آدم زاد جس طرح خواہش سے باز نہیں رہ سکتا بعینہ وہ
مستقبل کے بارے میں تجسس نہیں چھوڑ سکتا کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ کیا ہو
سکتا ہے؟ کیا ہونا چاہیے؟ کبھی آس لگانا اور کبھی منصوبے بنانا ، زندگی
اسی سے عبارت ہے ۔ وہ لوگ بہت کم ہوتےہیں جو اس حصار کو توڑ کر نکل جاتے
ہیں۔یعنی جونہ ماضی کا گِلہ کرتے ہیں اور نہ ہی مستقبل کا تقاضا!وہ اور لوگ
ہیں۔
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو مستقبل کے بارے میں اندازے لگاتےرہتےہیں یا مفروضے
قائم کرتے رہتے ہیں ،کچھ نہ کچھ جمع تفریق کے قاعدے آ زماتے ہی رہتے
ہیں۔نتائج کبھی منفی اور کبھی مثبت۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ذات ، اپنی
عقل،اپنے علم کے علاوہ کسی اور شے پر اعتماد نہیں کرتے۔
کچھ لوگ بھولے بھا لے ہوتے ہیں مگرتجسس انہیں بھی گھیرے رہتا ہے۔وہ پھر
دوسروں کے کہے سے مستقبل کی اُمید یں لگاتے رہتے ہیں کبھی فال نکال لی ،کبھی
رمل دیکھ لی، کبھی علم فلکیات سے حساب لگوالیا ، کبھی ہاتھوں کی لکیروں کی
تعبیر پوچھ لی....توَکّل والوں کا حساب ہی اور ہے ۔ وہ کسی اللہ والے کے
پاس گئے اور وہیں کے ہو رہے ۔ اب ان کے حق میں جو بات بھی مقربِ الٰہی کی
زبان مبارک سے صادر ہوئی ان کے لئے وہی اُن کا نصیب ٹھہرا ۔ وہی اُن کا
مستقبل ہے اور وہی اُن کا مابعد ۔ جو حاصل ہو جائے وہی قبول ہے۔ غرضیکہ
مستقبل کا علم ہو یا نہ ہو ، زندگی نے بہر حال گزر ہی جا نا ہے ۔ روزمرہ کی
معمولی باتوں کے جان لینے سے کیا حاصل ،اصل ضرورت اگر ہےتومابعد جاننے کی!
ہم نے کو شش کی ہے کہ قارئین کیلئے وہ تمام پیشن گوئیاں اکٹھی کر دیں جن
میں مستقبل کے بارے میں انسان کے تجسس کو کچھ سکون حاصل ہو سکتا ہے ۔اس
مواد کی تیاری میں سیارہ ڈائجسٹ دسمبر 2001ء میں شائع محمد افضل کے مضمون
چونکا دینے والی پیش گوئیاں کے علاوہ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی ؒ کی پیشن
گوئیوں ،جناب واصف علی واصف ؒکی کتاب فرمائش اور دیگر کتب سے استفادہ کر تے
ہوئے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دنیا میں بالعموم اور بر صغیر پاک و ہند
میں بالخصوص گزرے ہو ئے اور مستقبل قریب یا بعید میں رُو نما ہو نے والے
بڑے بڑے واقعات ،حادثات ،اور انقلابات کے پردوں میں جھانک کر مسلم اُمّہ
مادی ،سیاسی ، اور روحانی طور پر عدم توجہی سے گریز کرتے ہو ئے عالم غیب کے
اس نایاب خزانے کی رہنمائی میں ،پُرآشوب مستقبل سے نمٹنے کیلئے ابھی سے
تیاری کرے کہ یہی پیش بینی ،دُور اندیشی ،اور دانش مندی ان پیشن گوئیوں کی
غرض وغایت اور مقصد ومدعا نظر آتا ہے ۔بقول اقبالؒ
کھول کر آنکھیں میرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دَور کی ایک دُھندلی سی تصویر دیکھ!
سید قمر احمد سبزواریؔ
بعض ہستیاں دنیا میں ایسی ہو ئی ہیں اور کچھ انسان ہر زمانے میں ایسے ہوئے
ہیں جنہیں غیب کے حالات اور مستقبل کی جھلکیاں اپنی تیسری(باطنی)آنکھ سے
دیکھنے کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔دنیا میں ہر پیغمبرکو یہ صلاحیت حاصل تھی
اور سب سے زیادہ حضورﷺ کے پاس یہ صلاحیت تھی۔ہم اس صلاحیت کو غیب بینی کہہ
سکتے ہیں؛غیب دانی نہیں۔بعض افراد پیدائشی طور پر مستقبل بین(Seer) ہوتے
ہیں ۔ اس میں مذہب و ملت کی کوئی قید نہیں ۔فرق یہ ہے کہ ایک پیغمبر جو کچھ
باطنی آنکھ سے دیکھتا ہے۔جب وہ اسے بیان کرتاہے۔مِن وعن بیان کرتا
ہے۔شیاطین اور شریر جنات اس کے بیان اور مشاہدہ کے درمیان کوئی گڑبڑ ،خلل
اورر خنہ ڈالنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ چنانچہ حضور اقدسﷺ نے احوال آخرت ،علامات
قیامت ،واقعات قرب قیامت (سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ‘عظیم آگ ‘حضرت عیسیؑ
کی آمدثانی اور مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان جنگ وغیرہ) اور دیگر حوادث
کے بارے میں جو کچھ پیشینگوئی کے طور پر بیان فرمایاہے اور جو احادیث صحیحہ
کی شکل میں محفوظ ہے ۔ اس میں کسی قسم کی آمیزش اور ملاوٹ نہیں ،کسی تاویل
کی بھی گنجائش نہیں جو کچھ ہے خالص اور صحیح ہے ۔اس کے برعکس ایک کاہن
نجومی اور غیب بین ((Seerجو کچھ اپنی پراسرار صلاحیت کے زور پر عام انسانی
آنکھ کو دکھائی نہ دینے والی سکرین اور مستقبل کے متعلق پڑھتا ہے ۔اس کے
متعلق جب وہ بیان کرنے لگتا ہے تو اپنی محدود باطنی قوت، غیر یقینی حافظہ
اور مشاہدے کے دوران شیاطین کی غیر مرئی دست اندازی جیسے عوامل کے باعث
درست اور غلط کے درمیان رہتا ہے ۔ بعض Seerکی صلاحیتیں بہت زبردست ہوتی ہیں
۔ ان کی پیشگوئیاں بہت سچی نکلتی تھیں۔ڈلفی کی کاہنہ کنواریوں کی
پیشنگوئیوں کے اثرات کا اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یونان کے علاوہ
دُور درازکے ممالک کے حکمران اور بادشاہ وہاں حاضر ہوتے تھے اور اپنے
سوالات پیش کرتے تھے جن کے لئے ایک خاص دن مقرر ہوتا تھا ۔ یہ سوالات عام
طور پر جنگوں ‘لشکر کشی اور مہم جوئی کے نتائج کے متعلق ہوتے تھے۔مندر کے
تہہ خانے میں ایک سوراخ سے سلگتی ہوئی خوشبوئوں کے مرغولے ماحول کو پراسرار
بنائے رکھتے ۔ کاہنہ سوال سن کر کچھ دیر کے لئے آنکھیں بند کر لیتی اور
ایسے لگتا جیسے دنیا سے لا تعلق ہو گئی ہو۔پھر آنکھیں کھول کر ایسے جواب
دیتی جیسے دوسروںکی نگاہوں سے اوجھل کسی تختی پر لکھی تحریر پڑـھ رہی ہو ۔بعد
میں یہ جوابات الگ کسی کتبے پر لکھ کر ریکارڈ میں رکھ دئیے جاتے۔ایسا بہت
کم ہوا کہ ڈیلفی کی کوئی پیش گوئی غلط نکلی ہو لیکن بعض اہم پیشگوئیاں ذو
معنی الفاظ میں کی گئیں ۔مثلاًلیڈیا کے بادشاہ کروس نے دریافت کیا تھا کہ
وہ فارس کے شہنشاہ سائرس کے خلاف لشکر کشی کرنا چاہتا ہے ۔ اس مہم کا کیا
نتیجہ نکلے گا ۔ ڈیلفی کی طرف سے جواب آیا کہ بادشاہ کروس جب دریائے ہیلس
کو عبور کرے گا تو وہ ایک عظیم مملکت کو تباہ کرے گا۔کروسس نے سمجھااس کی
فتح کی طرف اشارہ ہے ، چنانچہ اس نے خوش ہو کر ڈیلفی کے مندر کے لیے سونے
کی ایک سو سے زیادہ اینٹیںاور کوئی سات من وزنی خالص سونے کا شیر کا مجسمہ
نذر کیا۔ لیکن جنگ کا نتیجہ یہ نکلالیڈیا کے بادشاہ کو ہزیمت سے دوچار ہونا
پڑا اور اس کی اپنی عظیم مملکت تباہ ہو گئی۔ گویاعظیم مملکت کی تباہی کی
پیشگوئی تو درست تھی وہ خود لیڈیا کے بادشاہ کے لیے تھی۔ سقراط اور افلاطون
جیسے تشکیک پسند یونانی فلسفی بھی ڈیلفی کی پیشگوئیوں کے قائل تھے اور
ڈیلفی کے معبد میں مقیم راہبائوں کا احترام کرتے تھے۔ جاری ہے |