سلمان کے کانوں میں جیسےترنگ سے بج اٹھے‘‘،،،اسے اس لہجے
اور چاؤسے برسوں سے کسی نے نہیں پکارا تھا‘‘،،،
میں تو وہ بدنصیب ہوں‘‘،،،جسے سب نے کہا تھا گلِ نصیب ہوں‘‘،،،سلمان کی
آنکھوں نے اک ہی رات میں ‘‘
دوسری بار اس نازک سی گڑیا کو دیکھنے کی جسارت کی‘‘،،،
کیسے کہوں کس قدر حسین ہے تو‘‘
کوئی آپسرا یا چودھویں کا چاند ہے تو‘‘
روزی نے نرم سے لہجے میں کہا‘‘،،،سلمان‘‘خود کو تنہا کررکھا ہے یا بس ہوہی
تنہا‘‘،،،تم عام انسان نہیں ہو سلمان‘‘،،
خود کو پہچانو‘‘،،،تلاش کیوں نہیں کرتے خود کو‘‘،،،جو کچھ دنیا دیکھتی ہے
تمہاری ذات میں‘‘،،،تم کیوں خود سے‘‘
آنکھیں بند کیے ہوئے ہو‘‘،،،بزدل تم ہونہیں‘‘،،،زمانہ اگرتمہیں توڑنا بھی
چاہتا ہے‘‘،،تو کسی کا سہارا لینے میں‘‘،،
کیا حرج ہے‘‘،،،ایسا بھی تو ہوتا ہے‘‘،،،جب بیچ سمندر طوفان ہو
تو‘‘،،،جہازوں کے لنگراٹھا لیے جاتے ہیں‘‘،،،اور وہ ‘‘
بیچ سمندر چلے جاتے ہیں‘‘،،،کیونکہ طوفان میں شاید کنارا موزوں نہیں
ہوتا‘‘،،،نہ ہی جہاز کنارے کے لیےاچھا
سہارا‘‘،،،روزی کو سردی سے سمٹا سکڑتا دیکھ کر‘‘،،،سلمان نےایک بلینکٹ
(کمبل)روزی کے حوالے کردیا‘‘،،،روزی ‘‘
نے بلینکٹ کواپنے گرد لپیٹ لیا‘‘،،،اتنا فیل کرتے ہو دوسروں کی تکلیف کو
خود کو کیا سمجھتے ہو‘‘،،،آج بولو سلمان‘‘
روزی آج بس سلمان کو بولتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی‘‘،،،بس سلمان بولتا
جائے‘‘،،،وہ سنتی رہے‘‘،،،اسے گھورتی ‘‘
رہے‘‘،،،سلمان کے چہرے پرکئی رنگ آکے گزر گئے‘‘،،،وہ سوچ رہا تھا‘‘،،کہاں
سے شروع کروں‘‘،،،کہاں تک جاؤں‘‘،،،
میں اس کے سامنے‘‘،،،اک مزدور سے ذیادہ کیا ہوں‘‘،،،اگر کچھ ہوں‘‘،،،تو
کیوں ہوں‘‘،،،
یہ سب سے الگ ہے‘‘،،،مگرزندگی کتنا طاقتور پہلوان ہے‘‘،،،کیسے انسان کو
آسانی سے اٹھا کر پھٹک دیتی ہے‘‘،،
اک زخم بھرتانہیں‘‘،،،دوسرا لگادیتی ہے‘‘،،،اس کو مجھ میں کیا دلچسپی
ہے‘‘،،،کیا میں کسی افسانے کی طرح ‘‘،،
اس کے ذوقِ آگہی کا سامان ہوں‘‘،،،،(جاری)
|