اسلام مکمل ضابطہ حیات،امن وسلامتی کاعلمبردار اور
انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن ہے ،جب کہ اسلامی تعلیمات کی درسگاہیں
اسلام کے پیغام امن کی تبلیغ واشاعت میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں ،یہی
وجہ ہے کہ رو زاول سے آج تک دینی مدارس نے اسلامی تعلیمات کے ذریعے پورے
عالم کو منور کرکے ظلمت و گمراہی کے اندھیروں کو مٹا رکھا ہے ۔بلاشبہ اہل
نظر مسلم مفکرین نے بہترین مسلم معاشرے کی تشکیل سازی میں مدارس کی کلیدی
حیثیت کاواضح الفاظ میں اعتراف کیا ہے ،بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال
مرحوم "ان مدرسوں کو اسی حال پر رہنے دو۔ غریب مسلمانوں کے بچوں کو اِنہیں
مدارس میں پڑھنے دو۔ اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو
کچھ ہوگا، میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہم مدرسوں کے اَثر سے
محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں کی گئی آٹھ سو سالہ
اسلامی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے
نشانات کے سوا اسلام کے پیروکاروں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش
نہیں ملتا۔"
اس حقیقت کو کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اکابر علماء
کرام مولانا شبیر احمد عثمانی ،مفتی محمد شفیع اور دیگر نے اس ضرورت کو
محسوس کیا تھا اوراس فکر کو ارباب اختیا رتک بھی پہنچایا تھا کہ اب وقت آن
پہنچا ہے کہ دینی وعصری علوم کے امتزاج پر مشتمل ایک یکساں نصاب تعلیم مرتب
کیا جائے جو ایک مسلم معاشرے کی دینی ضروریات اورجدیدعصری تقاضوں کو یکساں
طورپر پر پورا کرسکے مگر بدقسمتی سے ہم دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کے میدان
میں بھی انگریز کی ڈالی ہوئی طبقاتی تفریق میں مزید تقسیم در تقسیم کے عمل
سے گرتے رہے ہیں ،اس قومی منظر نامے میں مدارس دینیہ نے دینی تعلیم کی بقا
اور ترویج و اشاعت کے لیے اپنے آپ کو منظم کیا اور وفاق المدارس اور دیگر
ناموں کے ساتھ منظم امتحانی بورڈتشکیل دیئے اور قوم کے لاکھوں بچوں اور
بچویوں کو تعلیم کےز یور سے آراستہ کیاجب کہ حکومت کی جانب سے ہمیشہ ان
اداروں کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کیا گیا ،اورہر دور میں مدارس کو ان
کی نہج سے ہٹانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں جب کہ حال ہی میں حکومت پنجاب
مدارس کی فنڈنگ پر قدغن لگانے کے لیے چیرٹی بل منظور کروانے کی تیاریاں
کررہی ہے ،میڈیارپورٹس کے مطابق صوبائی کابینہ سے یہ بل پاس کروانے کے بعد
اسمبلی میں پیش کیا جانا ہے ،اس بل کی منظوری کے بعد کوئی شخص یا ادارہ
حکومت کی اجازت کے بغیر زکوٰۃ ،صدقات ،عطیات اور چندہ نہیں دے سکے گا اور
نہ ہی مدارس دینیہ حکومت کے اجازت نامہ کے بغیر اسے وصول کر سکتے ہیں ،جب
کہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قید و جرمانہ کی سزا دی جائے گی ،اس
کے ردعمل میں تنظیمات المدارس نے متعلقہ حکام سے اس معاملہ میں پات چیت
کرنے اور ناکامی کی صورت میں ملک گیر احتجاج کا پروگرام تشکیل دینے کے
حوالے سے مشاورت شروع کردی ہے یادرہے کہ اس سے قبل بھی وفاقی اور صوبائی
حکومتوں کی جانب سے مدارس کو بند گلی میں لانے کے لیے مختلف ہتھ کنڈے
استعمال کئے گئے ہیں جن میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کے عمل کو پیچیدہ بنانا
،چرم قربانی جمع کرنے پر غیر اعلانیہ پابندی،دینی مدارس کے ذمہ داران کو
فورتھ شیڈول کی صورت میں ہراساں کرنے نیز سندھ حکومت کی طرف سے مدارس کے
خلاف کریک ڈاؤن، سندھ میں مرکزی شاہراہوں پر مدارس کی تعمیر پر پابندی
سرفہرست ہیں ۔
بلاشبہ مدارس کے خلاف پروپیگنڈا ہو یا پابندیوں کو سلسلہ ہر اٹھتا قدم
غیروں کی خوشنودی اور اشاروں کی چغلی کھا رہا ہوتا ہے ،جب کہ وطن عزیز کے
مدارس کی خدمات کاپاکستان سمیت پوری دنیا میں مؤقر پلیٹ فارمز پر اعتراف
کیا جاچکا ہے ،ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت پاکستان پاکستان کے ان محسن
اداروں کو سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کی غیر معمولی خدمات کے کے
اعتر اف میں جائز مقام عطا کرے ،اگر مدارس کے حوالے سے اس غیر حقیقی رویہ
کو تبدیل نہ کیا گیا تو ہمیں بحیثیت قوم قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا جس
کے بارے سابق وزیر مذہبی امور و صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ڈاکٹر
محمود احمد غازی نے جنرل مشرف سے واضح طور پر کہا تھاکہ "دینی مدارس کے
نظام میں اگر کوئی ایسی کوشش کی گئی جس سے ان کی آزادی اور خود مختاری میں
کوئی فرق پڑا ،تو نہ صرف یہ کہ ایسی کوئی کوشش قابل عمل نہیں ہو گی بلکہ یہ
ملک و ملت کے دینی مستقبل کے لیے انتہائی نقصان دہ اور تباہ کن بھی ہو گی۔ |