سمینہ اس دن بھی ’’روشن‘‘ میں ایک درخت پر ڈلے جھولے پر
جھولا جھول رہی تھی۔ شاید وہ اسی طرح وقت گزارا کرتی تھی۔ جب بھی وہ اس
لمبے سے جھولے پر بیٹھی جھولا جھولتی تو دیکھنے والا کا جی چاہتا کہ وہ
ہمیشہ اسی طرح جھولا جھولتی رہے اور وہ اسے تکتا رہے۔ سفید رنگ کے سادے سے
شلوار قمیض میں ملبوس اس کا سفید دوپٹے جھولے کے دوش پر ہوا میں لہراتا ایک
عجیب سما باندھ دیتا تھا۔ دبلی پتلی نازک سی لڑکی سبز پتوں میں دکھتی چھپتی
کوئی اڑتی پری سی لگتی۔
مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں وہیں موجود ایک بینچ کے پاس جا بیٹھا اور اسے ہاتھ
کے اشارے سے ’’ہیلو‘‘ کہا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ ہلکا سا مسکرا دی اور اپنے
خیالوں کی وادی سے نکلنے لگی۔ جھولا آہستہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ شاید وہ
جھولے سے اترنا چاہتی تھی۔ کچھ ہی دیر میں جھولا بت آہستہ ہو گیا۔ وہ مجھے
دیکھنے لگی اور کہا ،’’ کیسے ہیں آپ؟؟؟ بہت دنوں بعد دیکھا آپ کوٖ!‘‘
’’اہم م م۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسی ہیں؟؟‘‘ میں نے اپنا گلہ صاف کرتے ہوئے
کہا۔
’’میں بھی ٹھیک ۔۔۔ اللہ کا شکر ہے۔۔۔‘‘ وہ بولی۔
’’آپ کب سے یہاں ہیں؟‘‘ میں بات بڑھانا چاہتا تھا۔
’’مجھے تین ماہ ہو گئے ہیں۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ تین ماہ۔۔۔‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔ مجھے حیرانی اس بات کی تھی کہ
وہ اتنا عرصہ یہاں کیوں ایڈمٹ ہے۔ کیونکہ میں کوئی ڈیڑھ دو ماہ بعد گھر
واپس آ گیا تھا۔
’’سمینہ ہے نا آپ کا نام؟‘‘ میں نے یونہی پوچھ لیا کیونکہ کوئی اور بات
سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
’’جی، سمینہ ہے۔‘‘ وہ اپنا چمکدار سفید دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔
’’آپ ۔۔۔ ام م م۔۔۔ پڑھتی ہیں یا جاب؟؟؟‘‘
’’نہیں ، میں پڑھتی ہوں۔ یونیورسٹی میں۔۔۔انگلش لٹریچر میں ہوں۔۔۔‘‘ سمینہ
نے جواب دیا۔
’’۔۔۔اور آپ؟‘‘ اس کا سوال سن کر میں خوش ہو گیا۔ خود سے تصور کر لیا کہ وہ
بھی میرے بارے میں جاننا چاہتی ہے ۔ مجھ میں دلچسپی لے رہی ہے۔
’’میرا بزنس ہے۔ شوز کا۔۔۔‘‘
’’اوہ اچھا۔۔۔‘‘
ہم دونوں ہی چپ ہو گئے۔ مگر میں اپنے بینچ پر ہی جما بیٹھا رہا اور وہ بھی
ہلکا ہلکا جھولے کو جنبش دیتی رہی۔ پھر تھوڑی دیر میں وہ اٹھ کر جانے لگی۔
’’او کے۔ میں اپنے روم میں جا رہی ہوں۔ سی یو اگین۔۔۔‘‘ اس نے کہا اور
دھیرے دھیرے چلتی ہوئی میرے نظروں سے دور ہو گئی۔ میں نے ایک ٹھنڈی آہ
بھری۔ ایک عجیب کھچاؤ سا محسوس ہو تا تھا اسے دیکھ کر۔ بہت پرسراریت اور
اکیلاپن تھا اس لڑکی میں۔ کیا لکھا ہوا ہے اس کی زندگی کی کتاب میں؟ وہ کون
ہے؟کہاں سے آئی ہے؟ یہاں کیوں آئی ہے؟ میں سب جاننا چاہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’ڈیئر دلاور
ہمیں آپ کی بھیجی ہوئی پروفایئل بہت پسند آئی ہے۔ آپ ہماری ٹیم میں ایک
منفرد اضافہ ہوں گے۔
برائے مہربانی نیچے دئیے ہوئے فون نمبر پر رابطہ کر کے اپنا ایک فوٹو سیشن
اور ایک ریمپ والک آڈیشن ریکارڈ کروائیں۔ ایک ہفتے کے بعد ہم آپ کو اپنے
حتمی فیصلے سے آگاہ کریں گے۔
شکریہ
پیٹر والک
شائنن ماڈلنگ ایجنسی
دبئی‘‘
دلاور اس ای میل کا ایک ایک حرف پڑھتا جاتا اور اس کی بانجھیں کھلتی
جاتیں۔اسے تو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اتنی جلدی اسے جواب موصول ہو جائے
گا۔ وہ کھڑا ہوا اور آئنہ میں خود کو دیکھ کر ایک پوز مارا۔ جیسے خود سے
کہہ رہا ہو کہ آخر مجھے کون ریجکٹ کر سکتا ہے۔اس کا غرور آسمانوں کو چھو
رہا تھا۔وہ لمحوں میں دبئی پہنچ گیا اور آنے والی بے باک زندگی کے خواب
بننے لگا۔
’’واؤ۔۔۔ کبھی ڈسکو ۔۔۔کبھی پارٹی۔۔۔ کبھی ناچنا۔۔۔ کبھی گانا۔۔۔‘‘
’’کبھی گھومنا ۔۔۔ کبھی پھرنا۔۔۔ کبھی پینا اور پلانا۔۔۔‘‘ وہ تو شاعری
کرنے لگا۔ بہت ایکسائٹڈ ہو گیا تھا وہ۔۔۔
’’اب جائے سب بھاڑ میں۔۔۔ میں تو دبئی جا رہا ہوں۔۔۔‘‘ ابھی بس ایک ای میل
ہی آئی تھی اور وہ اتنا بے خود ہو گیا تھا۔ کہ کاروبار جائے بھاڑ میں ۔۔۔
دکان جائے بھاڑ میں اور سب بہن بھائی بھی۔۔۔ وہ بس اپنی زندگی جیئے
گا۔۔۔دیٹ از اٹ!
اس نے اسی وقت ای میل میں دئیے گئے نمبر پر کال ملائی ۔ دوسرے ہی دن اسے
آڈیشن کے لئے اسٹوڈیو بلا لیا گیا۔
وہ بڑا ایکسائٹڈ تھا اس نے دوسری کال مجھے اور مجدی کو ملائی اور شام کو
ایک ایک ٹھیک ٹھاک دعوت کا پیغام دے دیا۔ میرے اصرار پر بھی دلاور نے یہ
نہیں بتایا کہ پارٹی کس خوشی میں ہے۔ اس نے کہا کہ شام ہی کو سب کو بتائے
گا ۔
شام ہو گئی۔ دعوت پی سی ہوٹل میں ارینج کی گئی تھی۔ دلاور کے اور بہت سے
دوست احباب بھی وہاں موجود تھے۔ میں اور مجدی بھی پہنچ گئے۔یہ ایک ٹی پارٹی
اور پھر ڈنر تھا۔ چائے اور ڈنر کے بیچ سب نے اسنوکر اور باؤلنگ کرنے کا
پلان بنایا۔
دلاور نے ایک بڑا سا کیک بھی تیار کروا رکھا تھا۔
’’آج برتھ ڈے تو نہیں ہے تمہاری؟؟؟‘‘ دلاور کی گرل فرینڈ سیما بولی۔
’’نہیں نہیں۔۔۔ بھئی کوئی برتھ ڈے نہیں ہے میری آج۔۔۔‘‘
’’ایکچلی میں دبئی جا رہا ہوں۔ میرا ایک انٹرنیشنل ماڈلنگ ایجنسی سے
کانٹریکٹ ہو گیا ہے۔ ساری دنیا میں ان کی کمپینز چلتی ہیں۔ ہر ملک میں ہی
ان کی برانچز ہیں۔۔۔ میں بہت ایکسائٹڈ ہوں۔ بس اسی خوشی میں یہ یارٹی
ہے۔۔۔‘‘دلاور نے خوش ہو ہو کر سب کچھ بتایا۔ جبکہ اب تک تو اس کا آڈیشن بھی
نہیں ہوا تھا۔ اس نے سب سے کہہ دیا کہ کانٹریکٹ ہو گیا ہے۔
’’واؤ۔۔۔ تم نے کبھی بات ہی نہیں کی۔ تم تو چھپے رستم نکلے۔۔۔‘‘ سیما اچھل
کر بولی۔ سب خوش ہو گئے۔
’’زبر دست یار ۔۔۔ کانگریٹس۔۔۔‘‘ میں نے بھی دلاور کو مبارکباد دی اور آگے
بڑھ کر اسے گلے لگایا۔
’’واہ یار۔۔۔ کیا بات ہے!‘‘ مجدی نے بھی اس کے کاندھے پر تھپکی دی ۔ وہ
پہلی بار کوئی جاب کرنے والا تھا۔ گو کہ جاب کی نویت کچھ منفرد سی تھی مگر
سب ہی خوش اور حیران تھے کہ دلاور کچھ کر رہا ہے۔ اندر ہی اندر میں سب سمجھ
گیا تھا کہ دلاور نے کیوں اس جاب کے لئے اپلائے کیا اور کیوں وہ دبئی جا
رہا ہے۔ مجھے سب پتا ہی تھا کہ اس کا واحد بزنس ختم ہو چکا ہے اور اسٹور
بھی نہیں بکنے والا لہذا دلاور نے حالات سے مجبور ہو کر کہیں ہاتھ پیر مار
ہی لیا ہے۔ مگر جس قسم کا پیشہ دلاور نے چنا تھا وہ اس کی عیاش سرگرمیوں سے
میل کھاتا تھا۔ یعنی مزے بھی ہوتے رہیں گے اور پیسہ بھی ملتا رہے گا ۔
دلاور کو اور کیا چائیے تھا۔ میں نے سوچا کہ دلاور پر تو وہی مثال صادق آتی
ہے کہ رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا۔
بہر حال دلاور نے اچھا خاصہ پیسہ اس دن بھی اڑا دیا تھا۔ ہم سب نے خوب
انجوائے کیا اور رات گئے تک تھک ہار کر اپنے اپنے گھروں کو واپس پلٹے۔
۔۔۔۔۔۔۔
رات کے دس بج رہے تھے۔ اس دن مجدی کی نائٹ شفٹ تھی۔ وہ سڑکوں پر ٹریفک بہت
کم تھا۔ وہ چپ چاپ انی نئی نویلی کار ڈرائیو کرتا ہوا ڈیفینس میں بنے اپنے
خفیہ آفس کی طرف چل پڑا۔ رات بہت تاریک تھی۔ کالی سیاہ۔ شاید یہ اماوس کی
رات تھی۔ جس رات چاند آسمان پر نظر نہیں آتا۔ کوئی پینتالیس منٹ ڈرائیو
کرنے کے بعد مجدی اس بنگلے کے سامنے پہنچ گیا جس میں وہ کام کیا کرتا تھا۔
مجدی نے ایک طرف کو کار پارک کی اور گاڑی کے اندر سے ہی ہینڈ بریک کھینچتے
ہوئے گردن گھما کر بنگلے کو ایک نظر دیکھا ۔ وہ باقائد گی سے وہاں آتا تھا
مگر اس دن بنگلہ بہت مختلف سا لگ رہا تھا۔ مکمل تاریکی میں ڈوبہ ہوا۔ جیسے
وہاں کوئی بستا ہی نہ ہو۔ عام طور پر بنگلے کے مین دروازے پر لگی لائٹس جلی
ہوتی تھیں۔ مگر اس رات وہ بھی بند تھیں۔ مجدی کے دل میں ایک عجیب سا احساس
جاگا اور پھر ختم ہو گیا۔ ایک لمحے کو اس کے ذہن میں خیال آیا کہ شاید لائٹ
گئی ہوئی ہے مگر اس نے آس پاس بنے دوسرے بنگلوں پر نظر کی تو وہاں روشنی ہو
رہی تھی۔
مجدی کے پاس اب بنگلے کے مین گیٹ کی چابی ہوتی تھی۔ وہ بے نیازی سے گاڑی سے
اترا اور گیٹ پر چابی لگا کر اندر کو داخل ہو گی۔ برآمدے پر لگی سفید
ٹائیلیں بھی رات کی تاریکی میں کالی لگ رہیں تھی۔ ٹائلوں پر پڑتا اس کا ہر
قدم ’’ٹک ٹک ‘‘ کی آواز پیدا کر رہا تھا۔ اس خاموشی اور تاریکی میں یہ آاز
بڑی پرسرار معلوم ہورہی تھی۔
’’اوہ۔۔۔ کہیں آج چھٹی تو نہیں ۔۔۔‘‘ وہ ویران ماحول دیکھ کر مجدی کو ہک دم
ایک خیال آیا۔ ہر ماہ ایک دن اسے ضرور چھٹی دی جاتی تھی۔
’’شاید آج چھٹی ہے اور سر مجھے بتانا بھول گئے ہیں۔۔۔‘‘ مجدی نے خود سے کہا
اور چلتا چلتا رک گیا۔ اس نے آس پاس دیکھا تو حیرت انگیز طور پر پرویز صاحب
کی گاڑی کو دو اور گاڑیوں کے ساتھ بنگلے کے اندر کی پارکنگ میں موجود پایا۔
مجدی کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
’’اگر یہ لوگ یہاں ہیں تو ساری لائٹس کیوں آف ہیں؟؟؟‘‘ مجدی نے خود سے سوال
کیا۔
وہ کچھ سوچ کر آگے بڑھا اور بنگلے کے اندر جانے والا لکڑی کا دروازہ کھول
دیا۔ اندر بھی مکمل اندھیرا تھا سوائے ایک جگہ کے۔۔۔ وہی کمرہ جس کا دروازہ
ہمیشہ بند رہتا تھا آج اس کے نیچے دروازے کی جھری سے پیلی پیلی مدھم سے
روشنی نمودار ہو رہی تھی۔ اس رات مجدی کو سب کچھ الگ الگ لگ رہا تھا۔ ایسا
لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ اسی آفس میں موجود ہے جہاں روز آتا جاتا ہے۔
تھوڑی ہی دیر میں زین نامی اس کا ایک کولیگ واش روم کی طرف سے نکلتا ہوا
وہیں ہال میں آ گیا جہاں مجدی ٹکٹکی باندھے کھڑا تھا۔
’’ارے مجدی تم!‘‘ زین مجدی کو دیکھتے ہی آگے بڑھا اور ضرورت سے ذیادہ اونچی
آواز میں پوچھا۔ اس کی آواز پورے ہال میں گونج گئی۔ یک دم اندھیرا اور بڑھ
گیا۔ کسی نے اس بند کمرے کی لائٹ فوراََ بجھا دی تھی۔
’’ام م م۔۔۔ ہاں ۔۔۔ کیاآج آفس بند ہے؟؟‘‘ مجدی نے تشویشناک اور قدرے
گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’ارے ہاں یار۔۔۔ آج تو آف ہے۔ تم کیوں آئے ہو؟ کیا تمہیں پرویز صاحب نے
پتایا نہیں؟؟؟‘‘ اس نے جلدی جلدی کہا۔
’’آآآ۔۔۔ ہاں۔۔۔ انہوں نے آج کا تو نہیں کہا تھا۔۔۔‘‘مجدی نے ذہن پر زور
ڈالتے ہوئے کہا۔
’’نہیں یار۔۔۔ کہا ہو گا۔۔۔ تم بھول گئے ہو شاید۔۔۔‘‘ زین نے مجدی کا ہاتھ
پکڑا اور اسے باہر جانے والے دروازے کی طرف لے کر بڑھا۔
’’اوہ اچھا۔۔۔‘‘ مجدی وہاں نیا تھا۔ اس نے ذیادہ بال کی کھال اتارنا مناسب
نہیں سمجھا بلکہ از خود یہی تصور کر لیا کہ شاید وہی بھول گیا ہے کہ اس دن
اس کی چھٹی تھی۔
’’ا م م م۔۔۔ میں زرا واش روم سے ہو آؤں۔‘‘ مجدی نے کہا اور واپس اندر واش
روم کی طرف بڑھنے لگا۔ اس نے محسوس کر لیا کہ اس کے واپس پلٹنے سے زین کچھ
تذبذب کا شکار ہو گیا ہے۔ اس نے محسوس کر لیا کہ زین اسے فوراََ آفس سے
باہر نکالنا چاہتا ہے۔
صرف واش روم ایریا میں لائٹ آن تھی۔ زین بھی مجدی کے پیچھے پیچھے واش روم
میں آ گیا ۔ جبکہ ابھی وہ وہیں سے نکلا تھا۔ وہ وہیں لگے ایک واش بیسن کا
نل کھول کر کھڑا ہو گیا۔ وہاں کام کرنے والے تمام افراد کی طرح زین بھی بہت
پر کشش اور وجیہ نوجوان تھا۔ ایک امیر زادہ اور نہایت فیشن ایبل۔۔۔مگر اس
دن فارمل ڈریسنگ کے بجائے زین نے ایک بلیک ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔ واش روم کی
لائٹ میں مجدی نے زین کے بازوؤں پر بنے بہت سے ٹیٹوز دیکھے۔ کلائی سے لے کر
کاندھے تک عجیب و غریب ٹیٹوز اس کے دونوں بازوؤں پر موجود تھے۔ انسانی
کھوپڑی کا نشان، کتے کی شکل، کسی نا معلوم زبان میں کھپے ہوئے کچھ جملے اور
بہت سے انہونے نشانات وغیرہ۔۔۔
مجدی واش روم سے فارغ ہوا تو زین کو کسی سیکیورٹی گارڈ کی کی طرح وہیں باہر
کھڑا پایا۔ اس نے مجھے ساتھ لیا اور بنگلے کے باہر تک چھوڑ کر مین گیٹ لاک
کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’میں سندھ کے ایک مشہور سیاسی خاندان سے بیلونگ کرتی ہوں۔‘‘ اس دن سمینہ
نے مجھے اپنی کہانی سنانی شروع کی۔ میں اور وہ ’روشن‘ کے خوبصورت پارک کے
ایک طرف عام لوگوں سے ذرا ہٹ کر بیٹھے تھے۔ وہ ہر کسی سے بات نہیں کرتی
تھی۔ مگر میں اب اس کے لئے کوئی انجان بھی نہ تھا۔ جب میں ’روشن‘ میں داخل
تھا تب بھی ہماری نظریں ایک دوسرے سے مل جاتی تھیں اور اس کے بعد تو بہت
بار میں اسے خوبصور خوش رنگ گلدستے پیش کر چکا تھا۔ اس کے طرزِ کلام سے یہ
چھلکنے لگا تھا کہ وہ مجھ سے مانوس ہو چکی ہے اور مجھ پر کسی حد تک اعتبار
بھی کرنے لگی ہے۔ بہت جھجھکتے ہوئے اس دن میں نے اس سے اس کی زندگی کے بارے
میں سوال کیا۔ اور اس نے بھی کچھ سوچ کے آخر کار اپنے لب کھول ہی دئیے۔
’’میرے بابا سندھ اسمبلی کے ممبر تھے۔ ‘‘ سمینہ نے مزید بتایا۔
’’جب تک وہ اسمبلی میں رہے اور ان کی پارٹی کی حکومت رہی سب کچھ ٹھیک تھا۔
بلکہ یہ کہنا چائیے کہ ضرورت سے ذیادہ ٹھیک تھا۔ میرے بابا کو اپنی طاقت پر
بے انتہا گھمنڈ تھا۔۔۔ اور اپنے پیسے پر بھی۔ اس دور میں میں اسکول میں
پڑھتی تھی۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ سارا نظام کیسے چل
رہا ہے۔ میں تو سیدھا سیدھا اسکول جاتی اور اپنی سہیلیوں میں چہکتی رہتی۔
میری ہر خواہش ایک لمحے میں پوری ہو جاتی۔ کراچی کے سب سے مہنگے اسکول میں
میں پڑھتی تھی۔ تمام دوستوں میں میں ہی سب سے ذیادہ امیر اورر مشہور تھی۔
اور اس کی واحد وجہ میرے باباکی سیاست اور پیسہ تھا۔‘‘
’’ پھر آہستہ آہستہ مجھ میں بھی شعور آنے لگا۔ رات کو جلدی سونے کے بجائے
میں بھی کچھ دیر سے سونے لگی۔ گھر کے معاملات پر نظر رکھنے لگی۔ امی اور
بابا کے تعلقات کے بارے میں جاننے لگی۔ اور اپنے اکلوتے بھائی کی سرگرمیاں
پر بھی مجھے تشویش ہونے لگی۔‘‘
’’بابا روز رات کو شراب پی کر آتے اور امی سے جھگڑا کرتے۔ پھر شاید پیسے
اور طاقت کا نشہ اور چڑھا تو گھر میں طوائفیں بھی آنے لگیں۔ بابا جان بلا
جھجک حویلی کے ایک طرف بنے مہمان خانے کے ہال میں مجرے اور شراب و شباب کی
محفلیں سجاتے۔ جس میں سارے شہر کے عیاش جمع ہوتے اور رنگ رلیاں مناتے۔ میں
اب اتنی چھوٹی بھی نہیں رہی تھی کہ یہ نہ سمجھ سکتی کہ یہ سب غلط ہو رہا
ہے۔ اس ماحول کا سب سے برا اثر میرے بھائی پر پڑا جو بچپن میں نہایت سیدھا
اور شریف تھا مگر اب دن بدن بہت اکڑوں اور مغرور ہوتا جارہا تھا۔ آئے دن
سننے میں آتا کہ وہ لڑکوں سے جھگڑے کرتا اور انہیں مرنے مارنے کی دھمکیاں
دیتا۔‘‘ میں جیسے سانس روکے سمینہ کی یہ کہانی سن رہا تھا۔ مجھے یقین ہی
نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایک مشہور سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور آج
’روشن‘ میڈ داخل ہے۔
’’میری امی اور بابا دونوں ہی یہلے متوسط گھرانے سے تعلق رکتے تھے۔ چند
سالوں میں بدلتے حالات نے بابا کو تو دیوانہ کر دیا تھا مگر امی سے گھر کا
یہ ماحول ہضم نہیں ہوتا تھا۔ وہ دن رات بابا اور میرے بھائی کے حالات او ر
واقعات سن کر پریشان رہتیں۔ وہ بابا جان سے بہت ڈرتی تھیں مگر پھر بھی کوشش
کر کے انہیں سمجھانے کی کوشش کرتیں کہ ان کے اور ہم سب کے مستقبل کے لئے یہ
راستہ ٹھیک نہیں ہے۔ مگر وہ ہمیشہ انہیں جھڑک دیتے اور جب کبھی بات ذیادہ
بڑھ جاتی تو امی پر ہاتھ بھی اٹھاتے۔ اسی طرح بھائی بھی بابا کے دیکھا
دیکھا امی کی نصیحتوں پر ان سے بدتمیزی کرنے لگا اور انہوں سخت جواب دینے
لگا۔ دھیرے دھیرے امی بھی ہار مان گئیں اور کنارہ کش ہو گئیں کہ ان کے بس
میں نہیں کہ ان حالات کو درست کر سکیں۔‘‘
’’بابا اور ان کے سب ساتھیوں نے حکومت میں آتے ہی خوب کرپشن کی اور عوام کا
پیسہ لوٹ کر خوب عیاشیاں کیں۔ مگر ایک دن یہ سب ختم ہونا تھا۔ اگلے
انتخابات میں ان کی پارٹی کو زبردست شکست ہوئی اور سارا تختہ ہی الٹ گیا۔
‘‘
’’اب کیا تھا۔۔۔ سمجھو قیامت آگئی۔ جو نئی حکومت آئی تھی وہ بابا کی پارٹی
کی سخت مخالف تھی۔ بابا نے اپنے حکومتی دور میں مخالف پارٹی کو سخت نقصان
پہنچایا تھا۔ مخالف امیدواروں کو ہراساں کرنا۔ ان کے بندے اٹھا کر ان پر
تشدد کرنا ان کے گھر بار پر قبضہ کر لینا ۔۔۔ یہ سب ان کی سیاسی حکمتِ عملی
کا حصہ تھی۔‘‘
’’ اور پھر ہمرا نمبر تھا۔ جو کچھ بابا نے اپنے مخالفین کے ساتھ کیا تھا وہ
ہمارے ساتھ ہونے لگا۔ آئے دن ہماری گھر پر پولیس والے، آئی ایس آئی والے
اور آرمی کے لوگ چکر لگاتے اور بابا سے پوچھ گچھ کرتے رہتے۔ میرا اور بھائی
کا پیچھا کیا جاتا۔ امی نے تو گھر سے نکلنا ہی بند کر دیا تھا۔ مگر جب بھی
کبھی وہ گھر سے نکلتیں انہیں بھی یہ محسوس ہوتا جیسے کوئی ان کی جاسوسی کر
رہا ہے۔پھر ایک دن بھائی کالج جانے کے لئے گھر سے نکلا تو واپس نہ آیا۔
بابا جان اب حکومت میں تو تھے نہیں۔ کسی کو کچھ پتا نہ چلا کہ بھائی کو
زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ سارے ادارے ہمارے خلاف تھے۔ کیا پولیس کیا
رینجرز ، جو کبھی ہماری حویلی کا طواف کرتے نہیں تھکتے تھے اب ہمیں ہراساں
کرتے۔ بابا نے سارا زور لگایا مگر بھائی کا کچھ پتا نہ چلا کہ کہاں
گیا!!!‘‘
’’امی بھائی کو یاد کر کر کے سارا دن روتی رہتیں اور بابا کو کوستی رہتیں
کہ جو کچھ انہوں نے بویا تھا اب انہیں کاٹنا پڑ رہا ہے۔ بابا نے گھر پر
رہنا بہت کم کر دیا۔ جانے وہ کہاں سر گرداں رہتے۔ جب بھی گھر آتے شراب کے
نشے میں دھت ہوتے اور چند گھنٹوں بعد پھر کہیں فرار ہو جاتے۔۔۔ یہاں تک کہ
ایک دن ہمارا باورچی بھاگا بھاگا آیا اور مجھے اور امی کو بتایا کہ نیب نے
بابا کے خلاف کاروائی کا حکم جاری کر دیا ہے اور انہیں اب گرفتار کر لیا
جائیگا۔ ڈرتے ڈرتے باورچی نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر بابا گرفتار نہ ہوئے تو
ادارے مجھے اور امی کو اٹھا کر لے جائیں گے۔ یہ بات سننی تھی کہ ہمارے
پیروں تلے زمین نکل گئی۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ بابا کا تو کچھ پتا نہیں
تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ وہ شاید روز اپنا نمبر بھی بدلتے تھے۔ میں نے ٹی وی آن
کیا تو وہاں بابا کے نام سے خبر چل رہی تھی کہ ہماری ساری جائیدا د ضبط کر
لی گئی ہے اور تمام اثاثے بھی منجمد ہو گئے ہیں۔ بابا کے خلاف وارنٹ
گرفتاری بھی جاری ہو گیا تھا۔ ٹی وی پر یہ سب سن کر میرے تو ہاتھ پاؤں پھول
گئے۔ میں ابھی ابھی کالج میں آئی تھی۔ میرے کم سن ذہن پر ایک خوف طاری ہو
گیا۔ مجھ پر کپکپی سی طاری ہو گئی کہ جانے اب ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
امی نے مجھے ایسی حالت میں دیکھ کر اپنے سے چمٹا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے
لگیں۔ وہ تو خود ایک عورت تھیں ۔ یہ سب جان کر بے انتہا گھبرا گئیں۔ نہ
شوہر پاس تھا نہ بیٹا۔۔۔ ہم دونوں عورتیں ساری دنیا میں بے یار و مددگا ر
ہو گئیں۔۔۔‘‘
’’مگر یہ تو بس آغاز تھا۔ امی نے فیصلہ کیا کہ فوراََ گھر چھوڑ کر اپنے
ماموں کے گھر روانہ ہو جائیں گی ۔ ہم دونوں آناََ فاناََ اپنا ضروری سامان
اکھٹا کرنے لگیں۔ امی نے سب سے پہلے اپنے زیورات اکھٹے کئے۔ تاکہ انہیں بیچ
کربا وقتِ ضرورت کچھ پیسے ہاتھ آجائیں ۔ ہم دونوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ
بابا کے بینک اکاؤنٹ سیز ہو گئے ہوں گے اور اب اے ٹی ایم کارڈ وہاں نہیں
چلے گا۔ ہم اے ٹی ایم کارڈ استعمال بھی نہیں کرنا چاہتے تھے تا کہ کسی کو
کسی طرح ہماری لوکیشن کی خبر نہ ہو۔‘‘
’’ابھی ہم سامان باندھ ہی رہے تھے کہ ہمیں ایپنے کمرے کے باہر کچھ شور سا
محسوس ہوا۔ میرے اور امی دونوں کے دل کی دھڑکن رک گئی۔ کانپتے ہاتھوں سے
امی نے کمرے کادروازہ کھولا تو سامنے سے آتے ہوئے ایک لمبے چوڑے فوجی پر
نظر پڑی۔ گھر پر ریڈ پڑ چکی تھی۔ اب کوئی فرار نہ تھا۔ فوجی نے آگے بڑھ کر
کمرے کا دروازے کھول دیا۔ میں نے ڈر کے مارے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر
رکھ لیے۔ میں اتنی ڈری ہوئی تھی کہ یوں محسوس ہو رہاں تھا جیسے دل ابھی
اچھل کر باہر آ جائے گا۔ ‘‘
’’کہاں ہے مشتاق حسین؟؟؟‘‘ اس فوجی نے گرج کر پوچھا۔
’’ام م م۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ تو بہت دنوں سے یہاں نہیں آئے۔۔۔‘‘ امی نے ڈر ڈر
کے کہا۔
’’بہت سے اور پولیس افسران، رینجرز کے آدمی اور دوسرے سفید سفید کاٹن کی
شلوار قمیض میں ملبوس لوگ گھر میں داخل ہو چکے تھے۔ انہوں نے ہم سے بہت سے
الٹے سیدھے سوال کئے۔ ہمیں بہت ڈرایا دھمکایا اور ہراساں کیا۔ ہمارے
موبائیل فون لے کر چیک کیا اور سارے گھر کی تلاشی لی۔‘‘
’’ ہم دونوں ماں بیٹی ایک صوفے پر سکڑ کے بیٹھے سارا تماشہ دیکھ رہے تھے۔
جانے کیا ہونے والا تھا ! کیا ہم گرفتار ہو جائیں گے! کیا ہمیں چھوڑ دیا
جائے گا! ہمارا کیا مستقبل ہے! ہم دونوں ماں بیٹی دل ہی دل میں اللہ کو یاد
کر کر کے دعائیں مانگ رہیں تھیں۔ تھوڑی دیر میں امی کی حالت غیر ہو گئی اور
وہ چکر کھا کر گر پڑیں۔ میرے تو چیخیں نکال گئیں کہ جانے امی کو کیا ہو گیا
ہے! میں سسک سسک کر رونے لگیں اور امی امی پکارنے لگیں۔‘‘
’’دو تین رینجرز کے افراد آئے اور امی کی نیض چیک کرنے لگے۔ میں بادستور
روتی جا رہی تھی۔ میں سارا بدل خوف سے کانپ رہا تھا۔ رینجرز والوں امی کے
منہ پر پانی چھڑکا اور کچھ کوشش کر کے اپنی کے حواس بحال کئے۔ پھر انہوں نے
ہمیں اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن چلنے کو کہا۔ ہم نے بہت منت سماجت کی، بہت
روئے دھوئے کہ ہمارا کوئی قصور نہیں ہے ہمیں چھوڑ دیا جائے مگر انہوں نے
کسی کی نہ سنی۔ پھر ان میں سے ایک شخص نے ہمیں جھوٹاحوصلہ دے کر ہمیں ان
فوجیوں کے ساتھ جانے کو کہا۔ ہم تو ویسے بھی مجبور اور ہر سمت سے گھر ہوئے
تھے۔۔۔ بے بس اور لاچار ان کے ساتھ گھر سے باہر نکلے۔ سب سے پہلا جھٹکا
مجھے تب لگا جب انہوں نے مجھے ایک اور امی کو دوسری گاڑی میں بٹھا دیا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
|