہے کیا حرام۔ |