مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) میں دو ہفتے تک اذان و جماعت
کا نہ ہونا کم افسوس ناک نہیں۔ مسلم ممالک کی طویل فہرست ہے۔ اس کے باوجود
مسجد اقصیٰ کو اذان سے محروم کر دیا جانا، نمازوں سے محروم کیا جانا حد
درجہ غور طلب ہے! وہ کیا اسباب تھے کہ مسلم ممالک خاموش رہے؟ کن وجوہات نے
ان کی زبانوں کو اسرائیل کی مخالفت میں کھلنے نہ دیا؟ ان سوالات کے جواب کے
لیے تاریخ کی ورق گردانی کرنی پڑے گی۔ بہر کیف مجاہدین فلسطین نے اپنا فطری
حق مانگا۔ جدوجہد جاری رکھی۔ احتجاج کیا۔ مظاہرے کیے۔ امن و امان کے ساتھ
کوشاں رہے۔ گولیاں کھائیں۔ بارود کے وار سہے۔ لاٹھیاں جھیلیں۔ لاشیں
اُٹھائیں۔ عزیزوں کے خون سے دامن رنگیں دیکھے۔ قبروں کی قطاریں دیکھیں۔
اپنے عزیزوں کو خود مٹی دی۔ قربانیوں کی جولان گاہیں آراستہ کیں۔ تب
اسرائیل گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا۔
یہ فتح فلسطین کی ہے؟
دُنیا بھر کے مسلمان بے چین ہوئے کہ مسجد اقصیٰ میں یہودی درندگی کا معاملہ
انتہا کو پہنچ گیا۔ نمازوں پر پابندی، اذانوں پر روک۔ ساری دُنیا میں
احتجاج ہوا۔ مسلمان پر امن مظاہرے کی راہ پر تھے۔ ہندوستان میں بریلی سے
خانوادۂ اعلیٰ حضرت اور ان کے معتقدین نے آواز بلند کی۔ جس پر یہاں کے
کروڑوں مسلمان سراپا احتجاج بن گئے اورجمعہ میں دُعاؤں کا اہتمام ہوا۔
لاکھوں مساجد میں فلسطینی حقوق اور مسجد اقصیٰ کی تائید میں خطبات دیے گئے۔
بیداری پیدا کی گئی۔ لیکن حکومتیں خاموش رہیں۔ جمہوریت کے دعوے دار مہر بہ
لب رہے۔ درجنوں اور سیکڑوں فلسطینی شہادتوں پر ایک ایک جان کی قدر جتانے
والے چپ رہے۔ کیوں کہ شہید ہونے والے مسلمان تھے۔ صاحبِ ایمان تھے۔
اہلِ فلسطین اور عام مسلمانوں کا احتجاج رنگ لایا۔ اسرائیل کو اپنی زمین
تنگ محسوس ہوئی۔ اسے لگا کہ دُنیا بھر کے مسلمانوں کا یہ احتجاج اگر
’’معاشی احتجاج‘‘ میں بدل گیا تو پھر اسرائیل کی کمر ٹوٹ جائے گی۔
فلسطینیوں کو مارنے کے لیے وہ ہتھیار کہاں سے تیار کرے گا؛ جب وسائل کم و
تنگ ہو جائیں گے؟ اسے پتہ ہے کہ چند سال پیش تر مسلمانوں نے معاشی کمر ایسی
توڑی تھی کہ اسرائیل جھک گیا تھا۔ ہاں! فلسطینی نہتے مجاہدین نے جو جدوجہد
کی؛ اسی نے اسرائیل کو سرنگوں کیا۔ یہ فتح فلسطین کی ہے۔ اس کا سارا کریڈیٹ
اہلِ فلسطین اور مسلمانانِ عالم کو جاتا ہے۔ کوئی حکومت مسجد اقصیٰ کی
حمایت میں آگے نہیں آئی۔ سب جھکے ہوئے ہیں امریکہ کے آگے، سب سرنگوں ہیں
برطانیہ کے حضور، سب خمیدہ ہیں یہودی طاقتوں کے سامنے۔ ایک ترکی ہے جو کبھی
کبھی اپنی حیات کی تازگی دکھا دیتا ہے۔ مسلمانوں سے ترکی کی ہمدردی فطری ہے۔
وہ تو پاسبانِ حرم رہ چکے؛ اس لیے حرمین کے تحفظ کا خون جوش مارتا ہے۔
پاسباں مٹا دیے گئے:
کبھی لیبیا و عراق سمیت کئی مسلم ممالک مسجد اقصیٰ کے لیے کھل کر بولتے
تھے۔ لیکن وہ زبانیں خاموش کر دی گئیں۔ ان کے مٹانے میں وہی ممالک شامل ہیں
جن کی خاموشی نے اسرائیل کے حوصلے بلند کر دیے۔ مفاد و اقتدار کی طمع نے
مسلم ممالک کو بے حسی میں مبتلا کر دیا۔ حالاں کہ ان ممالک کے مسلمان بھی
تڑپ اُٹھتے ہیں جب یہودی ٹینک مسلم بستیوں کو روند رہے ہوتے ہیں۔ ان ممالک
کے مسلمان بھی مضطرب ہوجاتے ہیں جب مسجد اقصیٰ کی اذانیں بند کروائی جاتی
ہیں۔ اقتدار نے جمہوری احتجاج کا حق بھی چھین لیا ہے۔ کیا ماضی قریب کا وہ
لمحہ اہلِ فلسطین فراموش کر دیں گے جب حرمین کے حکمرانوں کے الوداعی نغموں
کے ساتھ ہی ٹرمپ کے جہاز نے اسرائیل پرواز کی تھی؟ اور اسی کے کچھ مدت بعد
مسجد اقصیٰ میں نمازیں بند کر دی گئیں۔ اہلِ فلسطین جانتے ہیں کہ عربوں کی
غیرت مال و اقتدار کے آگے بک چکی ہے۔ انھیں اپنا دفاع خود کرنا ہے اس لیے
کہ حکومتیں اپنے اقتدار کے لیے جی رہی ہیں۔ مسلم ممالک ایک دوسرے کو ہی فتح
کرنے میں لگے ہیں۔ دولت مند ممالک نے یہودی تقویت کا ساماں ہی کیا ہے۔
القاعدہ و داعش کو پالنے والے کیا بتا سکتے ہیں کہ ان کا وجود اُمت کے لیے
کبھی رحمت ہوا؟ طالبان و آتنک واد تنظیموں کو طاقت ور بنانے والے یہ ثابت
کر سکتے ہیں کہ ان کے وجود سے مسلم امہ کو فائدہ پہنچا؟
آہ! سیماب پریشاں، انجم گردوں فروز
شوخ یہ چنگاریاں، ممنون شب ہے جن کا سوز
تشدد کی پرورش نقصان دہ:
دہشت گرد تنظیموں نے مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچایا۔ لاکھوں مسلمان ان کی
بھینٹ چڑھے۔ جب کہ اہلِ فلسطین کو مدد دی جاتی، اور انھیں قوت پہنچائی جاتی
تو اسرائیل کا وجود مٹتا۔ اس کے ظلم کا سر نیچا ہوتا۔ مسجد اقصیٰ نمازوں
اور اذانوں سے محروم نہیں رہتی۔ ان دو ہفتوں میں نام نہاد جہادی تنظیمیں
بِلوں میں چھپی تھیں۔ انھیں مسلم امہ کا وقار عزیز نہیں۔ وہ تو امریکہ کی
منشا کے مطابق مسلمانوں ہی کو ٹارگیٹ کر رہی ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سُنا کہ
داعش نے اسرائیل کو نشانہ بنایا؟ یا کسی اسلام دشمن کو تاکا؟ نہیں ان کے
نشانے پر صرف مقدس مقامات ہیں اور کلمہ گو۔ یہ المیہ ہے۔
مستقل بیدار رہیں:
ابھی خوشی منائی جا رہی ہے کہ اسرائیل نے مسجد اقصیٰ سے قبضہ ہٹا لیا اور
حسبِ سابق فلسطینی آزادی سے نماز ادا کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں مہم ختم نہیں
ہوئی۔ یہودی کبھی بھی ہمارے نہیں ہو سکتے۔ ابھی فلسطین محکوم ہے۔ ابھی
آزادی دور ہے۔ ابھی اسرائیل آزاد ہے۔ اس کی معیشت مضبوط ہے۔ مسلمان یہودی
پروڈکٹ کے بڑے خریدار ہیں۔ جن کا نفع مسلمانوں کے لہو سے ہولی کھیلنے میں
صرف ہوتا ہے۔ مسلم امہ کی ذمہ داری ہے کہ مستقلاً یہودی پروڈکٹ کا بائی کاٹ
کرے۔ وقتی بائی کاٹ کارگر نہیں۔ کیا ہم صرف اتنا نہیں کرسکتے؟ افسوس کہ
حرمین کے دستر خوان یہودی مصنوعات سے بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ کاش! مسلم ممالک
یہودی مصنوعات کا استعمال ترک کرنے کی اپیل کرتے۔ خود عمل کرتے اور عمل
کرواتے تو یہودی طاقت کم زور ہوتی اور فلسطین کی آزادی کی صبح قریب ہوتی۔
لیکن غیرت و حمیت یورپ و امریکہ کے آگے بک چکی ہے اس لیے مسلم امہ کا مفاد
عزیز نہیں!!
ذوق حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمانِ خلیل
ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن |