قیام پاکستان ۔۔۔۔نعمت باری تعالیٰ

تحریک پاکستان چند دہائیوں کا قصہ نہیں ہے بلکہ جدوجہد آزادی کی تاریخ بہت قدیم اور طویل ہے،برصغیر میں انگریز سامراج کے خلاف علم بغاوت کرنے والے میسورکے حیدر اور ٹیپو سلطان ہوں یا سید احمد شہید ،جنگ آزادی کے سربکف مجاہدین ہوں یا علمی و فکری تحریک شروع کرنے والے مولانا محمد قاسم نانوتوی اور سرسید احمد خان ،مالٹا کے جزیرہ میں پس زندان آزادی کی شمع روشن کرنے والے شیخ الھند محمود حسن اور ان کے شاگردمولانا حسین احمد مدنی ہوں یا ریشمی تحریک سمیت مزاحمتی تحارک کے روح رواں مولانا عبیداللہ سندھی ،مصورپاکستان علامہ محمد اقبال ہوں یا برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے راہنما محمد علی جناح ہوں ،الغرض جدوجہد آزادی کے لیے جگر سوز محنت کرنے والا ہر خاص و عام مسلمان ایک ہی مقصد"انگریزی سامراج سے آزادی کاحصول "کے لیے ہمہ تن گوش تھا ۔

بلاشبہ انگریز کی آمد سے پہلے برصغیر پر مسلمان سلاطین نے اس وسیع و عریض خطے پر بے مثال حکومت کی جس کے تحت ہندوستان میں بسنے والی تمام قومین اور مذاہب کے لوگوں بہترین طرز زندگی گزار رہے تھے ،مگر انگر یز کے منحوس قدموں کے ساتھ برصغیر سے علم ،امن ،اتحاد ، باہمی رواداری اوربرداشت گویا کہ روٹھ ہی گئی ،جہاں ایک طرف انگریز نے درسگاہوں کو ویران اور تبا ہ کیا وہیں مذاہب اور مسالک میں بغض و عدوات کی آگ کو ہوا دی ،ایک طرف ہندوستان کے معدنی خزانوں پر ہاتھ صاف کئے تو دوسری طرف ہندوستانی تجارت پر خوب ہاتھ صاف کئے ۔یہی وجہ تھی جو ں جوں انگریز کی گرفت اس خطے پر مضبوط ہو رہی تھی اسی طرح ہندو مسلم فسادات اور دوریاں تیزی سے بڑھ رہی تھیں یہاں تک کہ لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ’ کا یہ 3 روزہ اجلاس 22 مارچ 1940کو شروع ہوا، جس کے افتتاحی اجلاس سے قائداعظم محمد علی جناح نے خطاب کیا انہوں نے 37/1936 کے پہلے انتخابات کے نتائج کے تناظر میں کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا،اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں،جب کہ دوسرے دن 23 مارچ کوبنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو۔مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنماچوہدری خلیق الزماں ، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب، سندھ کے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی،جسے 23 مارچ کے اختتامی اجلاس میں منظور کرلیا گیاجب کہ اپریل 1941 مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔

اسلامیان ہند کی آزادی کے لیےجدوجہد کے نتیجہ میں 3 جون 1947 کو وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن نے اعلان کیا کہ حکومت برطانیہ برصغیر کو آزاد کرنے کا ارادہ کرچکی ہے اور ملک ہندو مسلم اکثریتی علاقوں میں منقسم ہوگا،چنانچہ مسلم لیگ نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور اس طرح 14 اگست 1947ءبمطابق 27 رمضان المبارک 1320ھ کو دنیا کے نقشے پر پاکستان معرض وجود میں آیا ،یاد رہے کہ قیام پاکستان کے وقت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی جب کہ پاکستان آنے والے مسلمانوں کا بدترین قتل عام کیا گیا۔
 
بانیاں پاکستان قیام وطن کے بعدتعمیر واستحکام پاکستان کے لیے انتہائی پرعزم تھے جس کے لیے انہوں نے انتھک محنت کی اور درپیش مسائل پر قابو پانے کی بھرپور کوشش بھی کی ، قائد اعظم محمد علی جناح نے حکومت پاکستان کے افسروں سے 11اکتوبر1947ءکو خطاب کرتے ہوئےفرمایا کہ ”جس پاکستان کے قیام کے لیے ہم نے گزشتہ دس برس جدوجہد کی ہے۔ آج بفضل تعالیٰ ایک مسلمہ حقیقت بن چکا ہے، مگر کسی قومی سیاست کو معرض وجودمیں لانا مقصود بالذات نہیں ہو سکتا، بلکہ کسی مقصد کے حصول کے ذریعے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی تصور کو پوری طرح پنپنے کا موقع ملے۔ جب کہ 28 دسمبر 1947کو کراچی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد، یقینِ محکم اورتنظیم ہی وہ بنیادی نکات ہیں جو نہ صرف یہ کہ ہمیں دنیا کی پانچویں بڑی قوم بنائے رکھیں گے بلکہ دنیا کی کسی بھی قوم سے بہتر قوم بنائیں گے۔

اسی طرح بانی پاکستان نے 14 اگست 1948ء کو قوم کے نام پیغام میں فرمایا تھا کہ ’’پاکستان کا قیام ایک ایسی حقیقت ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا محال ہے‘ اگر ہم نے پوری دیانتداری‘ خلوص اور مستعدی سے کام کیا تو پاکستان بہت جلد اہلِ عالم میں شاندار حیثیت اختیار کر لے گا،مجھے پورا اعتماد ہے کہ پاکستانی عوام ہر موقع پر اسلامی تاریخ کی روایات‘ عظمت اور شان و شوکت کو زندہ کر دکھائیں گے۔

بلاشبہ مملکت خداداد پاکستان اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمی ہے ،اورپاکستان کا وجود پوری اسلامی دنیا کے لیے سرمایا افتخار ہے،اس میں دورائے نہیں ہیں کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے وطن عزیز کو اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے ،جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دشمن ہر وہ چال چل رہا ہے جس سے وہ اپنے مذموم مقاصد کا حصول ممکن بنا سکے مگر ہر پاکستان دو قومی نظریہ کو بنیاد بناتے ہوئے ،بانیان پاکستان کے وژن کے مطابق تعمیر و استحکام وطن کے لیے اپنا کردار اد اکرنا شروع کردے تو بقول قائد اعظم محمد علی جناح "مجھے پورا اعتماد ہے کہ پاکستانی عوام ہر موقع پر اسلامی تاریخ کی روایات‘ عظمت اور شان و شوکت کو زندہ کر دکھائیں گے"۔

Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 247082 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More