ایک دوست نے ایک تحریر بھیجی ہے جس میں یہ تقابل پیش کیا
گیا ہے کہ رحمة للعالمین کون؟ یعنی مدر ٹریسا جنہوں نے جذامیوں کی مسیحائی
کی ہے یا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم؟ جنہوں نے ثقیف کے ایک جذامی کو
پیغام بھیجا کہ ہم نے آپ سے بیعت کرلی اب آپ لوٹ جائے، اور دوسری روایت میں
ہے کہ مجذوم سے بھاگو جیسے شیر سے بھاگنا ہوتا ہے، تیسری روایت ہے کہ مریض
تندرست کے پاس نہ جائے۔
تو جناب اس حوالے سے عرض ہے کہ رحمة للعالمین صرف مریض کے معالج کو نہیں
کہا جاتا بلکہ اس ہستی کو کہا جاتا ہے جنہوں تمام طبقاتی ظلم وستم قتل
وغارت گری کو ختم کرکے تہذیب معاشرہ واخلاق کا درس دیا ہے جنہوں نے پتھر
برسانے والوں کو بھی دعا دی ہے جنہوں نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے کوئی
بدلہ نہیں لیا جنہوں نے پوری دنیا کو انسانیت کا درس دیا ہے ، غرض جملہ
محاسن ان میں پائے جارہے تھے تب تو رحمة للعالمین قرار پائے ہیں۔
جہاں تک مذکورہ احادیث کا تعلق ہے تو اس میں بھی عام انسانوں کی ہمدردی
ملحوظ تھی وہ اس طرح کہ عرب معاشرے میں مرض کو بذات خود موثر اور متعدی
سمجھا جارہا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرض بذات خود
نہیں پھیلتا جب تک اللہ نہ چاہے لہذا جو ضعیف الاعتقاد انسان ہیں مرض لگنے
کی وجہ سے بد اعتقادی میں مبتلا نہ ہوجائے اس لیے اس آدمی کو واپس فرمایا۔
لیکن جہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا رویہ ہے تو حضرت جابرؓ سے
روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجذوم آدمی کے ساتھ بنفس نفیس
کھانا کھایا ہے ، اور حضرت عائشہ فرماتی ہے کہ ہمارا ایک مجذوم غلام تھا تو
وہ میرے برتنوں میں کھاتا تھا اور میرے پیالوں میں پیتا تھا، اور میرے بستر
پر سو بھی جاتا تھا۔
ان روایات میں ان کوتاہ بینوں کے لیے عبرت ہے جو ایک آدھ روایت دیکھ سن لی
اور اس پر اپنے مذعومات کی عمارت قائم کی۔ میڈیکلی اگر کوئی حاکم ایک
احتیاطی تدبیر اپناتا ہے تو کیا یہ معاشرے پر ظلم ہوتا یا ہمدردی بس کیا
کہے جی اہل غرب سےعشق کی انتہا ہے کہ ایک طبیبہ (جن کا کام یہی تھا) کو
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر فوقیت دی جانے لگی ہے ۔ افسوس صد افسوس۔
- قَوْله : ( كَانَ فِي وَفْد ثَقِيف رَجُل مَجْذُوم ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ
النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاك
فَارْجِعْ )
هَذَا مُوَافِق لِلْحَدِيثِ الْآخَر فِي صَحِيح الْبُخَارِيّ : ( وَفِّرْ
مِنْ الْمَجْذُوم فِرَارك مِنْ الْأَسَد ) وَقَدْ سَبَقَ شَرْح هَذَا
الْحَدِيث فِي بَاب ( لَا عَدْوَى ) وَأَنَّهُ غَيْر مُخَالِف لِحَدِيثِ (
لَا يُورِد مُمْرِض عَلَى مُصِحّ ) قَالَ الْقَاضِي : قَدْ اِخْتَلَفَ
الْآثَار عَنْ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِصَّة
الْمَجْذُوم ، فَثَبَتَ عَنْهُ الْحَدِيثَانِ الْمَذْكُورَانِ ، وَعَنْ
جَابِر أَنَّ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ مَعَ
الْمَجْذُوم ، وَقَالَ لَهُ : كُلْ ثِقَة بِاَللَّهِ ، وَتَوَكَّلَا
عَلَيْهِ . وَعَنْ عَائِشَة قَالَتْ : مَوْلَى مَجْذُوم فَكَانَ يَأْكُل
فِي صِحَافِي ، وَيَشْرَب فِي أَقْدَاحِي ، وَيَنَام عَلَى فِرَاشِي. (شرح
النووي على مسلم) |