حج کاسفرمحبت ووفاکاسفرہے۔اس کامدعااورحاصل اﷲ تبارک
وتعالیٰ کی محبت اوراس کی رضاکے سواکچھ نہیں۔اس کاہرعمل محبت ووفاکاعمل
اوراس کی ہرمنزل محبت ووفاکی منزل ہے۔دراصل اﷲ تبارک وتعالیٰ ہم سے یعنی
اپنے بندوں سے بے پناہ الفت ومحبت فرماتاہے،وہ الرحمٰن اورالرحیم ہے۔وہ اہل
دنیاپربے پایاں رحمتوں کی مسلسل بارش فرمارہاہے۔یہ اس کی رحمت اورمحبت ہے
کہ اُس نے ہماری ہدایت وراہنمائی کے لئے قرآن کریم جیسی مقدس وبابرکت کتاب
اپنے محبوب مکرم حضوررحمت دوعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پرنازل
فرمایا۔دین اسلام کاہرحکم اﷲ تبارک وتعالیٰ کی اپنے بندوں سے محبت کامظہرہے
اوراس کی محبت کے حصول کاراستہ ہے۔ہم اپنے سرکوخدائے وحدہٗ لاشریک کی
بارگاہ عالیہ میں اس لئے جھکاتے ہیں تاکہ ہمیں اس کاقرب حاصل ہوجائے۔
احکام الٰہی !حرام وحلال کے ہوں یااخلاق ومعاملات کے یاہجرت اورجہادکے ،یہ
سب ہم پراس کی بے پناہ شفقت اوررحمت پرمبنی ہیں۔مگرحج کی بات ہی دوسری
ہے۔یہ بندوں سے اﷲ تبارک وتعالیٰ کی محبت کااوراس کی محبت کے اظہارکابے
مثال مظہرہے،اورہمارے لئے اس سے محبت کرنے کااپنی محبت ووفاداری کے
اظہارکااوراس کی الفت ومحبت کوپانے کاانتہائی کامیاب اورکارگزارنسخہ
ہے۔عبادات میں اس پہلوسے اس کی کوئی نظیرنہیں۔اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں
اپنی محبت دینے کی خاطرمکہ مکرمہ کی بے آب وگیاہ وادی میں بظاہرایک بالکل
سیدھے سادھے اورمعمولی گھرکواپناگھرفرماکراُس کاطواف کرنے کے لئے حجاج کرام
کوحکم فرمایا اوراپنی بارگاہ عالیہ میں سرجھکانے والے کواسی مقدس ومتبرک
گھرکی طرف اپناقبلہ جان کرنماز پڑھنے کاحکم صادرفرمایا۔حج کے اعمال ومناسک
کودیکھئے یہ بھی عشق و محبت کے اعمال ہیں،اوریہ بھی خدائے وحدہٗ لاشریک کی
اپنے بندوں سے محبت ہی ہے کہ اس نے محبت کے ان اداؤں کی تعلیم دی۔ان کواپنے
مقدس وبابرکت گھرکی زیارت کاحصہ بنایااوران پراپنی محبت اوراجرعظیم کی
بشارت دی۔یہ اعمال سنت ابرہیمی کاورثہ ہے جوحضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ
السلام نے راہ خدامیں اپنی الفت ومحبت اوروفا،بندگی واخلاص،تسلیم
ورضا،اورقربانی ورضاجوئی سے قائم کئے اورہمارے لئے ورثہ میں چھوڑگئے۔توائے
حاجیو!جب آپ لباس دنیاترک کرکے دوسفیدچادرمیں ملبوس ہوگے اورلبیک اﷲم لبیک
!کانغمۂ توحیدومحبت بلندکروگے اورحدودحرم یعنی اپنے محبوب مکرم کی گلی میں
داخل ہوگے توعشق ومحبت کے امام اول حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام
کولازمی طورپر یادرکھنااوران کی طرح حنیف(یکسو)بننے کی مکمل کوشش بھی
کرناکیونکہ وہ ( یعنی حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام )سب کچھ چھوڑکراﷲ
تبارک وتعالیٰ کے بن گئے تھے۔اوراس خدائے رب ذوالجلال کی رضاکے لئے انہوں
نے اپناتن من دھن سب کچھ قربان کردیاتھا،نہ ان کی زندگی کارخ کسی اورکی طرف
تھا،اورنہ ان کی محبت کسی اورکے لئے اﷲ تعالیٰ کی محبت سے بڑھ کرتھی۔ وہ
اپنے محبوب کی ہرمرضی پوری کرنے کے لئے ہروقت مکمل طورسے آمادہ
اورمستعدرہتے تھے۔دنیاکاجولباس خودسپردگی اوررضاجوئی میں مانع ہوا،انہوں نے
اُسے اُتارپھینکا۔آگ میں کودپڑے ،باپ سے ترک تعلق کیا،وطن چھوڑا،دشت
وصحراکی خاک چھانی،محبوب بیوی اورشیرخواربچے کووادی غیرذی زرع میں چھوڑ
کرآگئے،یہ سب صرف اورصرف اپنے رب کریم کوراضی کرنے کے لئے کیا۔اس لئے ہمیں
بھی چاہئے کہ اسی طرح اپنے بزرگان دین کے نقش قدم پرچلتے ہوئے پورے خلوص کے
ساتھ طلب رضائے الٰہی کے لئے ارکان حج کی ادائیگی کریں ۔ریاکاری،نام
ونموداپنی شان بڑھانے اورصرف حاجی کہلانے کے لئے اس عظیم فریضے کوانجام نہ
دیں۔
حج کیاہے؟:حج اسلام کاایک اہم رکن ہے۔ خانۂ کعبہ کی طرف خدائے وحدہٗ لاشریک
کے حکم کے مطابق آنا،طواف وسعی کرنااورعرفات میں ٹھہرنے،قربانی کرنے،حلق
کروانے، اورحضوراکرم،نورمجسم ،سیدعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سکھائے
ہوئے طریقے کے مطابق ارکان اداکرنے کوحج کہتے ہیں۔یہ اپنے دامن میں بہت
ساری حکمتیں اوربے شمارروحانی لذتیں سمیٹے ہوئے ہے۔قدم قدم پرمحبت کے اَنمٹ
نقوش ہیں۔اﷲ تعالیٰ کے محبوب ومقدس انبیاء اوررُسل علیہم الصلوٰۃ والسلام
کااس جگہ حاضرہونااورطواف کعبہ کاشرف حاصل کرنااوروہاں کی روحانی کیفیات
میں وقت گزارنادلائل سے ثابت ہے ،بالخصوص سیدناآدم صفی اﷲ علیہ السلام
،سیدناابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام ،سیدنااسمٰعیل ذبیح اﷲ علیہ السلام
اورفخرآدم،صدربزم عالم،سروردوجہاں،مالک کون ومکاں،سیدالمرسلین،خاتم النبیین
حضرت محمدمصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے شماریادیں اس خطۂ مبارکہ کے
ساتھ وابستہ ہیں۔قربان گاہ حضرت اسمٰعیل ذبیح اﷲ علیہ السلام بھی یہیں
ہے۔مقام ابراہیم خلیل اﷲ ؑبھی اسی جگہ ہے۔اﷲ تعالیٰ کی نیک بندی زوجۂ حضرت
ابراہیم ؑ ؑاورمادرحضرت اسمٰعیل ذبیح اﷲ ؑ حضرت ہاجرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے
نقوش پاء بھی اس بقعہ مبارکہ کے حصہ میں آئے۔ان ہی حسین یادوں اوربابرکت
یادوں کواﷲ تعالیٰ کے حبیب ،دانائے خفاء وغیوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے
اپنے اسوۂ عمل سے فروغ دوام عطافرمایاہے۔وہ لوگ جن کے سینے محبت وشوق مصطفی
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے خالی ہیں۔ان کے لئے توحج فقط ایک مالی
اورجسمانی مشقت کے سواکچھ نہیں۔لیکن جن کے قلوب واذہان نورعشق رسول عربی
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے فروزاں ہیں انہیں ہرذرۂ صحراپرجذب وشوق اورحسن
وذوق کے جہاں آبادنظرآتے ہیں۔
حج ہرمسلمان ،بالغ،عاقل(سمجھدار)،آزاد،تندرست،سفرخرچ کامالک اورجوسواری
پرقدرت رکھتاہو اس پرزندگی میں ایک بارفرض ہے۔اﷲ تبارک وتعالیٰ کلام مقدس
میں ارشادفرماتاہے کہ:’’اوراﷲ کے لئے لوگوں پراس گھرکاحج کرناہے جواس تک چل
سکے اورجومنکرہوتواﷲ سارے جہان سے بے پرواہ ہے‘‘۔(ترجمہ: کنزالایمان،سورہ
آل عمران،آیت نمبر97)
حج کی فرضیت وافضلیت کے متعلق چندحدیثیں ملاحظہ ہوں: (۱)حضرت ابن عبا س رضی
اﷲ تعالیٰ عنہمانے کہاکہ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے ارشادفرمایاکہ
ائے لوگوں!خدانے تم پرحج فرض کیاہے۔اقرع بن حابس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کھڑے
ہوئے اورعرض کیایارسول اﷲ ﷺ!کیاہرسال حج فرض ہے ؟ فرمایااگرمیں ہاں کردوں
توہرسال حج فرض ہوجائے اوراگرہرسال حج فرض ہوجائے توتم اُسے اداکرنے کی
طاقت نہیں رکھتے ،اس لئے حج پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے اورجوشخص
اس سے زیادہ کرے وہ نفل ہے۔(احمد،نسائی،دارمی،مشکوٰۃ)
(۲)حضرت ابن عبا س رضی اﷲ تعالیٰ عنہمانے کہاکہ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ
والتسلیم نے ارشادفرمایاکہ جوشخص حج کاارادہ کرے توپھرجلداس
کوپوراکرے۔(ابوداؤد،دارمی)
(۳)حضرت ابن مسعودرضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہاکہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ
والتسلیم نے ارشادفرمایاکہ حج اورعمرہ کویکے بعددیگرے اداکرو(یعنی قِران
کااحرام باندھویابالفعل دونوں کومتصلاً کرو)اس لئے کہ یہ دونوں افلاس
اورگناہوں کواس طرح دورکردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے چاندی اورسونے کی میل
کودورکردیتی ہے اورحج مقبول کابدلہ صرف جنت ہے۔(ترمذی،نسائی)
(۴)حضرت ابوہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہاکہ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے
ارشادفرمایاکہ جوشخص حج یاعمرہ یاجہادکے ارادہ سے نکلااورپھرراستہ ہی میں
مرگیاتواﷲ تعالیٰ اس کے حق میں ہمیشہ کے لئے مجاہد،حاجی اورعمرہ کرنے والے
کاثواب لکھ دیتاہے۔(بیہقی،مشکوٰۃ)
(۵)جس شخص نے حج کیااورزنااورگناہ سے محفوظ رہاتووہ تمام گناہوں سے پاک
ہوکرایسالوٹاجیساکہ ماں کے پیٹ سے پیداہونے کے روزپاک تھا۔(بخاری ومسلم)
(۶)حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم سے دریافت کیاگیاکہ کون ساعمل سب سے زیادہ افضل ہے آپ ﷺ نے
ارشادفرمایاکہ اﷲ اوراس کے رسولؐ پرایمان لانا۔عرض کیاگیاکہ اس کے بعدکون
ساعمل سب سے زیادہ افضل ہے۔فرمایاکہ اﷲ کی راہ میں جہادکرنا۔عرض کیاگیااس
کے بعدکون ساعمل افضل ہے توفرمایاکہ وہ حج مبرورہے (بخاری ومسلم )
اس حدیث میں حج مبرورکادرجہ جہادکے بعدبیان فرمایاہے۔حج مبرورکی تشریح
علمائے کرام نے کئی طرح سے کی ہے ۔بعض حضرات نے فرمایاکہ حج مبروروہ ہے جس
میں کوئی گناہ نہ ہواہو،اوربعض حضرات نے فرمایاکہ جوحج مقبول ہوجائے وہ حج
مبرورہے،اوربعض اکابرنے فرمایاکہ حج مبروروہ ہے جوحلال مال سے ہواورجس میں
ریااورنام ونمودنہ ہو۔حضرت حسن بصری ؓنے فرمایاکہ حج مبروروہ ہے جس کے
بعددنیاکی جانب سے قلب بے رغبت ہوجائے اورآخرت کی طرف رغبت ہوجائے۔اسی
کوبعض حضرات نے یوں فرمایاکہ جس حج کے بعدگناہ نہ ہووہ حج مبرورہے۔ حج
مبرورکے لئے یہ بھی شرط ہے کہ اس میں خرچ کی جانے والی رقم میں حرام کی
آمیزش نہ ہوبلکہ وہ پاک اورطیب ہوتوایساحج اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول
ہوتاہے اورحاجی کواس عظیم ترین اجروثواب سے نوازاجاتاہے جس کااُس سے وعدہ
کیاگیاہے۔اس قسم کے حج سے اُسے سعادت دارین حاصل ہوتی ہے۔اوراس کی سوچ
وفکرکے زاویئے اخلاص وایمان کانمونہ ہوتے ہیں۔آپ اس کااندازہ اس طرح کیجئے
کہ جب کوئی شخص حج کی نیت سے سفرکے اخراجات جمع کرنے کا ارادہ کرتاہے تووہ
ہرناجائز طریقہ سے کمائی کے خیال سے لرزہ براندام ہوجاتاہے۔اورحج اُسے رزق
حلال کمانے کاخوگربنادیتاہے۔جب رزق پاک اورصاف ہوتاہے توانسان کی خوراک بھی
طیب اورحلال ہوتی ہے۔جب غذاپاک ہوتی ہے توجسم میں بھی پاک خون کی افزائش
ہوتی ہے۔ پاکیزہ خون جب دل ودماغ میں گردش کرتاہے توپاکیزہ خیالات جنم لیتے
ہیں ،لہٰذاحجاج کرام کوچاہئے کہ اپنے مال ونیت کااحتساب کریں۔تاکہ ان کاحج
قبول ہونے کے درجہ میں آسکے ۔حلا وطیب مال سے حج کریں اورحج کے زمانہ میں
گناہوں سے بچیں اوربعدحج بھی گناہوں سے مکمل پرہیز کریں۔
مذکورہ تمام احادیث طیبہ سے حج کی فرضیت وافضلیت مکمل طورسے واضح ہوگئی،اس
لئے جن مسلمان بھائیوں کواﷲ تبارک وتعالیٰ نے صاحب استطاعت بنایاہے اُسے
چاہئے کہ جتنی جلدہوسکے حج کی ادائے گی کرلیں اوراس میں کوتاہی وکاہلی سے
ہرگزکام نہ لیں ۔
حج نہ کرنے پروعیدیں: ٭حضرت عبداﷲ ابن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہمافرماتے ہیں کہ
جوشخص تندرست ہو،حج کے اخراجات رکھتاہو،پھربھی بے غیرحج کیئے مرجائے
توقیامت کے دن اس کی پیشانی پرکافرلکھاہوگا۔(درمنثور)
٭حضرت ابوامامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جس شخص کوکسی ضروری حاجت یاظالم بادشاہ
یاشدیدمرض نے حج سے نہیں روکااوراس نے حج نہیں کااوروہ مرگیاتووہ چاہے
یہودی ہوکرمرے یانصرانی ہوکرمرے۔(دارمی)
٭حضرت عبداﷲ ابن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ حضورنبی
اکرم،نورمجسم،شاہ بنی آدم،نبی محتشم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے
ارشادفرمایاکہ اسلام کی بنیادپانچ چیزوں
پرہیں(۱)کلمہ،(۲)نماز،(۳)زکوٰۃ،(۴)روزہ،(۵)حج۔توجوشخص ان میں سے کسی رکن
کوترک کرتاہے وہ اسلام کی عمارت منہدم کرناچاہتاہے۔(بخاری شریف)
حج کے چندضروری مسائل : (۱)دکھاوے کے لئے حج کرنااورمال حرام سے حج
کوجاناحرام ہے۔(درمختار،ردالمحتار،بہارشریعت،ج۶،ص ۷۱۹)
(۲)عورت کومکہ شریف تک جانے میں تین روز یازیادہ کاراستہ ہوتواس کے ہمراہ
شوہریامحرم ہوناضروری ہے خواہ وہ جوان عورت ہویابوڑھی۔محرم سے مرادوہ مردہے
کہ جس سے ہمیشہ کے لئے اس عورت کانکاح حرام ہے خواہ نسب کی وجہ سے نکاح
حرام ہوجیسے باپ،بیٹا،اوربھائی وغیرہ یادودھ کے رشتہ سے نکاح کی حرمت ہو
جیسے رضاعی بھائی ،باپ ،بیٹاوغیرہ یاسسرالی رشتہ سے حرمت آئی ہوجیسے
خسر،شوہر کابیٹا وغیرہ۔(بہارشریعت)
(۳)شوہریامحرم جس کے ساتھ عورت سفرکرسکتی ہے اس کاعاقل ،بالغ غیرفاسق
ہوناشرط ہے ۔مجنوں یانابالغ یافاسق کے ساتھ نہیں
جاسکتی۔(عالمگیری،درمختار،بہارشریعت)
(۴)عورت کو بے غیرمحرم یاشوہرکے حج کے لئے جاناحرام ہے اگرحج کرے گی
توہوجائے گامگرہرقدم پرگناہ لکھاجائے گا(فتاویٰ رضویہ ،جلدچہارم،ص ۶۹۱)بعض
عورتیں بے غیرمحرم یااپنے پیریاکسی بوڑھے آدمی کے ساتھ حج کوجاتی ہیں یہ
بھی ناجائز وحرام ہے۔
(۵)عورت کے ساتھ شوہراورمحرم نہ ہوتواس پرواجب نہیں کہ حج کے جانے لئے نکاح
کرے۔(بہارشریعت)
(۶)اگرحج کے مصارف کامالک ہواوراحباب کے لئے تحفہ وتحائف لانے کی استطاعت
نہ رکھتاہوتب بھی حج کوجانا فرض ہے۔اس کی وجہ سے حج نہ کرناحرام
ہے۔(بہارشریعت)
(۷)سرکاراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضہ ٔ انورکی حاضری اوربیت اﷲ
شریف نیز دیگرمقامات مقدسہ کی زیارت کے بعدحاجیوں کوچاہئے تویہ تھاکہ اپنے
عزیز واقارب میں مذہبی رنگ پیداکرتے۔مگرافسوس کہ ایساکرنے کے بجائے وہاں سے
ریڈیواورموبائل وغیرہ لاکراپنے عزیزواقارب کودیتے ہیں جس سے اکثراوقات وہ
گانابجاناسن کرگناہ کماتے رہتے ہیں اورساتھ ہی یہ سامان لانے والے
حاجیوکانامۂ اعمال بھی سیاہ ہوتارہتاہے۔
(۸) جس نے پاک مال ،پاک کمائی ،پاک نیت سے حج کیااوراس میں لڑائی
جھگڑانیزہرقسم کے گناہ ونافرمانی سے اپنے آپ کوبچائے رکھاپھرحج کے بعدفوراً
مرگیااتنی مہلت نہ ملی کہ جوحقوق اﷲ یاحقوق العباداس کے ذمے تھے انہیں
اداکرتایااداکرنے کی فکرکرتاتوحج قبول ہونے کی صورت میں امیدقوی ہے کہ اﷲ
تعالیٰ اپنے تمام حقوق کومعاف فرمادے اورحقوق العبادکواپنے ذمۂ کرم پرلے کر
حق والوں کوقیامت کے دن راضی کرے اورخصومت سے نجات بخشے۔(اعجب
الامدادللامام احمدرضاؒ)
اوراگرحج کے بعدزندہ رہااورحتی الامکان حقوق کاتدارک کرلیایعنی سالہائے
گزشتہ کی مابقی زکوٰۃ اداکردی ،چھوٹی ہوئی نمازاورروزہ کی قضاکی ،جس کاحق
مارلیاتھااس کویامرنے کے بعداس کے وارثین کودے دیا،جسے تکلیف پہنچائی تھی
معاف کرالیاجوصاحب حق نہ رہااس کی طرف سے صدقہ کردیا۔اگرحقوق اﷲ اورحقوق
العبادمیں سے اداکرتے کرتے کچھ رہ گیاتو موت کے وقت اپنے مال میں سے ان کی
ادائیگی کی وصیت کرگیا۔خلاصہ یہ کہ حقوق اﷲ اورحقوق العبادمیں سے چھٹکارے
کی ہرممکن کوشش کی تواس کے لئے بخشش کی اورزیادہ امیدہے(اعجب الامداد)
ہاں اگرحج کے بعدقدرت ہونے کے باجودان امورسے غفلت برتی انہیں ادانہ
کیاتویہ سب گناہ ازسرنواس کے ذمہ ہونگے اس لئے کہ حقوق اﷲ وحقوق
العبادتوباقی ہی تھے ان کی ادائے گی میں تاخیرپھرکرناپھرتازہ گناہ ہواجس کے
ازالہ کے لئے وہ حج کافی نہ ہوگا اس لئے کہ حج گزرے گناہوں یعنی وقت پرنماز
وَروزہ وغیرہ ادانہ کرنے کی تقصیرکودھوتاہے ۔حج سے قضاشدہ نمازاوررُزہ
ہرگزنہیں معاف ہوتے اورنہ آئندہ کے لئے پروانۂ آزادی ملتاہے بلکہ مقبول حج
کی نشانی ہی یہ ہے کہ حاجی پہلے سے اچھاہوکرواپس ہو۔(اعجب الامداد)
آج کل بہت سے حضرات برسہابرس حقوق اﷲ یعنی نمازوَروزہ اورزکوٰۃ وغیرہ نہیں
اداکرتے نیز حقوق العبادکی کچھ پرواہ نہیں کرتے ،کسی کوقتل کرتے ہیں،کسی کی
زمین غصب کرلیتے ہیں،کسی کامال چراتے ہیں،کسی کاروپیہ لے لیتے ہیں اورکسی
کوطرح طرح سے ستاتے ہیں پھرحج کرآتے ہیں اوریہ سمجھتے ہیں کہ ہماراسب گناہ
معاف ہوگیا ،نہ اب چھوٹی ہوئی قضانمازیں پڑھنی ہیں نہ بندوں کے حقوق معاف
کراناہے یہ ان کی سخت غلط فہمی ہے۔
مولیٰ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کوتوفیق عطافرمائے کہ وہ حقوق اﷲ اورحقوق
العبادکوپہلے کماحقہ اداکریں اورپھرحج کی عظیم سعادت سے سرفرازہونے کے لئے
عازم سفرہوں ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اﷲ علیہ وسلم |