دنیا،کائنات اﷲ رب العزت کی کاریگری کا شاہکار
ہیں،ہر شی اپنے اپنے رستے پر محوِسفر ہے۔ ان میں سے ایک عجب شاہکار ٗحضرتِ
انسان ٗ ہے، جسکو خود اﷲ تعالی نے اپنی قدرتِ کاملہ کا مظہر قرار دیکر اس
میں غور کرنے کی دعوت دی ہے :
؛ وفی انفسکم افلا تبصرون ؛
کیونکہ قدرت کے بہت سے سر بستہ رازوں کا مرکز ،یہ جسمِ انسانی ہے ،اور اس
کا مطالعہ بہت سے حقائق و پو شیدہ اشیاء کو کھول کر واضح کر دیتا ہے جو
اسکے علاوہ معلوم ہونا محال ہیں، تہ در تہ طبیعت پر مشتمل یہ انسان کیا ہے
،خود اس کو بھی معلوم نہیں ، کہ اگر چاہے تو فرشتوں کو بھی مات دیدے وگرنہ
شیطان کو بھی شرمادے ، اسکے اندر اﷲ نے دو مادے دو قوتیں ازل سے ودیعت کر
رکھی ہیں ،ایک اچھائی دسری برائی:
’’فالھمھا فجورھا وتقوھا’’(سورہ شمس)
اب انسان کس مادے کو قوت دیکر طاقت ور بناتا ہے یہ انسان کی منشاء ہے، اور
اگر یہ اپنے اندر بدی کی طاقت کے زیر اثر آ جائے تو پھر انسان ایک جیتا
جاگتا حیوان بن جاتا ہے، اور پھر اسمیں نفسیاتی الجھنیں اتنی کہ سمجھ سے
بالا تر،اور نفسیات کا یہ کھیل بچپن سے ہی شروع ہو جاتا ہے ،اور ہر اچھے
برے کام کا بچوں کی نفسیات پے اثر پڑتا ہے،اور پھر اسی اچھی یا بری نفسیات
کو لیکر جب یہ جوان ہوتے ہیں تو تو معاشرے میں اسی طرح کے اثرات مرتب کرتے
ہیں ،
ایک اخبار میں پڑھا کہ ایک بارہ سال کے بچے نے گجرات میں ایک ۳تین سال کی
بچی کو زیادتی کی کوشش کی بعد قتل کردیا، اور پھر چھ ،سات ماہ پولیس کی
نظروں سے بچا رہا ، پولیس اور لوگ قاتل ڈھونڈتے رہے مگر یہ بچتا رہا ،
بالآخر پکڑا گیا ،تو معلوم ہوا کہ فحش فلمیں دیکھتا تھا ،تو انکی طرح یہ
اپنے مالک کی بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنانا چاہتا تھا ،مگر بچی چیخنے اور
رونے لگی تو اس نے اسکے منہ میں تھیلی ٹھونسی،گلے پر دھاگا باندھ کر دبایا
اور بچی کو ماردیا ،اور یہ قاتل بچہ بتانے لگا کہ میں فلموں میں دیکھتا تھا
کہ غنڈے ،پولیس سے کس طرح بچتے ہیں ،تو میں بھی ان کے طریقوں پر عمل کرکے
بچتا رہااور پکڑا نہ جاسکا ،آپ ذرا غور کریں کہ انسان کی فطرت کیسی عجب
فطرت ہے،یہ برائی کی طرف فورا سے پیشتر مائل ہوتی ہے ،اور اسمیں عمر کی
کوئی قید نھیں،
اور اسی طرح ایک میرا مشاہدہ شدہ واقعہ کہ ہمارے اک محترم دوست بچوں کے ایک
ہاسٹل کے انچارج تھے ، یہ ایک اسکول کا ہاسٹل تھا ،یہ جناب ان میں سے چند
بچوں کو کہ جن کی عمر ۸یا ۹ برس ہوگی ،خود ہی پڑھانے لگے کہ بچوں کا بھلا
ہوگا ، یہ بچے ان کے کمرے میں آکر ان سے پڑہتے اور پھر ان کے ساتھ کھیل کود
بھی کرتے ،یہ جناب تھوڑی شاہی طبیعت کے مالک تھے کہ بنک سے رقم نکلواتے تو
بغیر شمار کیے ہی جیب میں ڈال لیتے ،اور اگر کسی سے سامان منگواتے تو بھی
وہ بقایا رقم بغیر گنے ہی رکھ لیتے ،مگر اسکے باوجود ان کو احساس ہوا کہ ان
کے پیسے کم ہونے لگے ہیں،یعنی ان کی قمیض سے چوری کی جارہی ہے ،تھوڑا غور
کیا ،ہشیار آدمی تھے بھانپ گئے کہ یہ ان بچوں کی کارستانی ھے ،اب انہوں نے
ان پر کچھ سختی کی اور کچھ پیار سے معلوم کیا تو ا ن پر حقیقت کھلی کہ یہ
بچے ہی چور ہیں ! اب اسمیں حیرانی کی بات تو یہ ہیکہ یہ مکمل پلاننگ کے
ساتھ چوری کرتے تھے ،وہ اسطرح کہ یہ بچے اسکول سے واپس آکر عین دوپہر کے
وقت ان کے کمرے میں آجاتے اور باتوں میں مشغول ہوجاتے ،یہ حضرت گرمی کیوجہ
سی قمیص اتار دیتے تھے ،تو جب وہ سونے لگتے تو قبل اسکے وہ اٹیچ باتھ روم
میں جاتے ،اب ان بچوں کا اصل کھیل شروع ہوتا کہ ایک بچہ باتھ روم کے دروازے
کے ساتھ کان لگاکر کھڑا ہوجاتا کہ پانی کی آواز سن کر واپسی کا اندازہ
لگالے ،جبکہ دوسرے بچے جیب کا صفایا کرتے اور تھوڑی رقم بچاکرجیب میں چھوڑ
دیتے کہ ساری نکالنے سے شک ہو جائے گا ،پھر یہ اس کاروائی کو مکمل کرکے اسی
طرح بیٹھ جاتے ،وہ فارغ ہوکرآتے تو یہ بچے ان سے اسی حالت میں گفتگو کرتے
جو وہ عام نارمل حالت میں کرتے تھے ،مگر ہمارے دوست کو ان کی اس کارستانی
کا بالکل بھی احساس نہیں ہوپاتا تھا ،اور یہ سلسلہ کافی عرصے تک چلتا رہا ،اب
حیرانی اور غور طلب بات یہ ہیکہ اتنی زبردست پلاننگ کے ساتھ چوری کرنے والے
یہ بچے صرف اور صرف سات یا آٹھ سال کے تھے !،
اب سوچنا یہ ہیکہ اس سب کے پیچھے کیا شئی کار فرما ہے؟ اور اسکا قصور وار
کون ہے؟ تو جواب ہوگا ـ ’ـ’شیطان ’’ اور قصور ہمارا خود! کیونکہ ہم اپنی
اولاد کی تربیت اس نہج پر نہیں کرسکے جس پر کرنی چاہیے تھی،ہم نے اپنی
اولاد کو فلموں ،ڈراموں کے پیچھے لگادیا تو اب اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا
کہ ہماری اولاد چور ،ڈاکو ،رشوت خور ،ایکٹر اور ناجانے کیا کیا بن گئی ،مگر
نہ بن سکی تو سچا مسلمان ہی نہ بن سکی،یہ دو تو مثالیں تھی اصل حالت تو اس
سے کہیں زیادہ خراب ہے،ہمارے سامنے چھوٹے سے بڑے ہونے والے چودہ ،پندرہ سال
کے ا چھی معزز فیملیوں کے بچے ،رات کو گھر سے نکلتے ہیں دوستو ں کے ساتھ
اور مختلف ویران جگہوں پر نشہ کرتے ہیں،جبکہ موجودہ نسل میں سگریٹ پینا تو
عام سی بات ہے،اور بیچارے ماں باپ کو اس کی خبر ہی نہیں ہوتی،اور جب ہوجاتی
ہے تو وہ کچھ کر نہیں سکتے!
’’بات نفسیات کی چل رہی تھی تو بچوں کی بھی نفسیات ہوتی ہیں ،اگر انسان ان
نفسیات کو سامنے رکھ کر تربیت کرے تو رزلٹ بہت اچھا آسکتا ہے ،اب وہ نفسیات
کیا ہیں ؟اسکے لئے خود ماں باپ کی تربیت بہت ضروری ہے ،اور ماں باپ کی
تربیت کے لئے سب سے بڑا کردار علماء کا ہے کہ وہ لوگوں میں اولاد کی اچھی
تربیت کے بارے میں خوب شعور اجاگر کریں،اور ان کی اسمیں راہنمائی کریں ،اور
ماں باپ کو بھی چاہئے کہ وہ تربیت ِ اولاد میں اسلام احکام کومدنظر رکھیں ۔علماء
سے مشورہ کرتے رہیں،ان کی راہ نمائی میں چلتے رہیں ،صورتحال تو یہ ہیکہ بدی
کی طاقتیں پورا زورلگا کر اپنا کام کر رہی ہیں صبح وشام نئے تماشے وتاشے!
اور ان کا شکار ہماری نوجوان نسل ہے ،اس ساری صورتحال میں ہمارا کردار تو
یہ ہونا چاہئے تھا کہ ہم مکمل بیدار و ہشیار ہوتے ،اور اسلامی اقدار کے
باریمیں فکر مند ہوتے ،مگر افسوس ہماری حالت تو میدانِ جنگ میں سو جانے
والے سپاہی کی سی ہے کہ جو خود بھی نقصان اٹھائے گا اور دوسروں کیلئے بھی
نقصان کا ذریعہ ہوگا،مغرب کی حالت ہم سب کے سامنے ہے کہ خاندانی نظام بکھر
بلکہ اکھڑ چکا ہے ،بزرگوں کا احترام ناپید ہو چکا ہے ، خدارا اپنی نسل کو
قیمتی بنائیں ،ان کی فکر کریں ،اور آخر میں اﷲ رب العزت سے دعاء کرتے رہیں
کہ وھی کارساز ہے۔ |