سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے پانامہ کیس کا
متفقہ فیصلہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کیخلاف سنایا اور انہیں بادی
النظر میں نا اہل قرار دیا تو حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی
روایتی روش کو برقرار رکھا۔ پانامہ کیس کے سپریم کورٹ میں جانے پر پہلے پہل
تو مٹھائیاں تقسیم ہوئیں اور اس خوش آئند امر کا اعادہ کیا گیا کہ جو بھی
فیصلہ آئے گا اسے من و عن تسلیم کیا جائے گا۔ تاہم گزشتہ ماہ آنے والے
فیصلے نے ملک کے سیاسی منظر نامے کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا توحکمراں
جماعت مسلم لیگ(ن) نے بھی ماہرین، تجزیہ نگاروں اور سیاسی نقادوں کی توقعات
کے عین مطابق ملکی تاریخ کے اہم ترین کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے
یکسر انکار کر دیا، اس انکار کا وقتی اور بھاری نقصان قانون نافذ کرنے والے
اداروں ،خاص کر سپریم کورٹ کی ساکھ کو ہوا۔ پانامہ کیس کے فیصلے کے بعدنا
اہل سابق وزیر اعظم نواز شریف کی باڈی لینگوئج سے یہی لگ رہا تھا کہ وہ ایک
بار پھر حواریوں کے مشورے پر محاذ آرائی کا راستہ اپنائیں گے۔ وقت نے ثابت
کیا کہ ماضی کی طرح نواز شریف کو دگرگوں حالات سے دوچار کروانے والے مشیروں
اور حواریوں نے سابق وزیر اعظم کو ایک بار پھر اسی نہج پر لا کھڑا کیا ہے۔
عوامی رابطے ، سیاسی جلسے ، جلوس اور ریلیاں سیاسی جماعتوں کا حق ہوتی ہیں
اور یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ اپنا مقدمہ سب سے پہلے اپنے ووٹ دینے والی
عوام کی عدالت میں پیش کیا جائے اور یہی کام نواز شریف نے بھی کیا لیکن
آخری چارہ کار کے طور پر۔ اگر نواز شریف خود پر سنگین الزامات لگنے کے بعد
ابتداء میں ہی رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو جاتے اور خود کو عوام میں پیش کر
دیتے تو میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ یہ ہارا ہوا مقدمہ اسی وقت جیت
چکے ہوتے۔یہی میاں نواز شریف جو آج سے چند روز قبل وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن
پر براجمان تھے یہ بات کہتے نہیں تھکتے تھے کہ فیصلے سڑکوں پر نہیں ہوتے
مگر یکا یک ان کا ’فرمان مبارک‘ تبدیل ہو گیا، یقینا اقتدار کا نشہ ہی الگ
ہوتا ہے اس لئے وہ اس وقت کے بنائے گئے قوانین و اصولوں کو پامال کرنے
کیلئے خود بھرپور انداز میں سڑکوں پر نکلنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔نواز شریف
اور جملہ (ن) لیگ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ عمران خان بھی یہی مقدمات
اسی طرح عوامی عدالت میں لے کر گئے تھے اور ان کا سڑکوں پر نکلنا اپنی ذات
کیلئے نہیں تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی سیاست ابھی مکمل طور
پر میچور نہیں اور تحریک انصاف کے کارکنان کی بد تمیزی اور بعض جگہ جہالت
بھی ’’مثالی‘‘ ہے تاہم یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ دودھ کا دھلا کوئی
نہیں، اسی بد تمیزی اور جہالت کا سامنا اس وقت (ن) لیگی کارکنوں کی طرف سے
ہے اور براہ راست نشانہ سپریم کورٹ، پاک فوج، آئی ایس آئی اور دیگر قومی
ادارے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا سرا نچلی سطح کے ایک کارکن سے براہ راست پارٹی
سربراہان تک جاتا ہے، بد تمیزی، جہالت، الزام تراشی، ذاتیات پر حملے
اورپھٹیچرو ریلو کٹوں والا سلسلہ اب مکمل طور پر تھم جانا چاہئے۔
راوی ’’چین ہی چین‘‘ کے ساتھ ساتھ اگر یہ بھی لکھتا رہا ہے تو یاد رہے کہ
نا اہلی کے بعد بھی کئی مواقعو ں پرنواز شریف اپنے خلاف ہونے والے سازش کا
فی الحال ’’راگ‘‘ الاپتے رہے ہیں اور ان کا اشارہ پاک فوج اور آئی ایس آئی
کی جانب جاتا ہے مگر دلچسپ بات ہے کہ وہ یہ بات کھل کر نہیں کہتے اور نا ہی
سازش کرنے والے عناصر کو بے نقاب کرنے کی بات کرتے، قوم شدت سے اس بات کو
جاننا چاہتی ہے کہ آخر پاکستان میں پھلتی پھولتی جمہوریت کیخلاف کون
ناہنجار سازش میں مصروف ہے۔ در پردہ مبینہ سازش کرنے والے اداروں کو ’’شٹ
اپ‘‘ کال دینے، اپنی عوامی قوت کا مظاہرہ کرنے اور ’’سازشیوں‘‘ کو حدود میں
رہنے کا باور کرانے کیلئے میاں نواز شریف کی قیادت میں (ن) لیگ غیر اعلانیہ
طور پر اسٹیبلشمنٹ کیخلاف لانگ مارچ کرنے جا رہی ہے۔ خفیہ ایجنسیوں اور
دیگر سیکورٹی اداروں کے تمام تر خدشات اور رپورٹس کے باوجود اسلام آباد تا
لاہور براستہ جی ٹی روڈ ریلی نما اینٹی اسٹیبلشمنٹ لانگ مارچ کا فیصلہ
انتہائی غیر دانشمندانہ نظر آتا ہے۔نواز شریف ایک قومی لیڈر اور ڈیڑھ کروڑ
سے زائد ووٹرز کا انتخاب ہیں اس لئے انہیں ہوش سے کام لیتے ہوئے ’رسک‘ نہیں
لینے چاہئیں۔ محاذ آرئی کی سیاست اور قومی اداروں سے ٹکراؤ اور للکار کے اس
سارے منظر نامے میں خاکم بدہن اگر کوئی نا خوشگوار واقعہ رونما ہو جاتا ہے
تو یہ ملک و قوم کو برسوں پیچھے لے جائے گا۔ رہی بات مارشل لاء یا ایمرجنسی
جیسے حالات کی تو وہ نواز شریف اور ان کی جماعت (ن) لیگ خود چاہتے ہیں کہ
ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ ہماری سیاسی شہادت ایک بار پھر ہمارے اقتدار
میں آنے کا سبب بن جائے۔ قوم خاطر جمع رکھے کہ فوج اور قومی سلامتی کے مایہ
ناز ادارے وطن عزیز کی ترقی اور استحکام پر کسی طرح کی کوئی آنچ نہیں آنے
دیں گے۔ آخر میں معروف شاعر اقبال طارق کا شعر کہ۔۔
اس شہر کے ہر شخص کی پہچان یہی ہے
ہر شخص ولی ابنِ ولی، ابنِ ولی ہے |