چودہ اگست کی آمد آمد تھی۔ بازار میں سبز ہلالی
پرچموں کی بہار آنے لگی تھی۔ ریڈیو، ٹی وی الیکٹرانک میڈیا والے منفرد
انداز میں اپنے اپنے پروگرام ترتیب دینے میں مصروف تھے۔ ہر طرف سے چودہ
اگست، چودہ اگست کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ کبھی کبھی کسی طرف سے کوئی ملی
ترانہ بھی فضاؤں میں ماضی کی یادیں بکھیرنے لگتا ۔ لوگوں کو کبھی چودہ اگست
انیس سو سینتالیس یا دآتا ، کبھی انیس سو پینسٹھ کی جنگ
یا د آتی اور کبھی انیس سو اکھتر کا سانحہ یا د آتا ۔
گلی کے موڑ پر بیٹھے بچے پاکستانی پرچم کی کاغذی جھنڈیوں سے ’ کلی، جوٹا‘
کھیل رہے تھے۔
فوجی افسران، پاکستانی نقشہ سامنے رکھے، اپنی ریٹائرمنٹ پے ملنے والے
علاقوں کے متعلق سوچ بچار کر رہے تھے کہ وہ علاقے کیسے ہیں۔۔۔
بچے جھنڈیوں سے مسلسل ’کلی، جوٹا ‘ کھیلے جا رہے تھے۔ انہیں آس پاس کی کوئی
فکر نہ تھی اور نہ ہی انہیں کوئی ایسا کرنے سے روک رہا تھا۔ وہ اپنی دھن
میں مست تھے۔
ڈاکٹروں کی ہڑتا ل ساتویں روز میں شامل ہو چکی تھی۔ سرکاری ہسپتالوں میں
بیس کے قریب غریب مریض لقمۂ اجل بن چکے تھے۔ ان کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔
دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کو کئی کئی لاکھ بانٹے جا چکے تھے
لیکن ان بچاروں کے لئے ہمدردی کا ایک لفظ بھی میسر نہ تھا۔ ڈاکٹروں کے مرض
کا حکومت کے پاس کوئی علاج نہ تھا ۔ وہ کینسر کی طرح پھیلتا جا رہا تھا ۔
جب کہ کوئی ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ کلینک سے ایک بھی چھٹی نہیں کر رہا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچے جھنڈیاں کھیلتے کھیلتے ہار جیت کا مرحلہ بھی طے کرتے اور جو ہار جاتا
وہ بھاگ کے جا کے پانچ، دس روپے کی اور جھنڈیاں خرید لاتا اور اس طرح وہ ’
کلی، جوتا‘ مسلسل چلتا رہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اساتذہ سرکاری اداروں میں اپنی اپنی اکیڈمیوں کے شاندار نتائج سے کلاسوں کو
اگاہ کر رہے تھے۔ اور ان کو انتہائی مؤ ثر انداز میں قائل کر رہے تھے کہ وہ
ان کی اکیڈمی میں ہی پڑھنے آئیں۔ سرکاری اداروں میں داخلہ تو امتحان میں
بیٹھنے کے لئے ہوتا ہے اور پڑھنے کی جگہ تو صرف اکیڈمی ہوتی ہے۔ بہت سے بچے
کالجوں اور سکوں مین داخلہ لینے سے پہلے ہی اکیڈمیوں میں جانے لگ پڑے تھے
کیوں کہ ان کے سارے دوست بھی تو اکیڈمیوں میں جا رہے تھے۔
بچوں نے کچھ جھنڈیاں گلی میں پھینک دی تھیں اور کچھ نالیوں میں بھی گر گئی
تھیں اور پانے کے ساتھ بہتے ہوئے اپنا نیا ٹھکانہ ڈھونڈ رہی
تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست دان ایک دوسرے پر کیچڑ اجھالنے میں بے لگام ہوتے جا رہے تھے۔ ان کا
باتیں تضادات کا مرقع بن چکی تھیں لیکن ان کو اس بات کی کوئی فکر نہ
تھی۔پارلیمان میں بعض کی حاضری نہ ہونے سے بھی کم تھی لیکن پھر بھی مراعات
پوری پوری انجوائے کر رہے تھے۔ان پالیمینٹیریئنز کی زبان سے اثرات کے تحت
عام لوگوں کی زبان بھی غلیظ ہونے لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کے پاس جو جھنڈیاں تھیں ان کا رنگ صرف سبز نہ تھا وہ نیلی، پیلی، سرخ
اور نارنجی سب رنگوں کی تھیں۔۔۔ لیکن انہیں ان رنگوں سے کوئی فرق نہ پڑتا
تھا ۔ وہ بس اپنا ’ کلی جوٹا‘ کھیلے جا رہے تھے
اسلام جس کے لئے یہ وطن حاصل کاا گیا تھا وہ ا، س، ل اور م میں تقسیم ہو
چکا تھا ۔ اس کے رہبر ہی اسے لوٹ چکے تھے۔ مذہبی لوگ ایک دوسرے کے خلاف اس
شدو مد سے بر سرِ پیکار تھے کہ سالم اسلام کہیں نظر نہ آ رہا تھا۔ نظریہ
پاکستان بھی ان رنگ برنگی جھنڈیوں کی طرح تبدیل ہو چکا تھا ۔
بچے جھنڈیاں کھیلتے کھیلتے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو چکے تھے لیکن انہیں
ایک دوسرے سے دور ہٹانے والا کوئی نہ تھا۔۔
ججوں نے سال ہا سال سے کسی مقدمے کا فیصلہ نہ تھا۔ انہیں بس ایک کام میں
مہارت تھی وہ وہ تھا اگلی تاریخ دینا
نہ ان سے کسی نے کچھ وضاحت مانگی اور نہ ان کی تنخواہ رکی۔ جبکہ درجہ چہارم
نے ایک چھٹی کی تو اس کی تنخواہ میں کٹوتی ہو گئی۔
بچے سرِ بازار جھنڈیاں پھینک کر جا چکے تھے۔ ان جھنڈیاں پر لوگوں کے قدم،
گاڑیوں کے ٹائر اور جانوروں کے پائے پڑرہے تھے اور وہ روندی جا رہی تھیں۔وہ
شرمندہ تھیں لیکن انہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
پاکستانی نوجوان انڈین فلموں کی کہانیاں اور گیت ایک دوسرے کو سنا رہے تھے۔
اور نئی آنے والی فلموں کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔ انڈین فلموں کے
ہیرو اور ہیروئنز کی تصاویر ہر موبائل فون سنٹر کی زینت بنی ہو ئی تھیں۔
خاکروب نے وہ جھنڈیاں کوڑے کے ایک ڈھیر میں لپیٹ دی تھیں وہ جھنڈیاں اپنی
عافیت اسی میں سمجھ رہی تھں کہ ان کو کوڑے میں دفن کر دیا جائے۔۔۔۔۔۔
|