اللہ سبحان وتعالیٰ میری بیٹی کی حفاظت فرما ۔۔۔۔ یا رب
العالمین تو ہی اس کا محافظ و نگہبان ہے ۔۔۔ یا رب مجھ گنہگار کی دعا قبول
کر لے ۔۔۔۔۔ آہ ! میری بچی ۔۔۔۔
وہ اپنے بڑے سے کشادہ کمرے میں جاءنماز پر بیٹھیں بس ایک ہی دعا بار بار
اپنے رب کے حضور گڑ گڑا کر مانگ رہی تھیں ۔۔۔۔۔ اپنی اکلوتی بیٹی کی خیر و
عافیت کے لئے جھولی پھیلا رہی تھیں ۔۔۔۔ اپنی بے بسی کا اعتراف کر رہی تھیں
اتنی طاقت اور پرسرار قصوصٰیات کی مالک تھیں ۔۔۔۔۔ مگر اپنی بیٹی کو ڈھونڈ
نہیں پائی تھیں ۔۔۔۔ شاید قدرت کو ابھی مزید ان کا امتحان لینا تھا ۔۔۔۔۔
بے بے چپ بھیگی آنکھوں سے انہیں دیکھے جا رہی تھیں ۔۔۔۔ ان کی تڑپ ۔۔۔ ان
کی بے بسی پر چپ چاپ ان سے چھپ چھپ کر رو رہی تھیں ۔۔۔۔ خود بھی اللہ سے
عائیشہ کے خیر وعافیت کی دعائیں مانگ رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔
یا اللہ عائیشہ کو فاطمہ بی بی سے ملا دے ۔۔۔۔ یا اللہ میری بچیوں کی
زندگیوں کو خوشیوں سے بھر دے ۔۔۔
وہ بھی اللہ سے گڑ گڑا کر ان دونوں کی خوشیوں کی دعائیں مانگ رہی تھیں ۔۔۔۔
انہیں حوریہ بھی بہت یاد آرہی تھی ۔۔۔۔ پتہ نہیں وہ کہاں تھی کس حال میں
تھی ۔۔۔۔ انہوں نے نا صرف حوریہ کو ماں بن کر پالا تھا بلکہ فاطمہ کو بھی
حوریہ کی کمی محصوص نہیں ہونے دی تھی ۔۔۔۔ حوریہ اور فاطمہ میں ان کی جان
تھی ۔۔۔۔ انہی بچیوں کے لئے تو وہ جی رہی تھیں ۔۔۔۔ عائیشہ سے صرف ایک بار
ملی تھیں جب وہ زاکرہ بی بی کے بھائی کی وجہ سے اپنی ہی لائبریری میں بند
کر دی گئی تھی ۔۔۔۔ سامنے اس کے ظاہر نہیں ہوئی تھیں ۔۔۔۔ صرف اس سے کلام
غائب رہ کر کیا تھا ۔۔۔۔ وہ اپنی ماں فاطمہ کی ہو بہو کاربن کاپی تھی ۔۔۔
وہی نین نقش ۔۔۔ وہی ناز وادا ۔۔۔ وہی معصومیت ویسا ہی پرنور چہرا ۔۔۔ اسے
دیکھ کر فاطمہ کتنا یاد آئی تھی انہیں ۔۔۔ کتنی بے قرار ہوگئی تھیں وہ ۔۔۔
مگر اس وقت میاں جی نے انہیں منع کر دیا تھا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ
اس کے سامنے اپنا آپ ظاہر کریں ۔۔۔۔ میاں جی فاطمہ بی بی کے بارے میں بھی
جانتے تھے مگر انہیں فاطمہ بی بی کے بارے میں کبھی کچھ نہ بتایا ۔۔۔ بس
فاطمہ بی بی خود ہی ایک لمبے عرصے روپوش رہ کر خود ہی واپس اپنے والد کے
محل نما گھر واپس آگئی تھیں ۔۔۔ وہ میاں جی سے ناراض تھیں ۔۔۔ انہیں سب پتہ
تھا وہ دونوں طرف اپنا فرض نبھا رہے تھے ۔۔۔ مگر اگر کوئی بے خبر تھا تو وہ
صرف بے بے تھیں ۔۔۔ جس کا گلہ تھا انہیں ۔۔۔۔ اچانک ہی کمرے میں میاں جی
خاموشی سے داخل ہوئے تھے ۔۔۔ جنہیں دیکھ کر وہ چونکی تھیں ۔۔۔۔ وہ فاطمہ بی
بی کو دو رکات نماز کی نیت باندھتے دیکھ کر ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھ کر
خود بھی اللہ کے زکر میں مشغول ہوگئے تھے ۔۔۔۔ بے بے سے رہا نہیں گیا تو
خود بھی ان کے قریب جاکر بیٹھ گئیں ۔۔۔ اور زرا پر شکواہ نظروں سے انہیں
گھورنے لگیں ۔۔۔۔
اوں ہوں ۔۔۔ سمعیہ دیکھ نہیں رہی ۔۔۔۔ میں ازکار پڑھ رہا ہوں اس طرح دیکھو
گی تو کیسے پڑھ پاؤنگا ۔۔۔۔۔
ہاں جی میرے دیکھنے سے قلل پڑھ رہا ہے ناں ۔۔۔۔۔ لے پڑھیں آپ ۔۔۔ میں نہیں
دیکھتی اب آپ کو ۔۔۔
بھئی اتنی ناراضگی ۔۔۔ وجہہ جان سکتا ہوں ۔۔۔۔۔
آپ کو سب پتہ تھا ۔۔۔۔ پھر بھی مجھے کچھ نہیں بتایا آپ نے ۔۔۔۔ فاطمہ کے
بارے میں عائیشہ کے بارے میں ۔۔۔۔ اب عائیشہ گھر پر نہیں ہے وہ بھی مجھے
فاطمہ نے بتایا ۔۔۔۔
اوہ تو اس لئے ناراض ہیں آپ مجھ سے ۔۔۔۔ بھئی فاطمہ بی بی نے مجھے منع کیا
تھا کہ آپ کو ابھی لاعلم رکھوں ۔۔۔وقت آنے پر آپ کو وہ خود بتا دینگی ۔۔۔۔۔
لیکن ۔۔۔۔۔
لیکن کیا ۔۔۔۔ آپ نہیںجانتی ہیں ہمارے قبیلے کی ریت یہی ہے کہ جو وعدہ کرو
اسے ایفاٰء کرو ۔۔۔ مرتے دم تک ۔۔۔
جی ۔۔۔۔۔ ہاں وہی تو کر رہے ہیں آپ بھی اور میں بھی ۔۔۔۔ اسی وعدے کی وجہ
سے میری بچی حوریہ مجھ سے جدا ہوگئی ۔۔۔ میں اس کے لئے کچھ نہیں کر سکی
۔۔۔۔۔ اور نہ ہی فاطمہ کے لئے اور نہ ہی اس کی معصوم بچی کے کچھ کام آسکی
۔۔۔۔۔
وہ رونے لگی تھیں ۔۔۔۔ میاں جی انہیں روتا دیکھ کر خود بھی آبدیدہ ہوگئے
تھے ۔۔۔۔ چاہتے تھے اپنی اس پیاری سی وفا شعار بیوی کو وہ سب کچھ بتا دیں
جو وہ فاطمہ بی بی کو بتانے آئے تھے ۔۔۔۔ مگر وہ پہلے فاطمہ بی بی کو خبر
دینا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔ پھر انہیں ۔۔۔۔۔ اس لئے چپ رہے ۔۔۔۔ جانتے تھے پتہ چل
جانے کے بعد کہ حوریہ واپس صحییح سلامت آگئی ہے ۔۔۔۔ بے بے سب سے پہلے
شکرانے کے نوافل ادا کرینگی پھر فوراً ان سے ملنے کے لئے چل پڑینگی ۔۔۔۔۔
فاطمہ بی بی کو نماز پڑھ لینے دو پھر میں انہیں اور تمہیں ایک خاص بات
بتانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔
کیا عائیشہ مل گئی ہے ؟
انہوں نے ان سے فوراً سوال کیا تھا ۔۔۔۔۔ تو انہوں نے مایوسی سے سر ہلا دیا
۔۔۔۔ تو بے بے بھی ایک آہ بھر کر رہ گئیں ۔۔۔
اسلام علیکم میاں جی ۔۔۔۔۔
وعلیکم اسلام ! جی کوئی خبر ملی عائیشہ کی ؟
نہیں بی بی مگر ایک اور خاص خبر ہے آپ کے لئے ۔۔۔۔۔
جی فرمائیے ۔۔۔۔
ان کے بولنے پر وہ سوالیہ انداز میں انہیں دیکھنے لگیں ۔۔۔۔
بی بی حوریہ بی بی واپس لوٹ آئی ہیں اور اس وقت وہ کراچی میں آپ کے نانا
اور پر نانا سردار یوسف کے ساتھ موجود ہیں ۔۔۔۔۔
جیٰییییییییییی کک کیا کہا آپ نے مما حور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے احساس کے ساتھ بول اٹھیں تھیں ۔۔۔۔۔۔
کسی کام سے اپنی بیٹی کے کمرے میں داخل ہوتے جمال شاہ نے بھی سنی تھی یہ
خبر اور ان کے قدم وہیں جم کر رہ گئے تھے ۔۔۔۔۔
×××××××××××××××
حوریہ بی بی بے چینی سے ٹہل رہی تھیں اس چھوٹے سے کمرے میں ۔۔۔ ان کے ساتھ
ان کے والد اور سردار نانا بھی تھے جو خود بھی فکرمند اور پریشان تھے ایک
خوشی ملی تھی تو وہ بھی ادھوری سی تھی۔۔۔۔۔ حوریہ بی بی واپس لوٹ آئی تھیں
تو عائیشہ پتہ نہیں کہاں چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔ وہ زاکرہ کے گھر میں اپنی بہن
اور ککو کے ساتھ تھی تو ان سب کو ایک اطمینان سا تھا ۔۔۔۔ عائیشہ کی نظروں
سے اوجھل رہ کر بھی وہ اس کے آس پاس تھے ۔۔۔ پھر میاں جی تو ہر دم اس کے
ساتھ تھے ۔۔۔۔ مگر اب وہ کہیں کھو گئی تھی ۔۔۔۔۔ اور کراچی کا چپا چپا چھان
مارا تھا مگر اسے نہ ملنا تھا وہ نہ ملی ۔۔۔۔
کہاں جا سکتی ہے میری بچی ۔۔۔۔ میں کیوں نہیں پہچانی اسے کہ وہ میری لختٍ
جگر کا ہی جگر کا تکڑا ہے ۔۔۔۔ کاش میں اسے جانے نہیں دیتی ۔۔۔کاش ۔۔۔۔
وہ خود کو کوس رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں وہ ابھیمنیو کے ہتے نہ
چڑھ جائے انہیں اسی بات کا ڈر تھا ۔۔۔۔ وہ تو اس بدبخت سے نا آشنا تھی ۔۔۔
نہیں جانتی تھی کے باہر جذبات میں اُٹھایا قدم اسے کن خطرات سے دوچار کر
سکتا ہے ۔۔۔۔ وہ خود ابھیمنیو کی قید سے فرار ہوکر اتنی تکالیف سہہ کر
اپنوں تک پہنچی تھیں اور نہیں چاہتی تھیں کہ پھول سی بچی کو کوئی آنچ پہنچے
۔۔۔۔۔
××××××××××××
میں بہت تھک چکی تھی ۔۔۔۔ اور مسلسل خون بہنے سے کمزوری بھی محسوس ہورہی
تھی ۔۔۔۔ بھوک اور پیاس بھی اب شدت سے محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔ اب میں تھک
کر ایک گھر کے باہر لگے نیم کے درخت کے نیچے بیٹھ گئی تھی ۔۔۔ کچھ دیر
سستانے کے لئے پتا نہیں یہ سفر کب تمام ہونا تھا یا پھر پوری زندگی ہی اب
سفر میں گزر جانی تھی ۔۔۔۔ اماں بی کی لکھی ایک چھوٹی سی نظم بیٹھے بیٹھے
یاد آگئی تھی ۔۔۔
نیم کی چھاؤں تلے
کچھ دیر سستانے بیٹھی ہوں
آنکھیں تکھن سے چور
پر سونے سے ڈر لگتا ہے
کہ راستہ طویل اور دھند میں لپٹی منزل
منچلی دھوپ گھڑی بھر اسکی اٹھکھیلیاں ہیں
گھپ تاریک اندھیرا چارسو پھیلنا ہے
سفر مشکل سہی پر طے تو کرنا ہے
نیم کی چھاؤں تلے
کچھ دیر سستانے بیٹھی ہوں ۔۔۔۔۔۔
اماں بی کی یہ نظم میرے موجودہ حالات پر پوری اُترتی تھی ۔۔۔ مجھے ایسا لگا
جیسے انہوں نے یہ نظم مجھ پر ہی لکھی تھی ۔۔۔۔۔ ساتھ ہی اماں بی اور سنئیہ
کے ساتھ گزارے دن و سال بھی یاد آنے لگے ۔۔۔ان کی یاد سے دلی کیفیت کچھ
عجیب سی ہوگئی تھی ۔۔۔ ان کی یادیں ہی میرا کُل سرمایہ تھیں ۔۔۔۔ اب انہی
یادوں کے ساتھ زندگی تمام ہوجانی تھی ۔۔۔ میں سرجھکائے انہیں سوچوں میں
کھوئی ہوئی تھی کہ ہارن کی آواز پر چونکی تھی ۔۔۔۔ بڑا سا گیٹ کھلا تھا
۔۔۔۔ اور چوکیدار مجھے دیکھ کر میری طرف بڑا تھا ۔۔۔۔
اے لڑکی اُٹھو یہاں سے صیب (صاحب) کی گاڑی کو اندر جانے دو ۔۔۔۔
میں نے چونک کر سر اُٹھایا تھا ۔۔۔ ایک بڑی سی جیپ سامنے کھڑی تھی ۔۔۔ نیم
کا درخت کونے پر لگا ہوا تھا اور میں اس سے پشت ٹکائے بیٹھی تھی ۔۔۔۔ میں
کسی بھی طرح اس گاڑی کے سامنے رکاوٹ نہیں بنی تھی ۔۔۔ مگر یہ درخت گھر کی
فرنٹ یارڈ میں لگا ہوا تھا ۔۔۔ اور میرا یہاں اس طرح بیٹھنا اصولاً جائز
نہیں تھا ۔۔۔۔
معاف کرنا بھائی ۔۔۔ میں تھکن کی وجہ سے یہاں بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔
میں یہ کہہ کر اُٹھ کر جانے لگی تھی ۔۔۔۔۔
ارے سنو مس ۔۔۔۔ تم تو وہی ہو نا جس نے ان چاروں کو مارا تھا اور ان لڑکیوں
کو بچایا تھا ۔۔۔۔
میں اس آواز پر چونکی تھی اور ڈرائیونگ سائیڈ کا دروازہ کھول کر باہر نکلتے
اس شخص کو دیکھا تھا ۔۔۔۔ جو پولیس کی وردی پہنے ہوئے تھا ۔۔۔اور مجھے بڑے
غور سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
××××××××××
باقی آئندہ ۔۔۔۔۔۔۔
|