آزادی سے آزادی تک

آزادی کا مطلب سیاسی ، سماجی ،ثقافتی ، مذہبی ، معاشی اور معاشرتی طور پر مکمل خودمختاری ہے۔اور آزادی کے اس مقصد کے حصول کے لئے کچھ ضابطہ اخلاق وضع کیا جاتا ہے جس کو ریاستی زبان میں قانون یا آئین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔انسان فطری طور پر آزاد پیدا ہوتا ہے مگر دنیا میں آمد کے بعد اس کو بہت سے حقوق و فرائض کا بھی پاس کرنا پڑتا ہے۔انسان کے حقوق میں دو بنیادی حقوق ہیں ۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد۔ حقوق اﷲ تو خالصتاً اﷲ کے ساتھ منصوب ہیں جبکہ حقوق العباد بندوں کے ساتھ جڑے ہیں۔اگر ہم ان دو طرح کے حقوق کا وسیع تناظر میں جائزہ لیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ دراصل یہ حقوق ہماری مذہبی ، معاشی اور معاشرتی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔اور ان تمام حقوق کو پورا کرنے کے لئے ہمارا آزاد ہونا بہت ضروری ہے۔

شائد یہی وہ وجہ تھی جس کے لئے ہمارے آباؤ اجداد نے بہت سی قربانیاں دیں جس کے نتیجے میں وطن عزیز معرض وجود میں آیا۔چودہ اگست 1947؁ٗ؁ء کا دن ہمار ے بزرگوں کی لازوال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔یہ وہ دن تھا جس کے لیے قائداعظم محمد علی ؒ جناح کی قیادت میں ایک طویل سیاسی جدوجہد کی گئی۔اور اس سیاسی جدوجہد میں ہمارے بڑوں کا خون بھی شامل ہے ۔بہت سے لوگ جب ہجرت کر کے پاکستان آئے تو ان کو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آنا پڑا ۔ اور تقسیم کے وقت جو قتل عام ہوئی اس کے نتیجے میں جو زخم سہے گئے ان کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔میرے بابا جی(دادا جان) اکثر تقسیم ہند کی داستان سناتے سناتے رونا شروع کر دیتے تھے۔میں نے زیادہ تر مطالعہ پاکستان ان سے پڑھی ہے۔اور یہ مطالعہ ہمیشہ ان کی پر نم آنکھوں سے شروع ہوتا تھا جو کہ داستاں ختم ہونے تک اشکوں کی صورت اختیار کر لیتا تھا۔یہاں پر ایک بات واضح کر تا چلوں کہ بابا جی عام انسان نہیں تھے بلکہ ایک بہادر فوجی تھے جنہوں نے 1938؁ء میں بطور سپاہی برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی اور جنگ عظیم دوئم میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔اور یہی نہیں بلکہ غازی بن کر آزادی کے بعد بھی ملک و قوم کے لیئے دفاعی مورچوں پر اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔1965؁ء کی جنگ میں بھی انہیں دوبارہ بلایا گیا جس میں بھی انہوں نے دفاعی مورچوں پر اپنے ملک کا دفاع کیا اور اس طرح دو جنگوں کے غازی ہونے کا بھی انہیں اعزاز حاصل تھا۔یہ سب بیان کرنے کا مقصد ان کی بہادری کو بیان کرنا نہیں بلکہ ان جیسے بہادر فوجی کے آزادی کے حصول اور پھر تقسیم ہند کے ذکر پر آنسو بیان کرنا تھا جو آزادی کی دردبھری داستان بیان کر رہے تھے۔وہ محمد علیؒجناح کی قائدانہ صلاحیتوں کے بہت دلدادہ تھے اور اس وقت کی تمام سیاسی و مذہبی قیادت انتہائی ایماندار کے گن گاتے تھے۔میں اکثر ان سے ایک سوال ضرور پوچھتا تھا کہ بابا جی اب تو ہم آزاد بھی ہوچکے اور پھر اتنا وقت بھی بیت چکا آپ آج بھی اس وقت کو یاد کر کے کیوں دکھی ہوتے ہیں۔ان کا جواب میرے ضمیر پر کئی سوال چھوڑ جاتاتھا۔ وہ اکثر کہتے تھے بیٹا کیا اس لیئے آزادی حاصل کی تھی ۔اور پھر جیسے سکتہ سا طاری ہو جائے ۔لمبی آہ بھرنے کے بعد پھر شکوؤں کی طویل داستان جو کہ ان کے اشکوں کے ساتھ بھیگتی ہی چلی جاتی تھی۔ اور آخر کار وہ انہی گلے شکوؤں کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔اﷲ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے۔

آج میں جب کبھی ان کی باتوں کو یاد کرتا ہوں تو من ہی من میں شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ ان تمام برائیوں کی نشاندہی کرتے تھے جو آج بھی ہمارے اندر موجود ہیں۔ جن برائیوں کو ختم کرنا کسی بھی آزاد ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔وہ کرپشن ہو، اقربا ء پروری ہو ، رشوت خوری ہو یا پھر قانون شکنی ہی کیوں نا ہو۔آج جب ہم سترواں یوم آزادی منانے جا رہے ہیں تو بطور قوم کیا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہ ہی فلاحی ریاست ہے جس کا خواب قائداعظم ؒ نے دیکھا تھا؟ تو انتہائی معذرت کے ساتھ جواب نفی میں ہی آئے گا۔کیونکہ گود سے لے کر یونیورسٹی تک ہمیں تعصب، نفرت اور کینہ ہی نظر آئے گا۔جس قوم کو عظیم قوم بنانے کا خواب قائد نے دیکھا تھا وہ فرقوں میں بٹ چکی۔ اور یہ فرقے مذہبی بھی ہیں اور سیاسی بھی۔ ہر کوئی مفتی بنا پھرتا ہے مفت میں کفر کے فتوے بانٹے جا رہے ہیں۔روشن خیال لوگ غیروں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور قوم کو پھر سے انگریز سامراج کا غلام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔غریب اور امیر کے درمیان حد فاصل بڑھتی جا رہی ہے۔قانون بنانے والے ہی قانون توڑنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ریاستی ادارے مفاد عامہ کی بجائے چند طاقتور شخصیات کی خدمت کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔رشوت اور سفارش معمول میں شمار ہوتی ہے۔ہر سال تقریباً دس لاکھ نئے بیروزگار ، بیروزگاروں کی فوج میں بھرتی ہو رہے ہیں۔ملک کی معیشت بیرونی قرضوں پر چل رہی ہے۔درآمد شدہ اشیاء استعمال کرکے ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں نوجوان اکثریت میں ہیں اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس نوجوان نسل کے لئیے مواقع بہت کم ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ روزگار کے حصول کے لیے دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ایسے میں بہت سے احباب مجھ سے اختلاف کرتے ہیں اور اکثر کہتے ہیں جناب پاکستان بہت خوبصورت ہے اس کا مثبت پہلو بھی پیش کر دیا کریں تو ان احباب سے گزارش ہے جناب میرا رونا بھی یہی ہے کہ اس ملک کو اﷲ تعالیٰ نے بہت سے قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے یہاں پر چار موسم ہیں ، بہاریں بھی آتی ہیں۔ یہاں پر خوبصورت پہاڑ بھی ہیں اور ان سے بہنے والی خوبصورت آبشاریں بھی۔ اس ملک میں کھیت بھی ہیں اور کھلیان بھی ،دنیا کی بڑی نمک کی کان بھی ، سونے کے ذخائر بھی ، تیل بھی ، گیس بھی،اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کی ذہین قوم بھی ، جس قوم کے بچے گوگل کے مہمان اپنی ذہانت کی وجہ سے بنتے ہیں۔ دنیا کے کم عمر ترین مائکروسافٹ انجنیئر بھی اسی قوم سے ہیں۔یہ ملک دنیا کی پانچویں بڑی فوج اور اسلامی پہلی ایٹمی قوت کا مالک ہے۔یہاں پر گلیشیر بھی ہیں اور کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے دریا بھی۔دنیا کے ساتھ تجارت کرنے کے لئے اﷲ نے اس ملک کو سمندر بھی دیا اور دنیا کی سب سے گہرے سمندر پر بندرگاہ بھی۔دنیا کا تیسرا خوبصورت دارالخلافہ بھی اس ملک کا حصہ ہے۔اس ملک میں کشمیر بھی ہے جسے دنیا میں جنت کے ساتھ تشبیح دی جاتی ہے۔بابا جی کہا کرتے تھے بیٹا اﷲ نے اس ملک کو دنیا کی ہر نعمت سے نوازہ ہے مگر چند مفاد پرست بد عنوان عناصر اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔وہ افراد خواہ حکومت میں ہوں یا حکومتی اداروں میں یا پھر کاروباری طبقہ ہو ۔ ہر کوئی صرف اپنے مفاد کی سوچتا ہے ملک کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔جب اپنے وطن عزیز کی اس حالت زار کو دیکھتا ہوں تو اپنے بھرے ہوئے زخم پھر سے تازہ ہو جاتے ہیں۔جب تحریک آزادی چلی تھی تو لوگوں نے جس آزادی کا خواب دیکھا تھا ہم آج بھی اس آزادی سے محروم ہیں۔ اور جو آزاد ہوئے ہیں وہ مادر پدر آزاد ہوگئے۔ جن کے اوپر کوئی بھی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ وہ ملک کو کاروبار کی طرح چلا رہے ہیں ۔ جس کا فائدہ تو صرف ان کی ذات کو ہوتا ہے مگر نقصان میرے وطن کا ہوتا ہے۔بابا جی کی سب باتیں سچ ہوتی نظر آتی ہیں اور ان کا وہ سوال کسی نشتر سے کم نہیں کہ ہم نے اس لئے آزادی حاصل کی تھی؟میں اکثر سوچتا تھا کہ ایک بہادر آدمی رو کیسے سکتا ہے مگر اب احساس ہوتا ہے کہ محب وطن لوگوں کا رشتہ اپنے وطن سے روح کا ہوتا ہے اور جب ان کی روح کو زخم دئیے جائیں تو آنکھوں کا نم ہونا فطری عمل ہے۔میری باتیں اگر افسانہ معلوم ہو رہی ہوں تو آپ ایک طاقتور کرپٹ ناہل انسان کے اپنی عدالتوں کے بارے میں بولے گئے جملوں پر غور کریں حقیقت آشکار ہو جائے گی۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ جب عدالت نے کرپشن،بدعنوانی اور جھوٹے ہونے کا تصدیق شدہ سرٹیفیکیٹ دے دیا تو احساس ندامت ہوتی ۔مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی مثال سچ ثابت ہو رہی ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں ہمارا ملک و قوم ترقی کرے اور عوام کو حقیقی معنوں میں آزادی نصیب ہو ۔تو ہمیں اپنے معاشرے میں چھپی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنا ہو گا اور بدعنوان اشرافیہ سے ہمیشہ کے لیے اس ملک کو نجات دلانا ہو گی۔اور اس کار خیر میں سب سے اہم کردار عوام کا ہو گا۔اور اگر ہم بطور قوم یہ سب کرنے میں ناکام رہے تو قائد کا مقصد ادھورا رہے گا اور بابا جی کا سوال کانوں میں گھونجتا رہے گا ۔اﷲ تعالیٰ ملک و قوم کی حفاطت فرمائے آمین۔

Muhammad Zulfiqar
About the Author: Muhammad Zulfiqar Read More Articles by Muhammad Zulfiqar: 20 Articles with 15567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.