“ تمہیں والی کے لئے خود کو بدلنا ہوگا اسے اپنی طر ف
اٹریکٹ کرنا ہوگا، تب وہ محبت کی پہلی سیڑھی چڑھے گا۔
اور اسے تم سے محبت ہوتی جائے گی اور وہ محبت اسے آخری مقام تک لے جائے گی
اور وہ مقام موت ہے بیٹا، پھر موت کے سوا تم دونوں کو کوئی بھی الگ نہیں کر
سکے گا۔“
نائلہ نے اسے پیار سے سمجھایا ۔ حسنہ کی سمجھ میں ساری بات آگئی تھی اسکے
پاس بچا ہی کیا تھا والی کے سوا اب وہ اسے کسی بھی صورت کھونا نہیں چاہتی
تھی ۔ نائلہ نے اسے ہمت دی تھی اب وہ سمجھ گئی تھی اسے آگے کیا کرنا تھا۔
“ اپنا خیال رکھنا بیٹا مجھے شازمہ کے جاگنے سے پہلے یہاں سے جانا ہوگا۔
اور سلمان کی فکر مت کرنا اب وہ تم لوگوں کوئی الزام نہیں لگا سکے گی
کیونکہ میں سلمان کو اسکے بابا کے پاس امریکہ بھیجوا رہی ہوں۔ “ وہ اسکا
گال تھپکپاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ حسنہ مسکرا کر اسے دیکھے لگی۔
“ اور ہاں شازمہ بری نہیں ہے بیٹا! بس بھٹک گئی ہے اور مجھے امید ہے جلد ہی
اسے اس بات کا احساس ہو جائے گا۔“ نائلہ نے جاتے ہوئے کچھ یاد آنے پر پیچھے
مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
“ جانتی ہوں آنٹی آپ بے فکر ریئے میں آج بھی انکی اتنی ہی عزت کرتی ہوں اور
ہمیشہ کرتی رہوگی۔“ اسنے کہا
پھر وہ وہاں سے چلی گئی۔ حسنہ نے سوچ لیا تھا اسے اب کیا کرنا تھا۔ اسنے
وال کلاک پر نظر ڈالی تو شام کے پانچ بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔
“ والی آتا ہی ہوگا۔ “ اسنے سوچا۔
والی آفس سے پانچ بجے نکلا کرتا تھا اور گھر آتے اسے ساڑھے پانچ ہو جایا
کرتے تھے۔ وہ جلدی سے اٹھی اسنے الماری سے سب سے اچھا ڈریس نکالا اور واش
روم میں چلی گئی۔
کچھ دیر بعد جب وہ واپس آئی تو اسے پرپل نیٹ کا پاؤں تک آتا فروک پہنا ہوا
تھا جس پر سفید نگوں اور سفید پرل لگے تھے پرپل کلر میں اسکی گور ی رنگت
اور چمک رہی تھی۔ اسنے ڈرائیر سے بال خشک کئے اور نفاست سے میک اپ کر کے
اپنا جائیزہ لینے لگی وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اسنے دونوں ہاتھوں سے
بالوں کو سمیٹ کر پیچھے کیا اور دائیں بائیں چہرا گھما کر دیکھنے لگی “
نہیں ایسے نہیں کھلے زیادہ اچھے لگ رہے تھے ۔“ اسنے سوچا اور پھر اپنے بال
دونوں ہاتھوں سے آزاد کر دیئے تو وہ ریشم کی طرح اسکے کندھوں پر بکھر گئے۔
تو وہ خود پر آخری جانچتی نظر ڈال کر اٹھ کھڑی ہوئی اسنے گھڑی کی طرف دیکھا
تو وہاں دس منٹ تھے ابھی والی کے آنے میں وہ ارمو بابا کے پاس چلی گئی۔
“ ماشااللہ حسنہ بی بی آج تو آپ نظر لگ جانی حد تک پیاری لگ رہی ہو بیٹا!
کہیں باہر جانا ہے کیا۔ ؟ ارمو بابا کچن میں کام کرنے میں مصروف تھے آہٹ
ہونے پر انہوں نے دیکھا تو دیکھتے ہی گئے۔ انکے تیزی سے سبزی کاٹتے ہاتھ رک
گئے اور سوال کرنے کر بعد پھر سے چلنے لگے۔
“ نہیں بابا کہی باہر نہیں جا رہی، بس ایسے ہی دل کیا خود کو سنوارنے کا
خیر میں آپ سے یہ کہنے آئی تھی کہ آج کا کھانا میں خود بناؤں گی۔ “ اسنے
فریج اور کچن میں رکھتے سامان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“ لیکن بیٹا! “
“ بیٹا ویٹا کچھ نہیں بابا میں نے کہ دیا بس آپ میری مدد کر دیجیئے گا۔ “
“ ٹھیک ہے بیٹا ارمو بابا مسکرانے لگے۔ اتنے میں ہارن کی آواز آئی اور وہ
وہاں سے اپنے کمرے میں ہڑبڑاتی ہوئی بھاگ گئی۔
“ ارے اسے کیا ہوا “ ارمو بابا حیرانی سے اسے بھاگتا دیکھنے لگے۔ (جاری ہے
) |