’’حج‘‘ اسلام کے اُن پانچ بنیادی ارکانوں میں سے ایک
رکن ہے کہ جن پر اسلام کی پوری عمارت قائم ہے ۔ اِس کی فضیلت و اہمیت کے
حوالہ سے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ اوّل البشر حضرت آدم ؑ یا
حضرت ابراہیم ؑ سے لے کر رسول اکرمؐ تک تمام یا اکثر انبیاء ؑ نے حج ادا
فرمایا ہے ۔(روح المعانی: ۲۳۰/۲)
اُمت محمدیہ ؐ پر حج کی فرضیت کا حکم کس وقت نازل ہوا؟ اس کے بارے میں
حضرات اہل علم کے مختلف اقوال تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں : پہلا قول یہ
ہے کہ حج کی فرضیت کا حکم سنہ پانچ ہجری میں نازل ہوا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ
سنہ چھ ہجری میں نازل ہوا۔ تیسرا قول یہ ہے کہ سنہ سات ہجری میں نازل ہوا۔
چوتھا قول یہ ہے کہ سنہ آٹھ ہجری میں نازل ہوا ۔ پانچواں قول یہ ہے کہ سنہ
نو ہجری میں نازل ہوا۔ تاہم اکثر و بیشتر حضرات اہل علم نے دوسرے قول کو
ترجیح دی ہے اور فرمایا ہے کہ حج کی فرضیت کا حکم سنہ چھ ہجری میں نازل ہوا
۔(روح المعانی: ۲۳۰/۲)
قرآن و حدیث میں جہاں حج ادا ء کرنے کی بہت زیادہ تاکید، اہمیت اور فضیلت
بیان فرمائی گئی ہے تو وہیں اُس کے ترک کرنے پر سخت سے سزائیں اور وعیدیں
بھی ذکر فرمائی گئی ہے ۔
چنانچہ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ترجمہ:’’اورلوگوں میں سے
جو لوگ اس (بیت اﷲ) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اﷲ کے لئے اس گھر
کا حج کرنا فرض ہے ۔ اور اگر کوئی انکار کرے تو اﷲ دُنیا جہان کے تمام
لوگوں سے بے پرواہ ہے۔‘‘ (ترجمہ: مفتی محمدتقی عثمانی) [سورۂ آل عمران :
۹۷]
ایک دوسری جگہ قرآنِ مجید میں حضرت ابراہیم ؑ سے اﷲ تعالیٰ فرماتے
ہیں:’’ترجمہ:’’ اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو ، کہ وہ تمہارے پاس پیدل
آئیں ، اور دُور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی اُن اُونٹنیوں پر سوار
ہوکر آئیں جو (لمبے سفر سے ) دُبلی ہوگئی ہوں۔‘‘(ترجمہ: مفتی محمد تقی
عثمانی) [سورۃ الحج : ۲۷]
چنانچہ یہی ہواکہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکم خداوندی سے اعلان
فرمایا تو دیکھتے ہی دیکھتے زمین کے دُور دراز علاقوں سے حج و عمرہ کی
ادائیگی کے لئے فرزندانِ اسلام قطار اندر قطار، جوق در جوق تلبیہ پڑھتے
ہوئے آپہنچے۔
چنانچہ حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ : ’’جب حضرت ابراہیم علیہ
السلام بیت اﷲ کی تعمیر سے فارغ ہوئے ، تو انہوں نے عرض کی کہ : ’’اے میرے
رب! میں (بیت اﷲ کی تعمیر سے) فارغ ہوچکا ہوں ۔‘‘ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’
آپ لوگوں میں حج کاا علان فرمادیجئے! ۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض
کیا : ’’اے میرے رب! کیا میری آواز تمام ( تمام لوگوں تک) پہنچ جائے گی ؟‘‘
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’آپ اعلان فرمایئے! آواز کا پہنچانا ہمارا کام ہے
۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا : ’’اے میرے رب! میں کیسے اعلان
کروں؟‘‘ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’آپ یہ کہیں کہ: ’’اے لوگو! تم پر بیت عتیق
(یعنی بیت اﷲ) کا حج فرض کیا گیا ہے ۔‘‘ (جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
اعلان کیا تو) آپ کی آواز کو زمین و آسمان کے درمیان والوں سب نے سن لیا ۔
دیکھتے نہیں کہ لوگ (آج بھی)زمین کے دُور دراز علاقوں سے حج و عمرہ کا
تلبیہ پڑھتے ہوئے (کس طرح ) جوق در جوق (دیوانہ وار) چلے آتے ہیں ؟ ( یہ
اسی اعلان کا اثر ہے۔) (مستدرک حاکم:۴۲۱/۲)
اسی طرح حدیث شریف میں بھی حج کرنے کے بے شمار فضائل وارد ہوئے ہیں ۔
چنانچہ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ؐ نے ارشاد فرمایا :’’ اسلام
کی بنیاد چار چیزوں پر ہے : (۱)اس بات کی گواہی دینا کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ
کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ حضرت محمد رسول اﷲ ؐ اﷲ تعالیٰ کے (آخری) رسول
ہیں۔ (۲)نماز کو قائم کرنا ۔ (۳)زکوٰۃ دینا۔ (۴) (بیت اﷲ شریف کا) حج کرنا
(۵) رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔(بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی)
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر
ہوئے اور عرض کیا : ’’ اے محمد ؐ! مجھے اسلام کے بارے میں بتلایئے( کہ اُس
کی حقیقت کیا ہے؟)آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ آپ اس بات کی
گواہی دیں کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ حضرت محمد رسول
اﷲؐ اﷲ تعالیٰ کے (آخری) رسول ہیں۔ آپ نماز قائم کریں۔ زکوٰۃ اداء کریں ۔
رمضان المبارک کے روزے رکھیں ۔ اگر بیت اﷲ شرف کی طرف راستہ چلنے کی
استطاعت رکھتے ہیں تو اُس کا حج کریں ۔‘‘ حضرت جبرئیل علہ السلام نے عرض
کیاکہ : ’’آپؐ نے سچ فرمایا۔‘‘(صحیح مسلم)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اﷲؐ نے ہمیں خطبہ دیا اور
ارشاد فرمایا کہ : ’’اے لوگو! تم پر اﷲ تعالیٰ نے حج فرض کیا ہے ، لہٰذا حج
ادا کرو!۔‘‘ (صحیح مسلم)
حضرت سمرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲؐ نے ارشاد فرمایا : ’’نماز قائم کرو!
زکوٰۃ اداء کرو! بیت اﷲ کا حج کرو ! اور اُس کا عمرہ کرو! اور( اپنے ایمان
و اعمالِ صالحہ پر) استقامت (یعنی دوام اور ہمیشگی) اختیار کرو! (اس کے
نتیجہ میں تمہیں مخلوق کے ساتھ معاملات میں) استقامت (یعنی دوام اور ہمیشگی
) عطاء کی جائے گی۔ (معجم طبرانی: ۷ /۲۱۶)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ہمیں (یعنی شہر کے لوگوں کو) رسول اﷲ ؐ
سے (غیر ضروری) چیزوں کے بارے میں سوال کرنے سے رُوک دیا گیا تھا ، اس لئے
ہم چاہتے تھے کہ کوئی دیہاتی عقل مند شخص آئے اور وہ رسول اﷲؐ سے سوال کرے
اور ہم (اس کا جواب) سنیں ۔ چنانچہ ایک دیہاتی شخص آیا اور عرض کیا: ’’اے
محمدؐ! ہمارے پاس آپؐ کا قاصد آیا اور اُس نے ہمیں یہ بات بتلائی کہ’’ آپؐ
یہ سمجھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو (اپنا) رسول بنا کر (اِس دُنیا میں)
بھیجا ہے ۔‘‘ آپؐ نے فرمایا کہ : ’’اُس نے سچ کہا۔‘‘……( اس کے علاوہ بھی
اُس دیہاتی شخص نے آپؐ سے بیسیوں سوال و جواب کیے منجملہ اُن میں سے ایک یہ
بھی تھا کہ : ) ’’آپؐ کا قاصد یہ یقین ظاہر کرتا ہے کہ ہم میں سے ہر اُس
شخص پر بیت اﷲ کا حج کرنا فرض ہے جو اس کی طرف راستہ چلنے قدرت و استطاعت
رکھتا ہو۔‘‘ آپؐ نے فرمایا کہ : ’’اُس نے سچ کہا۔‘‘(صحیح مسلم)
ایک حدیث میں آتا ہے ٗ رسول اﷲؐ نے ارشاد فرمایاکہ: ’’جس شخص نے (خاص) اﷲ
تعالیٰ کے لئے حج کیا ، اس میں نہ کوئی فحش گوئی کی اور نہ کوئی گناہ کیا
تو وہ شخص اُس دن کی مانند (اپنے گھر کی طرف واپس) لوٹتا ہے ، جس دن کہ اُس
کی ماں نے اُس کو جنا تھا۔(بخاری و مسلم)
ایک دوسری حدیث میں آتا ہے ٗ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’حج اور عمرہ
کو ملاکر کرو! کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اِس طرح دُور کرتے ہیں
جیساکہ بھٹی سونے ، چاندی اور لوہے کے میل کو دُور کرتی ہے ۔ اور حج
مبرور(یعنی حج مقبول) کی جزاء (اور اُس کا بدلہ) جنت کے علاوہ (اور)کچھ بھی
نہیں ہے۔‘‘(ترمذی ، نسائی)
ایک اور حدیث میں آتا ہے ٗ رسولِ مقبولؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جو شخص حج
کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اُس کو چاہیے کہ وہ جلدی کرے!۔‘‘( ابو داؤد ،
دارمی)
ایک دوسری حدیث میں حضورِ اقدسؐ کا ارشاد مروی ہے کہ : ’’حج کرنے والے اور
عمرہ کرنے والے اﷲ تعالیٰ کے مہمان ہیں ۔ اگر وہ دُعاء مانگیں تو اﷲ تعالیٰ
قبول فرمائیں ۔ اگر وہ استغفار کریں تو اﷲ تعالیٰ اُن کی مغفرت کردے اور
اُن کو بخش دے۔‘‘ (الترغیب والترہیب ، نسائی ، ابن ماجہ)
حج چوں کہ اسلام کا انتہائی اہم اور بنیادی رکن ہے اس لئے جہاں اس کی
ادائیگی کی اہمیت و فضیلت ثابت ہے تو وہیں اُس کے ترک کرنے اور اداء نہ کے
پر سخت سے سخت وعیدیں بھی احادیث و روایات میں وارد ہوئی ہیں۔
چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے ٗ رسول اﷲ ؐ نے ارشاد فرمایاکہ :’’ جس شخص کے
پاس حج کے سفر کا ضروری سامان ہو اور اُس کو سواری (یا سواری کا کرایہ )
میسر ہو جو بیت اﷲ تک اُس کو پہنچاسکے اور پھر(بھی) وہ حج نہ کرے، تو پھر
چاہے وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے (اُس کے لئے برابر ہے)اور یہ اس
لئے ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے : ’’ترجمہ:’’اورلوگوں میں
سے جو لوگ اس (بیت اﷲ) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں اُن پر اﷲ کے لئے
اِس گھر کا حج کرنا فرض ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی)
ایک اور حدیث میں آتا ہے ٗ حضرت ابو اُمامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲؐ نے
ارشاد فرمایاکہ :’’ جس شخص کے لئے کوئی ظاہری ضرورت حج سے مانع (رکاوٹ
ڈالنے والی) نہ ہو ، یا کسی ظالم بادشاہ کی طرف سے اُسے کوئی رُوک ٹوک نہ
ہو ، یا اُسے کوئی ایسا مرض لاحق نہ ہو کہ جو اُسے حج سے رُوک سکے اور وہ
حج کیے بغیر (اسی حال میں) مرجائے تو چاہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر
مرے۔‘‘ (سنن دارمی ، سنن بیہقی)
اسی طرح مشہور تابعی حضرت عمرو بن میمونؒ سے بھی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے
ارشاد فرمایا کہ : ’’جو شخص حج اداء کرنے کی قدرت اور طاقت رکھتا ہو (اس کے
باوجود وہ ) حج نہ کرے تو چاہے وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے ۔‘‘(
اخبارِ مکہ للفاکہیؒ:( ۳۸۱/۱)
|