•اہل جنت کی ہر خواہش کا پورا
کیا جانا
اب اس بات کا تذکرہ ہونے چلا ہے کہ جس کا دنیا کی زندگي میں تصور بھی نہیں
کیا جاسکتا۔دنیا میں کسی بہت بڑی سلطنت کا فرمانروا بھی جو چاہے حاصل نہیں
کر سکتا، نہ ہی من چاہی زندگي جی سکتاہے اور نہ ہی اپنی ہر خواہش پوری کر
سکتا ہے لیکن جنت کی دائمی وراثت پانےوالے ایسے خوش نصیب ہوں گے کہ جو دل
پسند زندگی جئیں گے، جوچاہیں گے ان کوملے گا اور ان کی ہر خواہش پوری کی
جائے گی۔اس بارے میں چند آیات ملاحظہ ہوں:
سورة فصلت (41)
۔۔۔وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا
تَدَّعُونَ {31} نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ {32}
وہاں جو کچھ تم چاہوگے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ
تمہاری ہو گی، یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔
سورة الشورى (42)
۔۔۔وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ
الْجَنَّاتِ لَهُم مَّا يَشَاؤُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ
الكَبِيرُ {22}
جو لوگ ایمان لے آئےہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ جنت کے گلستانوں
میں ہوں گے، جو کچھ بھی وہ چاہیں گے اپنے رب کے ہاں پائیں گے، یہی بڑا فضل
ہے۔
سورة الأنبياء ( 21 )
۔۔۔ وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنفُسُهُمْ خَالِدُونَ {102}
اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے۔
سورة النحل ( 16 )
۔۔۔وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ {30} جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا
تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَآؤُونَ كَذَلِكَ
يَجْزِي اللّهُ الْمُتَّقِينَ {31}
بڑا اچھا گھر ہے متقیوں کا، دائمی قیام کی جنتیں، جن میں وہ داخل ہوں گے،
نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اور سب کچھ وہاں عین اُن کی خواہش کے مطابق
ہوگا۔ یہ جزا دیتا ہے اللہ متقیوں کو۔
سورة الفرقان ( 25 )
۔۔۔ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاء
وَمَصِيرًا {15} لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاؤُونَ خَالِدِينَ كَانَ عَلَى
رَبِّكَ وَعْدًا مَسْؤُولًا {16}
ابدی جنت جس کا وعدہ خدا ترس پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے جو اُن کے عمل کی
جزا اور اُن کے سفر کی آخری منزل ہوگي، جس میں اُن کی ہر خواہش پوری ہو گي،
جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، جس کا عطا کرنا تمہارے رب کے ذمّے ایک واجب
الادا وعدہ ہے۔
ہر خواہش کے پورا کیے جانے کے متعلق ہمیں صحیح بخاری میں یہ حدیث مبارکہ
ملتی ہےجس میں ایک جنتی کی ایک خواہش اور اس کے پورا کیے جانے کا ذکر ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ایک دن یہ بیان فرما رہے
تھے اور(اس وقت) آپﷺ کے پاس ایک گاؤں کا آدمی بیٹھا ہو ا تھا :’’ایک شخص
اہل جنت میں سے اپنے پروردگار سے کھیتی کرنے کی اجازت طلب کرے گا تو اللہ
تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ کیا تو جس حا لت میں ہے اس میں خوش نہیں ہےَ‘‘
وہ عرض کر ے گا کہ ہاں خوش تو ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ کھیتی کروں۔ آپﷺ
نے فرمایا :’’پھر وہ بیج بوئے گا تو اس کا اگنا اور بڑھنا اور کٹنا پلک
جھپکنے سے پہلے ہو جائے گا اور اس کی پیداوار کے ڈ ھیر پہاڑوں کے برابر ہو
جائیں گے تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے ابن آدم ! تو کسی چیز سے سیر نہیں
ہو تا۔ ‘‘تو وہ اعرابی کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ! آپ ایسا شخص کسی قریشی
یا انصاری کو پائیں گے اس لیے کہ وہی لوگ کاشتکار ہیں اور ہم تو کاشتکار
نہیں ہیں۔ اس پر نبیﷺ مسکرانے لگے۔(صحیح بخاری)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ تم میں
سے کسی کا جنت میں ادنی ترین مرتبہ یہ ہوگا کہ اس سے کہا جائے گا کہ تمنا
کر۔پس وہ تمنا کرے گا اور تمنا کرے گا(یعنی اپنی ہر خواہش بیان کر دے گا)
پھر اس سے کہا جائے گا کہ کیا تو تمنا کر چکا۔ وہ کہے گا کہ جی ہاں۔ پھر اس
سے کہا جائے گا کہ جو جو تو نے خواہش کی ہے سب تجھے دیا جاتا ہے اور اس کے
ساتھ ہی اتنا ہی اور بھی۔(مسلم)
اسی مضمون کی کچھ دوسری روایات میں تمنا سے دس گنا زیادہ دیے جانے کا ذکر
ہے۔
•کبھی نہ ختم ہونے والا رزق اور نعمتیں
اہل جنت کو ملنے والی یہ ساری نعمتیں جن کے بارے میں ہم پڑھتے آ رہے ہیں ان
کو بے روک و ٹوک،صبح و شام، ہمیشہ ہمیشہ ملتی رہیں گي اور ان کےملنے میں
کبھی کوئي رکاوٹ حائل نہ ہوگي۔ یہ رب کا وہ رزق ہے جو ختم ہونے والا نہیں،
اور عَطَاء غَيْرَ مَجْذُوذٍ یعنی انہیں ایسی بخشش ملے گی جس کا سلسلہ کبھی
منقطع نہ ہوگا۔
سورة مريم ( 19 )
لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ
فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا {62} تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ
عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيًّا {63}
وہاں وہ کوئی بےہُودہ بات نہ سُنیں گے، جو کچھ بھی سُنیں گے ٹھیک ہی سنیں
گے۔ اور ان کا رزق انہیں پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔ یہ ہے وہ جنت جس کا
وارث ہم اپنے بندوں میں سے اُس کو بنائیں گے جو پرہیزگار رہا ہے۔
سورة ص ( 38 )
إِنَّ هَذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِن نَّفَادٍ {54}
یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں حساب کے دن عطا کرنے کا تم سے وعدہ کیا جارہاہے۔ یہ
ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
•ان ساری نعمتوں سے بڑی چیز اللہ کی خوشنودی
اور ان ساری نعمتوں سے بڑی نعمت یہ کہ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ أَكْبَرُ
اہل جنت کو ہمیشہ کے لیے اللہ کی خوشنودی اور پسندیدگي حاصل ہوجائے گي۔
اللہ ان سے ایسا راضی ہو جائے گا کہ پھر کبھی ناراض نہ ہوگا۔
سورة التوبة ( 9 )
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ
يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ
الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ
أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ {71}
وَعَدَ اللّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن
تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي
جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ
الْعَظِيمُ {72}
مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم
دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکٰوۃ دیتے ہیں اور
اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت
نازل ہو کر رہے گی، یقینًا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ ان مومن
مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے
نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدا بہار باغوں میں ان
کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی
انہیں حاصل ہو گی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔
اسی کے متعلق حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو:
سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ عزوجل جنتی
لوگوں سے فرمائے گا کہ اے جنتیو! پس وہ کہیں گے کہ اے رب! ہم خدمت میں حاضر
ہیں اور سب بھلائی تیرے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تم
راضی ہوئے ؟ وہ کہیں گے کہ ہم کیسے راضی نہ ہوں گے ، ہمیں تو نے وہ دیا کہ
اتنا اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا میں
تمہیں اس سے بھی کوئی عمدہ چیز دوں؟ وہ عرض کریں گے کہ اے رب! اس سے عمدہ
کونسی چیز ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے تم پر اپنی رضامندی اتار
دی اور اب میں اس کے بعد کبھی تم پر غصہ نہ ہوں گا۔(مسلم)
•اللہ کا دیدار اور ملاقات عظیم ترین نعمت
سورة ق ( 50 )
لَهُم مَّا يَشَاؤُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ {35}
وہاں ان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے، اور ہمارے پاس اس سے زیادہ
بھی بہت کچھ ان کے لیے ہے ۔
اوپرپیش کردہ آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ۔ اس آیت کا ایک
معنی تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے پاس اہل جنت کے لیے ایسی ایسی
نعمتیں موجود ہیں جن کو بیان کرنے سے انسانی زبان قاصر ہے لہذا بس اتنا کہہ
دیا گيا کہ ہمارے پاس ان کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے۔ اسی مضمون کی ایک آیت
اور ایک حدیث بھی ہم پڑھ آئے ہیں کہ اہل جنت کے لیے ایسی ایسی نعمتیں اور
آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان تیار کیا گيا ہے کہ جن کی کسی کو کوئي خبر نہیں۔
اسی آیت کا ایک دوسرا مفہوم مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ جنت میں اللہ سے
ملاقات اوراس کا دیدار جنت کی تمام ہی نعمتوں بڑھ کر ہوگا اور اسی کے معنی
وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ کے ہیں۔ جب تک جنتی اللہ سے ملاقات اور اس کا دیدار
کریں گے یہ ایسی عظیم نعمت ہوگی کہ اس دوران جنت کی کسی اور نعمت کا خیال
نہ رہے گا۔ اور یقیناً ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔اتنا سوچ لیجیے کہ دنیا ہی
کی زندگی میں آزمائش کے درجے میں اپنی قوت تخلیق سے ایسا لاجواب حسن
بکھیرنے والا خود کیسا پرکشش اور حسین وجمیل ہو گا، اسے دیکھے بنا کون اس
کا تصور کر سکتا ہے۔وہ جس سے ہمارا رشتہ والدین کے رشتے سے بھی بڑھ کراولین
یعنی خالق اور مخلوق کا رشتہ ہے ، اپنے اس محبوب ترین اولین رشتے یعنی اپنے
خالق و مالک سے ملاقات اور اس کا دیدار کیسی بڑی نعمت ہوگی اس کا لطف تو
اسے پانے والے ہی جان سکیں گے۔دنیا سے ہی ایک مثال لیجیے کہ ماں کی گود بچے
کے لیے کتنی بڑی نعمت ہے اور بچہ اپنی ماں کی آغوش میں کتنا سکون محسوس
کرتا ہے۔والدین نے تو صرف تولید کیا ہے، اللہ تو وہ ہستی ہے جس نے ہمیں
تخلیق کیا ہے اور ہمارے لیے جس کی محبت ہماری ماؤں کی محبت سے ستر گنا
سےبھی زیادہ ہے۔اسے بنا دیکھے اس کی نشانیوں سے ہی پہچان کر تھوڑا سا جان
لینےوالے بھی اس کی محبت میں اس کے لیے اپنی جان تک قربان کر دیا کرتے ہیں۔
اتنا پیار کرنے والی ہستی سےملاقات، اسے دیکھنا ،اس کے پاس بیٹھنا اور اس
سے بات کرنا کتنی ہی بڑی نعمت ہوگی۔یقینا جنت کی سب سے بڑی نعمت۔ اسی لیے
تو کافروں کی ایک بڑی محرومی یہ بیان کی گئی ہےکہ كَلَّا إِنَّهُمْ عَن
رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ ہر گز نہیں ! بالیقین اُس روز یہ
اپنے رب کی دید سے محروم رکھے جائیں گے۔
آپ غور فرمائیے کہ جو فرد کبھی بھی اپنےوالدین سے نہ ملا ہو اسے کتنی خواہش
ہوگی کہ وہ انہیں دیکھے، ان سے بات کرے اور ان کے پاس بیٹھے۔غور کیجیے کہ
کیسے ہی بدنصیب وہ لوگ ہوں گے جو اپنے پیدا کرنےوالے کو دیکھ بھی نہ سکیں
گے۔ہمیں اپنے رب سے ملاقات کا شوق رکھنا چاہیے کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے
کہ جوشخص اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند
کرتاہے۔
غرض جنتی اللہ کا دیدار کریں گے اور اللہ سے ملاقات کریں گے۔
ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ ایک طویل حدیث ہے
جس میں اللہ سےملاقات اور اللہ کے دیدار کا ذکر ہے جس کامفہوم کچھ اس طرح
ہے کہ جنتی اللہ تعالیٰ کی زیارت کریں گے اور کوئي ہجوم نہ ہوگا جیسے سورج
اورچودہویں کے چاند کو دیکھنے کےلیے کوئی ہجوم اور جھگڑا نہیں کرنا پڑتا۔
جنتی نور، موتیوں، یاقوت، زبرجد، سونے اور چاندی کے منبروں پر اور مشک اور
کافور کے ٹیلوں پر بیٹھیں گے اور اس مجلس میں کوئی ایسا باقی نہ رہے گا جس
سے اللہ تعالیٰ نے مخاطب ہو کر بات نہ کی ہو۔پھر وہ اس محفل سے ایک نئي
خوشبو لے کر، پہلے سے زیادہ حسن و جمال پا کر اورجنت کے بازار سے بہت سارے
انعام و اکرام کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹیں گے۔ اللہ ہمیں بھی جنت میں اپنا
دیدار اور اپنی ملاقات نصیب فرمائے۔(آمین)
•موت کا نہ آنا
موت زندگی کی ہر خوشی اور لطف کو مٹا دیتی ہے۔ غور فرمائیے،دنیا کی زندگی
میں پہلی بات تو یہ ہے کہ نعمتوں کی محض تجلی ہوتی ہے اوران کی تکمیل ہو ہی
نہیں سکتی لیکن اگر کسی کو خدا نے بہت کچھ بھی دے رکھا ہو اور دنیا کی
زندگي میں وہ جتنی بھی نعمتوں میں جتنا بھی عرصہ جی لے آخر کار موت سب کچھ
چھین لیتی ہے۔ اور وہ سب کچھ کسی اور کا ہو جاتا ہے۔تاریخ پر نگاہ ڈالیے:
ملے خاک میں اہل شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گئے لامکاں کیسے کیسے
ہوئے نامور بےنشاں کیسے کیسے
زمین کھا گئي آسماں کیسے کیسے
اجل نے نہ کسری ہی چھوڑا نہ دارا
اسی پہ سکندر فاتح بھی ہارا
ہر اک چھوڑ کے کیا حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یہیں کھاٹ سارا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
دنیا کی زندگی محض آزمائش ہے جو بادشاہ کے گھر میں پیدا ہوا وہ بھی آزمائش
میں ہے اور جوفقیر کے گھر وہ بھی آزمائش میں ۔یوں سمجھ لیجیے کہ سارے کمرہء
امتحان میں ہیں۔کوئی کہیں اور کوئي کہیں بیٹھا امتحان دے رہا ہے۔
سورة العنكبوت ( 29 )
۔۔۔ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا
يَعْلَمُونَ {64}
اوراصل زندگي کا گھر تو آخرت کا گھرہے، کاش یہ لوگ جانتے۔
کامیاب تو بس وہی ہیں جنہیں اللہ اپنی رحمت سے جہنم کی آگ سے بچا لے گا
اورجنت کی نعمت عطا فرمائے گا کیونکہ ہر جنتی کی جنت ایمان و عمل کے میرٹ
پر ملنے والی اس کی مستقل ملکیت ہے جس سے اسے کبھی کوئی بے دخل نہ کرے گا
اور نہ ہی اسے کبھی وہاں سے کسی طرح نکالا جائے گا۔
آخرت میں اہل جنت کے لیے ایک بڑا انعام یہ ہوگا کہ انہیں موت کی صورت میں
نعمتوں کے چھن جانے کا کوئی ڈر نہ ہو گا کیونکہ موت کو ختم کر دیا جائے گا
جس سے اہل جنت کی خوشی اور بڑھ جائےگي ۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’
قیامت کے دن موت ایسے مینڈھے کی صورت میں لائی جائے گی ، جو چت کبرا ہو گا
، پھر ایک پکارنے والا پکارے گا کہ اے بہشت والو ! وہ گردن اٹھائیں گے اور
ادھر دیکھیں گے تو وہ ( فرشتہ ) کہے گا کہ کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ وہ کہیں
گے ہاں یہ موت ہے اور سب نے اسے ( اپنے مرتے وقت ) دیکھا تھا ( اس لیے
پہچان لیں گے ) پھر وہ پکارے گا کہ اے دوزخ والو ! وہ بھی گردن اٹھا کر
ادھر دیکھیں گے تو وہ ( فرشتہ ) کہے گا کہ کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟وہ کہیں
گے ہاں یہ موت ہے ، ان سب نے بھی ( مرتے وقت ) اسے دیکھا تھا پھر اسی وقت
موت ذبح کر دی جائے گی او ر وہ ( فرشتہ ) کہے گا کہ اے اہل جنت ! تم اب
ہمیشہ جنت میں رہو گے ، کسی کو موت نہ آئے گی اور اے اہل دوزخ ! تم اب
ہمیشہ دوزخ میں رہو گے کسی کو موت نہ آئے گی ( تب اس وقت دوزخی حسرت کریں
گے )۔ ‘‘ پھر ( رسول اللہﷺ نے ) یہ آیت پڑھی۔ ’’ ( اے محمد !) ان لوگوں کو
اس حسرت وافسوس کے دن سے ڈرائیے جبکہ کام انجام کو پہنچا دیا جائے گا اور
یہ لوگ غفلت ہی میں رہ جائیں گے۔ ‘‘یعنی دنیا کے لوگ غفلت میں پڑ ے ہوئے
ہیں۔ ‘‘ اور وہ ایمان نہیں لاتے۔ ‘‘( سورۂ مریم : ۳۹)(صحیح بخاری)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جب جنت والے جنت میں چلے جائیں گے اور دوزخ واے دوزخ میں تو موت لائی جائے
گی اور جنت اور دوزخ کے بیچ میں ذبح کی جائے گی، پھر ایک پکارنے والا پکارے
گا کہ اے جنت والو! اب موت نہیں اور اے دوزخ والو! اب موت نہیں۔ جنت والوں
کو یہ سن کر خوشی پر خوشی حاصل ہو گی اور دوزخ والوں کو رنج پر رنج زیادہ
ہو گا۔(مسلم)
صحیح مسلم ہی کی کچھ دوسری روایات میں یہ اضافہ ہے کہ موت کوجنت اور دوزخ
کے درمیان ایک دنبےکی شکل میں لا کرذبح کر دیا جائے گا اور پھر جو آدمی جس
حالت میں ہوگا ہمیشہ اسی حالت میں رہےگا۔
آیت ملاحظہ ہو:
سورة الدخان (44)
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ {51} فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ {52}
يَلْبَسُونَ مِن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَقَابِلِينَ {53} كَذَلِكَ
وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ {54} يَدْعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ
آمِنِينَ {55} لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ
الْأُولَى وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ {56} فَضْلًا مِّن رَّبِّكَ
ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {57}
خدا ترس لوگ امن کی جگہ میں ہوں گے۔ باغوں اور چشموں میں، حریرو دیباکے
لباس پہنے، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ یہ ہو گی اُن کی شان۔ اور ہم گوری
گوری آہُو چشم عورتیں ان سے بیاہ دیں گے۔ وہاں وہ اطمینان سے ہر طرح کی
لذیذ چیزیں طلب کریں گے۔ وہاں موت کا مزہ وہ کبھی نہ چکھیں گے۔ بس دنیا میں
جو موت آ چکی سوآ چکی ۔ اور اللہ اپنے فضل سے اُن کو جہنم کے عذاب سے بچا
دے گا، یہی بڑی کامیابی ہے۔
اور جنتی لوگ بے پناہ خوشی سے پکار اٹھیں گے:
سورة الصافات ( 37 )
أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ {58} إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَى وَمَا
نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ {59} إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {60}
لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلْ الْعَامِلُونَ {61}
اچھا تو کیا اب ہم مرنے والے نہیں ہیں؟موت جو ہمیں آنی تھی وہ بس پہلے آ
چکی؟ اب ہمیں کوئی عذاب نہیں ہونا؟"یقیناً یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ ایسی
ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔
•جنت کی ہمیشگي
اوریہ کامیاب زندگي اور یہ ساری نعمتیں کوئی چند دن یا چند سالوں کے لیے
نہیں ملیں گي بلکہ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًاوہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں
گے۔یعنی جو جنت میں داخل ہو گيا وہ اس مملکت کا باسی بن گیا جہاں سے کبھی
بھی نکالا نہ جائے گا کیونکہ وہی اس کی دائمی وراثت ہے۔وہ ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے نعمتوں بھری زندگی میں داخل ہو کر کامیا ب ہوگیا، اسے پھر کبھی کوئي
تکلیف یا اذیت نہ پہنچے گی اور اسے کبھی موت نہ آئے گی کیونکہ موت کو بھی
موت آ چکی ہو گي۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو
شخص جنت میں جائے گا، وہ سکون سے ہو گا اور بے غم رہے گا۔ نہ کبھی اس کے
کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ اس کی جوانی مٹے گی (یعنی سدا جوان ہی رہے گا
کبھی بوڑھا نہ ہو گا)۔
یوں نعمتوں بھرے سلامتی کے اس گھر میں جنتی ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس مضمون
کی قرآن حکیم میں بہت زیادہ آیات آئي ہیں جن میں سےچند حسب ذیل ہیں:
سورة النساء (4)
وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن
تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
{13}
جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے
گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی
بڑی کامیابی ہے۔
سورة هود ( 11 )
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ وَأَخْبَتُواْ إِلَى
رَبِّهِمْ أُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ الجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ {23}
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے رب ہی کے ہو
کر رہے، تو یقینًا وہ جنتی لوگ ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
سورة الفرقان ( 25 )
۔۔۔ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاء
وَمَصِيرًا {15} لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاؤُونَ خَالِدِينَ كَانَ عَلَى
رَبِّكَ وَعْدًا مَسْؤُولًا {16}
ابدی جنت جس کا وعدہ خداترس پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے جو اُن کے عمل کی جزا
اور اُن کے سفر کی آخری منزل ہوگي، جس میں اُن کی ہر خواہش پوری ہو گي، جس
میں وہ ہمیشہ رہیں گے، جس کا عطا کرنا تمہارے رب کے ذمّے ایک واجب الادا
وعدہ ہے۔
سورة إبراهيم ( 14 )
وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي
مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ
تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلاَمٌ {23}
ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو ایسے باغوں میں داخل کیا
جائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہاں وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ
رہیں گے، اور وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارکباد سے ہو گا۔
سورة الأحقاف (46)
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ
عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ {13} أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ
خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ {14}
یقیناً جن لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے، پھر اس پر جم گئے ، ان
کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ایسے لوگ جنت میں جانے والے
ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اپنے اُن اعمال کے بدلے جو وہ دنیا میں کرتے رہے
ہیں۔
اب چند آیات جن میں خَالِدِينَ فِيهَا پر أَبَدًا کا اضافہ ہےیعنی یہ کہ
اہل جنت ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے:
سورة الطلاق ( 65)
وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي
مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا قَدْ أَحْسَنَ
اللَّهُ لَهُ رِزْقًا {11}
اور جو کوئی اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اللہ اُسے ایسی جنتوں میں
داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ اُن میں ہمیشہ ہمیشہ
رہیں گے۔ اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق رکھا ہے۔
سورة النساء (4)
وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ
تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَّهُمْ
فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَنُدْخِلُهُمْ ظِـلاًّ ظَلِيلاً {57}
اور جن لوگوں نےہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیے اُن کو ہم ایسے
باغوں میں داخل کریں گےجن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گي، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ
رہیں گے اور ان کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھاؤں میں
رکھیں گے۔
سورة البينة ( 98 )
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ
الْبَرِيَّةِ {7} جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن
تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّهُ
عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ {8}
جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، وہ یقیناً بہترین ِخلائق ہیں۔
اُن کی جزا اُن کے رب کے ہاں دائمی قیام کی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہ
رہی ہوں گی،وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ
سے راضی ہوئے۔ یہ کچھ ہے اُس شخص کے لیے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو۔
سورة التغابن ( 64 )
يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ وَمَن
يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ
وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ
فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {9}
جب اجتماع کے دن وہ تم سب کو اکٹھا کرے گا۔ وہ دن ہو گا ایک دوسرے کے
مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا۔ جو اللہ پر ایمان لایا ہے اور نیک عمل
کرتا ہے، اللہ اس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا
جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی
کامیابی ہے۔
اور یہ نعمتیں نَعِيمٌ مُّقِيمٌ یعنی قائم رہنےوالی نعمتیں ہیں:
سورة التوبة ( 9 )
الَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ
بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللّهِ
وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ {20} يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ
مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ {21}
خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ {22}
اللہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس
کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا۔ وہی کامیاب ہیں۔ ان
کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں
ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں۔ یقینًا اللہ کے
پاس خدمات کا صلہ دینے کو بہت کچھ ہے۔
اب غور فرمائیے کہاں چند برس کی دنیوی زندگي اورکہاں ابدی زندگي، کوئي نسبت
ہی نہیں، ابدیت اور ہمیشگي کی چند برس سے اتنی نسبت بھی نہیں جو صدیوں کو
چند لمحوں سے ہو سکتی ہے کیونکہ بہرحال لمحے ہوں یا صدیاں حساب میں تو آتے
ہیں۔کہاں ہمیشہ ہمیشہ کی زندگي اور کہاں انگلیوں پر گنے جا سکنے والےچند
سال؟
آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگي کی حقیقت و حیثیت تو ہمیں یہ آیت بتلاتی
ہے:
سورة الزخرف ( 43)
وَلَوْلَا أَن يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَجَعَلْنَا لِمَن
يَكْفُرُ بِالرَّحْمَنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِّن فَضَّةٍ وَمَعَارِجَ
عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ {33} وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُرًا
عَلَيْهَا يَتَّكِؤُونَ {34} وَزُخْرُفًا وَإِن كُلُّ ذَلِكَ لَمَّا
مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ عِندَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ
{35}
اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے تو ہم
خدائے رحمان سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں، اور ان کی سیڑھیاں جن سے
وہ اپنے بالا خانوں پر چڑھتے ہیں، اور ان کے دروازے، اور ان کے تخت جن پر
وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں ، سب چاندی اور سونے کے بنوا دیتے ۔ یہ تو محض
حیاتِ دنیا کی متاع ہے، اور آخرت تیرے رب کے ہا ں صرف متقین کے لیے ہے۔
اسی بارےمیں ہی کچھ احادیث بھی ملاحظہ ہوں:
سیدنا مستور اخی بنی فہر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم
دنیا آخرت کے سامنے ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی یہ انگلی دریا میں ڈالے
(اور یحییٰ نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا)، پھر دیکھے کہ کتنی تری
دریا میں سے لاتا ہے (تو جتنا پانی انگلی میں لگا رہتا ہے وہ گویا دنیا ہے
اور وہ دریا آخرت ہے۔ یہ نسبت دنیا کو آخرت سے ہے اور چونکہ دنیا فانی ہے
اور آخرت دائمی باقی ہے ، اس واسطے اس سے بھی کم ہے )۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ
ذوالحلیفہ کے میدان میں تھے کہ اچانک ایک مردہ بکری نظر آئي جو(سوج جانے کے
باعث)اپنے پاؤں اٹھائےہوئے تھی۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو
کہ بکری اپنے مالک کی نگاہ میں ذلیل؟ پھر فرمایا پس قسم ہے اس ذات کی جس کے
ہاتھ میں میری جان ہے کہ جتنی یہ بکری اپنے مال کے نزدیک ذلیل ہے اس سے
زیادہ دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذلیل ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک
دنیا ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن رکھتی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی اس
میں سے کسی کافر کو ایک قطرہ (پانی)بھی نہ دیتا۔
کچھ اور احادیث میں یہ ذکر آیا ہے کہ دنیا میں اس طرح رہ گویا تو پردیسی
مسافر ہے۔اور یہ حدیث بھی ہم پڑھ آئے ہیں کہ جنت میں چابک یا کمان بھر جگہ
کا حاصل کر لینا دنیا و مافیہا سے بہترہے۔
سچ یہ ہے کہ جنت کا حاصل کر لینا ہی ایسی حقیقی کامیابی ہے جو ہمیشہ رہنے
والی ہے اور جس کے پانے کے بعد ناکامی کا کوئی تصور نہیں۔
اب اس پر بھی بات ہو جائے کہ کیا اللہ کے لیے کسی چیز کو ہمیشگي اورخلود
بخش دینا کتنا آسان کام ہے؟غور فرمائیے کہ ہر عمر کی چیزیں رب نے ہمارے گرد
وپیش پیدا کر رکھی ہیں۔ کہاں ہم ایسی مخلوق بھی دیکھتے ہیں جس کی عمر چند
گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی اور کہاں اللہ کی عظمت کے نشان سورج ، چاند اور
ستارے بھی ہمیں نظر آتے ہیں کہ جن کی عمر ان کے پیدا کرنےوالے کے سوا کوئی
نہیں جانتا۔ یہیں ہم بھی رہتے ہیں جن کی عمر چند برس پر مشتمل ہوتی ہےاور
یہیں وہ درخت اور پتھر بھی پائے جاتے ہیں جو ہزاروں سال تک جیتے ہیں۔فہم کی
نظر سے دیکھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کسی بھی چیز کی عمر کو گھٹانا
بڑھانا یا اس کی ایک حد مقرر کرنا اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں بلکہ آپ کو
اس پر حیرت ہوگی کہ حقیقتا کسی چیز کوخلود یا ہمیشگی بخش دینا اس کی موت سے
زیادہ آسان ہے۔زمین ، سورج ،چاند، ستاروں اور کہکشاؤں کو حرکت دے کر اللہ
نے وقت اور موت(الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ) کو پیدا کیا اور اتنے بڑے بڑے
نظاموں کو اپنی بے پناہ طاقت اور کامل قدرت سے یوں حرکت میں کر دیا کہ ہم
چند چھوٹے چھوٹےگیندوں کو بھی یوں حرکت نہیں دے سکتے۔اتنے عظیم الشان نظام
میں ہر کرہ حیرت انگیز رفتار سےحرکت کررہا ہے لیکن اس سے کسی بھی قسم کی
کوئی pollution پیدا نہیں ہوتی۔ نہ شور نہ دھواں۔
اسی حرکت کے باعث اس نے وقت اور موت کو پیداکیا ۔اب سائنس یہ کہتی ہے کہ
اگر اسی حرکت کی رفتار کو وہ کچھ زیادہ بڑھا دے یا بالکل روک دے توہمیشگي
اور خلود وجود میں آ سکتے ہیں۔ یہ محض ہمارے اندازے ہیں وگرنہ اللہ ایسا
علم اورایسی قدرت رکھنےوالا ہے اور اس کی شان خلاقی ایسی کامل ہے کہ ایک ہی
چیز کو تخلیق کرنے کے لیے اس کے پاس لامحدود طریقے ہیں۔اسی پر سوچ لیجیے کہ
وہ کتنی مخلوقات کو ماں کے پیٹ سے پیدا کرتا ہےاور کتنی ہی مخلوقات کو کچھ
تبدیلی کے ساتھ انڈے سے پیدا کرتاہے۔زمین پر بسنے والے ہم اربوں لوگ، ہیں
تو سارے انسان پر ہر ایک کواس نے الگ شناخت دی ہے پھر کس طرح نر اور مادہ
کو ایک دوسرے کا مکمل اور بہترین جوڑ بنایا۔
دنیا کی زندگی کا الوہی قانون ہم وقتی تغیر، گزرتا وقت اور پھرموت ہے، لیکن
کچھ دوسرے قوانین کے طابع کر کے اللہ نے جنت اور دوزخ کو پیدا فرمایا ہے
اور ان کو دوام بخشا ہے اور یہی دوام ہمارے حصے میں بھی آنے والا ہے۔کل کی
ایک دائمی زندگی ہماری منتظر ہے جو اگر جنت کی ہوئي تو ایک بہت بڑی نعمت ہے
لیکن اللہ نہ کرے اگر دوزخ کی ہوئي تو پھر اس سے بڑا عذاب کوئی نہیں کیونکہ
وہاں موت نہیں آنی۔اس زندگي کی تیاری کی کوشش کیجیےاور اللہ سے دعا کیجیےکہ
ہمارا یہ دوام جنت کی زندگي کا دوام ہو نہ کہ جہنم کی زندگي کا۔
دوام اور ہمیشگی کی بات میں ایک فرق ہمیں ضرورمعلوم ہونا چاہیے اور وہ یہ
کہ ہم فانی ہیں اور اللہ غیر فانی ہے ہماری ہمیشگي اور جنت و دوزخ کی
ہمیشگي اللہ کے چاہنے سے ہوگي جبکہ اللہ خود ہی اپنی ذات میں زندہ اور قائم
ہے۔ ہم اللہ کے قائم رکھنے سے آج ایک محدود زندگی جیتے ہیں اور کل کو
ہمیشگی کی زندگی جئیں گے لیکن اللہ وہ زندہ اور قائم ہستی ہے جو کسی
دوسرےکے قائم رکھنے سے قائم نہیں بلکہ خود ہی زندہ اور قائم ہے اوررہنےوالا
ہے ۔
•کوئی جنتی کبھی یہ نہ چاہے گا کہ اس کا حال بدل جائے
دنیا میں نعمتیں چونکہ آزمائش کے درجے میں ہیں اس لیے یہاں کسی بھی نعمت سے
تسلی نہیں ہوتی اوردنیا میں تو انسان کونعمتوں سےبھی اکتا ہٹ ہونے لگتی ہے
لیکن جنت نعمتوں کا وہ گھر ہوگا جس میں نعمتوں کی ایسی تکمیل ہو گی کہ جہاں
سے کسی جنتی کا کبھی نکل کر کہیں اورجانے کو جی نہ چاہے گا۔
سورة الكهف ( 18 )
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ
الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا {107} خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا
حِوَلًا {108}
وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ان کی میزبانی کے لیے
فردوس کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اس جگہ سے نکل کر
کہیں جانے کو اُن کا جی نہ چاہے گا۔
اب مضمون کے آخر میں یہ اقرار و اعتراف کہ جنت اور اس کی نعمتوں کےبارے میں
اپنی دانست میں بہت کچھ پڑھ اور جان لینے کےباوجود اب بھی ہم اس بچے کی
مانند ہیں جس کے لیے شادی کی خوشیوں کا مفہوم چمچوں، پلیٹوں ، برقی قمقموں
اور چند کھانوں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ یا جسے ماں کے پیٹ میں باہر کی
دنیا کا کچھ علم نہیں ہوتا کیونکہ جنت اور اس کی نعمتیں ایسی ہیں کہ دنیا
کی کسی زبان میں ایسے الفاظ موجود نہیں جو جنت کا حقیقی نقشہ کھینچ سکیں
۔ہم اب بھی جنت کی نعمتوں کی حقیقت اور تفصیلات کے بارے میں کچھ نہیں
جانتے۔
اس موقع پر بہتر ہے کہ ہم ذیل کی حدیث اور آیت ایک بار پھر پڑھ لیں:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ
تعالیٰ فرماتاہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کےلیےایسی ایسی نعمتیں تیار کر
رکھی ہیں جونہ کسی آنکھ نے دیکھیں ،نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی بشرکے دل
پر ان کا خیال گزرا (پھر آپ نے فرمایا) اگر تم چاہوتو (اس کے استدلال میں)
یہ آیت پڑھ لو:
سورة السجدة (32 )
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاء
بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ {17}
پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اُن کے اعمال کی جزا میں اُن کے لیے
چھپا کر رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔
(صحیح بخاری،جلد دوم ،باب مخلوقات کی ابتدا کا بیان، حدیث479)
خلاصہء کلام یہ کہ دنیا مچھر کا پر ہے اور دھوکے کا گھر ہے۔دنیا امتحان
کاگھر ہے جس کا دورانیہ بڑا ہی مختصر ہے اور اس تھوڑےسے وقت میںرسول اللہﷺ
کی پیروی میںاللہ کی اطاعت وبندگی ہی جنت کے حصول کا صحیح ذریعہ ہے اور یہی
وہ کامیابی ہے جس کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے، اسی نعمت کے
حصول کے لیے مقابلہ کرنے والوں کو مقابلہ کرنا چاہیے اور اسی دوڑ میں ایک
دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جنت وہ حسین سرزمین ہے جہاں ابدی راحت و سکون ہے، جہاں دکھ اور تکلیف نام
کی بھی کوئی چیز نہیں، جہاں نہ بغض و عداوت ہے، نہ جنگ و جدل ہے نہ
خونریزیاں، نہ تھکاوٹ وبیماری ہے نہ بدصورتی وبڑھاپا اورنہ ہی موت۔جہاں صرف
امن اور سلامتی ہے، جہاں گھنے سر سبزباغات ،رنگ برنگے پھولوں ، پھلوں اور
پودوں میں صاف پانی ، دودھ ، شہد اور طرح طرح کے شربتوں کے دریا بہتے ہیں
اور چشمے پھوٹتے ہیں۔جہاں کبھی نہ ختم ہونے والا رزق ہے۔جہاں کے باسی ہیرے
موتیوں، یاقوت و زمرد اور سونے چاندی کے محلا ت میں رہتے ہیں اوراس سرزمین
میں اکٹھے ہونے والے خاندان کبھی جدا نہ ہوں گے۔جہاں دلوں میں صرف محبت ہے،
ہمیشہ کی جوانی، خوبصورتی ، نوعمری اور تندرستی ہے۔جہاں ہر تمنا کا پورا
کیا جانا ہے،جہاں اللہ کی دائمی رضا و خوشنودی ہے اور جہاں اپنے پیدا کرنے
والے کا دیدار اور اس سے ملاقاتیں ہیں۔جہاں کی زندگي وہ زندگي ہے جس کے
پانے والا کبھی کچھ اور نہ چاہے گا۔
جنت تو نعمتوں کا گھر ہے، جہاں رزق کی فراوانی ہے،جہاں رہنے کے لیے باغات
اورمحلات ہیں جن کے نیچے طرح طرح کی نہریں بہتی ہیں، انسان کو اگر
صحت،جوانی، تندرستی، بے فکری اور عافیت میں اپنے خاندان کے ساتھ ہمیشہ رہنے
کو اگر ایک غار بھی مل جائے تو دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت بھی اس کے سامنے
ہیچ ہے۔ اپنے بچپن ہی کا تصور کر دیکھیے جب ہم بے فکرے ہوتے ہیں ، ہم پر
کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی اورنہ ہی خدشات اور سوچیں ، جب ہم carefree ہوتے
ہیں۔ زندگی کے اس حصے کا لطف پھر کبھی نہیں آتا بھلے آپ بعد میں کیسی ہی
نعمتوں میں کیوں نہ ہوں۔اپنی آج کی زندگي پر ہی غور کر لیجیے، اول تو
محرومیاں اور اگرساری نعمتیں ہوں پھر بھی خدشات انسان کو پریشان کیے
رکھتےہیں۔ جنت میں ایسی کوئی فکر اور پریشانی نہ ہوگی اور زندگی کا حقیقی
لطف تو وہی لوگ اٹھائیں گے جو جنت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔
اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل فرمائے جن کو وراثت
میں ایسی حسین جنت اورجینے کو ایسی بہترین زندگی ملے گی۔ آمین ثم آمین
یہی دائمی سلامتی کا وہ گھرہے جس کی طرف ہمارا مہربان رب ہمیں بلا رہا ہے:
سورة يونس ( 10 )
وَاللّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلاَمِ وَيَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى
صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ {25}
(تم اِس ناپائیدار زندگی کے فریب میں مُبتلا ہو رہے ہو) اور اللہ تمہیں دار
السّلام کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ (ہدایت اُس کے اختیار میں ہے) جس کو وہ
چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔
اسی کی طرف دوڑنے ، مسابقہ کرنے اور اسے پا لینے کی ترغیب ہمیں قرآن حکیم
میں دی جا رہی ہے:
سورة آل عمران ( 3 )
وَسَارِعُواْ إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا
السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ {133}
دوڑ کر چلو اُس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس
کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ پرہیزگار لوگوں کے لیے مہیّا کی
گئی ہے ۔
سورة الحديد ( 57 )
سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ
السَّمَاء وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ
ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ
الْعَظِيمِ {21}
دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت
کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے ، جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے
لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، جسے
چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔
آئیے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کا راستہ اختیار کرتے ہیں کہ یہی جنت
کو جانےوالا سیدھا راستہ ہے۔حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے تین بار اللہ سے جنت
طلب کی اور تین مرتبہ دوزخ سے پناہ چاہی اس کے حق میں یہ گواہی قیامت کے
روز جنت اور دوزخ بھی دیں گے۔ آئیے اپنے بے انتہا مہربان رب سے توبہ
کرتےہیں اوردعا مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں معاف فرما دےاورہماری کوتاہیوں اور
گناہوں سے درگزر فرما کر جنت کو ہمارا ابدی ٹھکانا بنا دے:
اللھم انا نسالک الجنۃ الفردوس ونعوذبک من عذاب النار
(اے اللہ ہم تجھ سے جنت الفردوس کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری
پناہ مانگتے ہیں)
اللھم انا نسالک الجنۃ الفردوس ونعوذبک من عذاب النار
(اے اللہ ہم تجھ سے جنت الفردوس کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری
پناہ مانگتے ہیں)
اللھم انا نسالک الجنۃ الفردوس ونعوذبک من عذاب النار
(اے اللہ ہم تجھ سے جنت الفردوس کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری
پناہ مانگتے ہیں) |