خونی لکیر

خواب دیکھنے والوں اورمسکراہٹوں،پھولوں کے ہاروں اور ہزاروں سال پرانی موسیقی کی تانوں پرجھومنے والے اس مختصرہجوم کوجو آج کل میرے ملک کے اخبارات اورٹیلیویژن اسکرین پرچھایاہواہے،میں صرف چندلمحوں کیلئے حقیقت کی دنیاکے ایک جہنم میں لیجاناچاہتا ہوں۔یہ وہ عبرت کدہ ہے جو اس برصغیرکی تاریخ ہے۔ یہ وہ زخم ہے جوکئی سالوں سے رس رہا ہے،یہ وہ چیخ ہے جو مسلسل گونج رہی ہے ۔یہ منظر نہ تو اگست ۱۹۴۷ء کاہے جب ملک کے طول وعرض میں لاشوں سے بھری ٹرینیں وصول ہو رہی تھیں اور کوئی اجڑاہواگھر ایسانہیں تھاجو اپنے عزیزوں پیاروں کے تڑپتے لاشے چھوڑ کرنہ آیاہوبلکہ ہم نے تو اس دن اپنی غیرت کوایسی نیند سلادیا کہ اب تک آنکھ نہیں کھل رہی۔ ہماری سوا لاکھ سے زائد بچیاں آج بھی آسمانوں کی طرف اشکبارآنکھوں سے اپنے رب سے ضروررازونیازکرتی ہونگی کہ کہاں ہیں ہمارے والی وارث جوہمارے سروں کو گھروں میں بھی ننگانہیں دیکھتے تھے اورنہ ہی یہ منظراس دورکاہے کہ جب ہمارے اور بھارت کے درمیان نفرتیں عروج پرتھیں،یہ آج کے شب وروزکاچیختا چلاتا منظر ہے۔

یہ جوہاپورہ کی کچی آبادی ہے جسے بھارت میں رہنے والے جھونپڑی کانام دیتے ہیں،یہ جوہاپورفروری ۲۰۰۲ء سے پہلے یہاں کسی بستی کانام ونشان نہ تھا۔ یہ بے خانماں اجڑے،لٹے پٹے مسلمانوں کی بستی ہے جواحمدآبادسے صرف پانچ کلومیٹردورخوف کے عالم میں آبادہوگئی تھی۔اس بستی میں زمینوں پربچھانے والے بستربیچنے والاایک انیس سالہ نوجوان تیمورعلی ایک انگریزصحافی ''رچرڈبرنز''کے سامنے صرف چنددن پہلے ہچکیوں سے رونے لگ گیا۔اس نے کہاکہ میں گجرات کے پچاس لاکھ مسلمانوں میں سے ایک ہوں۔میرے پچیس رشہ داربلوائیوں نے قتل کردیئے،میری سترسالہ دادی کوزندہ جلا دیا اوریہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہوا،میں زخمی حالت میں بچ کراس متعفن علاقے میں آگیاہوں لیکن آج بھی رات کوآگ میں پھینکے ہوئے بچوں اور عورتوں کی وہ دردناک چیخیں ہم سب کاتعاقب کررہی ہیں جووہ بارباراللہ کے نام پرمدد کیلئے پکار رہی تھیں۔

تیمورعلی صرف ایک نہیں اس جیسے ہزاروں لٹے پٹے لوگ یہاں آکرآبادہوگئےہیں۔ان مسلمانوں میں ڈاکٹربھی ہیں،انجینئربھی اورسرکاری ملازم بھی۔یہ سب اسی کچی آبادی سے روزانہ اسی احمد آبادشہرمیں جاکرملازمت کرتے ہیں جہاں اب مسلمانوں کاٹھکانہ تک نظرنہیں آتاالبتہ مسلمانوں کے کچھ جلے ہوئے گھراور دوکانیں آج بھی عبرت کے طورپرموجودہیں جبکہ مسلمانوں کے مکانوں کی ایک کثیرتعدادپرہندوؤں نے قبضہ جمالیاہے۔گلبرگ کے علاقے میں مسلمان ممبر اسمبلی احسان جعفری کاگھروہ تماشہ گاہ ہے جس کی خاکسترعمارت سے اس کے خاندان کے ۳۸مردوزن کی لاشیں نکلی تھیں۔اس گھر کے دروازے اور کھڑکیاں آج بھی ملک کی سب سے بڑی سیکولرجمہوریت کے منہ پرطمانچہ ہے اورعین اس گھرکے سامنے ہندوؤں کی ٹیلیویژن اورریڈیوکی دکانیں ہیں جہاں دن رات وہ گیت اونچی آوازمیں بلندہوتے رہتے ہیں جن سے اب میرے ملک کاہر کوچہ اورہرمحلہ بھی آشناہوچکاہے۔

جوہاپورہ کی بدبوداراورناقابل رہائشی آبادی کے بالکل ساتھ ساتھ ہندوؤں کے مکانات کی ایک لمبی قطارہے جس کے اردگردخاردارتارکی باڑہے،اونچی اونچی دیواریں ہیں اوران دیواروں پرسیمنٹ میں شیشے کے ٹکڑے کاٹ کرلگائے گئے ہیں ۔احمدآبادشہر کے وہ مکانات جوجلادیئے گئے ہیں جن کے کھلے دریچوں اور صحنوں میں خزاں کے گرتے پتوں اورپھینکے جانے والے کوڑاکرکٹ کے سوا اب کچھ نظرنہیں آتا،ہاں اگر کوئی جوہاپورہ کامسلمان وہاں آنکلتاہے تواسے دلدوز چیخوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں،ہندوغنڈوں کے ہاتھوں لٹتی ہوئی مسلمان عورتوں کی آہ وبکاسے اس کے کان پھٹتے ہیں،جلتے ہوئے معصوم بچوں کے چہرے اسے یادآجاتے ہیں اوروہ اس منظرسے بھاگ کراس بستی میں جاچھپتاہے جسے مسلمانوں کی بستی کہنے میں اورجس کے چہرے پربے خانماں اوربے یارومددگارہونے کا دکھ لکھاہواہے۔

یہ وہ دوقومی نظریہ ہے جوآج احمدآبادکی سرزمین پرتحریرہواہے لیکن اس سارے المیے میں ایک واقعہ مجھے خوف کے ایک عجیب عالم میں لے جاتاہے۔ احمدآباد سے تھوڑی دور مسلمانوں کی ایک بستی نارودہ پاتیہ ہے،اسی چھوٹی سی بستی۹۱مسلمان بچے اورعورتیں قتل کردیئے گئے تھے،اس بستی میں کوئی اسکول نہیں تھا۔یہ معصوم بچے اوربچیاں احمدآبادکے علاقے میں پڑھنے جاتے تھے۔اس حادثے کے چنددن بعد اس بستی کے مسلمان اینٹ اورگارے میں لت پت کھڑے تھے اوراس بستی کے بالکل مرکزمیں اپنے بچوں کیلئے اسکول تعمیرکر رہے تھے۔ایک سماجی کارکن عبدالستارجواس اسکول کی تعمیر میں پیش پیش تھا، جب اس سے انگریزصحافی''رچرڈ برنز''نے پوچھا کہ صرف چندسوگزپراسکول واقع ہے توایسا کیوں کررہے ہیں؟ اس نے تڑپ کرسہمے ہوئے جواب دیا کہ دنیا کی کوئی تسلی کوئی وعدہ مسلمانوں کے دلوں سے یہ خوف نہیں نکال سکتا کہ ان کے بچے اوربچیاں اگرہندوؤں کے علاقے میں پڑھنے جائیں توشام کوزندہ گھرواپس آئیں گے بھی یانہیں،ان کی عزتیں بھی محفوظ ہوں گی یانہیں!

اس انگریز صحافی نے مضمون کے آخرمیں ایک چونکادینے والاواقعہ بھی تحریرکیاہے کہ میں نے جب تیموریااس جیسے دوسرے غمزدہ افرادکی مالی مدد کرناچاہی توانہوں نے بڑی محبت سے میری اس مددکویہ کہہ کرٹھکرادیاکہ اگر بھیک مانگنا ہی مقصود ہوتاتوآج ہم اقتدارکے ایوانوں میں ہوتے،اعلیٰ مناصب کے مزے لوٹ رہے ہوتے۔ان مسلمانوں کوتواس بات کی سزاملی ہے کہ انہوں نے باوجوداستحقاق کے ملازمتیں نہ ملنے پراپنے چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرلئے،ترقی کرتے کرتے دنیا کے کاروباری اداروں کواپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے دوسرے کاروبارکے ساتھ ساتھ ''ڈائمنڈ'' کی تراش خراش جیسے کام پربھی اپناسکہ جمالیاتوان متعصب ہندوؤں نے اس ترقی سے خوفزدہ ہوکریہ فیصلہ کر لیاکل کلاں یہ مضبوط اورطاقتورمسلمان بھارت کی سیاست پرقبضہ نہ کرلیں،جس کی بناء پربھارت کے مسلمانوں کواس عذاب سے دوچارکردیاگیا۔

مجھے معلوم ہے کہ میرے ملک کے بہت سے صاحبان جاہ وحشم کونوجوانوں کی ٹولیوں کو،دانشوروں کے گروہوں کوایشوریارائے کی مسکراہٹ اچھی لگتی ہے،ارمیلاکی آمد پران کی باچھیں کھل جاتی ہیں،بھارتی درندے مظلوم کشمیریوں پرپیلٹ گن کابے دریغ استعمال کرکے انہیں شہیدکررہے تھے اور ہمارے یہ شوقین سلمان خان کی سلطان فلم سے لطف اندازہورہے ہیں،سونونگم اوردلیر مہدی کے گانوں پران کابے اختیار رقص کرنے کوجی چاہتاہے مگرمیں اپنی اس بے خوابی کاکیاکروں جوصرف اس لئے میرے گھرمیں بسیرا کر لیتی ہے کہ عین ان مسکراہٹوں، گیتوں اوررقص کرتی خوبصورتیوں کے ساتھ ساتھ وہ جھونپڑپٹی ہے جس میں پچھلے آٹھ سالوں سے ایک لٹی پٹی قوم آبادہے،خوفزدہ ہے،مجبورہے،تعفن زدہ علاقے میں رہتی ہے۔بس میرااوران کاایک ہی رشتہ ہے کہ وہ اسی اللہ پرایمان رکھتی ہے،اسی رسول اکرمۖ کاکلمہ پڑھتی ہے ،اسی دین سے وابستہ ہے جس سے میں ہوں۔پتانہیں کیوں میرے آنسو نکل آتے ہیں جب میں صرف یہ سوچتا ہوں کہ ارمیلا،میرا،ریشم،راحت اوراس قبیل کے دوسرے لوگوں کیلئے واہگہ عبورکرنا کتناآسان ہے لیکن جوہاپورہ،نارودہ پاتیہ کامسلمان احمدآباد کے ہندوعلاقے میں جاتے ہوئے خوف سے کانپ اٹھتاہے۔ گھر والے اس کی واپسی تک دستِ بدعارہتے ہیں۔کوئی دوقومی نظریے کی لکیرپھولوں کے ہاروں سے مٹانے کی کوشش کرنے والوں کوآوازدے کہ بھارت کے تنگ نظر ہندومسلمانوں کے خون سے لکیرکوگہراکررہے ہیں؟

عقل کے اندھے آج بھی پاکستانی چینل پرجودن رات بھارت کی دوستی کامحبت بھراترانہ دہرانے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کررہے ہیں اوریک زبان کورس میں ہمیں تلقین کررہے ہیں کہ ان لکیروں کوزمین پرہی رہنے دو،دلوں میں نہ رہنے دو،اب اس واقعے کے بعدبھلاآپ ہی مجھ کم عقل کوبتائیں کہ کیا واقعی اس قوم سے دوستی ممکن ہے جہاں ریاست اترپردیش میں سوامی ویویکناد سبھارتی یونیورسٹی۶۰کشمیری طلبہ کومحض اس لئے معطل کرکے ان پر بغاوت کامقدمہ دائر کروادے کہ انہوں نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پرتالیاں بجانے کاعظیم جرم کیاتھا۔اب ان تمام بھارت نوازدانشوروں کوبھی ہوش اورعقل کے ناخن لینے چاہئیں کہ جواندرونِ خانہ بھارت کوپسندیدہ ملک دینے کے سازشیں کررہے ہیں جبکہ بھارتی برہمن جہاں آپ کے پانی پرقبضہ کرنے کیلئے تیزی سے ڈیم تعمیرکررہاہے اوردوسری طرف پاک چین اقتصادی پروگرام کو سبوتاژکرنے کیلئے شب وروزدہشتگردکاروائیاں کررہاہے۔
چلوکہ چل کے چراغاں کریں دیارِحبیب
اجڑ گئے ہیں پرانی محبتوں کے مزار

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.