قرآن وحدیث کی روشنی میں قربانی کے احکام ومسائل

عشرہ ذو الحجہ کی بڑی فضیلت ہے،اس میں بڑے بڑے اعمال انجام دئے جاتے ہیں ،ان اعمال میں ایک اہم ترین عمل اللہ کی قربت کی نیت سے قربانی کرنا ہے ۔ قربانی جانور ذبح کرنے اور گوشت کھانے کا نام نہیں ہے ، یہ ایثار وجاں نثاری ، تقوی وطہارت ،مومنانہ صورت وسیرت اور مجاہدانہ کردار کا حامل ہے ،اس لئے قربانی کرنے والوں کو اپنی نیت خالص اور قربانی لوجہ اللہ کرنی چاہئے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ(الحج :37) '
ترجمہ: اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت یا خون ہر گز نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ اللَّهَ لا ينظرُ إلى أجسادِكُم ، ولا إلى صورِكُم ، ولَكِن ينظرُ إلى قلوبِكُم(صحیح مسلم:2564)
ترجمہ: بے شک اللہ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے ۔
قربانی کا حکم:
قربانی کے حکم میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ، امام ابوحنیفہ ؒ کو چھوڑکے بقیہ ائمہ ثلاثہ اور جمہور اہل علم سے سنت مؤکدہ ہونا منقول ہے ۔ دلائل کی رو سےیہی مسلک قوی معلوم ہوتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا رأيتم هلالَ ذي الحجةِ ، وأراد أحدكم أن يُضحِّي ، فليُمسك عن شعرِهِ وأظفارِهِ(صحيح مسلم:1977)
ترجمہ: جب ذوالحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
اس حدیث میں "من اراد" کا لفظ اختیاری ہے یعنی جو قربانی کرنا چاہےوہ قربانی کرے گویا قربانی واجبی حکم نہیں اختیاری معاملہ ہے ۔ ترمذی(حدیث نمبر:1506) میں قربانی کے عدم وجوب سے متعلق ایک روایت ہے جسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن صحیح کہنے کے بعد لکھا ہے کہ اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے اور اس پر عمل کرنا مستحب ہے۔ سفیان ثوری اورابن مبارک کا یہی قول ہے۔
شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے ترمذی کی اس روایت کو ذکر کرکے مشروعیت کا ہی حکم لگایا ہے لیکن یاد رہےقربانی مشروع اوراختیاری یعنی واجب نہ ہونے کی باوجود جو اس کی طاقت رکھے اور قربانی نہ کرے اس کے لئے بڑی وعید ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : من كانَ لَه سَعةٌ ولم يضحِّ فلا يقربنَّ مصلَّانا(صحيح ابن ماجه:2549)
ترجمہ: جس کوقربانی دینے کی گنجائش ہو اوروہ قربانی نہ دے تو وہ ہمارے عید گاہ میں نہ آئے۔
ترمذی میں ذکر ہے کہ آپ ﷺ مدینہ میں دس سال قیام کیا اور ہرسال قربانی کی ،اس روایت کو شیخ البانی ؒ نے ضعیف کہا ہے۔
قربانی کی فضیلت:
قربانی ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، اللہ تعالی نے اسے بعد والوں کے لئے بھی باقی رکھا، اللہ کا فرمان ہے : وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ(الصافات:108)
ترجمہ:اور ہم نے اس (چلن) کو بعد والوں کے لئے باقی رکھا۔
ذو الحجہ کے دس ایام اللہ کو بیحد عزیز ہیں ، ان ایام میں انجام دیا جانے والاہرنیک عمل اللہ کو پسند ہے ، ان میں ایک بہترین ومحبوب عمل قربانی بھی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :أعظمُ الأيامِ عند اللهِ يومُ النَّحرِ ، ثم يومُ القُرِّ(صحيح الجامع:1064)
ترجمہ: اللہ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر(قربانی کا دن) اور یوم القر(منی میں حاجیوں کے ٹھہرنے کادن ) ہے ۔
ایک حدیث میں نبی ﷺ کا فرمان اس طرح ہے: أفضلُ أيامِ الدنيا أيامُ العشْرِ(صحيح الجامع:1133)
ترجمہ: دنیا کے افضل دنوں میں ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن افضل دن ہیں۔
اللہ تعالی نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے ان میں سے ایک رات دس ذو الحجہ کی بھی ہے، اس سے بھی قربانی کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔
قربانی کی حکمت :
قربانی کی بہت ساری حکمتیں ہیں ان سب سے اہم تقوی اور اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے : قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ(الأنعام :162)
ترجمہ: آپ فرمادیجئےکہ بےشک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب خالص اللہ ہی کے لئے ہےجو سارے جہاں کا مالک ہے ۔
جو قربانی اس مقصد کو پورا کرنے سے قاصر ہو وہ عنداللہ مقبول نہیں ہے ۔
قربانی کرنے والوں کے حق میں :
جو قربانی کا ارادہ کرے وہ یکم ذو الحجہ سے قربانی کا جانور ذبح ہونے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا دخل العَشْرُ ، وعندَهُ أضحيةٌ ، يريدُ أن يُضحِّي ، فلا يأخذَنَّ شعرًا ولا يُقَلِّمَنَّ ظفرًا(صحيح مسلم:1977)
ترجمہ: جب ذو الحجہ کا عشرہ آجائے اور کسی کے پاس جانور ہو جو اس کی قربانی دینا چاہتا ہو تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
جو لوگ قربانی کرنے کی طاقت نہ رکھے اگر وہ بھی بال وناخن کی پابندی کرے تو باذن اللہ قربانی کا اجر پائے گا ۔ نسائی ، ابوداؤد، ابن حبان ، دارقطنی،بیہقی اور حاکم سمیت متعدد کتب حدیث میں یہ حدیث موجود ہے ۔عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
أمرت بيوم الأضحى عيدا جعله الله عز وجل لهذه الأمة قال الرجل أرأيت إن لم أجد إلا أضحية أنثى أفأضحي بها قال لا ولكن تأخذ من شعرك وأظفارك وتقص شاربك وتحلق عانتك فتلك تمام أضحيتك عند الله عز وجل(سنن أبي داود:2789)
ترجمہ: مجھے اضحیٰ کے دن کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ اسے بطور عید مناؤں جسے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے خاص کیا ہے ۔ایک آدمی نے کہا : فرمائیے کہ اگر مجھے دودھ کے جانور کے سوا کوئی جانور نہ ملے تو کیا میں اس کی قربانی کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں ‘ بلکہ اپنے بال کاٹ لو ‘ ناخن اور مونچھیں تراش لو اور زیر ناف کی صفائی کر لو ۔ اﷲ کے ہاں تمہاری یہی کامل قربانی ہو گی ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے ایک راوی عیسی بن ہلال صدفی کی وجہ سے ضعیف کہا ہے مگر دوسرے محدثین سے ان کی توثیق بھی ثابت ہے ۔
بال وناخن کی پابندی سے متعلق ایک بات یہ جان لیں کہ یہ پابندی صرف قربانی کرنے والوں کی طرف سے ہے گھر کے دوسرے افراد مستثنی ہیں لیکن سبھی پابندی کرنا چاہیں تو اچھی بات ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ وہ آدمی جس نے غفلت میں چالیس دنوں سے بال وناخن نہیں کاٹا تھا اور اس کو قربانی دینی ہے اس حال میں کہ ذوالحجہ کا چاندبھی نکل آیا ہے ایسا شخص واقعی بہت بڑا غافل ہے ،اگر بال وناخن تکلیف کی حد تک بڑھ گئے ہوں تو زائل کرلے ،اللہ معاف کرنے والاہے وگرنہ چھوڑ دے۔
قربانی دینے والےنے بھول کر اپنا بال یا ناخن کاٹ لیا تو اس پہ کوئی گناہ نہیں لیکن جس نے قصدا بال یا ناخن کاٹا ہے اس پر توبہ لازم ہے ۔
قربانی کا جانور:
8/ قسم کے جانوروں کی قربانی جائز ہے، ان میں بکری، بهیڑ، گائے اور اونٹ کا نر و مادہ شامل ہے، ان جانوروں کو چار قسم کے عیبوں سے پاک ہونا ضروری ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : لا يجوزُ مِنَ الضحايا : العَوْرَاءُ الَبيِّنُ عَوَرُهَا ، والعَرْجَاءُ البَيِّنُ عَرَجُهَا ، والمريضةُ البَيِّنُ مَرَضُهَا ، و العَجْفَاءُ التي لا تُنْقِي.(صحيح النسائي:4383)
ترجمہ: چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں: کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو، لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو، مریض جس کا مرض واضح ہو اور اتنا کمزور جانور کہ اس میں گودا تک نہ ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا جانور قوی وصحت مند ہو۔ خصی ، کابھن اور دودھ دینے والے جانور کی قربانی جائز ہے۔ جانور خریدنے کے بعد اس میں عیب پیدا ہوجائے مثلا ٹانگ یا سینگ یا دانت یا ہڈی ٹوٹ جائے، کان کٹ جائے،مریض ہوجا ئے تو اس کی قربانی کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ ہونی ہے اسے کوئی ٹال نہیں سکتااس حال میں آدمی معذور ہےلیکن اگر کوئی دوبارہ خریدنے کی طاقت رکھتا ہو اور حدیث میں مذکور چار عیبوں میں سے کوئی عیب خریدنے کے بعد پیدا ہوجائے تو دوبارہ خرید لے۔قربانی کے لئے متعین جانور بیچنا ،ہدیہ کرنا یا گروی رکھناجائز نہیں ہے اور نہ ہی اسے باربرداری کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے۔
قربانی کا جانور مسنہ(دانتا) ہونا چاہئے ، مسنہ کہتے ہیں ایسا جانور جس کے دودھ کے اگلے دو دانت ٹوٹ کر نکل آئے ہوں ۔
ایک جانور پورے گھرانہ کی طرف سے کافی:
قربانی کا ایک جانور خواہ بکرا/بکری ہی کیوں نہ ہو ایک گھرانہ کے پورے افراد کی طرف سے کافی ہے۔ ایک گھرانہ کا مطلب یہ ہے کہ گھر کے پورے افراد قربانی کرنے والے کے ساتھ ہی رہتے ہوں اورقربانی دینے والا ان سب کے خرچ کا ذمہ دار ہونیز وہ سارے رشتہ دار ہوں ۔جس کا چولہا الگ ہو وہ الگ قربانی کرے گا۔ عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
كيفَ كانتِ الضَّحايا علَى عَهدِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ كانَ الرَّجلُ يُضحِّي بالشَّاةِ عنهُ وعن أهلِ بيتِه فيأكلونَ ويَطعمونَ حتَّى تَباهى النَّاسُ فصارت كما تَرى(صحيح الترمذي:1505)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھروالوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتاتھا، وہ لوگ خودکھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگ (کثرت قربانی پر)فخرکرنے لگے اوراب یہ صورت حال ہوگئی جو دیکھ رہے ہو ۔
قربانی کے بڑے جانور میں شرکت :
بڑے جانور گائے ، بیل اور اونٹ میں سات اشخاص یا سات گھرانوں کے لوگ ایک ایک حصہ لے کر شریک ہوسکتے ہیں ۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
اشتركْنا مع النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في الحجِّ والعمرةِ . كلُّ سبعةٍ في بدَنةٍ . فقال رجلٌ لجابرٍ : أيشتركُ في البدنةِ ما يشترك في الجَزورِ ؟ قال : ما هي إلا من البُدنِ .(صحيح مسلم:1318)
ترجمہ:حج کے موقع پر ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے اور ہم فی اونٹ سات آدمی شامل ہوئے ایک شخص نے جابررضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، کیا گائے میں بھی سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں؟ تو جابررضی اللہ عنہ نے کہا کہ گائے بھی اسی کے حکم میں ہے۔
جہاں تک میڈھا اور بکرا،بکری کا مسئلہ ہے تو یہ ایک گھر کے پورے افراد کے لئے کافی ہے جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا ہے لیکن اس میں دوسرے گھر والے کی طرف سے شرکت نہیں ہوگی۔
بھینس کی قربانی کا حکم :
قربانی کے جانور کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :
ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ، وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ(الانعام:142-143)
ترجمہ : آٹھ اقسام ، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو، کہہ دیجئے کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جس پر ددنوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں؟ مجھے کسی علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو۔
اللہ تعالی نے نام لیکر آٹھ قسم کے قربانی کے جانور کی تعیین کردی جبکہ کھائے جانے والے جانور بے شمار ہیں۔ آٹھ قسم: دو قسم بکری نرومادہ، دوقسم بھیڑ نرومادہ،دوقسم اونٹ نرو مادہ اور دو قسم گائے نرومادہ۔ گویا ان آٹھ اقسام میں قربانی کے لئے نویں کسی جانور کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ ان اقسام میں بھینس کا ذکر نہیں ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ عرب میں اس وقت بھینس نہیں معروف تھی اور یہ گائے کی جنس سے ہے ۔ اس کا حکم وہی ہے جو گائے کا خواہ زکاۃ کے لئے ہو ، قربانی کے لئے ہو یا گوشت کھانے اور دودھ پینے کے طور پر ہو۔ یہ بات صحیح ہے کہ بھینس عرب میں متعارف نہیں تھی مگر بھینس دنیا میں موجود تھی ، اللہ اس کا خالق ہے وہ کوئی بات بھولتا نہیں ۔ اگر چاہتا توقربانی کے جانور کی فہرست میں اسے بھی ذکر کرسکتا تھا۔
خلاصہ کے طور پر میرا یہ کہنا ہے کہ بھینس حلال جانور ہے ، اس کو قربانی کے تئیں وجہ نزاع نہ بنایا جائے ، سیدھی سی بات ہے اگر ہمارے یہاں قرآن میں مذکور آٹھ اقسام میں سے کسی قسم کا جانور پایا جاتا ہے تو اس کی قربانی کریں جس میں کوئی شک نہیں اور نہ اختلاف ہے البتہ متعدد اہل علم نے بھینس کو گائے کی جنس سے مانا ہے اور اس بنیاد پہ اس کی قربانی کا جواز فراہم کیا ہے ۔ عرب کے علماء بھی جواز کے قائل ہیں ۔ لہذا کسی کا دل اس پہ مطئمن ہو تو اس پہ کسی قسم کا جبر نہیں کیا جائے ۔
ہندوستان میں گائے کی قربانی کا مسئلہ :
ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہے اور پکڑے جانےپرسخت سزاہے بلکہ آج کل گائے کے نام پر مسلمانوں کو کافی پریشان کیا جارہا ہے ، اس الزام میں مسلمانوں کو قتل کردینا عام سی بات ہوگئی ہے ۔ گائے اللہ کی طرف سے حلال ہے اور اس کی قربانی کرنا بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے اس لئے جہاں گائے کی قربانی سے کوئی فتنہ نہیں وہاں بلاحرج اس کی قربانی کرسکتے ہیں لیکن جہاں اس کی قربانی سے فتنہ، ہنگامہ ،نزاع اور قتل کی نوبت آنے کا خدشہ ہو وہاں اس کی قربانی سے بچنے میں ہی مسلمانوں کی عافیت ہے ۔
قربانی کا وقت اور اس کے ایام :
قربانی کا وقت عید کی نماز کے فورابعد شروع ہوجاتا ہے ،خطبہ ختم ہونا ضروری نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ پہلے امام صاحب ہی قربانی دے ۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کی نماز کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
من صلى صلاتنا، ونسك نسكنا، فقد أصاب النُّسُكَ، ومن نسكَ قبلَ الصلاةِ، فإنه قبلَ الصلاةِ ولا نُسُكَ له.(صحيح البخاري:955)
ترجمہ: جس شخص نے ہماری نماز کی سی نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرے وہ نماز سے پہلے ہی گوشت کھاتا ہے مگر وہ قربانی نہیں۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ عید کی نماز سے پہلے قربانی صحیح نہیں ہے لیکن عید کی نماز کے بعد قربانی کرنا صحیح ہے ۔
عید کی نماز کے بعد سے قربانی کا وقت شروع ہوکر تیرہ ذوالحجہ کے مغرب کا سورج ڈوبنے پر ختم ہوجاتا ہےیعنی قربانی کے چار دن کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ثابت ہیں ۔ اس سلسلے میں بہت سارے دلائل ہیں ، حجت کے لئے ایک دلیل ہی کافی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ ، وارفعوا عن عُرَنَةَ ، وكُلُّ مزدلِفَةَ موقِفٌ ، وارفعوا عن بطنِ مُحَسِّرٍ ، وكلُّ فجاجِ مِنًى منحرٌ ، وكلُّ أيامِ التشريقِ ذبحٌ( صحيح الجامع:4537)
ترجمہ: پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادی محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح(قربانی) کرنے کے دن ہیں۔
ایام تشریق کہتے ہیں ،گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ ۔
ذبح کرنے کے آداب وطریقہ :
ذبح کرتے وقت جانور کوقبلہ رخ لٹایاجائے ، یہ سنت ہے۔ اگر غیرقبلہ پہ ذبح کرلیاگیاہوتوبھی کوئی حرج نہیں ۔قربانی دینے والا خود سے ذبح کرے ، اگر ذبح کرنا اس کے لئے مشکل ہوتو کوئی بھی اس کی جگہ ذبح کردے۔ جب جانور ذبح کرنے لگیں تو چھری کو تیز کرلیں تاکہ جانور کو ذبح کی کم سے کم تکلیف محسوس ہو۔
زمین پر قبلہ رخ جانور لٹاکر تیزچھری اس کی گردن پہ چلاتے ہوئے بولیں بسم اللہ واللہ اکبر ۔ اتنا دعابھی کافی ہے اور نیت کا تعلق دل سے ہے ۔ یہ دعا بھی کرسکتے ہیں :
"بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هذا مِنْكَ وَلَكَ اَللھُم َّھذَا عَنِّيْ وَ عْن أهْلِ بَيْتِيْ "
مندرجہ ذیل دعا بهی پڑھنا سنت سے ثابت ہے .
"إنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَالسَّمَاْوَاتِ وَاْلأَرْضِ حَنِيْفًا وَمَاْأَنَاْمِنَ الْمُشْرِكِيْنَ، إِنَّ صَلاْتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَاْيَ وَمَمَاتِيْ لِلّهِ رَبِّ اْلعَاْلَمِيْنَ، لَاْشَرِيْكَ لَه’وَبِذالِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ، بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هَذا مِنْكَ وَلَكَ أَللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ ( وَمِنْ أَهْلِ بَيْتِيْ)"
* اس حدیث کو شیخ البانی نے مشکوہ کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے اور شعیب ارناؤط نے اس کی تحسین کی ہے۔
ذبح کرنے میں چند باتیں ملحوظ رہے ۔ ذبح کرنے والا عاقل وبالغ مسلمان ہو،کسی خون بہانے والے آلہ سے ذبح کیا جائے،ذبح میں گلہ یعنی سانس کی نلی اور کھانے کی رگیں کاٹنی ہیں اور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ہے ۔ بے نمازی کی قربانی اور اس کے ذبیحہ بابت جواز وعدم جوازسے متعلق علماء میں اختلاف ہے ۔ میں یہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ ترک نماز بالاتفاق کفر ہے ۔ قربانی دینے والا یا ذبح کرنےوالا اپنے اس عمل سے پہلے توبہ کرے اور آئندہ پابندی نماز کا عہد کرے ۔ عورت اپنی قربانی اپنے ہاتھوں سے کرسکتی ہے اور قربانی دن کی طرح رات میں بھی کی جاسکتی ہے ۔
گوشت کی تقسیم:
قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کیونکہ قربانی کی اصل کهانا اور کهلانا ہے ، بچے ہوئے گوشت کو ذخیرہ کرنے میں بهی کوئی حرج نہیں۔ غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں جید علماء کے فتاوے ہیں۔
قرض لیکریا جو مقروض ہواس کا قربانی دینا :
جسے قربانی کی وسعت و طاقت ہو وہی قربانی کرے اور جو قربانی کی طاقت نہیں رکھتا اسے رخصت ہے اس لئے قربانی کی خاطر قرض لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جو ہمیشہ سے قربانی دیتے آرہے اچانک غریب ہوجائے یا قرضے میں ڈوب جائے اسے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور قرض کے بوجھ سے قربانی نہیں کرناچاہئے بلکہ فراخی ووسعت کے لئے اللہ سے دعا کرنا چاہئے ۔ اگر کوئی معمولی طور پرمقروض ہو،قرض چکانے اور قربانی دینے کی طاقت رکھتا ہو اسے قربانی دینا چاہئے ،اسی طرح اچانک عیدالاضحی کے موقع سے کسی کا ہاتھ خالی ہوجائے اور کہیں سے پیسے کی آمد کی آس ہواور ایسے شخص کو بآسانی قرض مل جائے تو قربانی دینا چاہئے کیونکہ اس کے پاس پیسہ ہے مگر ہاتھ میں موجود نہیں ہے ۔
حاجی کی طرف سے قربانی:
حاجیوں کے اوپر عیدالاضحی کی قربانی ضروری نہیں ہے ،ان کے لئے حج کی قربانی ہی کافی ہے لیکن عیدالاضحی کی قربانی دینا چاہئے تو دے سکتا ہے ۔ یا ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حاجی اپنے پیچھے گھروالوں کے لئے اتنا پیسہ چھوڑجائے تاکہ وہ لوگ قربانی دے سکیں ۔
نبی ﷺ کی طرف سے قربانی :
نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی دینے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے ، صحابہ کرام سے زیادہ نبی ﷺ سے کوئی محبت نہیں کرسکتا مگر ان میں سے کسی سے بھی نبی ﷺ کے نام سے قربانی کرنا ثابت نہیں ہے ۔ جولوگ نبی ﷺ کے نام سے قربانی کرنے کا جواز پیش کرتے ہیں ان کا استدلال ان روایات سے ہے جن میں نبی ﷺ نے اپنی جانب اور امت کی جانب سے قربانی کی ہے ۔
ثم أخذها ، وأخذ الكبشَ فأضجَعَه . ثم ذبحَه . ثم قال ( باسمِ اللهِ . اللهم ! تقبل من محمدٍ وآلِ محمدٍ . ومن أُمَّةِ محمدٍ ) ثم ضحَّى به (صحيح مسلم:1967)
ترجمہ : اور آپﷺنے مینڈھا پکڑا اور اس کو لٹایا پھر اس کو ذبح کیا پھر فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ قبول فرما محمدﷺ کی طرف سے اور آل محمدﷺ کی طرف سے اور امۃ محمدیہﷺ کی طرف سے پھر قربانی کی .
یہ روایت مسلم شریف کی ہے ، اس سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ امت محمد میں زندہ مردہ دونوں شامل ہیں لہذا نبی ﷺ کی طرف سے بھی قربانی کر سکتے ہیں ۔ حالانکہ یہ استدلال درست نہیں ہے کیونکہ یہاں امت محمد سے مراد زندہ لوگ ہیں ، اس بات کی تائید ان روایات سے ہوتی ہے جن میں ’’عمن لم یضح من امتی‘‘ کے الفاظ وارد ہیں گویا آپ ﷺ نے اپنی امت کے ان اشخاص کیطرف سے قربانی کی جو قربانی نہ کر سکے تھے۔
اگر امت محمد میں فوت شدگان کو بھی شامل کر لیا جائے تب بھی نبی ﷺ کی طرف سے قربانی نہیں ثابت ہوتی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ زندہ کی طرف سے قربانی کرتے ہوئے میت کا نام لیے بغیر ایسے عام کلمات استعمال کئے جاسکتے ہیں ۔
نبی ﷺ کی طرف سے قربانی کرنے کی ایک اور روایت ہے جوحضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہے ۔
عَن عليٍّ : أنَّهُ كانَ يُضحِّي بِكَبشينِ أحدُهُما عَنِ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، والآخرُ عن نفسِهِ ، فقيلَ لَهُ : فقالَ : أمرَني بِهِ - يَعني النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ - فلا أدعُهُ أبَدًا(ضعيف الترمذي:1495)
ترجمہ: علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ دو مینڈھے کی قربانی کرتے تھے ایک نبی ﷺ کیطرف اور دوسرا اپنی طرف سے اس بابت ان سے کلام کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ آپ یعنی نبی ﷺ نے مجھے اس کا حکم کیا ہے میں اسے ترک نہیں کر سکتا۔
یہ روایت ثابت نہیں ہے ، اس کی سند میں شریک بن عبداللہ بن شریک کثیر الخطاء ہونے کی وجہ سے ضعیف اور اس کا شیخ ابوالحسناء حسن کوفی مجہول ہے ۔
اسی لئے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ، اس سے بھی دلیل نہیں پکڑی جاسکتی ۔
گویا نبی ﷺ کی طرف سے قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں ، کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ نبی ﷺ کے نام سے عیدالاضحی پہ قربانی کرے ۔
میت کی طرف سے قربانی :
میت کی طرف سے قربانی دینے کے لئے وہی ثبوت پیش کئے جاتے ہیں جو نبی ﷺ کی طرف سے قربانی دینے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں اور نبی ﷺ کی طرف سے قربانی دینے کا حکم اوپر معلوم ہوگیا ۔ ہاں کوئی اپنی قربانی میں میت کو شریک کرلے تو اس صورت کو علماء نے جائز کہا ہے ۔ اس سلسلے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جو لوگ میت کی طرف سے قربانی دینا چاہتے ہیں وہ قربانی کا پیسہ میت کی طرف سے صدقہ کردیں ، یہ ایسی صورت ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اور اس کی دلیل موجود ہے ۔ میت نے اگر قربانی کرنے کی وصیت کی ہو تو پھراس کا نفاذ ضروری ہے ۔
خلیجی ممالک میں رہنے والے اپنے ملک میں قربانی دے سکتے ہیں:
بہت سارے لوگ اپنا گھر، والدین ، بیوی بچے، اپنے وطن میں چھوڑکے خلیجی ممالک میں نوکری کرتے ہیں ۔ ان میں بہت سے لوگ قربانی دینا چاہتے ہیں مگر اس شش وپنچ میں مبتلارہتے ہیں کہ قربانی لازما ہمیں گلف میں ہی دینی ہوگی یا پھر اپنے وطن میں بھی دےسکتے ہیں ؟
اس سلسلہ میں افضل یہی ہے کہ قربانی دینے والا وہیں قربانی دے جہاں رہتاہوں کیونکہ قربانی سے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے ۔قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرے ،خود کھائے اور دوسروں کو اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرے۔ تاہم علماء نے کہاہے کہ قربانی اپنے وطن میں بھی دے سکتے ہیں ۔خاص طور سے اس وقت جب قربانی کے گوشت سے محتاجوں اور مسکینوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں جیساکہ آج کل دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے ملکوں میں باہری ممالک سے قربانی کے پیسے بھیجے جاتے ہیں تاکہ ان قربانیوں سے غریب ومسکین فائدہ اٹھاسکیں ۔گوکہ اس میں انصاف کم برتاجاتا ہے ، قربانی کا جانور مستحقین کو دینے کی بجائے مالداروں کو دیاجاتاہے ،اس لئے اس میں امانتداری برتنے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم گلف میں رہتے ہیں اور اپنے وطن میں قربانی دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے وطن میں قربانی کے حساب سے بال وناخن کی پابندی کرنی ہے ۔ قربانی کا وقت نمازعید سے شروع ہوتا ہے اور تیرہویں ذو الحجہ کی شام تک رہتا ہے ۔ یہ وقت تمام ملک والوں کے لئے اپنے اپنے ملک کے قمری مہینے کے حساب سے ہے ۔
ہدیہ میں دیا گیا قربانی کا جانور یا پیسہ :
آج کل مالدار لوگ یا خیراتی ادارےجانور خرید کر یا اس کی قیمت مسکینوں میں تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ بھی قربانی دے سکیں ایسی قربانی کا جانور یا پیسہ مساکین کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اللہ کی توفیق سے ہدیہ کرنے والے اور قربانی دینے والے دونوں کو اجر وثواب ملے گا۔نبی ﷺ نے بھی صحابہ کو قربانی عطا فرمائی ہے۔ عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا :
قَسمَ النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّم بين أصحابِهِ ضَحايا، فصارَتْ لِعُقبَةَ جَذَعَةٌ ، فقلت : يا رسولَ اللهِ ، صارت جَذَعَةٌ ؟ قال :( ضَحِّ بها) .(صحيح البخاري:5547)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم کئے ۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ کے حصہ میں ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ آیا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے حصہ میں تو ایک سال سے کم کا بچہ آیا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسی کو قربانی کر لو ۔
ایسے شخص کی طرف سے قربانی جس کا عقیقہ نہیں دیا گیا :
اگر قربانی کرنے والے کے پاس وسعت ہو تو قربانی کے ساتھ عقیقہ بھی دیدے تاکہ دونوں سنتیں پوری ہوجائیں لیکن اگر مالی وسعت نہ ہو تو بہرحال قربانی کا وقت ہے اس وجہ سے قربانی دینا ہی اولی ہے ۔ اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں کہ بچپن میں اس کا عقیقہ نہیں ہوا تھا کیونکہ عقیقہ سنت مؤکدہ ہے اس وجہ سے ضروری نہیں ہے کہ پہلے عقیقہ دینا واجب ہے تبھی قربانی دے سکتے یعنی بغیر عقیقہ کئے بھی قربانی دے سکتے ہیں ۔
مسافر کی قربانی:
مسافر حالت سفر میں قربانی دے سکتا ہے ، نبی ﷺ نے سفر میں قربانی دی ہے چنانچہ مسلم شریف میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ذبح رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ضحيتَه ثم قال ( يا ثوبانُ ! أصلِحْ لحمَ هذه ) فلم أزلْ أُطْعِمُه منها حتى قدمَ المدينةَ .(صحيح مسلم:1975)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا ایک جانور ذبح کرکے فرمایا:ثوبان! اس کے گوشت کو درست کرلویعنی ساتھ لے جانے کے لیے تیار کرلو۔ پھرمیں وہ گوشت آپ کو کھلاتا رہا یہاں تک کہ آپ مدینہ تشریف لے آئے۔
قربانی کےبڑے جانور میں عقیقہ کا حصہ :
بڑے جانور میں عقیقہ دینا احادیث سے ثابت نہیں ہے صرف قربانی دینا ثابت ہے وہ بھی صرف گائے ، بیل اور اونٹ میں ۔جب بڑے جانور میں عقیقہ دینا ثابت نہیں تو اس میں کئی بچوں کے عقیقہ کا حصہ ڈالنا کیسے صحیح ہوگا؟ بعض علماء نے بڑے جانور میں عقیقہ کو جائز کہا ہے ان کے یہاں بھی ایک جانور میں کئی بچوں کا حصہ ڈالنا صحیح نہیں ہے کیونکہ عقیقہ میں ہربچہ کی طرف سے خون بہانے کا حکم ہے ۔ سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:معَ الغُلامِ عقيقةٌ فأَهريقوا عنهُ دَمًا وأميطوا عنهُ الأذَى(صحيح الترمذي:1515)
ترجمہ: لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ ہے، لہذا جانور ذبح کرکےاس کی طرف سے خون بہاؤ اوراس سے گندگی دورکرو۔
اکثر مسلمانوں کے یہاں عید قرباں کے موقع پر ایک بڑے جانور میں قربانی کے ساتھ بچے کا عقیقہ بھی حصہ لیا جاتا ہے جو کہ سنت کی صریح مخالفت ہے ۔ اگر طاقت ہے تو بچہ کی طرف سے مستقل جانور کا عقیقہ دیں ایسا کرنے سے سنت پوری ہوگی اور طاقت نہیں ہو تو نہ دیں اس پر اللہ تعالی مواخذہ نہیں کرے گا۔
قربانی سے متعلق آخری چند باتیں :
پہلی بات : قربانی کے جانور کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے لہذا بالوں والے اور موٹے تازے جانوروں کی فضیلت والی ضعیف احادیث بیان نہ کریں، پل صراط پہ موٹا جانور تیزی سےگزرنے والی حدیث بھی ضعیف ہے۔
دوسری بات : قربانی کے وجوب کےلئے لوگوں میں جو زکوۃ کا نصاب مشہور ہے وہ ثابت نہیں ہے بس اتنی سی بات ہے کہ قربانی کا جانور خریدنے کی طاقت ہو۔
تیسری بات : قربانی کا جانور ذبح کرنے کی بجائے اس کی رقم صدقہ کرنا صحیح نہیں ہے ، نہ ہی اس کا گوشت یا اس کی کھال بیچی جائے گی البتہ ذاتی مصرف میں لاسکتے ہیں ،فقیرومسکین ہدیہ میں ملا گوشت بیچ سکتاہے۔ اجرت میں قصاب کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ،تحفہ میں کچھ دینا ممنوع نہیں ۔
چوتھی بات : حج کی قربانی اور عید کی قربانی دونوں الگ الگ ہے اس لئے دونوں کا ایک سمجھنا غلط ہے ۔
پانچویں بات : قربانی کو صحیح ہونے کے لئے اخلاص کے ساتھ مزید پانچ شرائط ہیں : (1) منصوص جنس میں سے ہو،(2) مسنہ(دانتا ہو)، (3) اپنی ملکیت ہو،(4)حدیث میں بیان کردہ چار عیوب سے پاک ہو،(5) قربانی کے جائز اوقات میں قربانی دی گئی ہو۔
چھٹی بات : قربانی کے جانور سے متعلق مختلف بدعات وخرافات ہیں۔ الگ الگ علاقہ میں الگ قسم کی بدعات رائج ہیں ،کہیں جانور کو سجانا، کہیں جانور کی نمائش کرانا (اور یہ شہروگاؤں ہرجگہ عام ہورہاہے)بلکہ ٹی وی اور اخبار پر اس کی خبریں شائع کرنا، ذبح کے وقت جانورکو وضو وغسل کرانا، اس کے خون کو متبرک سمجھ کر گھروں ،سواریوں اور بچوں کے جسموں پر لیپنا یا اسی جانور کے بالوں اور پیشانی پر ملناوغیرہ ۔ اس قسم کے کاموں کو ثواب کی نیت سے کرنا گناہ کا باعث ہے کیونکہ جو دین نہیں اسے دین بنالینا بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 320 Articles with 350930 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.