تحریر: حوریہ ایمان ملک (سرگودھا)
نیوز چینل پر ابھی بھی نیوز چل رہی تھی ۔ زلزلے کی شدت کے باعث بہت سا جانی
و مالی نقصان ہوا تھا ۔ اس افسوس ناک خبر نے ڈاکٹر ارسل کو مزید افسردہ
کردیا۔ اچانک فون بیل بجی ٹی وی ریموٹ سے ٹی وی کا والیوم کم کرکے انہوں نے
کال ریسیو کی۔ ہیلو ڈاکٹر ارسل۔ دوسری طرف سے سنائی دینے والی آواز میں
اضطراب نمایاں تھا ۔
یس ڈاکٹر ارسل سپیکنگ ۔ ارسل نے تحمل سے جواب دیا۔ آپ ایک گھنٹے میں ہاسپٹل
پہنچیں۔ ڈاکٹر آصف نے ارجنٹ میٹنگ بلائی ہے۔دوسری طرف سے انہیں فون کرنے کی
وجہ بتائی گئی۔اوکے ۔ دونوں طرف رابطہ منقطع ہوگیا ۔ ارسل نے فون رکھ کر
ماں کے کمرے کی جانب قدم بڑھا دیے۔
وہ دوائیوں کے زیر اثر تھیں اسی لیے ابھی سو رہی تھیں۔ ارسل نے ان کی
پیشانی پر بوسہ لیا اور ملازمہ آسیہ بی بی کو چند ضروری ہدایات دے کر
ہاسپٹل کے لیے روانہ ہوگئے۔ سارا رستہ وہ ماں کی بیماری کے متعلق سوچتے رہے۔
آدھے گھنٹے بعد وہ ہاسپٹل پہنچ چکے تھے۔ اسپتال کے تمام بڑے ڈاکٹرز میٹنگ
میں موجود تھے۔ ڈاکٹر آصف نے قابل ڈاکٹرز کی ایک ٹیم تشکیل دی اور انہیں
زلزلہ زدگان کے علاج کے لیے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں فرائض سرانجام دینے
کوکہا۔ اس ٹیم میں ڈاکٹر ارسل کا نام بھی شامل تھا بلاشبہ وہ ایک قابل
ڈاکٹر تھے عام حالات میں وہ اپنی اس ڈیوٹی سے خوش ہوتے کیونکہ انسانیت کی
خدمت کرکے انہیں سکون اور خوشی ملتی مگر آج وہ تذبذب کا شکار تھے ۔
ڈاکٹر ارسل کے پاس صرف تین گھنٹے کا وقت تھا انہوں نے تیاری کرنی تھی مگر
انہیں بیمار ماں کی فکر لاحق تھی ۔وہ اپنی ماں کے اکلوتے بیٹے تھے اپنی
بوڑھی بیمار ماں کا واحد سہارا ۔ یہ وقت بہت کٹھن تھا انہیں بیمار ماں اور
اپنے پیشے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا ۔ ایک طرف ماں تھی تو دوسری
طرف انسانیت ۔ڈاکٹر ارسل ماں کے حقوق ادا کرنا چاہتے تھھ مگر انہیں فرض بلا
رہا تھا ۔ وہ فیصلہ نہیں کرپارہے تھے کیونکہ وہ منصف نہیں تھے وہ تومسیحا
تھے اپنی مسیحائی سے زخموں پہ مرہم لگانا چاہتے تھے ۔ وہ چند لمحے آنکھیں
موندے ان ماؤں کی اذیت کو محسوس کرنے لگے جن کے لخت جگر مسیحاء کے منتظر
تھے وہ ان ماؤں سے ان کے بچوں کو بچھڑتا نہیں دیکھ سکتے تھے ۔وہ معصوم بچوں
کو ماں کی دائمی جدائی کے دکھ سے بچانا چاہتے تھے ۔ اب کی بار ان کے دل نے
فیصلہ کیا جو ارسل نے چپ چاپ مان لیا۔
ماں اور پیشے میں سے انہوں نے پیشے کا انتخاب کیا گوکہ فیصلہ مشکل تھا مگر
وہ فرض قضا نہیں کرنا چاہتے تھے انہیں اپنے فرض کو سرانجام دینا تھا ۔
ڈاکٹر ارسل نے اپنے دوست ڈاکٹر احمد کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا اور اپنی
ماں کی تمام تر زمہ داری آسیہ بی بی اور ڈاکٹر احمد کے سپرد کرکے روانگی کی
تیاری کرنے لگے ۔ جانے سے قبل وہ ماں سے ملنے کے لیے آئے۔ ارسل نے بیمار
ماں کی آنکھوں میں ویسی ہی فکر دیکھی تھی جیسی ان کے لیے بچپن میں ہوا کرتی
تھی ۔ وہ ماں تھی بولنے سے قاصر تھی مگر انکی خاموشی دعا بن کر دل سے نکل
رہی تھی ۔ وہ ماں سے ملنے کے بعد سفر کے لیے روانہ ہوگئے ۔ مگر انکا دل ماں
کے لیے بے چین اور فکرمند تھا۔
زلزلے سے متاثرہ مریضوں میں زیادہ تر تعداد بچوں کی تھی ۔ ارسل نے دکھی
انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر دن رات مریضوں کا علاج کیا اور فرض
شناس ڈاکٹر ہونے کا ثبوت دیا۔ زلزلے کے باعث مواصلاتی نظام تباہ ہوچکا تھا
جس کی وجہ سے ڈاکٹر ارسل اپنے گھر رابطہ نہ کرسکے۔ اپنے فرائض منصبی نبھاتے
ایک ہفتہ گزر چکا تھا ایک ہفتے بعد رابطے بحال ہوگئے ۔ ڈاکٹر ارسل نے فوراْ
ڈاکٹر احمد سے رابطہ کیا ۔ مگر ڈاکٹر احمد نے انہیں روح فرسا خبر سنائی جس
نے ارسل کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ۔
ڈاکٹر ارسل کے جانے کے بعد دوسرے روز ہی ان کی ماں کو اٹیک ہوا مگر اب کی
بار زندگی نے مہلت نہ دی اور وہ خالق حقیقی سے جاملیں۔ ڈاکٹر ارسل اپنی ماں
کا آخری دیدار بھی نہ کرسکے ۔ انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر اس پہاڑ
جیسے دکھ کو سہہ لیا ۔ اب ڈاکٹر ارسل پہلے سے زیادہ لگن سے انسانیت کی خدمت
کرنے لگے ۔ تمام ڈاکٹرز اور مریض انکے جذبے کو سراہتے ۔
ایک مہینہ بعد جب ڈاکٹر ارسل کی واپسی ہوئی تو تمام ڈاکٹرز اورہاسپٹل اسٹاف
نے ان سے ماں کی تعزیت کی اور ان کی خدمات کی تعریف کی ۔ ڈاکٹر ارسل نے
اپنے پیشے کو ماں پر ترجیح دی کیونکہ ان کے پیشے سے ہزاروں زندگیاں وابستہ
تھیں ۔ جبکہ ان کی زندگی ان کی ماں سے وابستہ تھی۔ ان کی زندگی کی شمع بجھ
چکی تھی مگر وہ ہزاروں شمعیں روشن کرچکے تھے۔
ڈاکٹر ارسل اپنی ماں کی قبر کے پاس بیٹھے بے آواز آنسوؤں سے رورہے تھے ۔
ماں کی جدائی کا دکھ آنسو بن کر بہہ رہا تھا۔ مگر وہ جانتے تھے وہ اپنی ماں
کا فخر ہیں ان کی ماں کی دعاؤں کے ساتھ اب نجانے کتنی ماؤں کے دل سے نکلی
دعائیں ان پہ سایہ فگن ہیں۔ انہی دعاؤں نے ارسل کو نئے سرے سے جینے کا
حوصلہ بخشا ۔ جو شمعیں انہوں نے بجھنے سے بچائی ہیں وہ ان کو اک نیا راستہ
دکھارہی تھیں ،نیکی اور خیر کا راستہ۔
|