یہ ٹیلی فلموں اور ڈراموں میں زیادہ تر سیکولرازم اور
لیڈیز فرسٹ والے عقیدوں اور فلسفوں کو اجاگر کیا جارہا ہے یہاں تک کہ گرل
فرینڈ بوائے فرینڈ کے بھی تزکرے کھلم کھلاّ ہونے لگے ہیں اور کالج
یونیورسٹی اور سکول اور جاب کے دوران آفس میں ملنا ملانا بھی اب کثرت سے
دکھایا جاتا ہے اور یہ دکھایا جاتا ہے کہ لڑکا لڑکی کو چائے کے لیے لے جاتا
ہے اور بات شروع ہوجاتی ہے فرینڈ شپ کی لڑکا کہتا ہے کہ کسی دن کسی پارک
میں ملتے ہیں گھومیں گے پھریں گے جی بھر کے مزے مزے کی باتیں کریں گے ایک
دوسرے سے دکھ سکھ کریں گے اور بات آگے بڑھتی ہے لڑکا کہتا ہے کہ اب ہم
فرینڈ ہیں کسی دن ہوٹل میں چلتے ہیں وہاں اکٹّھے کھانا کھائیں گے اور بات
آگے بڑھتی ہے لڑکا کہتا ہے کہ سینما میں چلتے ہیں اچھی سی فلم دیکھیں گے
اور بات آگے بڑھتی ہے تو ایک دن ایسا آتا ہے کہ غیر محرم لڑکا لڑکی ہوٹل
میں حالت غیر میں پکڑے جاتے ہیں اور یا لڑکی کو حمل ہوجاتا ہے تو پتا چلتا
ہے کہ کیا گل کھلائے جارہے ہیں اور ایسا کثرت سے ہوتا ہے
اب میں تو یہاں یہ بات اجاگر کرنا چاہوں گا اور ایک المیہ کی طرف حکمرانوں
اور دانشوروں کی توجہّ دلانا چاہوں گا کہ اب تو حمل کا ہو جانا اور کنواری
حاملہ ہو جانا کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا کہ تھوڑے سے پیسے خرچ کریں گے
اور ابارشن کروا لیں گے لیکن جو جوان بیٹیوں کی عزّت پیچ بیچ کر راتوں رات
امیر بننے کے خواب دیکھے جاتے ہیں اور جو پہلے سے پیسے والے ہوتے ہیں وہ یہ
کہہ کر اتنا بڑا گناہ اپنے سر ڈال لیتے ہیں کہ بچّوں کو ایسی پیار محبّت کی
باتوں سے منع نہیں کرنا چاہیے جیسے کھانا کھا لیا پانی پی لیا ایسے ہی سیکس
کر لیا اور اس فن میں مہارت حاصل کرکے بچّے کمائی کریں بلیو فلمیں بنا کر
اپ لوڈ کریں گے اور دنیا پر حکومت کریں گے جس شعبہ میں چاہیں گے افسر بن
جائیں گے اور ترقّی کی راہوں پر چل پڑیں گے اور اس طرح جرائم اور کرپشن کی
راہ پر اولاد کو ڈال دیا جاتا ہے اور جو لوگ اس قسم کے جرائم کو روکنے کی
بات کرتے ہیں اور لوگوں میں اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ حکومت کو ان جرائم
پر قابو پانا چاہیے اور جو لوگ یہ کام کرتے ہیں ان کو اسلام کے مطابق
سزائیں دی جانی چاہیئیں اور سر عام ڈنڈے مارنے چاہئیں تو یہ حق بات کا
پرچار کرنے پر ایسے لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کا جینا محال کر دیا
جاتا ہے
تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جرم آسان اور نیکی مشکل بنا دی جاتی ہے اور
سب سے اہم بات یہ کہ تعلیم کے میدان میں اخبارات رسائل ریڈیو ٹی وی پر بھی
نیکی کے موضوعات کو زیر بحث نہیں لایا جاتا نیٹ وغیرہ پر بھی نیکی کے بارے
میں کالم نہیں لکھّے جاتے لیکن جہاد کے بارے میں لکھنے کی اشد ضرورت ہے
امید ہے جب یہ لکھاری جہاد کے بارے میں لکھیں گے اور ڈراموں والے جہاد کے
بارے میں جہادی کھیل پر مبنی ڈرامے بنائیں گے جیسے ہر آدمی کو ڈراموں سے یہ
سبق ملتا ہے کہ اچھی ازدواجی زندگی کیسے گزارنی ہے اور شادی کا بندن کتنا
پاکیزہ اور مقدّس ہوتا ہے اسی طرح لوگوں کو پتا چلے گا کہ جہاد شادی اور
گھریلو ذمّہ داریوں سے کہیں زیادہ اہم ہے اس سے ظالموں اور مظلوموں کو پتا
چلے گا کہ ہم نے ان جہالتوں سے کیسے پیچھا چھڑانا ہے
اسلام ایسا مذہب ہے جس کو رائج کرنا اللہ کا حکم ہے اللہ نے قرآن میں
فرمایا ہے کہ اللہ کے حکم کو دنیا میں نافذ کرو اس کے مطابق اپنے مٰعاملات
کے فیصلے کرو دوسرے جتنے بھی ادیان اور مذاہب ہیں وہ ظالمانہ اور غیر
قانونی ہیں اور تمام مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دنیا سے تمام
مذاہب کا خاتمہ کر دیں تاکہ دنیا سے ظلم و زیادتی اور لاقانونیت کا خاتمہ
ہو جائے اور امن و امان اور عدل و انصاف قائم ہو جائے اور اللہ کا دین دنیا
بھر میں نافذ ہو جائے کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے
کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے اب ہمارے مسلمان حکمران کو کہ نام نہاد مسلمان
ہیں اصل میں وہ کافر اور منافق ہیں اور ان حکمرانوں کا کفر اور نفاق بڑھتا
ہی جارہا ہے بڑھتا ہی جارہا ہے حتٰی کہ اب وہ تمام حکمران غدّار بن چکے ہیں
الا ماشاءاللہ جو تھوڑے بہت نیک دل پاک باز مسلمان اور سیاست دان ہیں ان کو
ناکا م کر دیا جاتا ہے ان کی بات ہی کہیں سنی نہیں جاتی ہے اس کا ذمّہ دار
ہمارا میڈیا ہے اور ہمارا غیر اسلامی نظام حکمرانی ہے اب ہم کہاں کھڑے ہیں
ہم تنزّلی کا دن بدن شکار ہوتے جارہے ہیں اس کا ہماری فوج کو نوٹس لینا
چاہیے اور جو ان غیر اسلامی حکمرانوں نے فوج میں کمزوریاں پیدا کر دیں ہیں
ان پر قابو پانا فوج کا اوّلین فرض ہے
بدقسمتی سے ہماری فوج بھی غیر اسلامی بنتی جارہی ہے میں فوج کے اعلیٰ عہدے
داروں سے التماس کرنا چاہوں گا کہ وہ فوج کو اسلامی فوج بنائیں اور فوج کو
اپنی نفری بڑھانی چاہیے کم ازکم ہمارے ملک کی فوج کی تعداد پانچ کروڑ ہونی
چاہیے اور اسلحہ بھی زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے اور وہ سب فوجیوں کی نماز
میں حاضری ممکن بنائیں اور دوسرے سارے اسلامی ارکان کی پاسداری کرائیں اور
اسلام کے مطابق جیسے ہر شہر ہر گاوں میں سکول ہیں اس طرح سے ہر شہر اور ہر
گاوں میں ٹریننگ سنٹر ہونے چاہئیں جن میں فوج میں شامل کرنے کے لیے جوان
تیار کیے جانے چاہئیں اور تمام گورنمنٹ اور پرائیوِٹ سکولوں پر پابندی عائد
کی جانی چاہئیے اور یہ کام کرنا اسلامی فوج کے لیے از حد ضروری ہے ان کاموں
کے لئے فوج کو تمام بے نمازیوں سے جرمانے وصول کرنے چاہئیں اور ان سے تاوان
اور ٹیکس اور خراج وصول کرنا چاہیے اور یہ سارے کا سارا فوج کو ملنا چاہیے
جس سے فوج اپنے ترقیاتی عمل کو جاری رکھ سکے قرآن و حدیث میں بھی یہی حکم
ہے |