’’ میں نے اپنے چھ سالہ ڈپٹی کمشنری کے زمانے میں کسی
ڈاکو ،چور ،لٹیرے ،مفرور مجرم یا تخریب کار (دہشت گرد ) کو اسلحہ لائسنس کی
درخواست دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔وہ اپنا یہ حق بزور بازو خود حاصل کر لیتے
ہیں اور ہم محض ملک کے شریف شہریوں کو اسلحہ لائسنس کے لیے پولیس تھانوں
اور کچہریوں کے چکر لگوا کر رْسوا اور ذلیل کرتے ہیں۔۔‘‘
کیاآپ کو معلوم ہے کہ ہنگامی صورتحال سے کس طرح نمٹا جاتا ہے؟حملہ ہو جائے
تو ایمرجنسی میں کیا کرنا چاہیئے؟ خود کو ساتھیوں سمیت کس طرح بحفاظت نکالا
جائے ؟آگ لگنے کی صورت میں فوری طور پر کیا کیا جائے؟ایکسیڈنٹ میں زخمی
ہونے کی صورت میں ابتدائی طبی امداد کس طرح بہم پہنچائی جائے؟ اور ان سب سے
زیادہ خود کی حفاظت کیسے کی جائے؟نوے فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہندوستانی
مسلمانوں کو یہ بنیادی لازمی معلومات نہیں اور کیوں معلوم ہوں، نہ ہی نصاب
میں کبھی پڑھایا گیا اور نہ ہم نے خود سے قرآن وحدیث کی روشنی میں سیکھنے
کی کوشش کی۔
پہلے زمانے میں آزادی سے قبل مختلف قسم کی ٹریننگ دی جاتی تھی جس میں سیلف
ڈیفنس، ابتدائی طبی امداد، ہنگامی حالات سے نمٹنے کی مشقیں اور اسلحہ چلانے
کی بنیادی مہارت سکھائی جاتی تھی۔ یہ ایسی تربیت تھی جو اس وقت کسی بھی
مشکل صورتحال میں مشکل فیصلے آسانی سے لینے میں مدد دے، جو جنگ جیسی صورت
حال میں زندہ رہنے اور ایک دوسرے کا مددگار بننے کا حوصلہ بخشے، جو زخمیوں
کی مرہم پٹی سے لیکر بڑے زخموں کا مرہم بننے والوں کو ایک بنیاد مہیا کر
سکے۔لیکن جیسے جیسے ہندوستان اور دیگر ممالک میں امریکہ اور اسرائیل کا اثر
ورسوخ بڑھتا گیا ویسے ویسے اس قسم کی تربیت کو بالکلیہ طور پر ختم کرنے کی
سازش رچی گئی جبکہ اسرائیل ایسی تربیت کے لئے سب سے آگے ہیں جہاں ہر اٹھارہ
سالہ نوجوان کو لازمی ہے کہ وہ بنیادی فوجی تربیت حاصل کرے اور اس طرح کی
تربیت اس کی آنے والی زندگی اور نوکری پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔اور
دشمنوں سے بچنے کے لئے کارگر ثابت ہوتی ہے۔
فرقہ پرستوں کے اقتدار میں آتے ہی قتل وغارت گری کا بازار ایکدم سے گرم
ہوگیا ہے۔خصوصاً اقلیتوں پر ہورہے مظالم بڑے ہی دردناک اور افسوسناک ہے۔فی
الحال ملک اپنے سب سے خطرناک دور سے گزر رہا ہے البتہ خوشی کی بات ہے کہ
دانشوروں ،ادیبوں اور طلبا میں ابھی ایسے لوگ بھی کم نہیں ہیں جو اس
صورتحال کو درست کرنے کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر بے باکی سے سب کچھ
کرنے کو تیار ہیں‘‘۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ملک بھارت آر ایس ایس اور
اسرائیل کی زیرسرپرستی میں جس تیز رفتاری سے ’’غنڈا اسٹیٹ ‘‘ ،پولیس
اسٹیٹ‘‘ ’’ایمر جنسی اسٹیٹ ‘‘اور’’ نسل پرست ،غیر روادار ،متعصب اور فرقہ
پرست آمریت ‘‘میں تبدیل ہوتا جا رہا ہیاْس کے خلاف اْٹھنے والی آوازیں کافی
کمزور ہیں ان میں وہ شدت اور اخلاص نہیں جواس کو دبا سکے۔اور اس سے بھی
زیادہ تشویشناک ہے بات یہ ہے کہ وہ ،محمد اخلاق ،زاہد رسول بھٹ ،محمد مظلوم
،محمدآزاد،ابو حنیفہ ،ریاض الدین ،پہلو خان ،غلام محمد ،ظفر حسین ،جنید
،منہاج انصاری سے لے کر علیم الدین انصاری تک زعفرانی دہشت گردی کے کسی بھی
غنڈے کے خلاف کسی نے بھی اپنی جان کی حفاظت کے لئے دفاع نہیں کیا۔دنیا کا
ہر قانون ،بلا مبالغہ اور بلا استثنا ہر قانون ،نہتے انسانوں کو ’’حفاظت
خود اختیاری Self Defence میں حملہ آور ،دشمن، ڈاکو اور دہشت گرد سے اپنی
حفاظت کا حق دیتا ہے اور اگر اس حق کے استعمال کے دوران اس کے ہاتھوں کسی
کی جان بھی چلی جائے تو اسے سزا نہیں ہوتی۔ پھر کیوں کوئی بھی مسلمان اپنی
حفاظت کے لئے اپنا دفاع نہیں کرتا اور چاروں خانے چت ہوجاتا ہے بہر کیف یہ
اور بات ہے کہ انگریزوں کیبنائے ہوئے قانون کے مطابق حفاظت خود اختیاری اور
اپنے دفاع کے لیے ہر شہری کو اسلحہ رکھنے کا غیر مشروط حق نہیں دیتا۔ایک
سابق ڈپٹی کمشنر نے لکھا تھا کہ ’’ میں نے اپنے چھ سالہ ڈپٹی کمشنری کے
زمانے میں کسی ڈاکو ،چور ،لٹیرے ،مفرور مجرم یا تخریب کار (دہشت گرد ) کو
اسلحہ لائسنس کی درخواست دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔وہ اپنا یہ حق بزور بازو خود
حاصل کر لیتے ہیں اور ہم محض ملک کے شریف شہریوں کو اسلحہ لائسنس کے لیے
پولیس تھانوں اور کچہریوں کے چکر لگوا کر رْسوا اور ذلیل کرتے ہیں۔۔‘‘جب سے
انگریزوں نے یہ اسلحہ ایکٹ 1878 میں بنایا ہے ،شریفوں ،کمزوروں ،اقلیتوں
اور با لخصوص شرفا کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔
جب کہ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ رسول ﷺ کے وصال کے بعد ان کے گھر میں مال
دنیا سے صرف آٹھ تلواریں نکلی تھیں۔ سید ا لا نبیاء کے اس اصول پر جن قوموں
نے عمل کیا وہاں آج امن و آشتی اور سکون کا بول بالا ہے اور جنہوں نے اسے
ترک کردیاچھوڑدیا اور اپنے اس نقصان کے احساس سے بھی محروم ہو گئے بے حس
ہوگئے وہاں آج غنڈوں ،بدمعاشوں ،دبنگوں ،نسل پرستوں ،فرقہ پرستوں ،جاہلوں
،ظالموں اور گھمنڈیوں کا قبضہ ہے۔
اﷲ تعالیٰ قرآن میں حفاظت خود اختیاری کے تعلق سے فرماتا ہے کہ ’’اور تم
لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ قوت (طاقت حاصل کرو)اور تیار
بندھے رہنے والے گھوڑے اْن کے مقابلے کے لیے مْہَیَّا رکھو تاکہ اْس کے
ذریعے سے اﷲ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو اور اْن دوسرے دشمنوں کو
جنہیں تم نہیں جانتے مگر اﷲ جانتا ہے ( کہ وہ تمہارے دشمن ہیں )خوف زدہ رکھ
سکو اﷲ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدلا تمہاری طرف
پلٹا دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہو گا۔‘‘
اس آیہ کریمہ میں ہرگز کسی جارحیت یا جارحانہ اقدامی کارروائی اور جہاد کا
حکم نہیں۔
گجرات ،آسام اور بھارت کے دیگر گاؤں اور دیہاتوں میں ہوئے فسادات میں بہت
سارے لوگ گاؤں چھوڑ کر فرار ہوگئے مگر کچھ ایسے بھی تھے جو فسادات کے دوران
بھی پوری طرح محفوظ رہے تھے۔صرف اِس لیے کہ اْنہوں نے اپنے گھر گاؤں کو
چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے اپنے گھر گاؤں میں رہ کر اپنی
حفاظت خود کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ نتیجے میں ظالم فسادی ٹولے کی ہمت ہی
نہیں پڑی کہ اْدھر کا رْخ کریں۔
لیکن یہ بات بھی لکھنا ضروری ہے کہ گجرات کے ایک گاؤں میں باپ بیٹوں نے ملک
کر فسادیوں پر گولی چلائی تھی او راپنی جان بچائی تھی لیکن انہیں پولس نے
گرفتار کرلیا اور ان پر قتل کے مقدمات چلیلیکن بالآخر وہ دونوں باعزت بری
بھی ہوگئے۔
آج بھارت سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ اور مسلمانوں کے خلاف جو
انسانیت سوز مظالم ہورہے ہیں اْس کا بنیادی سبب مسلمانوں کی قرآن و سنت سے
دوری ہے۔ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کہ کن حالات میں کس طرح کا
لانئحہ عمل ہمیں اسلام تیار کرنے کے لئے کہتا ہے بس نکاح طلاق اور ختنے میں
ہمیں بڑا اسلام نظر آجاتا ہے لیکن جہاں اپنی جان پر بن آئے تو ہم بغلیں
جھانکتے رہتے ہیں۔
نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ’’ جو شخص اپنے اہل و عیال کا دفاع کرتے ہوئے ظلم
کے ساتھ مارا جائے وہ شہید ہے۔جو شخص اپنے ہمسائے کا دفاع کرتے ہوئے ظلم کے
ساتھ مارا جائے وہ شہید ہے اور جو شخص خدا کی ذات کے لیے قتل کیا جائے
(یعنی صرف اس لیے کہ وہ الہِ واحد و لا شریک کو اﷲ مانتا ہے ) وہ بھی شہید
ہے۔(کنز ا لعمال حدیث11238)آپ ﷺنے فرمایا ’’جو شخص اپنا دفاع کرتے ہوئے جنگ
کرے اور مارا جائے وہ شہید ہے (کنز ا لعمال حدیث11236)آپ نے فرمایا ’’ جو
شخص اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے (کنز
العمال حدیث 11205) اور صرف یہی نہیں آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’ جو شخص
اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے (کنز ا لعمال 1197)آپ ﷺ
نے فرمایا کہ ’’ اپنے مال کا دفاع کرنے کے لیے لڑو یا تو اپنے مال کو بچا
لوگے یا پھر قتل کر دیے جاؤ گے ایسی صورت میں آخرت میں شہدا میں شمار ہو گے
( میزان ا لحکمت ج ۵ حدیث 9796)
ہمارے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اور محمد اخلاق سے لے کر علیم الدین انصاری تک
ہمارے جو بارہ جوان اور دیگر دلت بھائی زعفرانی ٹولوں، فرقہ پرستوں اور
تشدد پسندوں کی بھیڑ کے حملے میں ا پنی جان سے گئے ان میں سے کسی ایک کے
بارے میں بھی کہیں یہ لکھا ہوا نہیں پایا گیا اور نہ ہی پولس نے ریکارڈ جمع
کیا کہ اْن میں سے کسی نے بھی اپنی جان و مال کے دفاع میں حملہ ا?وروں کا
مقابلہ کیا ہو یا قاتلوں کے ظالم ٹولے میں سے کسی کو کوئی نقصان پہنچایا ہو
!وہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ پر اپنے حملہ آوروں کے مقابلے میں صرف مار
کھانے کے بجائے اگر اپنے دفاع کا شرعی و قانونی حق ادا کرتے تو بہت ممکن
تھا کہ اْن میں سے کچھ بچ بھی جاتے اور جو مارے جاتے وہ یقینی طور پر درجہ
شہادت پر فائز ہوتے۔
اگر آپ کی جان خطرے میں ہواور اس بات کا یقین آپ کو ہوگیا ہے کہ آپ اپنی
جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے ہیں ایسے میں آپ دشمنوں سے صلح کے طالب ہیں تو
اِس کا یہ مطلب یہ ہے کہ آپ یا تو ڈرپوک ہیں یا آپ کو دفاع کرنا ہی نہیں
آتادفاع کرتے ہوئے جام شہادت پی لیجئے مگر کمزوروں بے بسوں اورلاچاروں کی
طرح اپنی جان سے ہاتھ مت دھوبیٹھئے۔موجودہ حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم
علمائے کرام ودانشوران حضرات کی نگرانی اور ان کی صحبت میں بیٹھ کر قرآن
وحدیث کی وہ تعلیمات حاصل کریں اور سیکھیں جس سے اسلام اور مسلمانو ں کا
مکمل تحفظ ممکن ہو۔
ہمیں چاہئے کہ ایسے حالات میں مل بیٹھیں محلہ محلہ گلی گلی مارشل آرٹ
(کراٹے ) کی تربیتی کلاسیس اور سیلف ڈیفینسSelf Defenceکی کلاسیس شروع کی
جائے۔ گھوڑ سواری، تیر اندازی، بندوق چلانے کی مشق حکومت سے اجازت لے کر
شروع کی جائے۔ چستی پھرتی والے کھیلوں کو زیادہ اہمیت دی جائے۔حضور اکرمﷺ
نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ جس نے تیر اندازی سیکھا اور بھول گیا اور جس
نے تیرنا سیکھا اور بھول گیا وہ ہماری جماعت میں سے نہیں۔لہذا اپنی اور
اپنے اہل خانہ کی جان بچانا افضل قرار دیا گیا ہے اس لئے اس کی فکر
کیجئے۔حالات حاضرہ سے باخبر رہئے۔ دھوکہ دو نہ دھوکہ کھاؤ چوکنے رہو اور
ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کمر کس لو اپنے آپ سے انصاف کرو
کوئی حکومت اور تنظیم ہمارے ساتھ نا انصافی نہیں کررہی ہے بلکہ ہم خو داپنے
ساتھ نا انصافی کررہے ہیں اور ایک سب سے اہم بات سچے اور پکے مسلمان بن جاؤ
اور بنتے رہنے کی تلقین کرتے رہو۔ پھر دیکھئے اﷲ ہمیں دنیا وآخرت میں کیسے
سرخرو کرتا ہے۔
بولا چالا معاف کرا زندگی باقی تو بات باقی۔اﷲ حافظ۔ |