مذہبی ہونابڑی اچھی بات ہے مگرمذہبی ہونے سے قبل یہ سمجھ
لینابھی ضروری ہے کہ مذہب کیاہے ،اس کے مطالبے ،تقاضے اوراس کے اثرات
کیاہیں۔اگریہ سب سمجھے بغیرہم مذہبی ہوگئے توسمجھ لیجیے ہم سے بڑا مذہب
کودھوکہ دینے والاکوئی اورنہیں ہوگاکیوں انسان اس صورت میںخیرکے بجائے شرکی
طرف چلاجاتاہے اوراسے پتہ بھی نہیں چلتا۔اسی لیے قرآن کریم میں اللہ نے
اپنے مقدس کلام کے متعلق فرمایاکہ ’’اسی سے لوگ ہدایت پائیں گے اوراسی سے
گمراہ ہوں گے۔‘‘اس کاکیامطلب ہوا؟مطلب یہ کہ کسی چیزکے مصداق ،اس کے پس
منظراورپیش منظرکوسامنے رکھنانہایت ضروری ہے ورنہ نتائج خطرناک ہوسکتے
ہیںاس لیے ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انسان کومذہب کی جتنی
ضرورت ہے اتنی ہی زیادہ ضرورت مذہبیت کی صحیح تعریف اوراس کے صحیح استعمال
کی بھی ہے ۔یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ کبھی کبھی ہمارے رویوں ،رجحانات
اورمعمولات پرہمارے مخالفین یامخالفین کی صف میں شمارہونے والے افرادکی
جانب سے جومنفی تبصرے اورمطالبے آتے ہیںان میں کہیں نہ کہیں حقیقت ہوتی ہے
اورکچھ نہ کچھ ملی جلی صداقت بھی،گوکہ یہ تبصرے اورمطالبے عصبیت ،نفرت
اورغلط فہمی میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیںمگرہماری کمیونٹی کے بعض سنجیدہ طبقوں
کویہ غوروفکرکی طرف مائل ضرورکرجاتے ہیںاورانہیں سوچنا پڑتا ہے کہ واقعی ہم
سے کہیں نہ کہیں غلطیاں ہورہی ہیں اورمذہبیت کے نام پرلامذہبیت کوفروغ
دیاجارہاہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ہمیں ان کےازالے کی تگ ودو کرنی چاہیے۔ اگرہم
آج اس کی اصلاح کی طرف مائل نہیں ہوئے توکل مخالفین کے ان تبصروں کی نوکیں
مزیدتیزاورنوکیلی ہو جائیں گی جو ہمارے دردمیں مزیدشدت کاباعث ہوںگی ۔
گزشتہ دنوں بالی ووڈکے معروف نغمہ نگارسونونگم کےاذان کے متعلق کیے گئے
ٹوئیٹ کو سامنے رکھیے توگفتگوسمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ہمیں سونونگم کے
نظریات سے بالکل اتفاق نہیں البتہ نغمہ نگارکے تبصرے کے بعض پہلو ضرور قاہل
توجہ ہیں اوردراصل یہی اس تحریرکے اصل محرک ہیں۔آئیے دیکھیے کہ ہم سے
غلطیاں کہا ںہورہی ہیں۔
ہمارےمحلے میں ہرسال بارہویں شریف کے موقع پرگلیوں کوسجایاجاتاہے ۔ایک سال
نہیں بلکہ کئی برسوں تک ایساہواکہ حسب معمول گلیاں سجیں اورجنریٹرکوگلی کے
نکڑ پر رکھ دیاگیا۔میراگھراسی نکڑپرہی واقع ہے ۔میری والدہ کی طبیعت
اکثرخراب رہتی ہے ۔(اللہ انہیں صحت سے نوازے اورہم پران کاسایہ دراز
فرمائے۔آمین )اُن دنوں کچھ زیادہ ہی خراب تھی ۔رات بھرجنریٹرچلتارہااوراس
کی آوازیں میری والدہ کوپریشان کرتی رہیں ،ذمے داروں کو اس طرف متوجہ بھی
کرایاگیامگروہ اسے ٹال گئےاورمیری امی کی چڑاچڑاہٹ میں اضافہ کرگئے۔کیایہی
ہے مذہیبت؟کیایہی ہے سیرت نبوی کا سبق ؟
چھوٹے قصبوں اوردیہاتوں میں آج بھی یہ رواج ہے کہ رمضان المبارک میں سحری
کے وقت مسجد کا لائوڈ اسپیکرکھول دیاجاتاہے اور پورے گائوں کوجگایاجاتاہے ،اندازہ
کیجیے جوگھرمسجدکے قریب واقع ہیں ان کے گھرمیں کوئی بچہ ، بوڑھا یا بیمار
ہوگا تولائوڈاسپیکرکی یہ آواز کیا انہیں تکلیف نہیں دے گی ؟میراگھرچوں کہ
مسجدکے بالکل عین سامنے ہے اس لیے جب جب مسجد کا لائوڈ اسپیکر بجتا ہے تواس
کی آوازسیدھے ہمارے گھرکے صحن سے ٹکراتی ہے جس سےگھرمیںسونے والوں کو سونا
دو بھر ہوجاتا ہے ۔ کیا یہی ہے مذہبیت اورتدین ؟
ممبئی سمیت تقریباًہرجگہ ہرشہرکے مسلم اکثریتی علاقوں میں کئی مسالک کے لوگ
آباد ہوتے ہیں اسی لیے وہاںکئی مسالک کی مسجدیں بھی ہوتی ہیں ۔بعض مسجدیں
توبالکل قریب قریب ہی ہوتی ہیں ۔ایک مسجد کی اذان ختم نہیں ہونے پاتی کہ
دوسری مسجد کی شروع ہوجاتی ہے ۔اریب قریب کے لوگ بہت چاہتے ہوئے بھی کچھ
نہیں کہہ پاتے ۔ المیہ یہ نہیں ہےکہ لائوڈ اسپیکر بجتاہے المیہ یہ ہے کہ
ہماری’’ مذہبیت‘‘ اذان کی آواز کودوردورتک پہنچانے پر اصرارکرتی ہے اس لیے
وہ یہ نہیں دیکھتی کہ کس کوتکلیف ہورہی ہے اورکسے فائدہ پہنچ رہاہے ۔یہ بھی
مشاہدے میں ہے کہ مسجدوں کے لائوڈ اسپیکربہت دورتک بلکہ اپنے محلے سے نکال
کردوسرے محلے میں بھی لگادیے جاتے ہیں۔ارے بھئی!تقریباًہرمحلے میں ایک نہ
ایک مسجدضرورہوتی ہےاوراذان خصوصاًمحلے کے نمازیوں کومتوجہ کرنے کے لیے ہی
دی جاتی ہے اس لیے دورتک یاایسی جگہ لائوڈاسپیکرلگانے کاکیامطلب ہے جہا
ںدوسری مسجدواقع ہے یاوہ علاقہ دوسری مسجدکی حدودمیں واقع ہے ؟کیااسی کانام
ہے مذہبیت اور تدین؟
ہماری یہی ’’مذہبیت‘‘ اور’’تدین ‘‘ہے جس نے غیروں کومخالفت کرنے پرآمادہ
کیااورہم اس پرسنجیدہ ہونے کوتیارہی نہیں۔،مجھ جیسے لوگوں نے اگرسمجھانے کی
کوشش بھی کی توپھرانہیں ہمارا’’ایمان وعقیدہ‘‘ہی ’’خطرے ‘‘ میں
نظرآیااورہمیں ’’خارج‘‘ہی کردیاگیا۔کیایہی ہے مذہبیت ؟ اسی لیے ہم جیسے
لوگ خامو ش بیٹھے ہیں اورآنے والے واقت کاانتظارکررہے ہیںکیوں کہ وقت بہت
بڑامنصف ہے۔ وہ غیرجانب داری سے فیصلہ کرے گاکہ کون ’’مذہبی‘‘ہے اورکون ’’غیرمذہبی‘‘۔آپ
بھی انتظارکیجیے ،ہم بھی کرتے ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔
|