’’دو تین رینجرز کے افراد آئے اور امی کی نیض چیک کرنے
لگے۔ میں بادستور روتی جا رہی تھی۔ میرا سارا بدن خوف سے کانپ رہا تھا۔
رینجرز والوں نے امی کے منہ پر پانی چھڑکا اور کچھ کوشش کر کے امی کے حواس
بحال کئے۔ پھر انہوں نے ہمیں اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن چلنے کو کہا۔ ہم نے
بہت منت سماجت کی، بہت روئے دھوئے کہ ہمارا کوئی قصور نہیں ہے ہمیں چھوڑ
دیا جائے مگر انہوں نے کسی کی نہ سنی۔ پھر ان میں سے ایک شخص نے ہمیں
جھوٹاحوصلہ دے کر ہمیں ان فوجیوں کے ساتھ جانے کو کہا۔ ہم تو ویسے بھی
مجبور اور ہر سمت سے گھر ہوئے تھے۔۔۔ بے بس اور لاچار ان کے ساتھ گھر سے
باہر نکلے۔ سب سے پہلا جھٹکا مجھے تب لگا جب انہوں نے مجھے ایک اور امی کو
دوسری گاڑی میں بٹھا دیا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
’’پولیس وین میں بیٹھتے ہی میں نے شور مچا دیا کہ امی کہاں ہے۔ مگر کوئی
مجھے جواب دینے کو تیار نہ تھا۔ میرے دائیں اور بائیں جانب دو دو طاقت ور
اور خوفناک چہروں والے مرد مجھے دبوچ کر بیٹھ گئے تھے۔ میرا سانس چڑھ گیا
تھا۔ میں بار بار ان سب سے امی کا پوچھ رہی تھی۔ مگر امی کہیں نظر نہیں آ
رہیں تھیں۔
’’انہیں دوسری گاڑی میں بٹھایا ہے۔۔۔ وہ آ رہی ہیں۔‘‘ کسی کو ترس آیا اور
اس نے مجھے اتنی سی بات بتائی۔
میں اپنا چہرہ اپنے گھٹنوں پر رکھ کر سسکنے لگی۔ گاڑی تیز تیز چلنے لگی ۔
وہ سب مجھے کہیں بہت دور لے کر جا ہے تھے۔ کوئی دو گھنٹے تک گاڑی چلتی رہی۔
اب ہماری گاڑی کسی ویرانے میں داخل ہو چکی تھی۔ اندر ہی اندر مجھے یوں لگ
رہا تھا جیسے مجھے اغوا کر لیا گیا ہو۔ مگر پولیس کی وین اور پولیس کے
یونیفارم میں موجود لوگوں کو دیکھ کر میں خود کو ایک تسلی دیتی۔ ‘‘ میں
ٹکٹکی باندھے سمینہ کو دیکھے جا رہا تھا۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ
اس کم سن لڑکی کے ساتھ اتنی سی عمر میں یہ سب ہوا ہے۔ میرے دل میں ہول
اٹھنے لگے کہ جانے اب سمینہ کیا کہے گی کہ اس کے ساتھ اور کیا ہوا۔
’’میں ایک ویران سے بنگلے نما آفس میں پہنچ گئی۔ دور دور تک کوئی اور عمارت
دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے میں کسی گاؤں گوٹھ میں پہنچ
گئی ہوں۔ میں بے چینی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ شاید دوسری گاڑی ابھی
نمودار ہو گی اور اس میں سے امی نکلیں گی مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔‘‘
’’امی کہاں ہے؟؟‘‘ میں نے کانپتی آواز کے ساتھ اپنے ساتھ موجود چھ آدمیوں
میں سے ایک سے پوچھا۔ مگر مجھے کوئی جواب نہ دیا گیا۔
’’چلیں!‘‘ میں اندر جانے کو تیار نہ تھی۔ میرے پیر اپنی جگہ جم گئے۔ دل خوف
کے مارے اتنی زور سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی مجھے ہارٹ اٹیک ہی آ جائے گا۔
’’چلو!‘‘ دوسرے ہی لمحے لفظ’ چلیں ‘’ چلو ‘میں بدل گیا اور آواز میں کرختگی
آ گئی ۔ میری آنکھیں پھر آئیں اور میں نے وہیں کھڑے کھڑے منہ پر ہاتھ رکھ
کر رونا شروع کر دیا۔ میں بار بار ان سب سے ایک ہی بات کہتی جاتی کہ ’’امی
کہاں ہے؟ امی کہاں ہیں؟‘‘
پھر ایک آدمی نے میرا بازوں دبوچا اور مجھے ہانکتا ہوا اندر اس عمارت میں
لے گیا۔ باقی سارے لوگ بھی اندر داخل ہو گئے۔
اس کے بعد مجھے کوئی اور سوال پوچھنے کی ضرورت نہ پڑی۔ انہوں کے مجھے ایک
لاک اپ میں پھینک کر دروازہ لاک کر دیا۔ مجھے قید کر دیا گیا تھا۔ اْس جرم
کی سزا میں جو میں نے کبھی کیا ہی نہ تھا۔ ‘‘
’’اوہ مائی گاڈ!‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔
میں بہت حساس تھا پھر بھی مجھ سے ممکن نہ ہوا کہ وہ محسوس کر سکتا جو اس
وقت سمینہ پر بیتی ہو گی۔ ایک بیس بائیس سال کی لڑکی پر اتنا ظلم۔۔۔
’’اف!‘‘ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ میں گہرے گہرے سانس لینے لگا تا کہ
سمینہ کی بتائی ہوئی باتوں کو ہضم کر سکوں۔ سمینہ بھی میرے تاثرات دیکھ کر
چپ سی ہو گئی۔ مگر حیرت انگیز طور پر اس کا چہرے ہر قسم کے تناؤں سے بالکل
خالی تھا۔ وہ سپاٹ سا چہرہ لئے مجھے یہ سب کہہ گزری تھی۔ شاید یہ سب سہہ کر
وہ اندر سے بہت مضبوط ہو چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’ایک دن گزر گیا، دوسرا دن اور پھر تیسرا دن۔۔۔امی کا کچھ پتا نہیں تھا کہ
وہ کہا ہیں کس حال میں ہیں۔ اب تو میں خود بھی ادھ موئی سی ہو گئی تھی۔ان
تین دنوں میں کسی نے مجھ سے کوئی بات چیت نہ کی نہ ہی مجھے میرے کسی سوال
کا جواب دیا گیا۔ یہاں تک کہ کوئی مجھ سے کسی قسم کی تفتفش کرنے بھی نہیں
آیا۔بس کوئی دن میں دو بار آتا اور کھانا پانی رکھ جاتا ۔ میں ذہنی طور پر
بے انتہا تناؤں کا شکار ہو گئی۔ ایک خوف اور ڈر ہر وقت ذہن پر طاری رہتا۔
عجیب عجیب خوفناک وسوسے آتے رہتے۔ چوبیس گھنٹوں میں سے طرف پانچ چھ گنٹے
لائٹ آتی جس سے پنکھا چل جاتا۔ میں بتا نہیں سکتی میں کس حال میں تھی۔۔۔ ‘‘
یہ کہہ کر سمینہ نے اپنا سر پکڑ لیا۔ شاید اب اس کے ضبط کا پیمانہ بھی
لبریز ہو چکا تھا۔ اور کیسے نہ ہوتا۔ اتنی سی عمر میں ایک کم سن بڑکی نے وہ
سب بھگت جو کسی جوان جان آدمی کے لئے بھی عذابِ عظیم سے کم نہ ہوتا۔ مجھے
چپ سی لگ گئی۔ میں دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگا کہ کیوں سمینہ کے درد
چھیڑ دئیے۔ اچھا ہوتا کہ اس سے اس کے ماضی کے بارے میں کوئی سوال کرتا ہی
نہیں۔
’’چوتھے دن مجھے اس قید خانے میں کچھ ہلچل سی محسوس ہوئی۔۔۔‘‘ سمینہ نے پھر
کہنا شروع کر دیا۔
’’کچھ لوگ وہاں باہر بنے بوسیدہ سے آفس میں موجود تھے۔ مجھے ان کی باتوں کی
آوازیں آ رہی تھیں۔ کوئی آدھے گھنٹے تک وہاں کچھ ہوتا رہا اور پھر مجھے جو
کچھ نظر آیا اسے دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ گندے مندے ہولئیے میں،
اجڑے سے بال لئے، کاندھے کے ایک طرف درپٹہ ڈالے جو زمین سے رگڑ کھا رہا
تھا، امی کسی زندہ لاش کی طرح مر مر کر میری طرف بڑھ رہیں تھیں۔ دو بڑی بڑی
مونچھوں والے سول کپڑوں میں موجود آدمیوں نے انہیں دائیں اور بائیں جانب سے
جکڑ رکھا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اگر انہیں یہ سہارا نہ دیا گیا تو وہ
وہیں گر کر اپنے حواس کھو بیٹھیں گی۔ میری تو سانسیں ہی رک گئیں۔ امی کو اس
پژ مردہ حالت میں دیکھ کر میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنے لگے۔ کہاں تھیں امی!
کیا ہوا تھا ان کے ساتھ! وہ ایسی حالت میں کیوں ہیں! میرے دل میں ہول سے
اٹھنے لگے۔ میں ’’امی امی‘‘ کی صدائیں بلند کرنے لگی۔مگر امی نے مجھ سے
نظریں تک نہ ملائیں۔ وہ تو کسی ایسی ماؤف کیفیت میں تھیں جیسے کچھ سن ہی نہ
پا رہی ہوں۔ انہیں کچھ پتا ہی نہ چل رہا ہو تھا کہ ان کے سامنے ان کی بیٹی
کھڑی ہے۔۔۔ وہ انہیں پکار رہی ہیں۔۔۔ آنسو بہا رہی ہے۔‘‘
’’چند منٹ میں میرے لاک اپ کا دروازہ کھول کر امی کو وہاں پھینک دیا گیا۔
امی نیچے گر گئیں اور میں ان سے لپٹ کر آہ و پکار کرنے لگی۔ اب امی نے بھی
مجھے دیکھا اور جانا کہ میں کون ہوں ۔ وہ دیوانوں کی طرح مجھ سے چپٹ گئیں
اور یوں زار و قطار رونے لگیں جیسے ان کا سب کچھ لٹ گیا ہو۔میں بار بار امی
سے سوال کرتی کہ وہ تین دنوں سے کہاں تھیں اور ان کے ساتھ کیا ہوا ہے مگر
انہوں نے تو جیسے اپنے لب سی رکھے تھے۔ وہ بس مجھے اپنے سینے سے لگا کر
روتی جاتیں۔ پھر یک دم میرے دل میں ایک خیال آیا اور میری روح کانپ اٹھی ۔
کیا امی کو ذیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا؟
’’ امی! کیا انہوں نے آپ کے ساتھ؟؟؟‘‘مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اپنا جملہ
مکمل کر سکتی۔ میری زبان وہیں رک گئی۔ مگر امی میرا یہ سوال سنتے ہی دھاڑیں
مار مار کر گریا کرنے لگیں۔ جیسے کسی اپنے کی موت پر ماتم کیا جاتا ہے۔ اب
تو میری حالت بھی غیر ہو گئی۔ مگر اس کال کوٹھری میں کون تھا جو ہمیں سہارا
دیتا! ہمارے آنسو پونچتا ! ہمیں سنبھالتا! آخر کار ہمارے آنسو بھی ختم ہو
گئے تھے۔ ہم دونوؒ ں بے زار اور نا امید ایک دیوار سے لگ کے بیٹھ گئیں۔‘‘
’’امی میرے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں دے رہیں تھیں کہ وہ کہاں تھیں۔ کس
حالت میں تھیں اور ان کے ساتھ کیا ہوا۔۔۔ وہ بس مجھے حوصلے دیتی جاتیں کہ
سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ اللہ سب ٹھیک کر دے گا۔ وہاں کا کوئی بھی آدمی کبھی
مجھے کسی تفتیش کے لئے نہیں لے کر گیا۔ مگر جب سے امی وہاں آئیں تھیں انہیں
روز تین چار گھنٹوں کے لئے انہیں کہیں لے جایا جاتا اور پھر واپس میرے ساتھ
لا کر ڈال دیا جاتا۔ جب بھی امی ان درندوں کے پاس سے ہو کر آتیں وہ پہلے سے
ذیادہ بد حال اور نامراد نظر آتیں۔ میں ضد کر کر کے امی سے پوچھتی کہ کیا
ہوا ہے او ر ہم کب باہر نکلیں گے مگر جھوٹی تسلیوں کے سوا امی کے پاس مجھے
کہنے کو کچھ نہ ہوتا۔‘‘
’’پھر ایک دن جب وہ امی کو تفتیش کے بہانے لے کر گئے تو امی واپس نہ
آئیں۔میرا تو ایک ایک لمحہ تلوار بن گیا۔میں صبح سے لے کر شام تک روتی
رہتی۔ کھانا پینا بالکل ختم ہو گیا تھا۔ وزن خطرناک حد تک کم ہو گیا۔ میں
بالکل ہلکان ہو گئی اور آئے دن وہیں بے ہوش ہونے لگی۔ میری یہ حالت دیکھ کر
شاید کسی کو ترس آ گیا۔ انہوں نے مجھے وہاں سے نکالا اور ایک خفیہ ہسپتال
لے گئے۔ شاید میں مرنے کے قریب ہی تھی۔ ہسپتال میں میرا علاج ہوا اور مجھے
زبر دستی اچھا کھانا پینا دیا جانے لگا تا کہ میری صحت پھر بحال ہو جائے۔
اس سارے معاملے کو کوئی ڈیڑھ ماہ بیت چکا تھا۔ نہ بابا کی کوئی خبر تھی نہ
امی کی ۔۔۔ اور بھائی تو بہت پہلے سے لا پتا تھا۔‘‘
’’پھر جب میں کچھ بہتر حالت میں آئی تو میں نے دوبارہ رونا پیٹنا شروع کر
دیا کہ مجھے امی سے ملنا ہے۔ تب مجھے وہ خبر ملی جسے سن کر میری دنیا ہی
اجڑ گئی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ امی نے خود کشی کر لی ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر
سمینہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اب تو مجھ سے بھی نہ رہا گیا۔ میری بھی حالت
غیر ہو گئی۔ میں نے بھیگیں آنکھوں اور کانپتے ہاتھوں سے سمینہ کو تھام لیا۔
دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اس دنیا میں
ایسا بھی ہوتا ہے۔ اتنی سی عمر میں اتنا ظلم ۔۔۔ اتنا بڑا صدمہ ۔۔۔ اتنے
دکھ۔۔۔ اف۔۔۔ یوں لگ رہا تھا کہ اگر میں ہوتا تو اب تک زندہ بچتا۔
سمینہ بھی اب چپ ہو گئی ۔ شاید اس سے ذیادہ بات کرنے کی ہمت اب اس میں نہیں
تھی۔ وہ سامنے کسی کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھوں سے اب بھی ایک
ایک کر کے پانی کا قطرہ نمودار ہوتا اور ا س کے گالوں پر پھسل جاتا۔ میں نے
سامنے دیکھا تو ایک درخت کے نیچے ایک نرس کے ساتھ کسی ضعیف آدمی کو وہیل
چیئر پر بیٹھے پایا۔
’’وہ میرے بابا ہیں ۔‘‘ سمینہ نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اتنا سب ہونے کے بعد بابا نے گرفتاری دے دی۔ سیاسی مخالفین نے ان پر بھی
بے تحاشہ تشدد کیا اور وہ پیروں سے اپاہج ہو گئے۔ بابا نے جو بھی لو ٹ مار
کی تھی سب کچھ ضبط ہو چکا تھا۔ کچھ نہیں بچا تھا۔‘‘
’’مجھے اور بابا دونوں کو ہی گہرا صدمہ پہنچا تھا ۔ ہم دونوں ہی نارمل حالت
میں نہیں تھے۔ مکمل علاج کے بغیر ہم عام زندگی گزارنے سے قاصر تھے۔ ہم
دونوں ہی کو علاج کے غرض سے ’روشن‘ میں داخل کروا دیا گیا۔ اب اس جگہ کے
علاوہ ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔۔۔‘‘ سمینہ کی یہ رودار سن کر میرا دماغ
سن ہو گیا۔ میں کسی بت کی طرح وہیں جم کر بیٹھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
اس دن شہر میں سی این جی کی ہڑتال تھی۔ مجدی بھی اپنی گاڑی ایک لمبی قطار
میں لگائے سی این جی پمپ پراپنی باری آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ صبح کے نو
بج رہے تھے۔ مجدی نے اپنی گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور اِدھرْ ادھر گردن گھما
کر آتے جاتے لوگوں کا نظارہ کرنے لگا تا کہ کچھ ٹائم پاس ہو جائے۔پھر اس نے
اوپر کی طرف دیکھا تو اسی چرچ کا مینار نظرآ یا جہاں وہ کبھی ہر اتوار کو
باقائدگی سے جایاکرتا تھا۔ کبھی وہ ایک پریکٹسنگ اور ڈیڈیکیٹڈ کرسشن ہوا
کرتا تھا۔ چرچ کے مینار پر بنے صلیب کے نشان کو دیکھ کر اس کر دل ڈوب سا
گیا۔ سب کچھ ایک بار پھر یاد آنے لگا۔ کس طرح وہ چرچ کے بڑے سے بہت اونچی
چھت والے ہال میں جایا کرتا تھا۔ کتنا صاف ستھرا اور خوبصورت تھا وہ چرچ۔۔۔
حضرت عیسیؑ کی ایک بہت بڑی تصویر چرچ کے ہال کے سامنے کی دیوار پر ڈائیلوں
سے بنی تھی۔ کتنا دلفریب اور جاذب نظر تھی ان کی وہ تصویر۔۔۔
اسے وہ دن بھی یاد آنے لگے جب وہ منت مان کر چرچ میں سروس کے لئے رہنے لگا
تھا۔ اس کے دل میں ایک آس ایک خفیف سا درد جاگا۔۔۔ آنکھیں میں کچھ پانی
جیسا نمودار ہو گیا۔
’’کتنا سکون ملتا تھا مجھے وہاں۔۔۔ صرف وہاں خاموشی سے بیٹھ کر۔۔۔ اللہ کا
تصور کر کر۔۔۔ دعائیں مانگ کر۔۔۔‘‘ مجدی دل ہی دل میں خود سے باتیں کرنے
لگا۔
’’ساری زندگی میں یہاں آتا رہا۔۔۔ جب سے چھوٹا سا تھا۔ اور اب۔۔۔ ‘‘ وہ خود
سے سوال کرنے لگا۔
’’اب میں نے اسے چھوڑ دیا ہے؟؟؟ سب کو چھوڑ دیا ہے۔۔۔‘‘
’’بیپ !بیپ!‘‘ کسی نے ہارن دیا۔ مجدی سر جھڑک کر شیشے میں پیچھے والی گاڑی
کو دیکھنے لگا۔ سامنے جگہ خالی تھی۔ اس نے گاڑی کا ہینڈ بریک کھینچا اور
گاڑی آگے کر کے پھر انتظار کرنے لگا۔
کرتے کرتے اس کی باری آ ہی گئی۔ اس نے سی این جی بھروائی اور کسی انجانی
کشش کے ہاتھوں مجبور ہو کر چرچ کی جانب بڑھنے لگا ۔ چرچ بالکل پاس ہی تھا۔
اس نے گاڑی پارک کر دی اور کچھ منٹ گاڑی کے اندر سے ہی بیٹھے بیٹھے چرچ کے
بڑے سے لکڑی کے دروازے کو دیکھنے لگا۔وہ تصور کرنے لگا کہ اندر کون کون ہو
گا۔ کیا بہت لوگ ہوں گے؟ یا ہال خالی ہو گا؟ فادر ہونگے یا نہیں؟ کہیں روجر
نہ مل جائے؟ اسے جھجھک سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ چرچ میں لوگ
اس سے اتنے عرصے غیر حاضر رہنے کی وجہ پوچھیں گے۔ اور ایسے صورت میں وہ کیا
جواب دے گا؟؟؟
پھر کسی نے چرچ کا دروازہ کھولا اور باہر نکلا۔ اس نے یک دم اندر تانکا ۔
چرچ خالی محسوس ہو رہا تھا۔ مجدی نے سیٹ بیلٹ اتاری اورگاڑی کا دروازہ کھول
کر دھیمے دھیمے قدم پھرتاچرچ کے دروازے کی اور بڑھنے لگا۔
اندر قدم رکھتے ہی مجدی پر ایک عجیب روحانی کیفیت طاری ہو گئی۔ سامنے بڑی
سی حضرت عیسی ؑ کی تصویر کو وہ ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا۔ چرچ کے اندر ایک
پر سکون خاموشی تھی اور اے سی چلنے کے باعت ہلکی ہلکی ٹھنڈک کا احساس ہو
رہا تھا۔ اس نے دو چار قدم بڑھائے اور سب سے پیچھے رکھے بینچ پر بیٹھ گیا۔
وہ یوں ہر ہر شہ کو تک رہا تھا جیسے پہلی بار کسی چرچ میں داخل ہوا ہو۔ چرچ
کی ہر دیوار پر بڑی بڑی ببلیکل پینٹنگز لگیں تھی۔ کہیں بی بی مریم ؑ کو
چھوٹے سے بچے کے ساتھ دکھایا گیا تھا۔کہیں حضرت جبرائیل ؑ کی مریم ؑ کے پاس
آمد کی تصویر کشی کی گئی تھی۔ کہیں حضرت یحی ؑ کی شہادت کو پینٹ کیا گیا
تھا۔سامنے اٹیج پر تابوتِ سکینہ کی مثل ایک سنہری تابوت رکھا ہوا تھا جس کے
دونوں کناروں پر براق کے مشابہہ فرشتے کندہ تھے۔
مجدی جیسے ہپناٹائز ہو گیا یا مراقبے کی کیفیت میں چلا گیا۔اس کا ذہن ہر
قسم کی سوچ سے خالی ہو گیا جیسے کسی نے اس کے دماغ کا سوئچ آف کر دیا ہو۔
اور جب دماغ کر سوئچ آف ہو جاتا ہے تب ہی تو روح غالب آتی ہے۔
مجدی دیر تک وہاں بت بنا بیٹھا رہا پھر اچانک کسی کی آہٹ سے چوکنا ہوا ۔ اس
نے دائیں بائیں دیکھا تو ایک فیملی کو چرچ میں داخل ہوتے پایا۔ وہ یک دم
بینچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور تیز تیز قدم چلتا چرچ سے باہر اپنی گاڑی کی طرف
بھاگ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دلاور کا آڈیشن بہترین ہوا تھا۔اس نے تو پہلے ہی سب کو خوشخبری سنا دی تھی
کہ دبئی شفٹ ہو رہا ہے۔اور تو اور اس خوشی میں ایک بڑی سی دعوت بھی وہ اپنے
تمام احباب کو دے چکا تھا۔اس کا پاسپورٹ ایکسپائر ہو رہا تھا اور میڈیکل
بھی کروانا تھا۔ پاسپورٹ تو اس نے بننے کے لئے دے دیا تھا۔ اب وہ میڈیکل
کروانے جا رہا تھا۔ اس نے مجھے کال ملائی کے میں بھی ساتھ آ جاؤں ۔
’’ہیلو ذولقر! کیسے ہو؟؟؟‘‘ دلاور بولا۔
’’میں ٹھیک تم سناؤں؟؟؟ کیا خبریں ہیں؟؟؟‘‘ میں اس کے دبئی جانے کے بارے
میں ہی پوچھ رہا تھا۔
’’بس یار !آج میڈیکل کروانے جانا ہے۔۔۔ تم بھی ساتھ آ جاؤں۔ پھر شام کو
کہیں کافی پیتے ہیں۔۔۔‘‘ دلاور بولا۔
’’ام م م ۔۔۔ او کے۔۔۔ ‘‘ میں تیار ہو گیا۔ ’’کب نکلنا ہے؟‘‘
’’ایسا کرتا ہوں میں تمہارے آفس ہی آ جاتا ہوں۔ وہاں سے ساتھ چلیں گے۔‘‘
دلاور نے جواب دیا۔
’’چلو آ جاؤ میں انتظار کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے کال کاٹ دی۔
کوئی آدھے گھنٹے میں دلاور میری طرف پہنچ گیا اور ہم دونوں وہاں سے ساتھ ہی
نکلے۔ اس نے اپنا میڈیکل کروایا اور اپنا پاسپورٹ لیا اور پھر ہم ایک کافی
شاپ پر کافی پینے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
|