بدعت ائمہ اور محدثین کے نزدیک ٩

(11) علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (المتوفی 728 ھ) :-

امام ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔

13. إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي

’’اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔‘‘

ابن تيميه، منهاج السنة، 4 : 224

علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :

14. ومن هنا يعرف ضلال من ابتدع طريقاً أو اعتقاداً زعم أن الإيمان لا يتم إلا به مع العلم بأن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم لم يذکره وما خالف النصوص فهو بدعة باتفاق المسلمين وما لم يعلم أنه خالفها فقد لا يسمي بدعة قال الشافعي رحمه اﷲ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه (1) هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح في المدخل(2)

’’اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

1.

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250

2.

1. ابن تيمية، کتب ورسائل و فتاوي ابن تيمية في الفقه، 20 : 16

(12) اِمام حافظ عماد الدین ابو الفدا اسماعیل ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 774ھ) :-

حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن کثیر اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

15. والبدعة علي قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله (فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إيّاهم علي صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه

’’بدعت کی دو قسمیں ہیں بعض اوقات یہ بدعت شرعیۃ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ ہے۔‘‘

ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 161

(13) اِمام ابو اسحاق ابراہیم بن موسيٰ الشاطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 790ھ) :-

علامہ ابو اسحاق شاطبی اپنی معروف کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

16. هذا الباب يُضْطَرُّ إِلي الکلام فيه عند النظر فيما هو بدعة وما ليس ببدعة فإن کثيرًا من الناس عدوا اکثر المصالح المرسلة بدعاً و نسبوها إلي الصحابة و التابعين و جعلوها حجة فيما ذهبوا إليه من اختراع العبادات وقوم جعلوا البدع تنقسم بأقسام أحکام الشرعية، فقالوا : إن منها ما هو واجب و مندوب، وعدوا من الواجب کتب المصحف وغيره، ومن المندوب الإجتماع في قيام رمضان علي قارئ واحد. و أيضا فإن المصالح المرسلة يرجع معناها إلي إعتبار المناسب الذي لا يشهد له أصل معين فليس له علي هذا شاهد شرعيّ علي الخصوص، ولا کونه قياساً بحيث إذا عرض علي العقول تلقته بالقبول. وهذا بعينه موجود في البدع المستحسنة، فإنها راجعة إلي أمور في الدين مصلحية. في زعم واضعيها. في الشرع علي الخصوص. وإذا ثبت هذا فإن کان إعتبار المصالح المرسلة حقا فإعتبار البدع المستحسنه حق لأنهما يجريان من واد واحد. وإن لم يکن إعتبار البدع حقا، لم يصح إعتبار المصالح المرسلة.

’’اس باب ميں یہ بحث کرنا ضروری ہے کہ کیا چیز بدعت ہے اور کیا چیز بدعت نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر لوگوں نے بہت سی مصالح مرسلہ کو بدعت قرار دیا ہے اور ان بدعات کو صحابہ کرام اور تابعین عظام کی طرف منسوب کیا ہے اور ان سے اپنی من گھڑت عبادات پر استدلال کیا ہے۔ اور ایک قوم نے بدعات کی احکام شرعیہ کے مطابق تقسیم کی ہے اور انہوں نے کہا کہ بعض بدعات واجب ہیں اور بعض مستحب ہیں، انہوں نے بدعات واجبہ میں قرآن کریم کی کتابت کو شمار کیا ہے اور بدعات مستحبہ میں ایک امام کے ساتھ تراویح کے اجتماع کو شامل کیا ہے۔ مصالح مرسلہ کا رجوع اس اعتبار مناسب کی طرف ہوتا ہے جس پر کوئی اصل معین شاہد نہیں ہوتی اس لحاظ سے اس پر کوئی دلیل شرعی بالخصوص نہیں ہوتی اور نہ وہ کسی ایسے قیاس سے ثابت ہے کہ جب اسے عقل پر پیش کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے اور یہ چیز بعینہ بدعات حسنہ میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ بدعات حسنہ کے ایجاد کرنے والوں کے نزدیک ان کی بنیاد دین اور بالخصوص شریعت کی کسی مصلحت پر ہوتی ہے اور جب یہ بات ثابت ہو گئی تو مصالح مرسلہ اور بدعات حسنہ دونوں کا مآل ایک ہے اور دونوں برحق ہیں اور اگر بدعات حسنہ کا اعتبار صحیح نہ ہو تو مصالح مرسلہ کا اعتبار بھی صحیح نہیں ہو گا۔‘‘

شاطبی، الإعتصام، 2 : 111

علامہ شاطبی ’’بدعت حسنہ‘‘ کے جواز پر دلائل دیتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :

17. أن أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اتفقوا علي جمع المصحف وليس تَمَّ نص علي جمعه وکتبه أيضا. . بل قد قال بعضهم : کيف نفعل شيئاً لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم؟ فروي عن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال : أرسل إِليّ أبوبکر رضي الله عنه مقتلَ (أهل) اليمامة، و إِذا عنده عمر رضي الله عنه، قال أبوبکر : (إن عمر أتاني فقال) : إِن القتل قد استحرّ بقراءِ القرآن يوم اليمامة، و إِني أخشي أن يستحرّ القتل بالقراءِ في المواطن کلها فيذهب قرآن کثير، و إِني أري أن تأمر بجمع القرآن. (قال) : فقلت له : کيف أفعل شيئًا لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فقال لي : هو واﷲ خير. فلم يزل عمر يراجعني في ذلک حتي شرح اﷲ صدري له، ورأيت فيه الذي رأي عمر. قال زيد : فقال أبوبکر : إنک رجل شاب عاقل لا نتهمک، قد کنت تکتب الوحي لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فتتبع القرآن فاجمعه. قال زيد : فواﷲ لو کلفوني نقل جبل من الجبال ما کان أثقل عليّ من ذلک. فقلت : کيف تفعلون شيئًا لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فقال أبوبکر : هو واﷲ خير، فلم يزل يراجعني في ذلک أبوبکر حتي شرح اﷲ صدي للذي شرح له صدورهما فتتبعت القرآن أجمعه من الرقاع والعسب واللخاف، ومن صدور الرجال، فهذا عمل لم ينقل فيه خلاف عن أحد من الصحابة. (1). . . . حتي اذا نسخوا الصحف في المصاحف، بعث عثمان في کل افق بمصحف من تلک المصاحف التي نسخوها، ثم امر بما سوي ذٰلک من القراء ة في کل صحيفة أو مصحف أن يحرق. . . . ولم يرد نص عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم بما صنعوا من ذلک، ولکنهم رأوه مصلحة تناسب تصرفات الشرع قطعا فإن ذلک راجع إلي حفظ الشريعة، والأمر بحفظها معلوم، وإلي منع الذريعة للاختلاف في أصلها الذي هوالقرآن، وقد علم النهي عن الإختلاف في ذلک بما لا مزيد عليه. واذا استقام هذا الأصل فاحمل عليه کتب العلم من السنن و غيرها إذا خيف عليها الإندراس، زيادة علي ما جاء في الأحاديث من الأمر بکتب العلم. (2)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنے پر متفق ہو گئے حالانکہ قرآن کریم کو جمع کرنے اور لکھنے کے بارے میں ان کے پاس کوئی صریح حکم نہیں تھا۔ ۔ ۔ لیکن بعض نے کہا کہ ہم اس کام کو کس طرح کریں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا جبکہ یمامہ والوں سے لڑائی ہو رہی تھی اور اس و قت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے کتنے ہی قاری شہید ہوگئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ قراء کے مختلف جگہوں پر شہید ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کے جمع کرنے کا حکم دیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں وہ کام کس طرح کرسکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا تو انہوں نے مجھے کہا خدا کی قسم یہ اچھا ہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بارے میں مجھ سے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے اس معاملے میں میرا سینہ کھول دیا۔ میں نے بھی وہ کچھ دیکھ لیا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا حضرت زید کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر نے مجھے فرمایا آپ نوجوان آدمی اور صاحب عقل و دانش ہو اور آپ کی قرآن فہمی پر کسی کو اعتراض بھی نہیں اور آپ آقا علیہ السلام کو وحی بھی لکھ کر دیا کرتے تھے۔ آپ قرآن مجید کو تلاش کرکے جمع کردیں تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اگر آپ مجھے پہاڑوں میں کسی پہاڑ کو منتقل کرنے کا حکم دیں تو وہ میرے لیے اس کام سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ اس کام کو کیوں کر رہے ہو جسے آقا علیہ السلام نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اس میں بہتری ہے۔ تو میں برابر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بحث کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے میرا سینہ کھول دیا جس طرح اللہ تعاليٰ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔ پھر میں نے قرآن مجید کو کھجور کے پتوں، کپڑے کے ٹکڑوں، پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کرکے جمع کردیا۔ یہ وہ عمل ہے جس پر صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی کا اختلاف نقل نہیں کیا گیا۔ ۔ ۔ حتیٰ کہ جب انہوں نے (لغت قریش پر) صحائف لکھ لیے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام شہروں میں ان مصاحف کو بھیجا اور یہ حکم دیا کہ اس لغت کے سوا باقی تمام لغات پر لکھے ہوئے مصاحف کو جلا دیا جائے۔ ۔ ۔ حالانکہ اس معاملہ میں ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی حکم نہیں تھا لیکن انہوں نے اس اقدام میں ایسی مصلحت دیکھی جو تصرفات شرعیہ کے بالکل مناسب تھی کیونکہ قرآن کریم کو مصحف واحد میں جمع کرنا شریعت کے تحفظ کی خاطر تھا اور یہ بات مسلّم اور طے شدہ ہے کہ ہمیں شریعت کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اور ایک لغت پر قرآن کریم کو جمع کرنا اس لیے تھا کہ مسلمان ایک دوسرے کی قرات کی تکذیب نہ کریں اور ان میں اختلاف نہ پیدا ہو اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ ہمیں اختلاف سے منع کیا گیا ہے اور جب یہ قاعدہ معلوم ہو گیا تو جان لو کہ احادیث اور کتب فقہ کو مدون کرنا بھی اسی وجہ سے ہے کہ شریعت محفوظ رہے، علاوہ ازیں احادیث میں علم کی باتوں کو لکھنے کا بھی حکم ثابت ہے۔‘‘

1.

1. بخاري، الصحيح، 4 : 1720، کتاب التفسير، باب قوله لقد جاء کم رسول، رقم : 4402
2. بخاري، الصحيح، 6 : 2629، کتاب الاًحکام، باب يستحب للکاتب أن يکون اميناً عاقلاً، رقم : 6768
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 283، کتاب التفسير، باب من سورة التوبة رقم : 3103
4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 7، رقم : 2202
5. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 13، رقم : 76
6. ابن حبان، الصحيح، 10 : 360، رقم : 4506

2.

شاطبي، الاعتصام، 2 : 115

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 103325 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.