اسکول چلیں ہم

تقریبا سبھی تعلیمی ادارے کھل چکے ہیں بچوں نے جہاں اپنے بستے کسے ہیں والدین نے بھی اپنی کمر کس لی ہے , اور دونوں ہی پوری دلجمعی اور نئے امنگ وحوصلہ کیساتھ ایک نئی پرواز کے لیے بالکل تیار ہیں -
بہر حال بچے اپنی اگلی جماعتوں میں پہنچ چکے ہیں ,ظاہر ہے ہمیشہ ماضی سے حال " مزید " کا طلبگار ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ جہت ہے جو انسانوں کو کامیابی کی طرف لے جانے والی ہوتی ہے - تو والدین یا سرپرست ہونے کے ناطے ہمیں خود کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ کیا اس "مزید " کو ہم صحیح معنوں میں اپنے لیے بطور چیلنج قبول کررہے ہیں یا پھر کم سے کم تھوڑا بہت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ,... آئیے دیکھتے ہیں
بچوں کو صرف نئے بیگ ,شوز,یونیفارم ,اور قیمتی پنسل باکس یا لنچ باکس دلادینے سے کیا ہم مکمل طور سے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں .......
شاید ہم میں سے بہتوں کا جواب ہاں ہو ,لیکن
ہر گز نہیں!! یہ ہماری خوش فہمی ہے کہ اگر بچوں کو مادی طور پر ہم Fullfillرکھیں تو بچوں کی کامیابی لازمی ہے - اسکے برعکس حقیقت تو یہ ہیکہ بچوں کو تعلیمی اسباب و وسائل مہیا کرانے کیساتھ ساتھ ہر قدم پر انکی رہنمائی , نگرانی , انکے ساتھ باہمی مشاورت بھی ہونی چاہیے ,جو تعلیم و تربیت کے کٹھن مراحل میں شاید سب سے ضروری ہے وہ ہے وسائل اور مورل سپورٹ ...دونوں لازم وملزوم ہیں -
بلکہ میرا اپنا ذاتی خیال ہیکہ وسائل کی کمی کیساتھ تو انسان اپنی منزل کو پاسکتا ہے - لیکن جب حوصلے اور عزائم کی پرواز ڈھیلی ہو تو پھر قدم زمین کا ساتھ نہیں چھوڑتے کامیابی اور ترقی کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا -
اسی لیے آئیے شروعات کرتے ہیں-
اس نئے اکیڈمک سال میں " اسکول چلیں ہم "
ایک سرسری سی نگاہ ہم غیر مسلم سرپرستوں پر بھی ڈال لیتے ہیں کہ انکے یہاں پر کیسی تیاری جاری ہے وہ اپنے بچوں کو لیکر انکے مستقبل کو لیکر کسقدر متحرک اور فکر مند ہیں ,
یہاں بچے کے ماں اور باپ دونوں ہی بڑی مستعدی سے کلاس کے فرسٹ ڈے پر ہی بچوں کے نئے ٹیچرز سے ملتے ہیں - باہمی تعارف کرواتے ہیں اور اپنے بچوں کی بہترین کارکردگی کیلیے اساتذہ سے توجہ کی درخواست کرتے ہیں - اور بچے کے تعلق سے ہمیشہ رابطہ میں رہنے کے کوشش کرتے ہیں -یہ میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ, جن بچوں کے سرپرست اپنے بچوں کے تعلیمی ریکارڈ یا کلاس میں اسکی اچھی پر فارمنس کے لیے زیادہ فکر مند ہوتے ہیں اور اسی کی خاطر مسلسل وہ اہنے بچوں کے اساتذہ سے رابطے میں رہتے ہیں , تو ایسے طلباء کو ترجیحی طور پر اپنے اساتذہ کی زیادہ توجہ حاصل ہوتی ہے وجہ خواہ کچھ بھی ہو والدین کے استفسار کا خوف یا پھر انکی اپنی جوابدہی کا احساس ,بہر حال ہمیشہ فائدے میں ایسے ہی بچے ہوتے ہیں جنکے والدین کے اساتذہ سے اچھے تعلقات قائم ہوں - بہ نسبت ان بچوں کے جنکے والدین کو پورا تعلیمی سال مکمل ہونے کے بعد بھی ٹیچر پہچان نہیں پاتی ,
ایک بزرگ غیر مسلم آٹو والے نے ہمارے مسلم بچوں کیلیے آب زر سے لکھی جانے اور شرم سے ڈوب جانے والی باتیں کہیں انھیں اصلاح و تدارک کی خاطر یہاں آپ سے شئیر کرتی ہوں -
ہوا یوں کہ ہاسپٹل سے ہم گھر لوٹ رہے تھے رات کے دس بج رہے تھے , ہمارے شوہرنے آٹو گھر تک لیجانے کو کہا جس پر رکشہ والے نے نہ صرف انکار کیا بلکہ ہمیں جو نصیحت کی وہ انتہائی اہم اور افسوسناک ہے -
" "میں کبھی مسلم محلوں یا علاقوں تک اہنی گاڑی نہیں لیجاتا کیونکہ مسلم لڑکوں نے کئ بار ہمارا کرایہ نہیں دیا اس پر اہنے علاقے میں لیجاکر دھونس الگ جمائی اور جو کچھ ہماری جیب میں تھا وہ بھی چاقو دکھاکر صاف کرلیا آپ ہمیں ہزار روپئے بھی دیں گے نا مالک !! تو بھی ہم اپنی گاڑی اندر نہیں لے جائیں گے کیونکہ ہمارے اس بوڑھے شریر نے تیرہ چودہ سال کے لونڈوں سے جسو قت مار کھائی ,,, طمانچے ہمارے چہرے پر لگے تھے لیکن , آج تک ہماری آتما پر گھاو ہیں چہرے پر لگی چوٹوں کیوجہ سے ہم کئ دن تک لوگوں سے اپنا منہ چھپاتے پھرتے رہے بتاتے بھی تو کیا بتاتے !!!!
آپ کا دھرم کتنا مہان ہے اور اسکے دھروہر ایسے ہیں .....
ہم نے کہا سب تو ایسے نہیں ہیں بس ذرا تربیتی فرق ہے انھوں نے کہا سب ایسے ہی ہوجائیں گے دیکھ لینا آپ لوگ پھر انھوں نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ مسلم بچوں کے بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ اسباب و وسائل کی کثرت اور انکی بیجا فراہمی . بات بے بات بچوں کو پیسہ دیتے رہنا اس طرح کم عمری سے ہی ان پر پیسہ حاوی ہوجاتا ہے - آپ لوگ پیسے کی بجائے اہنے بچوں کو اپنا ٹایم اور پیار دیں تب دیکھیے گا آپ کے بچے بھی ہمارے بچوں کی طرح دیش کے وکاس کا حصہ بنیں گے اور ایک اجول بھویشیے انکے پاس ہوگا وہ بڑے چھوٹوں کی عزت کرنا سیکھ جائیں گے -ں
بہر حال یہ ایک سچا واقعہ تھا جسے ہم نے سنا اور ہو بہو آپکے گوش گزار کردیا ایک غیر مسلم ,ناخواندہ بزرگ ہمیں تربیت پر درس دے گئے اور سوچنے پر مجبور کردیا کہ دنیا کی نظروں میں ہماری کیا امیج بن چکی ہے, ہماری ناقص تعلیم وتربیت نے ہمارے بچوں کو عیش پرست ,سھل پسند اور اپاہج بنا کر رکھ دیا ہے-
جیسے کہ ایک مشہور دانشور کا کہنا ہے کہ’’ یتیم وہ بچہ نہیں ہے جسے اس کے والدین دنیا میں تنہا چھوڑ گئے ہوں، اصل یتیم تو وہ ہیں جن کی ماؤں کو تربیت اولاد سے دلچسپی نہیں ہے اور باپ کے پاس انھیں دینے کے لیے وقت نہیں۔‘‘
گھر اور بچے ہی معاشرے کی اکائی ہیں، اگر یہیں گرفت مضبوط ہو جائے تو آگے معاشرہ بھی پابند ہوجاتا ہے اور اقدار کی حفاظت ہوسکتی ہے۔

ایک بات یہاں سمجھنے والی ہے کہ خود سے رتبہ اور پیسہ میں بلند انسان کی عزت تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن عظیم انسان تو وہ ہے جو معاشرے کے نچلے لوگوں کی بھی عزت کرتا ہو ,بچہ کو متواضع اور خاکسار بنانا چاہیے تاکہ وہ دودھ والے سے لیکر چوکیدار ,تک سبھی کی عزت کرنیوالے بنیں اور یہی اسوہ بنی رحمت کا بھی ساری عمر رہا –
Facility+Responsibility
اس ضابطہ کو گر ہم نے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی پر بٹھالیا تو سمجھو سو فیصد کامیابی ہماری ہی ہوگی کیسے !!!!!! وہ اس طرح کہ جب بچوں کو بہت زیادہ آسانی اور ذرائع فراہم نہیں کیے جائیں گے تو وہ بخود کفایت شعاری اور قناعت پسند بنتے چلے جائیں گے انھیں اپنے وقت اور پیسے دونوں کی قدر آجائیگی , وہ محنت کے عادی بنیں گے.ابتدا یہ سب چیزیں تھوڑی مشکل معلوم ہوں گی کبھی بچے بہت بے بس معلوم ہوں گے,کبھی ہم خود کو ظالم تصور کرنے لگیں گے , لیکن یقین رکھیں وہ ہمارے لیے ایک صبر آزما مرحلہ ہوگا ,جس ہر ہمیں اپنا جی کڑا کرنے کی ضرورت ہے , تاکہ ہمارے بچوں کی شخصیت تعمیر ہوسکے اور سماج کو بہترین اور جفاکش افراد مل سکیں -اور محنت کرنے کی یہی عادت بچوں کو حقیقی معنوں میں ایک کامیاب ترین طالب علم بناتی ہے , اور یہی عادت ہمیں اہنے بچوں کے اندر پیدا کرنی ہے –

‌بچوں کی عمر اور انکی جماعت کے لحاظ سے انکی صفائی و ستھرائی کا بھی خیال رکھنا چاہیے روز مرہ کی وہ چیزیں جنھیں لیکر بچہ اسکول جاتا ہے انکی روزانہ صفائی کریں - بچے کو سلیقہ اور منظم ہونے کے فوائد بھی بتائیں آہستہ آہستہ وہ اس ترتیب کے اتنے عادی ہوجائیں گے کہ, بے ترتیبی انھیں خود کوفت میں مبتلا کرنے والی ہوگی- بچے اپنے والدین کا آئینہ ہوتے ہیں کیا کوئی چاہے گا کہ آئینہ میں انکا عکس گدلا نظر آئے ..... اسلیے بچے اور اسکی تمام ضرورت کی چیزوں میں صفائی کا خاص خیال رکھیں –
ہمارے مشاھدےمیں یہ چیز بھی ہونی چاہیے کہ ہم دیکھیں کہ ہمارا بچہ کھاتا کیا ہے اسکی خوراک میں کیا چیزیں شامل ہیں ,کیونکہ
بچے کی ذہنی نشونما تو تبھی ممکن ہے جب اسکی جسمانی نشونما مناسب طریقے سے ہوگی اسلیے ضروری ہےکہ بچے کیلیے ایک بہترین ڈائیٹ تیار کی جائے جو اسکی جسمانی نشونما میں معاون ہو-

بچوں کا دوران تعلیم کم از کم چھ گھنٹہ پر مشتمل ہوتا ہے یا اس سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے , یہ ایک لمبا وقت ہے اور اس دوران بچہ ذہنی طور پر کافی تکان محسوس کرنے لگتا ہے جو اسکے جسمانی اعضاء کو بھی متاثر کرتا ہے لہذا اس سےبچنے کیلیے اسے مقوی اور غذائیت سے بھر ہور ناشتہ دیا جانا چاہیے یا کم سے کم اسکا لنچ باکس اتنا ہیلتھی ہونا چاہیے -
اس معاملے میں بھی ہم غفلت کا شکار ہیں , بچے صبح صرف چائے یا رسک کھاکر اسکول کو بھاگتے ہیں کیونکہ انھیں ناشتہ بناکر دینے والی مائیں رات کو دیر تک جاگنے کی وجہ سے صبح اٹھ نہیں سکتیں ,ماوں کے پاس بھی ایک معقول عذر ہے ,,کیا کریں وہ بھی جب شوہر آدھی رات کو گھر آتے ہیں پھر سارے گھر کو کھانے سے فارغ ہوتے ہوتے رات کا پچھلا پہر شروع ہوجاتا ہے .ان گنت گھروں کا یہی لائف اسٹائل ہے لیکن یہ یاد رکھیں !!! آپ جس کسی بھی پیشہ سے تعلق رکھتے ہوں,آپکے کام کا کوئی اثر بچے پر نہیں ہونا چاہیے بچہ" بچہ " ہے اسے بچہ ہی رہنے دیں - آپ اپنی ذمہ داریوں کو یہاں سے وہاں کر سکتے ہیں لیکن بچے کا معصوم سا ذہن اور ناتواں وجود ایسی غیر ذمہ داریاں نہیں جھیل سکتا, اسے ذمہ داریاں نبھانا سکھائیں ناکہ اپنی عدم ذمہ داریوں کا بوجھ اس بیچارے پر ڈال دیں –

صرف چائے پی کر چھ گھنٹہ کی اسکول اٹینڈ کرنے والے بچوں کا کلاس میں کس قسم کا کانسنٹریشن رہتا ہوگا مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ,
یہ خالصتا ماوں کی ذمہ داری ہے اور اسے خواتین ایک ذمہ داری اور مامتا کے زیر احساس نبھانے کی کوشش کریں اگر آپکا بچہ آپکی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے صبح بھوکا رہ جاتا ہے تو پھریہ بات بھی سمجھ لیں کہ دن کے بقیہ حصے میں انکو مہنگی سے مہنگی غذائیں کھلانے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا , صبح کے ناشتےکی اپنی الگ افادیت ہے اسلیے براہ کرم اسکاخیال رکھیں, سننے میں بظاہر ناشتے والی بات معمولی لگتی ہے لیکن فی الحقیقت اسکے بہت سے طبی نقصانات ہیں اسلئے اگر آپ زیادہ اہتمام کی متحمل نہیں تو ٹیکنالوجی سے اپنی مشکلات کو آسان کریں بچے کی ناشتہ یا ٹفن کی چیزوں کو رات میں ہی تقریبا تیار کر کے ریفریجیٹر میں رکھ دیں صبح دوبارہ گرم کرکے استعمال کرلیں-
Quality time
بچوں کو اپنا کوالٹی ٹائم دیں زیادہ سے زیادہ وقت بچوں کیساتھ بتانے کی کوشش کریں
پورے انہماک کیساتھ انکی باتیں سنیں ,انکی اسکول کی تیاریوں میں انکا پورا ساتھ دیں -آج ہم میں سے ہر دوسرے والدین کی یہ شکایت ہیکہ انکا بچہ انکی بات نیں مانتا ! میں کہتی ہوں ہم بڑے اگر دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف ایک گھنٹہ اپنے بچوں کیلیے وقف کردیں وہ بھی اس طرح کہ ہمارے ہاتھ میں کوئی گیڈجٹ نہ ہو, نہ ہی ہماری نظریں ٹی وی اسکرین پر ہوں ,ہمارا دل کچن یا پڑوسیوں میں نہ لگا ہوا ہو تو!!!! سو فیصد یقینی طور پر بچے ہماری ہر بات مانیں گے اس ایک گھنٹہ کی لالچ میں۔۔۔۔۔ جو گھنٹہ پوری طرح صرف انکا ہوتا ہے جسمیں وہ والدین کی پوری توجہ اور شفقت و محبت پاتے ہیں-
,,کہنے کا سیدھا مطلب یہکہ , مکمل طور پر فری ہوکر بچے کو صرف ایک گھنٹہ دے دیں اس سے ڈھیروں باتیں سنیں ,کریں ,سمجھیں اسکے ننھے سے شفاف ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دیں گر وہ آپکے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے تو اسکے ساتھ کھیلیں بھی آپکی اچھل کود سے بھلے ہی گھر کے صوفے اور میز ٹوٹ جائیں لیکن !!!!!بچے کا دل نہ ٹوٹنے پائے - اسطرح بچہ آپ کے ساتھ رہ کر پر اعتماد بنے گا ان شاءاللہ

بہت سے والدین نے بچوں کو وقت دینے کا ایک طریقہ یہ نکالا کہ چھٹیوں کےدن بچوں کو مالز لیکر چلے جاتے ہیں اسمیں کوئی قباحت ہر گز نہیں ہے لیکن ایک بہت بڑی حقیقت تو یہ ہیکہ
بچوں کو "مال "Mall کی نہیں "ماحول "کی ضرورت ہے ; بچے کی تفریح اور خوشی کی خاطر آپ نے جو وقت مال کیلیے نکالا وہ وقت درحقیقت آپ نے اپنے بچوں کو نہیں دیا بلکہ قومی اور بین الاقوامی سرمایہ داروں کو دیدیا کیونکہ بچہ وہاں بھی برقی ماحول میں گھرا ہوتا ہے وہی سفاک ماحول وہی تنہائی جو اسے گھر کی چہار دیواری میں ملتی ہے فرق صرف یہ ہوتا ہیکہ گھر میں بچہ صرف فیملی کیساتھ اکیلا ہوتاہے اور یہاں ہزاروں کی بھیڑ میں تنہا,,,,, گر بچوں کی حقیقی خوشی جاننا چاہتے اور دینا بھی چاہتے ہیں تو پہلے یہ جان لیں !!!!"مال" میں آپکا بچہ مادہ پرستوں کی بنائی گئ جنت سے اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا آپکے گھر آنگن میں آپکی توجہ پاکر وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا , گیمنگ زون کی جدید مشینیں اسے اتنا ایڈونچر نہیں دے سکتیں جتنا ایڈونچر اسے آپکی پیٹھ ہر سواری کرکے حاصل ہوتا ہے ایسے لمحوں میں آپ ا پنے بچوں کے کھلکھلاتے ہوئے چہروں پر ملین ڈالر والی اسمائیل دیکھ سکتے ہیں -
اسکول جانے سے پہلے اور واپسی کے بعد باقاعدگی سے بچوں کا اسکول بیگ چیک کرنا نہ بھولیں اسکے دو اہم فائدے ہیں پہلا یہ کہ ;بچہ اپنی جو چیزیں اسکول لیجائگا وہ واپسی پر اسکول سے گھر پہنچی یا نہیں ,دوسرا فائدہ روز مرہ کی چیکنگ سے بچہ ہمیشہ اس بات سے پر ہیز کریگا کہ وہ ہم جماعتوں کی چیزیں بلا اجازت یا چراکر گھر لے آئے ,عموما دیکھا گیا ہیکہ اچھے گھرانوں کے بچے بھی اسکول جاکر چوری جیسی عادتوں میں پڑ گئے ..
آخری اور اہم بات کہ!!!! کبھی بچے کو اس بات کا ایڈوانٹج نہ دیں کہ آپ کی تعلیم کم ہے یا آپ کو اس کے نصاب سے واقفیت نہیں ہے یا پھر آپ انتہائی کم پڑھے لکھے ہیں ,کیونکہ بچوں کی نفسیات یہ ہیکہ وہ کبھی خود سے کم علم انسان سے سیکھنا نہیں چاہتے ٹھیک اسی طرح جیسے ہم کبھی نہیں چاہتے کہ ہمارے گھر کی کلر اسکیم ہماری کام والی ماسی طے کرے ,ہمیں کونسی گاڑی لینی ہے یہ مشورہ ہمارا دھوبی دے - یہ باشعور انسان کی نفسیات ہیکہ وہ ایک کم علم سے مشورہ نہیں لیگا اور اگر کسی نے دے دیا تو اسے سن تو لیگا لیکن قبول نہیں کریگا ,
بالکل یہی سوچ ہمارے بچوں کی ہے بچوں کے سامنے اپنی کمیوں کا رونا نہ روئیں , اور نہ ہی بار بار خود کو جاہل قرار دیں آپکے بچے جب بھی آپکے پاس پڑھائی کی غرض سے بیٹھیں بھلے ہی آپ انکی نصابی کتاب سے ناواقف ہوں لیکن یہ ظاہر کریں کہ آپکو انکی ساری کتاب ازبر ہے اگر انھوں نے چھوٹی سی بھی غلطی کی تو وہ فورا دھر لیے جائیں گے اس طرح آپکا رعب ان ہر قائم رہیگا اور وہ آپکو اہنا سب سے بڑا ٹیچر تسلیم کریں گے-

 

ام ھشام
About the Author: ام ھشام Read More Articles by ام ھشام: 7 Articles with 5346 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.