تحریر: ارم فاطمہ،لاہور
ہم سبھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ فرد کی تربیت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔
پھر اسکول کی بنیادی تعلیم اس کی شخصیت اور کردار کی تعمیر کرتی ہے۔ ساتھ
ساتھ وہ معاشرے کے افراد کے ساتھ میل جول اور بات چیت کے ذریعے بہت کچھ
سیکھتا ہے۔ اچھی تعلیم اچھا ماحول اور اچھی صحت اس فرد کی سوچ کو نکھارتی
ہے۔ زندگی کی ہر سطح پر وہ رہنمائی کرنے والے استاد سے بھی بہت کچھ سیکھتا
ہے۔
مگر یہ کہنا بے جا ہے کہ تربیت کی ضرورت صرف ایک طالب علم کو ہوتی ہے۔ وہ
ناکام یا کامیاب صرف اپنی محنت یا نا اہلی کی وجہ سے ہوتا ہے ، کہیں کہیں
اس میں کردار ان اساتذہ کا بھی ہوتا ہے جن سے وہ فیض حاصل کرتا رہا ہے۔اس
لئے ضروری ہے کہ اساتذہ کی تربیت سازی پر بھی بات کی جائے۔ کہتے ہیں رہنما
اگر سخت اور کٹھن منزلوں کا انتخاب کرتا ہے تو اس کی پیروی کرنے والے بھی
زندگی کو امتحان سمجھ کر اس کے ہر موڑ پر اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لا
کر سبھی رکاوٹوں کو دور کرتے چلے جاتے ہیں۔
واصف علی واصف کہتے ہیں: ’’استاد علم نہیں دیتا ، علم کی پیاس دیتا ہے۔ اگر
پیاس مل جائے تو علم خود بخود چل کر آتا ہے ‘‘۔ اگر استاد طالب علم میں
تشنگی اور تڑپ پیدا کردے علم حاصل کرنے کی جستجو ایک بار بیدار ہوجائے تو
وہ علم حاصل کرنے کے لئے نئے نئے راستے تلاش کریں گے۔ اس کے حصول کے لئے
راستے میں آئی ہر رکاوٹ کو عبور کریں گے۔ علم کے لئے کتاب بھی خریدیں گے۔
اسکالرشپ کے حصول کی کوشش کریں گے۔ اس کے لئے ہجرت بھی کریں گے اور بڑی سے
بڑی قربانی بھی دیں گے۔
اگر آپ آج کی دنیا میں اپنا ایک مقام بنانا چاہتے ہیں ایک بہترین استاد
بننا چاہتے ہیں تو خود میں صفات پیدا کریں خود کو منوائیں۔ کیونکہ جب بچے
آپ کی شخصیت اور علم کے امتزاج سے متاثر ہوں گے تبھی ادب کریں گے اور علم
کی طلب میں آگے بڑھیں گے۔ اگر یہ تبدیلی آپ میں نہیں آتی توجو تعلیم آپ
انہیں دیں گے وہ ان کے لئے کیرئیر اور روزگار میں تو مددگار ہوگی مگر ان کی
شخصیت میں وہ پر کشش عوامل پیدا نہیں ہوں گے جو انہیں معاشرے کا ممتاز فرد
بنا سکے۔ تعلیم اندر کی تبدیلی کا نام ہے۔تربیت کا دوسرا پہلو ہے۔ خود
شناسی کا راستہ ہے۔
تعلیم ایک بہترین شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور اس
راستے میں منزل تک پہنچانے کا فریضہ ایک بہترین استاد ہی سر انجام دے سکتا
ہے۔استاد کی بہترین تعریف یہ ہے کہ وہ ایک متاثر کن شخصیت ہوتا ہے۔ اس میں
برداشت اور ظرف ہوتا ہے جو علم کو پھیلانے اور شخصیت کو بنانے میں بہت
مددگار ہوتا ہے۔ انہیں اپنے مضامین پر عبور ہوتا ہے۔ وہ انسانی مزاج اور
نفسیات سے آگاہی رکھتا ہے تبھی وہ تمام طالب علموں کے نفسیاتی اور تعلیمی
مسائل سے واقف ہوتا ہے جو انہیں علم کے حصول میں پیش آتیں ہیں۔ وہ ان کا
رہنما بن جا تا ہیجو زندگی کے ہر مشکل مرحلے میں ان کا ساتھ دینے والا بن
جاتا ہے۔اس کی شخصیت سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
اشفاق احمد فرماتے ہیں :’’ شخصیت کے چبھنے والے کاموں کو گول کریں تا کہ
کسی کو نقصان نہ پہنچے اور وہ خوبیاں جن سے دوسروں کو فائدہ ہو ان کو پالش
کریں ‘‘۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی شخصیت کی یہ خوبی ہے یہ ہنر ہے کہ
وہ اپنے ارد گرد ہم نفسوں سے اور ماحول سے کسی نہ کسی حد تک متاثر ہو کر
کامیابی کے رستے پر قدم رکھ دیتی ہے۔ جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں وہ کسی نہ
کسی سے متاثر ہوتے ہیں۔ اور ان کی کامیابی کے پیچھے کہیں نہ کہیں استاد کا
کام بھی ہوتا ہے کیونکہ انسان پر کسی کی نصیحتیں اتنا اثر نہیں کرتیں جتنا
کہ رویہ اثر کرتا ہے۔
اگر استاد کی محنت سے شاگرد کی شخصیت بن رہی ہے تو پھر وہ بہت بڑا کام کر
رہا ہے۔ وہ اپنے طالب علموں کو اچھا اخلاق دے رہے ہیں۔ان کے اندر اچھی
خوبیاں ابھار رہے ہیں۔تو یہ سب اس کے نصیب کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی کے
مقصد اور منزل کی تلاش میں آسانی پیدہ کر رہے ہیں۔ کسی بھی سسٹم کو صحیح
طریقے سے چلانے کے لئے اچھے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج اگر تعلیم کا معیار
گر رہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس شعبے میں مخلص اور اپنے پیشے سے
محبت کرنے والے لوگ بہت کم ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس پیشے کو
مقدس سمجھ کراسے دل سے اپنایا ہے اور مسلسل اس کی بہتری کے لئے کام کر رہے
ہیں۔
جس طرح تعلیمی نظریات وقت کے ساتھ ساتھ بدل رہے ہیں اسی طرح استاد کے
پڑھانے کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ آج کی جدید تعلیم
حاصل کنے والا طالب علم جو کمیونیکیشن اور سائنس پڑھ رہا ہے اور ایک ہاتھ
میں موبائل اور ایک ہاتھ میں لیپ ٹاپ میں ساری دنیا لئے گھوم رہا ہے وہ
اپنے استاد سے کیونکر متاثر ہو سکے گا اگر وہ انہیں اپنے سے ایک قدم آگے
نہیں دیکھے گا۔ ان کے علم کے خزینے اوراکیسویں صدی کے جدید نظریات سے ہم
آہنگ نہیں پائے گا تو لازمی بات ہے اسے ایک تشنگی ایک پیاس محسوس ہوگی۔ ایک
کمی کا احساس ہوگا۔
بعض استاد ایسے ہوتے ہیں جو سلائیڈز کا سہارا لیتے ہیں اور باقی طالب علم
کی اپنی سمجھ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ ایسے استاد بھی ہوتے ہیں جو ایک بار سے
دوسری بار سمجھانے میں غصے کا سہارا لیتے ہیں۔جس سے طالب علم میں جستجو کا
فقدان اور رتا لگانے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ استاد کا بنیادی کام یہ
ہے کہ کسی بھی بات کے نظریے اور مفروضے یا مواد کو آسانی کے ساتھ طالب
علموں کے ذہن میں بٹھا دے اس ہنر سے کہ جیسے کوزے میں دریا بند کر دیا ہو۔
آپ آئن اسٹائن کی ’’ اسپیشل تھیوری آف ریلیٹو‘‘ کی شہرہ آفاق کامیابی سے
واقف ہوں گے۔ کتنے سادہ اور آسان الفاظ میں اس نے سمجھا دیا کہ اگر آپ ایک
خوبصورت لرکی کے ساتھ وقت گذار رہے ہوں تو آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا کیسے
ایک منٹ میں صدیاں گذر گئیں۔ اور اگر آپ کو جلتے کوئلوں پر بٹھا دیا جائے
تو ایک ایک پل بھی صدیاں بن کر گذرے گا۔
یہ استاد کی کامیابی ہوگی کہ نہایت مختصر اور جامع انداز میں اپنے طالب
علموں کو ہر بات سمجھائے بجائے اس کے کہ ایک طویل اور لاتعلق باتوں سے طالب
علموں میں لیکچر سے بیزاری کا سبب بنے۔آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے
کہ آج استاد، ادارے، اکیڈمیاں، اسکولز صرف نمبر دلا رہے ہیں۔ ان کے لئے فخر
کی بات ہوتی ہے کہ ان کے طالب علم اچھے گریڈ لا رہے ہیں۔لیکن وہ طالب علم
زندگی میں کتنا کامیاب ہے ،اس کا مورال کتنا بلند ہے، وہ معاشرے کا کتنا
اچھا فرد ہے، کتنے اچھے پاکستانی ہیں، کتنے اچھے انسان ہیں ،کتنے اچھے شہری
ہیں ،کتنے اچھے بیٹے ہیں، اس پر ان کا دھیان نہیں۔
استاد کی تربیت سازی سے جڑی ایک طالب علم کی شخصیت کانکھرنا نہ صرف اس کی
اپنی ذات ،اس کے گھر اور اس معاشرے کے لئے ضروری ہے بلکہ مستقبل کی آنے
والی نسل انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس ملک کے مستقبل کا تعین کرے گی۔
آنے والی نسل کی بہترین آبیاری کے لئے استاد کی شخصیت میں انہی تمام مضبوط
عوامل کا ہونا بہت ضروری ہے شاید تبھی ہم جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو
سکیں اور اپنے ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر سکیں اور
ایک بلند معیارقوم کی حیثیت سے سربلند ہو سکیں۔ |