فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو کسی عالم یا داعی کو پسند کرتا ہے، اور کہتا
ہے کہ: بے شک میں ان سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں، اور ہرگز بھی نہيں سن
سکتا کہ کوئی ان پررد کرے، اور میں ان کی ہی بات کو لوں گا چاہے وہ دلیل کے
مخالف ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ بے شک میرے یہ شیخ ہم سے زیادہ دلیل کو سمجھنے
والے ہيں؟
جواب: یہی وہ قابل نفرت ومذمت تعصب ہے، جو کہ بالکل بھی جائز نہیں([1])۔
ہم علماء کرام سے محبت کرتے ہيں الحمدللہ، اسی طرح سے داعیان الی اللہ سے
بھی محبت کرتے ہیں، لیکن اگر ان میں سے کوئی کسی مسئلے میں غلطی کرجائے، تو
ہم اس مسئلے میں دلیل کے ساتھ حق بیان کرتے ہيں، اور یہ مردود علیہ (جس کا
رد کیا گیا) ا س کی محبت اور قدر میں نقص کا سبب نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک رد کرسکتا ہے اور اس کا رد کیا جاسکتا ہے، سوائے اس قبر
والے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے‘‘([2])۔
لہذا ہم اگر بعض اہل علم وفضل پر رد کرتے ہيں تو اس کا یہ معنی نہیں ہوتا
کہ ہم ان سے بغض رکھتے ہيں یا ان کی تنقیص کے خواہاں ہیں، بلکہ ہم تو صرف
اور صرف حق صواب کی وضاحت کرتے ہيں۔ اسی لیے بعض علماء کرام جب ان کے
ساتھیوں میں سے کوئی غلطی کرتا تو یوں فرماتے ہیں:
’’فلاں ہمارا محبوب ہے، لیکن حق ہمیں اس سے بھی زیادہ محبوب ہے‘‘([3])۔
یہ ہے صحیح طریقہ ۔
چناچہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ بعض علماء پر کسی ایسے مسئلے میں جس میں ان سے
غلطی ہوئی رد کرنے کا مطلب ان کی تنقیص کرنا یا ان سے بغض کرنا ہے، بلکہ
علماء کرام تو ہمیشہ سے ایک دوسرے پر رد کرتے آئے ہيں اس کے باوجود آپس میں
محبت اور بھائی چارہ بھی تھا۔
ہمارے لیے جائز نہيں کہ کسی شخص کی ہر بات کو اٹل سمجھ کر لازمی طور پر
لیں، چاہے وہ صواب پر ہو یا غلطی پر، کیونکہ بلاشبہ یہ تعصب ہے۔
وہ شخصیت کے جن کے ہر قول کو لیا جائے گا اور اس میں سے کسی بھی چیزکو
چھوڑا نہيں جاسکتا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہيں، کیونکہ
بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کی طرف سے مبلغ (پہنچانے والے)
ہیں، اور وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ نہيں بولتے، لیکن ان کے علاوہ جو ہيں تو
ان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اور صواب کو بھی پاسکتے ہيں، اگرچہ وہ تمام لوگوں
میں سے افضل ترین ہی کیوں نہ ہوں، بہرحال وہ مجتہد ہیں جو غلطی بھی کرتے
ہيں اور صواب کو بھی پاتے ہیں۔
کوئی بھی معصوم عن الخطاء نہيں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے۔
واجب ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح سے سمجھیں، کسی غلطی پر پردہ نہ ڈالیں
کسی شخصیت کی ہیبت کی وجہ سے، بلکہ ہمیں چاہیےکہ ہم غلطی کو واضح کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ، قُلنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ،
وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ‘‘([4])
(دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ، ہم نے عرض کی: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ
تعالی کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، اور حکام مسلمین اور
ان کی عوام کے لیے)۔
اور غلطی کو بیان کرنا تمام لوگوں کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے میں سے ہے،
جبکہ اسے چھپانا نصیحت وخیرخواہی چاہنے کے مخالف ہے۔
[1] محمد سلطان الخجندی رحمہ اللہ صاحب کتاب ’’هل المسلم ملزم باتباع مذهب
معين من المذاهب الأربعة‘‘ ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ سے ان کا یہ قول
نقل کرتے ہیں کہ: ’’اس امت کے کسی بھی شخص پر یہ واجب نہيں کہ وہ حنفی ہو،
یا مالکی، یا شافعی یا حنبلی، بلکہ ہر ایسے فرد پر ضروری ہے کہ جو عالم نہ
ہو کہ وہ اہل ذکر (علماء) میں سے کسی بھی سے پوچھ لے، اور یہ آئمہ اربعہ
بھی اہل ذکرمیں سے ہيں، اسی لیے کہا جاتا ہے: (جس نے عالم کی اتباع کی اس
کی ملاقات اللہ تعالی سے سلامتی کے ساتھ ہوگی)، اور درحقیقت ہر مکلف
سیدالانبیاء سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع پر مامور ہے‘‘۔ ص
57 تحقیقی الہلالی۔
میں یہ کہتا ہوں: اس کے قریب قریب معنی اس کلام کا بھی ہے جو شیخ الاسلام
ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے منقول ہے جو اس کتاب ’’الاجوبۃ المفیدۃ‘‘ کے حاشیہ
رقم 67 میں دیکھا جاسکتا ہے۔
امام الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ
جس کے سامنے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہر ہوجائے، تو اس کے
لیے روا نہيں کہ وہ لوگوں میں سے کسی کے بھی قول کی وجہ سے اسے چھوڑ دے‘‘۔
دیکھیں اعلام الموقعین لابن القیم رحمہ اللہ 1/7۔
[2] اس اثر کی تخریج کے لیے دیکھیں کتاب ’’صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم‘‘ للالبانی رحمہ اللہ ص 26 حاشیہ 3 ط المکتب الاسلامی 1403ھ، اور
اسے العجلونی رحمہ اللہ بھی ’’کشف الخفاء‘‘ 1961 میں لے کر آئے ہیں۔
[3] یہ مقالہ شیخ الاسلام ابن القیم رحمہ اللہ کا ابو اسماعیل الہروی کے
بارے میں ہے، دیکھیں ’’مدارج السالکین‘‘ 3/394۔
[4] اخرجہ مسلم فی کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحۃ، حدیث رقم 55۔
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة ص 67.
|