کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے ، اس کی آبادی
لگ بگ دوکروڑ ہیں، کراچی میں اس وقت چھ اضلاع ہے ان میں سب سے بڑا ضلع ،ضلع
غربی ہے، جس میں ایشیاء کی سب سے بڑی کچھی آبادی اور ایشیاء کی سب سے بڑی
ماربل انڈسٹری واقعہ ہے ، ضلع غربی میں جہاں اور کئی نامور مقامات ہے ، وہی
اس ضلع میں ایک روڈ جس کو منگھوپیر روڈ کہا جاتا ہے منگھو پیر روڈ قدیم ،
نامور اور اہم روڈ تصور کیا جاتا ہیں۔ یہ روڈ لیاری ندی (نذد گارڈ ن) ریکسل
پل سے شروع ہوتا ہوا پرانا گولیمار، پاک کالونی ، بڑا بورڈ، حبیب بینک ،پٹھان
کالونی، بنارس قصبہ ، ایم پی آر، نیا ناظم آباد،پختون آبادسے آگے منگھو پیر
کراس کر کے سرجانی موڑ پر ختم ہوتا ہے ۔کھل ملا کر تیرا سے چھودا کلو میٹر
کا یہ سڑک انتہائی برے حال میں ہے ٹوٹ پھوٹ گڈر کا ابل نا ،دھول مٹی اس روڈ
پر ایسا منظر پیش کرتی ہے کہ جیسے اس روڈ پر عالمی جنگ میں بمباری ہوئی ہو
اور تب سے یہ دوبارہ بنا ہی نہیں ہو ۔ اس روڈ کی ایردگردآٹھ یوسیاں پڑتی ہے۔
منگھوپیر روڈ کراچی کا ایک اہم سڑک ہے جس پر روزانہ لاکھوں لوگوں کا آنا
جانا لگا رہتا ہیں۔ مذکورہ روڈ پر سفر کرنا کسی اذیت سے کم نہیں لیکن
مذکورہ سڑک کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، اورنگی ٹاون ،سائٹ ٹاؤن اور بلدیہ
ٹاؤن کی گنجان آبادی کا روزانہ کی بنیاد پر شہر کے دیگر علاقوں تک جانے کے
لیے منگھوپیر روڈ پر سے گذر ہوتا ہے لیکن سڑک کی خستہ حالی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ
سے سفر درد سر بن جاتا ہے۔
اگر کوئی شخص اس سڑک پر ریکسل پل سے منگھوپیر کی طرف جانے کے لئے روانہ
ہوگا تو سب سے پہلے ریکسل پل سے پرانا گولیمار چورنگی تک اس کو روڈ کا ایک
ٹریک بند ملے گا یہ پچھلے دس مہینے سے بند ہے تعمیراتی کا م ہے اس کا
بہانا۔آگے اس کو پاک کالونی بڑا بورڈ تک روڈ قابل استعمال ملے گا ، مگر
پتھاروں کی وجہ سے بعض اوقات ٹریفک جام کا مسئلہ رہتا ہے ۔ بڑا بورڈ سنگل
دن بھر جام رہتا ہے موٹرسائیکل والے تنگ گلیوں میں نکل جاتے ہے لیکن چار
پہیوں والی گاڑیاں گھنٹوں ٹریفک جا م پسی ہوئی ہوتی ہیں ۔ اس میں کچھ تو
ٹریفک نظام کی ناقص پالسی ہے لیکن اس سے زیادہ روڈ ٹریفک جام کا زمہ دار ہے
، کیوں کے بڑابورڈ سنگل پر روڈ میں بڑے بڑے گڈھے اور اس کے ساتھ اکثرسیورئج
کا گندہ پانی بھی تالاب کے شکل میں جمع ہوتا ہے۔ آگے نورس چورنگی سڑک دونوں
جانب انتہائی خاستہ حالی کا شکار ہے۔اس کے بعد حبیب بینک پل تک کچھ گزارہ
ہے لیکن پر وہاں سے جو ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگی اس کا کوئی پرسان نہیں حبیب بینک
پل سے لیکر ولیکا ہوزری مارکٹ تک صرف ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہے منگھوپیر روڈ ،
لیکن ہوزری مارکٹ سے لیکر پٹھان کالونی تک ایک ٹریک چلنے کے قابل ہی نہیں
ہے ، وجہ سیوریج کا پانی واٹر بورڈ کی مین لائنوں میں لیکج ہر وقت پانی سے
بھرا رہتا ہے دور سے اگر دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی تالاب
ہے ۔ آگے جاؤ تو بنارس باچاخان چوک آئیگا ، بنارس باچاخان چوک پر واٹر بورڈ
کی غفلت روڈ کی ٹوٹ پھوٹ کا ذمہ دار ہے پانی کی لائن میں لیکج کی وجہ سے
بنارس چوک اکثر اوقات سیلاب کا منظر پیش تو کرتا ہی ہے لیکن پانی سڑک پر
کھڑے رہنے سے ایک طرف ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے تو دوسری طرف پانی کی
وجہ سے سڑک کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے ناہموار سڑک پر سفر کسی امتحان سے
کم نہیں ایک ایسا امتحان جس میں کا میابی کے لیے مظبوط اعصاب اور صبر کی
ضروت پیش آتی ہے۔ آگے قصبہ موڑ تک صر ف ٹوٹ پھوٹ ہے لیکن سڑک کی صاف صفائی
کا کام نہیں ہوتا اس لئے دھول مٹی کی وجہ سے آنے جانے والوں کے ساتھ مقامی
لوگوں کو بھی شدید پریشانی کا سامنا لگا رہتا ہیں ۔ قصبہ موڑ ے لیکر بلوچ
گوٹھ تک سڑک کا ایک حصہ مکمل ناقابل استعمال ہے ،جس کی وجہ بلوچ کالونی میں
منگھوپیر روڈ پر قائم واٹر ہائیڈرنٹ سے نکلنے والے پانی نے سڑک کی حالت
موئن جودڑوں کر رکھی ہے مذکورہ ہائیڈرنٹ کئی بار سڑک کو برباد کرچکی ہے
لیکن ہائیڈرنٹ مالکان کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی نہیں کی گئی کچھ عرصہ
قبل مذکورہ سڑک کو ہلکا پھولکاکیا گیا تھا ، لیکن ایک بار پھر واٹر
ہائیڈرنٹ نے سندھ حکومت کے بجٹ سے تعمیر ہونے والی سڑک کا نقشہ تبدیل کردیا
۔ ٹریفک کے د باؤ کی وجہ سے سنگل روڈ پر ہمیشہ ٹریفک جام رہتا ہے۔ بلوچ
گوٹھ سے لیکر قصبہ ،ایم پی آر اور آگے نیا ناظم آباد بھٹوموڑ تک یہ سڑک
انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ کراچی نہیں بلوچستان کے
پاسماندہ علاقہ ہے ۔ دھول مٹی اتنی ہے کہ اگر کوئی شخص روزانہ موٹر سائیکل
پر بغیر ہلمٹ کے آئے جائے تو ایک ہفتے میں وہ پھیپڑو کے مرض کا شکار ہوجائے
، یہی صورت حال سرجانی موڑ تک ہے۔ مذکورہ تیرا چھودہ کلو میٹر روڈ پرصفر
کرنا’’ کے ٹو ‘‘کے پہاڑ کو سر کرنے سے کم نہیں ۔
مذکورہ سڑک کی خراب حالت کے علاوہ اس روڈ پر اسٹریٹ لائٹ کی غیر موجودگی
بھی رات کے اوقات میں سفر کو غیر محفوظ بنا تی ہے ،منگھو پیر رود پر جہاں
سفر کرنا مشکل ہے وہی پر سڑک کی ٹوٹ پھوٹ کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے
اسٹریٹ کرائم سے وابستہ جرائم پیشہ افراد کھلے عام لوٹ مار کرتے ہیں اورکسی
کو بھی زخمی کرکے با آسانی فرار ہوجاتے ہیں ۔ سڑک میں جگہ جگہ گڈوں سے
ٹریفک سست رفتاری سے چلتی ہے، اس سست رفتاری کے باعث اسٹریٹ کرائم کی
وارداتوں میں مسلسل اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ منگھوپیر روڈ کا ذیادہ تر
علاقہ ضلع غربی میں شامل ہے اور منگھوپیر روڈ کے دونوں اطراف کی زیادہ طر
آبادی پختونوں اور بلوچوں کی ہے جبکہ اورنگی ٹاون کی اردو اسپیکنگ آبادی کی
گذر گاہ بھی منگھوپیر روڈ ہی ہے لیکن عوامی نمائندوں کوشایدضلع غربی کی
عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں یا شاید انہیں یاد ہی نہیں کہ مذکورہ
آبادی کے عوام نے ووٹ دیکر انہیں اسمبلیوں تک پہنچایا اور ووٹ دینے کا مقصد
اپنے مسائل حل کروانے تھے کراچی کے علاقے ضلع غربی کی عوام کے مطابق ضلع کی
ایک بڑی آبادی مزدور پیشہ ہے جن کے پاس وزراء اور چیئر مینوں کے دفاتروں کے
چکر لگانے کا وقت نہیں جبکہ وزراء اور یوسیز کے چیئر مینوں کے پاس غریبوں
کے مسائل حل کرنے کے لیے ٹائم نہیں وزراء اورسیاسی شخصیات ہر بار انتخابی
مہم کے دوران عوام کو سبزباغ دکھا کر بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں
اور عوام ہر پانچ سال انتظار میں گذار دیتے ہیں اور یہ سلسہ کئی دہائیوں سے
جاری ہے اور نہ جانے کب عوامی مسائل کے حل کے لیے حکمران سنجیدہ ہونگے۔
حکمرانوں ، ڈی سی اورمقامی سیاسی منتخب نمائندوں کی عدم دلچسپی سے ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ منگھوپیر روڈ کراچی کا حصہ ہی نہیں اور یہی وجہ ہے
منگوپیر روڈ کی خستہ حالی کا ۔۔۔
اﷲ ہمارے حال پر رحم فرمائے (آمین)
|